ہم جنس پرستی کا قانون‘ امریکہ میں بے راہ روی کا طوفان بدتمیزی

ایک غیر فطری عمل جس کی کوئی سماجی و طبی بنیاد نہیں

مضمون نگار: ڈاکٹر جاوید جمیلؔ
ترجمہ: سلیم الہندیؔ حیدرآباد

بائیڈن انتظامیہ نے ہم جنس پرستی کو قانونی شکل دے کر آج کے جدید، ترقی یافتہ اورنام نہاد مہذب سماج میں اوندھا انقلاب برپا کیا ہے
ایک سچے ڈیموکریٹ کی حیثیت سے امریکی صدربائیڈن نے ہم جنس پرستوں کے درمیان شادی کے ایک بل پر دستخط کرکے ایسی شادیوں کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرکے آخر کار اسے قانونی شکل دے ہی دی اور دیگر ترقی یافتہ، مہذب اور تعلیم یافتہ کہلائے جانے والے ممالک کو اس راہ پر چلنے کا نمونہ پیش کردیا۔ گزشتہ صدی کے دوران امریکہ نے سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں بیشک کئی نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں اوراب اپنی انہیں مثبت کامیابیوں کی بنیاد پروہ عالم انسانیت کےلیےصد فی صد نقصان دہ اور عالمی سماج کےلیےتباہ کن قانون کو بلاجھجک نافذکرکے اپنے آپ کوعالمی قائدظاہر کرنے میں ایک بار پھر پیش پیش ہے۔ عالمی برادری خوب اچھی طرح جانتی ہے کہ کرہ ارض پر تشدد کے فروغ، اجتماعی قتل و غارت گری، نہتے انسانوں پر جان لیوا حملے، دنیا کے پڑوسی ممالک کے درمیان جنگیں مسلط کرنے، پر امن عوام کو اپنی ہی حکومتوں کے خلاف بغاوت کےلیےاکسانے میں امریکہ راست یا بالراست ملوث پایا گیاہے۔ اس کے علاوہ آزادی نسواں کے نام پرخواتین کی عصمت ریزی، زنا بالجبر، اخلاقی انحطاط کی طرف لے جانے والے کام جیسے شراب نوشی اور ڈرگس و منشیات، جنسی آزادی کے فروغ کےلیےفحش فلموں، عریاںتصاویر اور لٹریچر کے ذریعے قحبہ گری اور ہم جنس پرستی تک پہنچانے والے تمام ہتھکنڈے اپنانے میں امریکہ مشہوربھی ہے اور کامیاب بھی۔
یونیورسٹی آف اُٹاہ کے ایک سروے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند دہوں کے درمیان پندرہ سے زیادہ غیر مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے والی شادی شدہ امریکی خواتین کی تعداد 3فیصد سے بڑھ کر سات فیصد ہوگئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جنسی آزادی کے نام پر امریکہ کے مسلسل پروپگنڈے کی وجہ سے وہاں شادی شدہ زوجین ،غیروں کے ساتھ مخلوط جنسی تعلقات کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اس قماش کے جوڑوں کا موجودہ فی صد 7 ہے یعنی زندگی میں ایک خاتون سات مختلف مردوںکے ساتھ اور ایک مرد سات مختلف عورتوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم رکھتا ہے۔ ان کے علاوہ جنسی لذت کے حصول کےلیےدیگر غیر فطری طریقوں پر عمل کرنے والوں کی ایک قابل لحاظ تعداد امریکی سماج میں موجود ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مخالف جنس سے شادی کرنے کا رجحان اور رواج دن بہ دن گھٹتا جارہا ہے۔ آج مخالف جنس کے ساتھ شادی کے بغیر ازدواجی زندگی گذارنے میں حائل تمام رکاوٹوں کو قانوناً دور کردیا گیا ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب شادی کے بغیر ہی ازدواجی زندگی گزارنے کےلیےتمام آسانیاں پیدا کی جاچکی ہیں تو پھر ہم جنس پرستی کو قانوناً جائز قرار دینے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ اس سوال کا جواب بھی بہت سادہ اور آسان ہے وہ یہ کہ حکومت کو اپنی عوام کی اخلاقی، جسمانی اور دیگر تحفظات کی چنداںفکر نہیں ہے اسے ہر قیمت پراپنی معیشت کو پروان چڑھانا اور زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کی فکر ہے۔ اسی نظریے کی بنیاد پر وہ سیاسی طاقتوںکی اجارہ داری اور تجارتی اداروںکے مالی تعاون کے ذریعے عیاشی کے اڈوں کی سرپرستی کرتی ہیںاور جنسی بے راہ روی کو بڑھاوا دیتی ہے۔ تجارتی اور صنعتی ادارے، عوام کے اس بیہودہ شوق کو پروان چڑھانے میںبڑھ چڑھ کر اپنا رول ادا کررہے ہیں۔ چنانچہ یہی ادارے بن بیاہی مائوں کے بطن سے پیدا ہونے والے ناجائز بچوں کوان ہم جنس پرستوں کوسونپ دیتے ہیں،جو دوسروں کے ناجائز بچے گود لینے میں آگے آگے رہتے ہیں کیوں کہ ان کے اپنے بچے پیدا ہونے سے تو رہے! ہم جنس پرستوں کے ساتھ پلنے بڑھنے والے یہ ناجائزبچے بھی فطری طور پرجس ماحول میں پلتے بڑھتے ہیں ، اسی کے زیر اثر، خود بھی باقی زندگی ہم جنسیت والی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس نامعقول غیر فطری جنسی انقلاب کے کیا کیااثرات خود امریکی سماج پر مرتب ہوئے:
امریکہ میں ہر سال نو لاکھ حمل ساقط کیے جاتے ہیں ۰۰Child Trends کے مطابق امریکہ میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والوں ناجائز بچوں کا فیصد 28 سے بڑھ کر 40 ہوگیاہے ۰۰ باپ کے سائے کے بغیرصرف یعنی تنہا ماں کے ساتھ زندگی گذارنے والے بچوں کی تعداد دوکروڑ چالیس لاکھ ہے ۰۰RANN کے مطابق امریکہ میںہر 68 سکنڈ میں ایک عورت کی عصمت ریزی ہوتی ہے یعنی اوسطاً چھ عورتوں میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں جنسی تشدد کاضرور شکار ہوتی ہے ۰۰CDC کے مطابق جنسی بے راہ روای کی وجہ سے تقریباً بیس لاکھ پچاس ہزار افراد پیشاب کی نالی میں سوزش پیدا کرنے والے جراثیم کی وجہ سے عضوئے تناسل میں بیشمار سوراخ پیدا ہوجاتے ہیں جن سے ناقابل برداشت اذیت پہنچتی ہے ۰۰2018 تک امریکہ میں تقریباً سات لاکھ افراد HIV/AIDS کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور اس بیماری سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد13000 سالانہ ہے۔
عالمی سطح پرجنسی بے راہ روی کے خطرناک اثرات:
2021۰۰۰ میں دنیا میں چھ لاکھ پچاس ہزار افراد ایڈس، ایچ آئی وی اور اس سے جڑی ہوئی دیگر بیماری میں مبتلا ہوکر فوت ہوئے۔1980 سے آج تک اس بیماری سے چالیس لاکھ افراد انتہائی کسمپرسی کی حالت میں فوت ہوئے
۰۰۰ایک مستند رپورٹ کے مطابق دنیا میں تقریباًچالیس لاکھ عورتیں جسم فروشی کے پیشے سے وابستہ ہیںجن کی عمریں 13 اور 25 سال کے درمیان ہیں۔ مرد وں کی ایک قلیل تعداد بھی اس پیشے سے وابستہ ہے۔ انہیں مرد و خواتین کی صد فی صد تعداد ایڈس اور ایچ آئی وی جیسے امراض خبیثہ سے بری طرح متاثر ہے
۰۰۰ سب سے زیادہ جان لیوا امراض خبیثہ،ہم جنس پرستوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف اذیت ناک بیماریوں میںجن میں منکی پاکس بھی شامل ہے جن میں مبتلا ہو کریہ طبقہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمر جاتا ہے۔ ان کی اوسط عمریںبھی عام انسانوں کی اوسط عمر سے 20-30 سال کم ہوتی ہے۔
۰۰۰ایک عالمی طبی رپورٹ کے مطابق 2020؁ء میں رحم کے کینسر میں مبتلا چھ لاکھ خواتین فوت ہوئیں جن میں ساڑھے تین لاکھ وہ خواتین تھیں جن کا تعلق جسم فروشی کے پیشے سے تھا۔
۰۰۰اسقاط حمل کو خواتین کا حق ماننے اور اسے قانوناً جائز قرار دیے جانے کے بعد اب تک سات تا دس کروڑ حمل ساقط کروائے جاچکے ہیں یعنی دنیا میں آنے والے دس کروڑبچوں کا قتل رحم مادر ہی میں کردیا گیا ۔
۰۰۰دنیا میں ہر سال تقریباًدو لاکھ پچاس ہزار عورتوں کے ساتھ زنا بالجبر یعنی ان کی مرضی کے خلاف زبردستی عصمت ریزی کی جاتی ہے۔
۰۰۰دنیا میں دو لاکھ بچے مادر رحم میںروزانہ قتل کیے جاتے ہیں۔
۰۰۰دنیا میں 1650روزانہ افراد ایڈس جیسی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں ۔
۰۰۰دنیا میںروزانہ 1000خواتین رحم کے کینسر کی وجہ سے فوت ہوجاتی ہیں ۔
۰۰۰ جسم فروشی ، فحاشی اور زنا کاری کا کاروبارساری دنیا میں عروج پر ہے،جنسی بے راہ روی کی تجارتی سرگرمیوں کو بڑھاوادینے ا ور سہولتیں بہم پہنچانے کےلیےانہیںمقامی سرکاری تعاون بھی حاصل ہے ۔
۰۰۰دنیا میں آج چار کروڑ سے زیادہ خواتین اس منحوس پیشے سے وابستہ ہیںجس سے انہیں سالانہ تقریباً دس کروڑ ڈالر آمدنی ہوتی ہے اور ان کے صد فی صد گاہک مرد ہی ہوا کرتے ہیں ۔
2018۰۰۰ تک کنڈوم بنانے والی صنعت کو تقریباً ساڑھے پانچ بلین ڈالر سے زیادہ نفع حاصل ہوا ۔
جدول میں درج تفصیلات جاننے کے بعد ہمیں یہ احساس ہوا کہ 2000 بلین ڈالرس سے زیادہ رقم فحاشی، شراب خوری، منشیات اور جوئے پر خرچ کی گئی۔ اس کے بہت قلیل مدت بعد ، ان سے پیداء ہونے والے طبی ، سماجی،خاندانی اور ازدواجی مسائل ابھر کر سامنے آتے ہیں جن میں سب سے زیادہ سنگین مسئلہ اسقاط حمل کا ہوتا ہے جس کی وجہ سے زوجین کے درمیان شدید اختلافات کے نتیجے میں علیحدگی کے بعدعورت کے کندھوں پر اولاد کی پرورش کے ساتھ ساتھ زندگی کے روزمرہ اخراجات کی تکمیل کےلیےملازمت کرنے کی دہری ذمہ داری آجاتی ہے اور عورت پر نفسیاتی اور مالی مسائل کا بوجھ، ایک تنہا ماں پر المیہ ثابت ہوا ہے۔
اپنے اختیار کی آزادی کے نام پر صحت کے بنیادی اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ، ایک بین الاقوامی سازش ہے:
اختیار کی آزادی کے نام پر انسان کی اپنی فطری کمزریوں کا استحصال کرکے دولت کمانے کےلیےاسے بھی ایک تجارت بنا دیتی ہیں۔ چاہے اس کے بدترین اثرات مصیبت بن کر انسانوں کی صحت کو خطرناک حد تک بربادہی کیوں نہ کردیں۔ لیکن افسوس! آج حقوق انسانی کی علمبردار کسی بھی تنظیم میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ انسانی حقوق کے استحصال کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ ان کی اپنی ترجیحات کی بنیادچار نکات پر ٹکی ہوئی ہیں جن میں سب سے پہلے بگڑے ہوئے حالات کو معمول پر لاناہے، اس کے بعدمناسب قانون سازی، انتظامی امور کی تفصیلات اور سب سے اہم نکتہ تجارتی نقطہ نظر کی اساس پر مسئلے کا حل شامل ہے۔ اس کے بعدحکومتیں یہ ثابت کرنے کی کوشش میں لگ جاتی ہیں کہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے وہی طریقے جوزمانہ قدیم میں بھی کارگر ثابت ہوئے ہیں انہیں اصولوں پر موجودہ حکومتیں اور مختلف سماجی تنظیمیں عمل کررہی ہیں۔ اپنے اس نظریے کے حق میں تائید کے حصول کےلیے وہ سماجی خدمات سے وابستہ تنظیموں کی تائید سے خودانہیں سے مظاہرے منظم کرواتی ہیں اور اپنےلیےفائدہ مند مطالبہ،بہت جلد قانون کی شکل میں آجاتا ہے اور قانون بن جانے کے بعد اس کی تائید میں بے تحاشہ پبلسٹی بھی کی جاتی ہے تاکہ اس سے تجارتی فوائد کے راستے خود بخود کھلنے لگ جائیں۔ چنانچہ سیاست دانوں، تاجروں اور صنعت کاروں کو اربوں ڈالر دولت حاصل ہونے لگتی ہے۔ ویسے بھی فطری طور پرجنسی بے راہ روی اور فحاشی کے نتیجے میں امراض خبیشہ تو پیدا ہوں گے ہی، اموات بھی ہوں گی اور جرائم بھی جنم لیں گے۔ ان تمام مسائل کو حل کرنے کےلیےطب، صحت اور قانونی چارہ جوئی کرنے والی سرکاری و غیر سرکاری ایجنسیاں آگے آتی ہیں جو ان مسائل کو اپنے نقطئہ نظر سے تجارتی اساس پر حل کرنے کےلیےمنصوبہ بندی کرتی ہیں۔ کروڑوں ڈالر کی طبی مصنوعات، آلات، ٹانک، دوائیں اور انجکشن فروخت کیے جاتے ہیں۔ یاد رکھیے آزادی نسواں کا نعرہ بھی آج بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ مردوں کے زیرسرپرستی صنعتی اور تجارتی اداروں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ دنیا میں مرد، عورت کا استحصال کرکے ان سے صرف جنسی لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور پھر ان کی جسمانی خوبصورتی کو بحال کرنے کا جھانسہ دے کر خواتین کےلیےاپنے ہی بنائے ہوئے بیوٹی پروڈکٹس بیچ کر دولت کمانے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔
جدیدیت کے نام پر آج دنیا میں سماج اورانسانی اقدار کو مختلف درجات میں تقسیم کرنا تاجروں، صنعت کاروں اور سیاست دانوں کی ایک منظم سازش ہے جو انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی مصنوعات فروخت کرنے کےلیےکامیاب حربہ ثابت ہوا ہے۔ یہ چالاک تاجر طبقات پہلے انسانی مسائل کی حد سے زیادہ تشہیر کرتے ہیں اور پھر ان مسائل کو دور کرنے کا حل بھی خود ہی پیش کرتے ہیں۔ اس کےلیےانہوں نے عوام کے ذہنوں سے خدا کے وجود کے عقیدے کر ختم کرنا شروع کیا اور دہریت کی طرف لے جانے کی جستجو کررہے ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ انسان کے دماغ سے جب خدا کے وجود کا عقیدہ ہی ختم ہوجائے گا تو لوگ گناہ کا ارتکاب بلاجھجک کرنے لگیں گے۔ یہ طبقہ یہی چاہتا ہے کہ لوگ دہرئیے بن جائیں اور ان کے ذہن نشین ہوجائے کہ یہ کائنات فطری طور پر خود ہی اپنے آپ چل رہی ہے اوران کے اندراپنے اچھے یا برے کاموں کا کسی کے آگے جواب دہی کا کوئی احساس باقی نہ رہے۔اپنے اس نظریہ کو تقویت دینے کےلیےانہوں نے ماہر طبیعات کی خدمات حاصل کیں اورعوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھانے کےلیے ان سائنسدانوں کی زبان سے یہ کہلوایا گیا کہ یہ دنیا واقعتا خدا کے بغیر خود بخود وجود میں آگئی ہے۔ دراصل وہ سمجھ دار عوام کویہ باور کروانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں جیسے کوئی کہے کہ ایک بڑی شاندار عمارت بغیر انجنئیر،بغیرآرکٹیکٹ ، بغیر مزدور اور بغیر آلات کے اپنے آپ تیار ہوگئی ہو، جیسے کوئی بہت بڑی فیکٹری بغیر کسی کی نگرانی کے پیدا وار دے رہی ہو۔ علم طبیعات، علم ریاضی، علم کیمیا، علم حیاتیات اورعلم کائنات بغیر کسی خالق کے خود بخود وجود میں آگئے ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے منظم طریقے پر خاندانی نظام زندگی کو منتشر کرنے کی مہم کا آغاز کیا کیوں کہ عیاشی، عریانیت اور منشیات وغیرہ کے بلا جھجک استعمال کی راہ میں یہی سب سے بڑی انسانی فطری رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔اسقاط حمل کے ذریعے لاکھوں انسانوں کے رحم مادر میں قتل کیے جانے کے خلاف حقوق انسانی کا سب سے بڑا موضوع بنانے کے بجائے وہ حق اسقاط حمل کو جائز قرار دینے پر اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہی ہیںتاکہ ان کی اپنی عیاشیوں کے بعدغیر مطلوب اولاد کی نسل کشی کی راہ ، آسان ہوجائے۔
حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب عام زندگی میں بے گناہ انسانوں کے سفاک قاتلوں کوعدالت موت کی سزا سناتی ہے تو عدالت کے اس فیصلے کے خلاف حقوق انسانی کی علمبردار تمام تنظیمیں، اس قاتل کی جان بچانے کےلیےاحتجاج کرتی ہیں کہ جس طرح کسی بھی عام انسان کو دنیا میں زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اسی طرح اس قاتل کو بھی زندہ رہنے کا حق ہے۔ وہ لوگ عمداً یہ بات بھول جاتے ہیں کہ مادر رحم میں پلنے والے انسان کا قتل اب کیوں کر جائز ہوگیا۔
وہ اس وجہ سے کہ اسقاط حمل میںاستعمال ہونے والے طبی آلات، ادویات، انجکشن، پیرا میڈیکل اسٹاف، مہنگے داموں پرسب کچھ یہی تاجربناتے بھی ہیں اور خود ہی سربراہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ عمر رسیدہ بوڑھے مریضوں کو، جن کے زندہ رہنے کی کوئی امید نہیں ہوتی، انہیں زبردستی وینٹیلیٹرس پر چند دن زندہ رکھا جاتا ہے اور یہی تاجرطبقہ بے تحاشہ دولت بٹور رہا ہے۔ نوجوانوں کومنشیات کھلے عام فروخت کرنے کا انتظام کیا جاتا ہے اورجب یہی نوجوان منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں تو ان کے سدھارنے کےلیےپہلے کونسلنگ سنٹرس قائم کیے جاتے ہیں اور مرض بڑھ جانے کی صورت میں بازآباد کاری کے مراکز قائم کئے جاتے ہیں اور ان کے سرپرستوں سے من مانی فیس وصول کی جاتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ جب نوجوان فحش کاموں، منشیات ، آوارہ گردی اور دیگر بدترین عادتوں سے محفوظ رہیں گے توایسی مہلک بیماریاں پیدا ہی نہیں ہوں گی۔ جب یہ بیماریاں ہی نہیں ہوں گی تو طبی آلات، دوائیاں، انجکشن اور بڑے بڑے دواخانوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
آزادی نسواں کا نعرہ ، عیاش مردوں کےلیےبلا شبہ خواتین کے جنسی استحصال کا ذریعہ ثابت ہوا ہے:
ایک ہی چھت کے نیچے قائم، خاندانی نظام حیات، جان لیوا جنسی بیماریوں، اسقاط حمل ، زنا بالجبراور دیگر جرائم سے محفوظ رہنے کا کامیاب ذریعہ ثابت ہوا ہے۔ آزادی نسواں کا نعرہ، عیاش مردوں کےلیےبلا شبہ خواتین کے جنسی استحصال کا ذریعہ ہی ہے۔ یہی نعرہ طبی صنعت سے وابستہ تاجروں کی آمدنی بڑھانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ آزادی نسواں کے نام پر جنسی آزادی کی خواہش مند خواتین زندگی بھر نقصان ہی اٹھاتی ہیں جو ناجائز جنسی تعلقات کے نتیجے میں پہلے حاملہ ہوجاتی ہیں۔۔۔اجنبی عیاش مرد، یکایک اس پورے منظر سے غائب ہوجاتا ہے اور عورت زندگی بھرکےلیےتنہا رہ جاتی ہے۔۔۔مانع حمل گولیوں کے استعمال کے باوجود اگرعورت حاملہ ہوجائے تواسقاط حمل کے مرحلے سے گزرنے کے دوران شدید جسمانی تکلیف میںعورت ہی مبتلا ہوتی ہیں۔۔۔تمام تدابیراختیار کرنے کے باوجود جب ناجائز اولاد پیداہوتی ہے تو گھر، بچوںکی پرورش، کمانے کےلیےملازمت کی ذمہ داریوں میں زندگی بھرالجھ کررہ جاتی ہے۔ اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے جب ان مجبور خواتین کو دولت کے لالچی، خود غرض تاجروںکی چالاکیاں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ ویسے اختیار کی آزادی بذات خودایک بہترین اصول ہے لیکن اس کی مثال ایسی ہے جیسے عوام کے ہاتھوں میں ایک تیز چاقو تھما دیا گیاہوجس سے مفید کام بھی لیے جاسکتے ہیں یا کسی کا ناحق قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔
مضمون نگارنے قرآنی احکام کی روشنی میں صحت کے چند عمدہ اصولوں پر مبنی زندگی گزارنے کا ایک مختصر لیکن عملی نقشہ تیار کیا ہے جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ انسانوں کواورخاندان کے دیگر افراد کو ان کی صحت کی حفاظت کی ترغیب کس طرح دی جائے تاکہ دنیا میں صحت مند سماج اور بہتر نظام حیات قائم کیا جاسکے۔ اسی کتاب میں مضمون نگار نے علم طبی سائنس کے اصولوں کی روشنی میں، انسانی صحت کی نگہداشت کےلیےنہایت آسان ہدایات بھی ترتیب دی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ آج بیشمار مانع حمل طریقے اور دوائیں خواتین کے زیراستعمال ہیں جن میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی دوائوں میں ’مانع حمل گولیاں‘مشہور ہیںجس کی وجہ سے آج کسی بھی خاتون کو کسی بھی مرد دوستوں یا اجنبی مرد وں کے ساتھ ہمبستری کرنے کی آزادی مل گئی ہے اوراب ان کے حاملہ ہونے کابھی کوئی خدشہ بھی نہیں رہا ۔انہوں نے لکھا کہ اس کے باوجود کوئی بھی طریقہ ہر جگہ سو فی صد کارگر نہیں ہوتا اور تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجودکبھی کبھی کوئی خاتون حاملہ ہو سکتی ہے۔ اس مقام پر عورت کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے جائز یا ناجائز حمل کو قانوناً ساقط کرواسکتی ہے۔چنانچہ اس قانون کے نفاذ کے بعد حمل ساقط کرنے والی کلینکس کی تعداد کافی حد تک بڑھ گئی۔ یاد رکھیے! کسی بھی قسم کے حمل کو ساقط کرنے کے عام طریقوں کاماہر امراض نسواں، کبھی مشورہ نہیں دیتے کیوں کہ اس طرح حمل ساقط کرنے کی صورت میںعورت کوہونے والی جسمانی تکالیف اور اس کے بعد کے اثرات، ایک عورت کےلیےناقابل برداشت ہوتے ہیں۔ نتیجتاً عورت کے اندر پوشیدہ ماں کی ممتا بھی کسی ماہر امراض نسواں سرجن کے ذریعے، اپنے بطن میں پلنے والے بچے کو قتل کرنے کی اجازت دینے کےلیےبے بس ہوجاتی ہے۔ کیوں کہ ایک عورت، فطری طور پر یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے کا باپ کوئی گمنام عیاش مرد ہو اور سماج میں اپنی ہی اولاد پر ناجائزہونے کی مہر لگ جائے۔یہیں پر عورت کی انا کا امتحان ہوتا ہے۔ اس کے باجودانسانی حقوق کے نام نہاد خود غرض ادارے،، دولت کمانے کی دوڑ میںان مجبور و بے بس عورتوں کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان بے بس خواتین کی انا ، آخر کارجسمانی اور دنیوی پریشانوں کے آگے جھک جاتی ہیںجو انہیںسماج میں جھیلنی پڑتی ہیں۔ چنانچہ ایک تنہا ماں کوسماج میں باقاعدہ ، معقول اور عزت کے ساتھ آزاد انہ زندگی گذارنے کے حق کے حصول کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ آزادی نسواں کی وکالت کرنے والی خود غرض تنظیمیں، اس وقت مکمل خاموشی اختیار کرلیتی ہیںجب ایک بن بیاہی ماں کے کندھوں پر اپنے ناجائز بچوں کی پرورش کے علاوہ گھر کے اخراجات پورے کرنے کےلیےبحیثیت ماں اور باپ، دونوں کی دوہری ذمہ داری ڈال کر ہرحال میں نبھانے پر اسے مجبور کردیا جاتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بچوں کے سر پرباپ کا سایہ اور اس کی پدری شفقت ، ایک مہذب انسانی سماج کی بنیادی ضرورت ہے لیکن آزادی نسواں کے نام پر خواتین کا استحصال کرنے والی تنظیموں کو ان بدنصیب انسانوں کی بے بسی اور پریشانیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ انہیں ہر حال میں دولت چاہئے چاہے وہ کسی بھی طریقے سے ان تک پہنچے۔
انسانوں کے ان حقیقی مسائل کو حل کرنے کےلیےتمام عالمی مذاہب کو متحد ہوناچاہیے!
محض دولت کمانے کی خاطر، خواتین کا استحصال کرنے والے، دنیا کے تمام غیر انسانی، غیر فطری اور غیر قانونی کاموں کو عالمیانے کی جستجو میںکامیاب ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ کہ ان بے غیرت طاقتوں کا مقابلہ، عالمی مذاہب کے باشعور، سمجھدار رہنما ہی کرسکتے ہیںجن میں اسلام، عیسائیت، بدھ مت اور ہندو مت قابل ذکر ہیں۔ایک دوسرے سے یکسر مختلف عقائد اوردیگربنیادی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، کم از کم انسانوں کی فلاح کی خاطراگر یہ سب متحد ہوجائیں تو ہمیں یقین ہے کہ ان خود غرض تنظیموں کی نحوست اور ان کے ہولناک اور تباہ کن منصوبوں سے نہ صرف خواتین بلکہ سارے انسانوں کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان مذہبی تنظیموں میں آج بھی وہ طاقت ہے جو فحاشی کو بڑھاوا دینے والی طاقتوں کو بآسانی شکست دے سکتی ہیں۔ انسانوں کی عالمی صحت کی برقراری، ان کی ترجیحات میں کسی بھی صورت میں صرف معیشت ہی کو مقدم نہ رکھا جائے۔ WHO وہ موثر ادارہ ہے جو اس کام کےلیےنہایت موزوں اجتماعی طاقت ثابت ہوسکتا ہے اور ان غیر سماجی تنظیموں کی چالاکیوں سے انسانی زندگیوں کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان سے محفوظ رکھنے میں بہترین مددگار بھی۔
قصہ مختصریہ کہ جب مرد اور عورت کے درمیان قانونی اور سماجی اصولوں میں ازدواجی تعلقات، مہلک بیماریوں اور تمام سماجی مسائل سے پاک ہونے کی ضمانت موجود ہے تو شادی شدہ زوجین،کیوں ناجائز جنسی تعلقات قائم کرکے نت نئے امراض خبیثہ کو اپنے جسم میں پنپنے کی دعوت دینے کی حماقت کرتے ہیں اورکیوں زندگی بھر نت نئی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ایک نہایت تکلیف دہ زندگی گزارنے پر خودکو مجبور کرتے ہیں۔ہم جنس پرستی کی سرے سے کوئی اخلاقی، سماجی یا طبی بنیاد نہیں ہے۔ یہ ایک غیر فطری اور بیہودہ عمل ہے ۔چنانچہ مرد کا عضوئے تناسل،ہرگز اس غیر فطری عمل کے قابل نہیں ہوتا۔ ہم جنس پرستی کے مسلسل عمل کے نتائج نہایت بھیانک ہوتے ہیں اور بہت جلد منظر عام پربھی آجاتے ہیں جن میں ایچ آئی وی، ایڈس، ہیپا ٹائیٹس بی، سفیلیس اور منکی پاکس شامل ہیں۔ ہم جنس پرستوں کی آپس میں شادی کا کوئی مطلب نہیں لیکن بد قسمتی سے قانونی اور مذہبی اصولوں پر کی جانے والی شادیوں کی راہ میں رکاوٹ ضرور ثابت ہورہے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ نے ہم جنس پرستی کو قانونی طور پر جائز قرار دے کر اسے آج کے تکنیکی طور پر جدید اورسائنٹفک طور پر ترقی یافتہ مہذب سماج میں اوندھا انقلاب پیدا کیا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
***

 

***

 جدیدیت کے نام پر آج دنیا میں سماج اورانسانی اقدار کو مختلف درجات میں تقسیم کرنا تاجروں، صنعت کاروں اور سیاست دانوں کی ایک منظم سازش ہے جو انسانی فطرت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی مصنوعات فروخت کرنے کےلیےکامیاب حربہ ثابت ہوا ہے۔ یہ چالاک تاجر طبقات پہلے انسانی مسائل کی حد سے زیادہ تشہیر کرتے ہیں اور پھر ان مسائل کو دور کرنے کا حل بھی خود ہی پیش کرتے ہیں۔ اس کےلیےانہوں نے عوام کے ذہنوں سے خدا کے وجود کے عقیدے کر ختم کرنا شروع کیا اور دہریت کی طرف لے جانے کی جستجو کررہے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 01 جنوری تا 07 جنوری 2023