’’ہمارے ذریعے غور کرنے اور جائزہ لینے سے پہلے دہلی فسادات سے متعلق چارج شیٹ میڈیا تک کیسے پہنچی؟‘‘، دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے اس کے لیے ذمہ دار شخص کا نام پوچھا
نئی دہلی، مارچ 6: دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز دارالحکومت میں گذشتہ سال 20 فروری کو ہونے والے فسادات سے متعلق ایک کیس میں میڈیا کو ضمنی چارج شیٹ لیک کرنے پر پولیس کو کھری کھوٹی سنائی۔ عدالت نے کہا کہ اس سے پہلے کہ عدالت اس کا بغور جائزہ لیتی اور جرم ثاب ہوتا، چارج شیٹ لیک کر دی گئی۔
جسٹس مکتا گپتا نے دہلی پولیس کمشنر سے میڈیا کو معلومات لیک کرنے کے لیے ذمہ دار شخص کی شناخت ظاہر کرنے والا ایک حلفی بیان داخل کرنے کو کہا ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق جج نے کہا ’’میڈیا میں آنے کے بعد یہ (چارج شیٹ لیک کرنا) ثابت شدہ الزام ہے۔ اب یہ محض ایک الزام نہیں رہا۔ آپ کو معلوم کرنا ہوگا کہ یہ کام کس نے کیا ہے۔‘‘
تاہم دہلی پولیس کے وکیل امت مہاجن نے اپنے دعوے کی تکرار کی کہ ضمنی چارج شیٹ کے مندرجات کو پولیس افسران نے لیک نہیں کیا، لہذا انھیں اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔
لیکن ہائی کورٹ نے کہا کہ چارج شیٹ پولیس افسر کے ہاتھ میں ایک جائیداد تھی۔ اور اگر آپ کے افسر نے اسے لیک کیا ہے تو یہ طاقت کا غلط استعمال ہے، اگر منظوری کے لیے یہ کسی اور کے سپرد کیا گیا تھا تو یہ مجرمانہ اعتماد کی خلاف ورزی ہے اور اگر میڈیا نے اسے حاصل کیا ہے تو یہ چوری ہے، لہذا کسی بھی صورت میں، جرم تو ہوا ہے۔‘‘
دہلی ہائی کورٹ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طالب علم آصف اقبال تنہا کی درخواست کی سماعت کررہی تھی، جنھوں نے پولیس کے ذریعہ مبینہ مواد کو لیک کرنے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ معاملہ 25 مارچ کو اگلی سماعت کے لیے درج کیا گیا ہے۔