کریپٹو کرنسی ’’ڈیجیٹل جن‘‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتی ہے ؟

علماء کو شرعی نقطہ نظر واضح کرنے کی ضرورت۔ ڈیجیٹل کرنسی اور ملک کے معاشی ماہرین کے درمیان سردجنگ !

زعیم الدین احمد ، حیدر آباد

کریپٹو کرنسی یا کرپٹو بائنری ڈیٹا کا ایک مجموعہ ہے جو تبادلے کے طور پر یعنی بطور ایکسچینج کام کرتا ہے۔ خانگی طور پر بنائے جانے والے سکوں کی ملکیت کے ریکارڈ کو ایک بہی کھاتہ (ledger)میں محفوظ کیا جاتا ہے، جو ایک کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس ہوتا ہے اور لین دین کے ریکارڈ کو محفوظ کرنے کے لیے اضافی سکوں کو کنٹرول کرنے اور ان کی ملکیت اور اس کی منتقلی کو محفوظ بنانے کے لیے ایک مضبوط اور بہت ہی خفیہ کوڈنگ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی کو کریپٹوگرافی کہا جاتا ہے۔ کریپٹو کرنسیز بنیادی طور پر (fiat currency) ہوتی ہے جسے نوٹوں میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اسے کسی شے میں بدلا جا سکتا ہے۔ کریپٹو کرنسی بنیادی طور پر قدر (value) کا ایک نظام ہے۔ جب سرمایہ کار کریپٹو کرنسی خریدتے ہیں تو وہ اس توقع سے خریدتے ہیں کہ مستقبل میں ان کی قدر بڑھے گی، جس طرح اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کار سیکورٹیز خریدتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ کمپنی ترقی کرے گی اور حصص کی قیمتیں بڑھیں گی، لیکن اسٹاک کی قیمتیں بڑھنے کا انحصار کمپنی کے مستقبل کے نقدی بہاؤ کے رعایتی تخمینوں پر ہوتا ہے جب کہ کریپٹو کرنسی میں اس طرح کا کوئی نظام نہیں ہوتا کیوں کہ اس کی کوئی کمپنی یا صنعتی ادارہ موجود نہیں ہوتا ہے، بلکہ اس کا انحصار سرمایہ کاروں کی خرید ی سے جڑا ہوتا ہے یعنی کریپٹو کرنسی کی قدریں سرمایہ کاروں کے اثاثہ خریدنے کے امکان یا کریپٹو کرنسی کے بلاک چین کی افادیت پر منحصر ہوتی ہیں۔ کریپٹو کرنسی بلاک چین ٹیکنالوجی پر چلتی ہے۔
لیکن بلاک چین دراصل ہے کیا چیز؟ اس وقت یہ اصطلاح اتنی عام ہو گئی ہے کہ اس کے معنی ہی دھندلے پڑ چکے ہیں۔ بنیادی طور بلاک چین سرمایہ کاری کے لین دین کا ایک ڈیجیٹل بہی کھاتہ (ledger) ہوتا ہے جو کمپیوٹر سسٹمز کے نیٹ ورک میں تقسیم ہوتا ہے، کوئی ایک کمپیوٹر سسٹم اس کو کنٹرول نہیں کرتا ہے بلکہ بہت سے کمپیوٹروں کا ایک غیر مرکوز نیٹ ورک اس بلاک چین کو چلاتا اور اس میں ہونے والے لین دین کی تصدیق کرتا ہے۔ بلاک چین ٹکنالوجی کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ شفاف نظام ہے، اعتماد کو بڑھاتا ہے اور نیٹ ورک پر شیئر کیے جانے والے ڈیٹا کی حفاظت بڑی عمدگی سے کرتا ہے وہیں اس کے مخالفوں کا کہنا ہے کہ بلاک چین بوجھل، غیر موثر، مہنگا اور بہت زیادہ توانائی استعمال کرنے والا نظام ہے۔
جان لینسکی کے مطابق کرپٹو کرنسی نظام میں چھ شرائط ہوتی ہیں:
اس نظام کو کسی مرکزی ادارے (اتھارٹی) کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نظام کرپٹو کرنسی کی اکائیوں اور ان کی ملکیت کا جائزہ اور اس پر نظر رکھتا ہے۔ یہ نظام اس بات کا تعین کرتا ہے کہ آیا نئی کریپٹو کرنسی کی اکائیاں بنائی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ اگر نئی کریپٹو کرنسی کی اکائیاں بنائی جاسکتی ہیں تو یہ نظام کرنسی کی ان نئی اکائیوں کی ملکیت اور ان کی اصل حالت کا تعین کرنے کا طریقہ بتاتا ہے۔ کریپٹو کرنسی کی اکائیوں کی ملکیت کو صرف کرپٹوگرافی سے ہی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اس نظام کے ذریعہ لین دین کے کام کو انجام دیا جاتا ہے جس کے ذریعہ کرپٹو گرافک اکائیوں کی ملکیت کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ لین دین صرف اسی نظام کے تحت کیا جاسکتا ہے اور یہی ان اکائیوں کی موجودہ ملکیت کو ثابت کرتا ہے۔ اگر ایک کرپٹوگرافک اکائی کی ملکیت کو تبدیل کرنے کے لیے دو مختلف درخواستیں ایک ہی وقت میں ایک ساتھ داخل کی جائیں تو اس صورت میں یہ نظام ان میں سے کسی ایک کو ہی قبول کرے گا۔
کریپٹو کرنسی کوئی طبعی شکل میں موجود نہیں ہوتی جیسے کاغذی نوٹ، اور نہ ہی یہ کسی حکومتی ادارے یا کسی ریاستی ادارے کے ذریعہ جاری کی جاتی ہے جیسے روپے کے نوٹ گورنر کی دستخط کے ساتھ جاری ہوتے ہیں بلکہ یہ کسی مرکزی بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) کے برخلاف کام کرتی ہے۔ اس کا کوئی مرکزی کنٹرول سسٹم نہیں ہوتا۔ ۱۹۸۳ میں ایک امریکی کرپٹو گرافر ڈیوڈ چام نے اس کرپٹو گرافک الیکٹرانک رقم کے تصور کو عملی جامہ پہنایا تھا جسے "ای کیاش” کا نام دیا گیا تھا۔ بعد میں اس نے مزید تبدیلیاں کیں اور ۱۹۹۵ میں "ڈیجی کیاش” کے نام سے پیش کیا جو کہ کریپٹو گرافک الیکٹرانک ادائیگیوں کی ایک ابتدائی شکل تھی جس کے ذریعہ بینک سے نوٹ نکالے اور وصول کنندہ کو بھیجے جاتے تھے ساتھ ہی وصول کنندہ کو سافٹ ویر کے ذریعہ مخصوص انکرپٹڈ کیز بھیجی جاتی تھیں۔ اس ڈیجیٹل کرنسی کو بینک، حکومت یا کوئی اور پتہ نہیں لگا سکتا تھا۔ کہا جاتا ہے ۲۰۰۹ میں پہلی غیر مرکوز کریپٹو کرنسی "بٹ کوائن” کو ساتوشی ناکاموٹو نے بنایا تھا ۔
بی ٹی سی یعنی بٹ کوائن سب سے بڑی اور سب سے مشہور کریپٹو کرنسی ہے لیکن یہ پہلی غیر مرکوز ڈیجیٹل کرنسی نہیں تھی۔ اس سے قبل ای کیاش اور ڈیجی کیاش کے نام سے کرپٹو کرنسی موجود تھی۔ کمپیوٹر سائنس داں نک زابو نے "بٹ گولڈ” کو تخلیق کیا، وای ڈے نے "بی منی” کی تخلیق کی۔ ان سب کوششوں کے باوجود وہ عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہے لیکن یقینی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان افراد نے ڈیجیٹل کرنسی کی بنیاد ڈالی تھی۔
کریپٹو سرمایہ کار ڈیجیٹل اثاثہ اسی وقت خریدتے ہیں جب کہ انہیں بلاک چین کی طاقت اور افادیت پر یقین ہو، تمام کریپٹو کرنسیاں بلاک چین پر ہی چلتی ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کریپٹو سرمایہ کار بلاک چین کی لچک کو دیکھ کر ہی اس کی طرف مائل ہوتے ہیں اور شرط لگاتے ہیں (چاہے وہ اس سے واقف ہوں یا نہ ہوں)۔ کریپٹو کرنسی کے لین دین کو مستقل طور پر بلاک چین پر ریکارڈ کیا جاتا ہے، گروپوں کے لین دین کو ’چین‘ میں’بلاکس‘ کی شکل میں شامل کیا جاتا ہے، جو لین دین کی صداقت کی توثیق کرتا ہے اور نیٹ ورک کو چلاتا رہتا ہے، لین دین کے تمام بیچز مشترکہ بہی کھاتوں میں جمع ہوتے ہیں جسے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔ بڑے بڑے بلاک چین جیسے بٹ کوائن اور ایتھریم (ای ٹی یچ) پر ہونے والے لین دین کو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
کریپٹو کرنسیوں میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے روایتی بینک کھاتوں کی طرح اپنے اثاثے نہیں ہوتے اس کے بجائے ان کے پاس ڈیجیٹل پتے (نمبرات) ہوتے ہیں، یہ پتے ذاتی اور عوامی کلیدوں (کیز) کے ساتھ آتے ہیں جو نمبروں اور حروف پر مشتمل ہوتے ہیں جس کے ذریعہ ہی کریپٹو کرنسی کے صارفین کو فنڈز بھیجے اور وصول کیے جاتے ہیں۔ ذاتی کلیدیں (کیز) کریپٹو کرنسی کو قابل استعمال بناتی ہیں اور کسی دوسرے کو بھیجنے کی اجازت دیتی ہیں۔ جب کہ عوامی کلیدیں (کیز) ہر ایک کے لیے دستیاب رہتی ہیں اور صارف کو کسی دوسرے سے بھیجی گئی کریپٹو کرنسی کو موصول کرنے کے قابل بناتی ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی اس پر بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی جارہی ہے خاص طور پر نوجوان طبقہ اس میں آگے ہے۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک نے الگ الگ موقف اپنایا ہے۔ ایلسلواڈور دنیا کا وہ پہلا ملک بن چکا ہے جس نے کریپٹو کرنسی کو قانونی طور پر منظور کرلیا ہے، جون ۲۰۲۱ کو اس کی قانون ساز اسمبلی نے کریپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے بل پیش کیا جسے باسٹھ ووٹوں کی اکثریت سے منظور کرلیا گیا۔ اگست ۲۰۲۱ میں کیوبا نے بھی بٹ کوائن کو قانونی طور پر قبول کرلیا۔ وہیں چین جو کریپٹو کرنسی کا واحد سب سے بڑا بازار ہے اس نے ستمبر ۲۰۲۱ میں کریپٹو کرنسی کے خلاف مکمل پابندی عائد کرتے ہوئے تمام کریپٹو کرنسی کے لین دین کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ جمہوریہ ترکی کے مرکزی بینک نے تیس اپریل ۲۰۲۱ سے کریپٹو کرنسی کے لین دین اور کریپٹو اثاثوں کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔
ہندوستانی حکومت بھی تمام ذاتی کریپٹو کرنسیوں پر پابندی لگانا چاہتی ہے مگر کچھ مستثنیات کے ساتھ تاکہ مرکزی بینک کے زیرنگرانی ڈیجیٹل کرنسی کی راہ ہموار ہوسکے۔ ڈیجیٹل کرنسی اور ملک کے معاشی ماہرین کے درمیان سردجنگ جاری ہے۔ ۲۰۱۸ میں جب مودی نے نوٹ بندی کی تھی اس وقت ملک میں ڈیجیٹل کرنسی کے لین دین میں زبردست اضافہ دیکھا گیا تھا اور ساتھ ہی ڈیجیٹل کرنسی سے دھوکہ دینے کے واقعات میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے سارے کریپٹو لین دین پر پابندی لگا دی تھی لیکن سپریم کورٹ نے مارچ ۲۰۲۰ میں اس پر سے پابندی ہٹا دی جیسے ہی سپریم کورٹ نے پابندی کو کالعدم قرار دیا اس کے چلن میں تیزی آئی ہے۔ چینالیسس کی تحقیق کے مطابق پچھلے ۱۲ مہینوں کے دوران اس میں چھ سو فیصد کا اضافہ درج کیا گیا۔ انڈسٹری باڈی بلاک چین اینڈ کریپٹو ایسٹس کونسل (بی اے سی سی) کے مطابق ملک میں جو ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے اس میں تقریباً دو کروڑ لوگوں نے کریپٹو کرنسی پر سرمایہ کاری کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ کریپٹو کرنسی ہمارے نوجوانوں کو خراب کر سکتی ہے جبکہ مرکزی بینک نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا اور خبردار کیا ہے کہ یہ ’’مائکرو اکنامک اور مالیاتی استحکام پر سنگین خطرات پیدا کرسکتی ہے‘‘۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھورام راجن نے خبردار کیا ہے کہ ڈیجیٹل امریکی ڈالر کے استعمال سے غریب ممالک پر بُرا اثر پڑسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ڈیجیٹل ڈالر غریب ممالک میں بہت سے لوگوں کو ضروری مالی خدمات فراہم کر سکتا ہے جہاں بنیادی مالیاتی ڈھانچے کی کمی ہے وہیں اس کے غیر ارادی اور بُرے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ آسانی سے دستیاب ڈیجیٹل ڈالر مقامی کرنسیوں کو ختم کر دے گا جس کے نتیجہ میں اس ملک کے مالیاتی نظام کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں حکومت ’کریپٹو کرنسی اینڈ ریگولیشن آف آفیشل ڈیجیٹل کرنسی بل‘ لانے جارہی ہے۔ یہ بل ملک میں جاری تمام ذاتی کریپٹو کرنسیوں پر بھی پابندی لگانے کی بات کرتا ہے، ساتھ ہی ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے جاری ہونے والے ڈیجیٹل کرنسی کو قانونی حیثیت دی جاسکے گی۔ اس وقت دنیا میں سیکڑوں کریپٹو کرنسی مختلف ناموں سے چل رہی ہیں آخر اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟ کیا اس کا خریدنا قانونی طور پر جائز ہے؟ خاص کر مسلمانوں کو اس کی قانونی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس کی شرعی حیثیت سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔ امید ہے کہ علماء اس جانب توجہ دیتے ہوئے واضح ہدایت جاری کریں گے اور اس کی صاف و واضح حیثیت کو لوگوں کے سامنے لائیں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021