ہریدوار نفرت انگیز تقریر کیس: درخواست گزاروں نے حکام سے درخواست کی کہ علی گڑھ میں اس طرح کے پروگرام کی اجازت نہ دی جائے
نئی دہلی، جنوری 15: ہریدوار نفرت انگیز تقریر کیس میں مجرمانہ کارروائی کی درخواست کرنے والوں نے اتر پردیش کے علی گڑھ کی انتظامیہ کو خط لکھا ہے، جس میں حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے ضلع میں منعقد ہونے والے اسی طرح کے پروگرام کے خلاف احتیاطی کارروائی کریں۔
17 دسمبر سے 19 دسمبر کے درمیان ہریدوار میں منعقد ہونے والی ’’دھرم سنسد‘‘ کے نام سے ایک مذہبی کانفرنس میں، ہندوتوا شدت پسندوں نے ہندوؤں سے مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کے لیے ہتھیار خریدنے کی ترغیب دی تھی۔
اس معاملے پر ایک عرضی کی سماعت میں سپریم کورٹ نے بدھ کو اتراکھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کرکے 10 دن کے اندر جواب طلب کیا تھا۔
عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے عدالت کو بتایا تھا کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی اس طرح کے مزید مذہبی اجتماعات منعقد کیے جا رہے ہیں، جن میں 23 جنوری کو اتر پردیش کے علی گڑھ میں ایک اجتماع بھی شامل ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے تب درخواست گزاروں کو اجازت دی تھی کہ وہ ایسے واقعات کے بارے میں مقامی حکام سے رابطہ کریں۔
علی گڑھ کے ضلع مجسٹریٹ کو لکھے ایک خط میں درخواست گزاروں نے اہلکار سے اپیل کی ہے کہ وہ ایسی تقریبات کی اجازت نہ دیں جہاں نفرت انگیز تقاریر کی جا سکیں۔
پی ٹی آئی کے مطابق خط میں کہا گیا ہے ’’ہجومی تشدد کے کسی بھی ممکنہ واقعے کو روکنے کے لیے احتیاطی اقدامات کرنے کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر آتی ہے…لہٰذا یہ ذمہ داری آپ کے کندھوں پر آتی ہے کہ آپ احتیاطی کارروائی کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس نوعیت کی کوئی تقریر نہ کی جائے۔‘‘
پچھلے مہینے سادھوؤں کے ایک گروپ نے اعلان کیا تھا کہ علی گڑھ میں 22 اور 23 جنوری کو ’’دھرم سنسد‘‘ کا انعقاد کیا جائے گا اور 12 فروری کو ہریانہ کے کروکشیتر میں ایک اور جلسہ منعقد کیا جائے گا۔
دریں اثنا جمعرات کو ہریدوار میں نفرت انگیز تقاریر کے کیس میں ایک ملزم یتی نرسنگھا نند سرسوتی نے نامہ نگاروں سے کہا کہ ’’دھرم سنسد‘‘ کے پروگرام منعقد ہوتے رہیں گے۔
نرسنگھا نند نے کہا ’’دھرم سنسد اب اور بھی بڑے پیمانے پر منعقد کی جائے گی۔ اگر میں مر بھی گیا تو ہر ماہ کسی نہ کسی ریاست میں دھرم سنسد منعقد ہوگی اور ہم اس وقت رکیں گے جب اسلام کے جہاد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا۔‘‘
یہ تبصرے ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب اتراکھنڈ پولیس نے جمعرات کو ہریدوار نفرت انگیز تقریر کیس میں ایک ملزم جیتندر تیاگی کو گرفتار کیا۔ تیاگی نے حال ہی میں ہندو مذہب اختیار کیا تھا اور اپنا نام وسیم رضوی سے تبدیل کر لیا تھا۔ وہ اس کیس میں گرفتار ہونے والا پہلا شخص ہے۔
اس معاملے میں اب تک دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
پہلی ایف آئی آر 23 دسمبر کو درج کی گئی تھی اور اس میں صرف تیاگی کا نام لیا گیا تھا۔ 26 دسمبر کو اتراکھنڈ پولیس نے ایف آئی آر میں اناپورنا، جسے پوجا شکون پانڈے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اور دھرم داس کے نام شامل کیے تھے۔ اناپورنا ہندوتوا تنظیم ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری ہیں۔ یکم جنوری کو ایف آئی آر میں یتی نرسنگھا نند اور ساگر سندھو کے نام شامل کیے گئے تھے۔
2 جنوری کو دوسری ایف آئی آر 10 افراد کے خلاف درج کی گئی، جس میں یتی نرسنگھا نند اور سندھو شامل ہیں۔ ایف آئی آر میں نامزد دیگر ملزمان میں ایونٹ کے منتظمین دھرم داس، پرمانند، اناپورنا، آنند سوروپ، اشونی اپادھیائے، سریش چاہوان اور پربودھانند گری اور تیاگی شامل ہیں۔