ڈاکٹرساجدعباسی، حیدرآباد
آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے قبل ہی ابلیس کو پیدا کر دیا گیا تھا جو آدم علیہ السلام سے روزِ اول سے حسد کرنے لگا اور اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ اسی وقت سے حق وباطل کی کشمکش شروع ہو چکی تھی۔ اسی ابلیس نے آدم علیہ السلام کو جنت سے نکلوانے کے لیے دجل و فریب سے کام لیا اور جنت سے نکلوا کر اپنی ازلی و ابدی دشمنی کو ثابت کر دیا۔ آدم علیہ السلام کے ایک بیٹے نے دوسرے بیٹے کو قتل کر کے فرشتوں کے اس اندیشے کو سچ ثابت کر دیا کہ ذرّیتِ آدم زمین میں خونریزی اور فساد برپا کرے گی۔
اسی حق و باطل کی کشمکش کے درمیان انسانوں کا امتحان مقصود ہے۔ کوئی مظلوم اسی وقت ہو گا جب کوئی ظالم ہو۔ ظالم کی سفاکی کو اور مظلوم کے صبر کو بروئے کار لانے کا امکان اسی وقت ہو گا جب دونوں کے لیے آزادی فکر وعمل ہو۔ یہی راز فرشتوں کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا اس طرح سے اظہار فرمایا کہ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ فرمایا ”میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے “۔(سورۃ البقرۃ ۳۰)
اللہ تعالیٰ کبھی حق کے علمبرداروں کو فتح و کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے تو کبھی باطل کے علمبردار اللہ کی سرزمین میں فساد برپا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو باطل پرستوں کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔ جب ان کی سرکشی پر فوراً پکڑ نہیں ہوتی تو وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے اوپر کوئی قوتِ قاہرہ نہیں ہے اور وہ خود کو خدائی کے مقام پر محسوس کرتے ہوئے طاغوت بن کر انسانوں سے اپنی غلامی و بندگی کرواتے ہیں۔
حق وباطل کی کشمکش ہمہ وقت جاری ہے۔جس وقت بھی حق پرست یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ میدانِ رزمِ حق و باطل میں وہ تنہا ہیں اور میدان میں باطل موجود نہیں ہے اسی وقت باطل کو پنپنے کا موقع ملتا ہے اور باطل نوخیز کونپل سے تناور درخت بن جاتا ہے۔ جب بھی باطل کو موقع ملا اس نے حق کو نیست و نابود کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔اسی لیے فرمایا گیا کہ اہل ایمان ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور ان کا مشن امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔جیسے ہی اس فریضہ سے غفلت اختیار کی گئی باطل کو طاقتور بننے کا موقع مل جاتا ہے۔ اسی بات کو سورہ التوبہ کی آیت ۷۱ میں فرمایا گیا ’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہوکر رہے گی۔ یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔‘‘ (سور ۃ التوبہ ۷۱۔)
اس آیت میں مومنوں کی دو صفات قابلِ غور ہیں : ایک ہے آپسی رفاقت و اتحاد اور دوسرا امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے چمٹے رہنا۔ اس آیت سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ اتحادِ امت صرف اسی ایک مقصد سے حاصل ہوتا ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ امت کا مقصدِ وجود ہے یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر۔ اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے سارے عالم میں اللہ تعالیٰ نے امّتِ مسلمہ کو خیرِ امّت بنا کر برپا کیا ہے ’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘(سورۃ آل عمران ۱۱۰۔)
اس فریضہ سے دانستہ ونادانستہ غفلت و لاپروائی ہوتی ہے تو وہ صورتحال رونما ہوتی ہے جس کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ۔اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا‘‘۔( سورہ الانفال۷۳)
اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ شر کے علمبرداروں کی متحدہ جمعیت کے مقابلے میں خیر کے علمبردار اگر میدان میں متحد ہو کر ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہوئے نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو روکنے (امربالمعروف و نہی عن المنکر) کا کام نہ کریں گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا۔
سورہ الانفال کی آیت نمبر ۷۳ آج کے حالات میں ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ ملک بھر میں اس وقت فتنہ و فساد کی صورتحال عرصہ دراز سے جاری ہے۔ تقریباً سو سال سے آر ایس ایس مسلمانوں سے اور اسلام سے دشمنی کو مقصدِ وحید بنا کر مسلمانوں کی شناخت ختم کر دینے کے منصوبہ پر کام کر رہی ہے اور منصوبہ کے ہر مرحلے کو وہ کامیابی کے ساتھ عبور کرتی آرہی ہے۔ آج بظاہر وہ اپنے منصوبے کے آخری مرحلہ میں نظر آرہے ہیں۔ ان کا دیرینہ خواب ہے کہ بھارت میں مسلمان، مسلمان کی حیثیت سے باقی نہ رہیں۔ چند ہولناک فسادات کے ذریعے مسلمانوں کے اندر اتنا خوف پیدا کر دیا جائے کہ مسلمانوں کی اکثریت جو کمزور ایمان کی حامل ہے ہندو مذہب اختیار کر لے۔مذہب کی اس جبراً تبدیلی کے بعد ان کو نچلی ذات والوں میں شامل کر کے منوسمرتی کا ذات پات کا نظام قائم کیا جائے جس میں صرف برہمنوں کو برتری حاصل رہے۔ جب بھارت میں مسلمان آئے تو اسلام کا حیات افزا طرز زندگی جس میں مساوات کا سبق تھا یہاں کے صدیوں کے ظالمانہ نظام میں پسے ہوئے لوگوں کے لیے ایک نئی زندگی کا پیغام لے کر آیا۔ جس کے نتیجہ میں بہت بڑی تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے۔ بڑی ذاتوں کے سلیم الفطرت لوگوں نے بھی اسلام کو قبول کیا جنہوں نے اسلام کی سچائی کو عقل کی کسوٹی پر پرکھا اور دل سے تسلیم کیا۔ بھارت میں اسلام کے پھیلنے میں چند عظیم اولیا کرام کی کاوش بھی رہی لیکن یہاں ۸۰۰ سال حکومت کرنے کے باوجود مسلم حکمرانوں کی طرف سے کوئی منظم دعوتی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی حکومت کی طاقت سے چھوت چھات کی ناانصافی کو ختم کیا گیا۔ جب مسلمانوں کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوئی اور انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو تنگ نظر کٹر ہندو جو ذات پات کے نظام کو دوبارہ بھارت میں رائج کرنا چاہتے تھے ان کو یہ امید پیدا ہوئی کہ مسلمانوں کے زوال کے بعد وہ اپنے نظام کو دوبارہ لائیں جو مسلمانوں کے آنے سے قبل بھارت میں قائم تھا۔ ان کے نزدیک ہندو راشٹر سے مراد یہی ہے کہ وہ اپنے پرانے ذات پات کے نظام کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کا وجود ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس لیے کہ اسلام میں انسانی مساوات ہمیشہ سے ان اچھوت طبقات کو اپنی طرف راغب کرتی رہے گی۔ اس لیے انہوں نے دو قومی نظریے کو آگے بڑھایا جس کی بنیاد یہ تھی کہ بھارت میں صرف اور صرف ہندو ہوں اور یہاں اسلام سے ان کے ذات پات کے نظام کو کبھی خطرہ نہ رہے۔ جب قوم پرست ہندوؤں کے نظریات کو مسلم لیگ کی قیادت نے بھانپ لیا تو انہوں نے بھی مسلمانوں کے لیے الگ ملک کا مطالبہ کر دیا ۔ادھر کانگریس کے لیڈر بھی تقسیم کے اس نظریہ کو سیاسی نظر سے اس طرح سے دیکھ رہے تھے کہ بھارت میں مسلمانوں کی آبادی اگر تین حصوں میں تقسیم ہو جائے تو کبھی مسلمان متحدہ قومی سیاست میں ایک قابل لحاظ قوت بن کر نہیں رہ سکیں گے۔اور انگریز بھی یہی چاہتے تھے کہ یہ ملک تقسیم ہو کر کمزور ہو جائے۔ اس طرح تقسیم کے حق میں چار فریق موجود تھے اس وجہ سے یہ تقسیم عمل میں آئی اور جب ملک تقسیم ہوا تو مسلمانوں کی ایک تہائی تعداد بھارت میں باقی رہ گئی جس کو اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ تقسیم کے بعد بھارت ایک سیکولر ملک بنے گا۔ یہی چیز ہندوتوا کی ذہنیت رکھنے والوں کو بارگراں محسوس ہوئی۔ اس لیے کہ تقسیمِ ملک کے بعد بھی ان کا اصل مسئلہ حل نہیں ہوا۔ ایک تہائی مسلمان جب ہندوؤں کے ساتھ مل کر رہیں گے تو اسلام کی دعوت توحید اور وحدتِ انسانیت کی تعلیمِ مساوات ان کے منوسمرتی نظام کے قیام میں بہت بڑی رکاوٹ ہو گی۔ چنانچہ ہندوتوا لیڈر سیکولر کانگریسی نیتاؤں کے خلاف ہو گئے اور ان کا شدت اختلاف اس وقت انتہا کو پہنچا جب سیکولرزم کو دستورِ ہند کی بنیاد قرار دیا گیا۔ چنانچہ یہ اختلاف گاندھی جی کے قتل کا موجب بنا۔ ان ہندوتوا لیڈروں کی سازش تھی کہ اس قتل کا الزام بھی کسی مسلمان پر ڈالا جائے تاکہ ملک گیر فسادات کا سلسلہ شروع کیا جا سکے لیکن یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔اس کے بعد ہندوتوا لیڈروں نے یہ اسکیم بنائی کہ تقسیم ہند کا سارا الزام مسلمانوں پر ڈال کر ان سے بار بار یہ کہا جائے کہ تم لوگ ملک کے غدّار ہو اور تم لوگ تقسیمِ ملک کے ذمہ دار ہو لہٰذا تم کو بھارت میں رہنے کا حق نہیں ہے۔
یہ ہیں تقسیمِ ہند کے اسباب جن کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آزادی کے بعد سے مسلمان تقسیمِ ہند کا الزام اپنے سر پر لاد کر بڑی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جبکہ یہ تقسیم اکثریتی فرقہ کے سیاستدانوں کی تنگ نظری کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی۔ متعدد بار پولیس کی مدد سے فسادات کرواکے ان کی معیشت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔ جب معیشت کمزور ہوئی تو تعلیمی ترقی بھی رک گئی۔ مسلمان جب بہت حد تک کمزور اور شکست خورہ ہو چکے ہیں تو اب ان کا ارادہ ہے کہ منوسمرتی کے نظام کو لا کر اچھوتوں اور مسلمانوں کو ملا کر ان کو کمتر درجے کا شہری بنا کر رکھا جائے جن کے کوئی شہری حقوق نہ ہوں نہ وہ ووٹ دے سکیں اور نہ ہی ان کے کوئی حقوقِ مالکانہ ہوں۔
اب ہم یہ دیکھیں کہ سورہ انفال کی آیت ۷۳ جو پہلے بیان کی گئی ہے اس میں ان حالات کے تناظر میں کیا پیغام ہے۔ ہر زمانے میں منکرِ حق جو حق کو جان کر بھی کفر کے علمبردار بنے ہوئے تھے انہوں نے اپنی زندگی کا یہ مقصد و مشن سوچ سمجھ کر طے کر لیا تھا کہ زمین میں اپنی بڑائی قائم کریں گے۔ جب وہ اپنی بڑائی قائم کرنا چاہیں گے تو وہ ایسے دین کے سخت دشمن بن جائیں گے جو ان کی بڑائی کو ماننے والا نہ ہو اوراس کو چیلنج کرنے والا ہو۔ وہ اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے جھوٹ، نفرت، فریب، ظلم و زیادتی اور ہر بری چیز کو اختیار کرتے ہیں۔ جس طرح کفر و شرک کے علمبردار اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے اپنے سارے اختلافات کے باوجود اہلِ حق کی دشمنی کو اپنے اتحاد کی بنیاد بنا کر میدان میں تمام وسائل کو استعمال کرتے ہوئے سرگرم عمل ہیں اور اگر اسی دوران میدان میں حق کے علمبردار موجود نہ ہوں تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور ان کے مقصد کی تکمیل اس طرح ہوتی ہے کہ فتنہ کی شکل پیدا ہو گی جس سے فسادِ کبیر برپا ہو گا۔ فتنہ سے مراد ایسی کیفیت ہے کہ جس میں اسلام پر عمل کرنا اور اسلام کے پیغام کو ہم وطنوں کے سامنے پیش کرنا اور اسلام کو اختیار کرنا دشوار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کیفیت کو آج کی اصطلاح میں فاشزم کہا جاتا ہے۔ آج ملک میں حالات اسی رخ پر جا رہے ہیں۔ فسادِ کبیر سے مراد ہے مفسدوں کے ہاتھوں میں اقتدار کا آجانا جس سے امن و انصاف کا قتل ہو، کسی کی جان مال عزت و آبر و محفوظ نہ رہے۔ فسادِ کبیر سے مراد قتلِ عام (genocide) کی صورت بھی ہو سکتی ہے۔
آج ہم محسوس کر رہے ہیں کہ ہم اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جس کو قرآن فتنہ و فسادِ کبیر کے دور سے تعبیر کرتا ہے اور اس کے ذمہ دار دراصل خود مسلمان ہیں جو اپنے مقدس مشن کو پورا کرنے کے لیے اس طرح متحد نہیں ہوتے جس طرح باطل کے علمبردار فتنہ و فساد کے لیے متحد ہو کر سالہا سال جدوجہد کرتے ہیں۔ نہایت افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ہم نے بحیثیتِ امّت دعوت الی اللہ امربالمعروف و عن المنکر کی ذمہ داری کو فراموش کر دیا تو ہم مسلکوں میں بٹ گئے جب کہ ہمارے پاس اتحاد کی مضبوط بنیادیں موجود تھیں جب کہ ہمارے دشمنوں کے پاس کوئی قدرِ مشترک نہیں تھی لیکن انہوں نے ذات پات کے شدید اختلافات کے باوجود صرف ایک مسلم دشمنی کے نکتہ پر آپس میں اتحاد کو قائم کیا اور سو سال سے مسلسل جد و جہد کرتے آرہے ہیں۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ چند صالح افراد کی انفرادی کوششوں کے نتیجہ میں بھارت میں اسلام بغیر کسی جبر وا کراہ کے ۳۵ فیصد ی آبادی تک پھیل چکا تھا۔ اگر بڑے پیمانے پر دعوتی کام ہوا ہوتا تو آج یہ اکثریت و اقلیت کی بحث ہی نہ ہوتی۔ منظم طریقے پر صدیوں سے وہ کام نہیں ہوا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے امّتِ مسلمہ کو دنیا میں انسانوں کے لیے نکالا تھا۔ اس کی سزا یہ ملی کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے اقتدار کو چھین کر انگریزوں کو منتقل کیا یہاں تک کہ جب انگریز ملک پر قابض ہوئے تو ہم نے ان کو عدو تو سمجھا مگر مدعو سمجھ کر ان کے سامنے اسلام کو پیش نہیں کیا جب کہ رسول اللہ ﷺ نے تو اپنے عدو کو بھی مدعو سمجھا تھا۔ آزادی کے بعد ۷۰ سال تک ہم کو موقع ملا کہ سیکولر پارٹیوں کے دورِ حکومت میں ہم پر زور طریقے سے اور آزادی کے ساتھ اپنے ہم وطنوں میں اسلام کی دعوت کو تیزی کے ساتھ پیش کرتے لیکن اس موقع کو بھی ہم نے گنوا دیا۔
دنیا میں جو امن کے ماہ و سال ملتے ہیں ان کا حق ادا کرنا پڑتا ہے۔ جب امن کا حق ادا نہیں کیا جاتا تو وہ خوف میں بدل جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس امن کا حق کس طرح ادا ہو سکتا ہے۔ اس حق کے ادا ہونے کی صورت ایک ہی ہے اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔ امن کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کی عبادت کریں اور بندگانِ خدا کے سامنے رب العالمین کا تعارف پیش کریں اور اس کی طرف بلائیں۔
دنیا میں اللہ تعالیٰ نے دونوں طرح کی طاقتوں کو باہم کشمکش کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ ایک ہے خیر کی طاقت اور دوسری ہے شر کی طاقت۔ کھیل کے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ٹیم جب سست پڑ جاتی ہے اور شکست کو دل سے تسلیم کرنے لگتی ہے تو شکست ہی اس کا مقدّر بن جاتی ہے۔اس دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک ہی نظریہ کو ہمیشہ دوام حاصل ہو۔ باطل کو عارضی استقرار اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب حق کی طاقتیں اپنی طاقت کا شعور کھو دیتی ہیں۔ جب تک اہلِ حق کے اندر خود کے حق پر ہونے اور اس حق کو دنیا میں عام کرنے کا شعور باقی رہتا ہے تو باطل اپنا بوریا بستر سمیٹ کر رفو چکر ہوجاتا ہے۔(وَقُلْ جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (سورۃ الاسراء۸۱) باطل اسی وقت میدان میں پھلتا پھولتا ہے جب خیر کے علمبردار میدان سے غائب رہتے ہیں اور خیر کی طاقت اسی وقت کمزور پڑتی ہے جبکہ اہل خیر افراد اپنے منصب کو بھلا دیں اور دنیا میں مال و اسباب کو حاصل کرنا ہی ان کا مقصد بن جائے۔ مسلمان ہی وہ گروہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت سے سرفراز کر کے اس کو سارے انسانوں کے لیے نکالا گیا ہے (اخرجت للناس) تاکہ وہ دنیا میں نیکی پھیلائیں اور برائیوں کا سدِّ باب کریں۔ اس حکم کے ساتھ امّتِ خیر کو وہ ھدی للناس (قرآن) بھی دیا گیا جس کی بدولت دنیا میں ایک عظیم الشان صالح انقلاب رونما ہوا تھا۔ اور ساتھ میں ان کو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں وہ ماڈل بھی دیا گیا جس کی اتباع کر کے حق کے علمبردار صالح انقلاب کی راہیں ہموار کر سکتے ہیں۔
ہماری ساری نظریں ہمارے جانی دشمنوں پر تو ہیں مگر اس ذاتِ ذوالجلال پر نہیں ہے جس کی مٹھی میں مفسدین و شیاطین کی گردنیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو حالات یکسر بدل سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے لیکن اللہ کی مدد مشروط ہے اس شرط کے ساتھ کہ ہم اللہ کے دین کے داعی بن کر اٹھیں اور بندگانِ وطن کے سامنے حق کی روشنی کو پیش کریں جس سے ان کی دنیاوی زندگی کی تاریکیاں بھی دور ہوں گی اور آخرت میں میں ابدی سزا سے بھی چھٹکارا ملے گا۔
***
***
باطل کو عارضی استقرار اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب حق کی طاقتیں اپنی طاقت کا شعور کھو دیتی ہیں۔ جب تک اہلِ حق کے اندر خود کے حق پر ہونے اور اس حق کو دنیا میں عام کرنے کا شعور باقی رہتا ہے تو باطل اپنا بوریا بستر سمیٹ کر رفو چکر ہو جاتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022