حماس کی مالی اعانت کون کررہا ہے؟
امریکہ کو حماس کی فنڈنگ جاننےسے پہلے اسرائیل کو روکنے کی کوشش کرنا چاہئے
اسد مرزا
’’7؍ اکتوبر کو حماس کے حملوں کے بعد سے اسرائیلی اور مغربی ممالک کو غزہ میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی بابت کوئی تشویش لاحق نظر نہیں آتی۔ جبکہ ان کی سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ حماس کو اتنی لمبی جنگ کے لیے مالی اعانت کہاں سے ہو رہی ہے۔‘‘
گزشتہ مہینے پیرس میں انٹرپول، انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف)، اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کے نمائندوں کا ایک اہم اجلاس ہوا، جس میں امریکہ کی فائنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے اہم رکن بھی موجود تھے۔ایجنڈے میں سرِ فہرست مشرقِ وسطیٰ یا یوں کہیں کہ حماس تھا۔میٹنگ میں شامل سبھی مندوبین کو فکر کھائے جارہی تھی کہ حماس کو کہاں سے اتنی رقم حاصل ہورہی ہے کہ وہ 125 دن گزرنے کے باوجود بھی اسرائیلی فوج سے نبرد آزما ہے۔ان کو شک تھا کہ شاید کچھ عرب ممالک یا پھر ایران مبینہ طور پر حماس کی مالی اعانت کررہے ہیں۔جبکہ معاملہ اس کے بالکل برخلاف ہے اور کوئی بھی شخص یا ادارہ یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ حماس 125 دن سے جاری اس جنگ کے اخراجات اٹھانے کے لیے کہاں سے پیسہ حاصل کررہا ہے۔کچھ ایسے اشارے ملے ہیں کہ شاید حماس کرپٹو کرنسی یا کراؤڈ فنڈنگ کا ذریعہ استعمال کررہا ہے۔
عمومی طور پر، موجودہ مالی احتیاطی تدابیر نے منی لانڈرنگ سے نمٹنے کو مشکل تر بنا دیا ہے۔ ایک تو، کرپٹو کرنسیوں کے عروج نے کام کو پیچیدہ بنا دیا ہے، جس سے لاکھوں گمنام لین دین کی سہولت پاتے ہیں۔ بٹ کوائن نیٹ ورک پر رجسٹرڈ ایکسچینجز کی تعداد اب تقریباً نصف ملین تک پہنچ گئی ہے۔
کراؤڈ فنڈنگ کا بڑھتا ہوا استعمال بھی اتنا ہی پریشان کن ہے۔ ریورس منی لانڈرنگ کی ایک قسم میں، نیک نیت افراد اور تنظیموں کی طرف سے عطیہ کردہ ’’صاف‘‘ نقدی جو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بامقصد مقاصد کی اعانت کرنے کے لیے کر رہے ہیں، وہ دراصل بندوقوں اور دیگرفوجی اسلحہ کی خرید کے لیے تیزی سے استعمال میں لایا جارہا ہے۔ایف اے ٹی ایف کی تحقیق، جس پر پیرس اجلاس میں روشنی ڈالی گئی، بتاتی ہے کہ اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس)، القاعدہ اور دیگر دہشت گرد گروپس تیزی سے کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارمز کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔
دریں اثنا، انٹلیجنس ایجنسیاں اور دیگر معاشی تنظیمیں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں، کہ صاف نقدی غلط ہاتھوں میں نہ پہنچ سکے۔FATF ان حکومتوں کو لگاتار انتباہ کررہا ہے،ان کا نام لے کر اور انہیں شرمندہ کرکے جو دہشت گردوں اور مجرم انڈرورلڈ کی طرف جانے والی سیاہ رقم کو روکنے کے لیے ناکافی اقدامات کرتے ہیں۔فی الوقت، صرف تین حکومتوں کو ان کے نقطۂ نظر کے مطابق جو کہ اس سمت میں سست روی سے کام کررہی ہیں، انہیں ’’بلیک لسٹ‘‘ میں ڈال دیا گیا ہے، اور وہ ایران، شمالی کوریا اور میانمار ہیں۔ تاہم، کچھ 23 ممالک گرے لسٹ میں ہیں – یعنی وہ بڑھتی ہوئی نگرانی کے تابع ہیں – اور دیگر ممالک کی حیثیت کا جائزہ لیا جانے والا ہے۔
بھارت اور ایف اے ٹی ایف
مثال کے طور پر، بھارت کو ایف اے ٹی ایف کی جانب سے خاص طور پر تشویش ہونی چاہیے۔ اس کی کارکردگی کے بارے میں ایف اے ٹی ایف کی تحقیقات جو کہ گزشتہ ہفتے شروع ہوئیں،وہ ہندوستان میں بلیک منی کا سراغ اور اس کا دیگر غیرقانونی کارروائی میں استعمال ایف اے ٹی ایف کی جانب سے ہورہا ہے۔ آخری مرتبہ 2010 میں ملک کا معائنہ کیا گیا تھا، جس میں اینٹی منی لانڈرنگ اقدامات میں متعدد کوتاہیاں سامنے آئی تھیں۔
تب سے، اس مسئلے پر حکومت کی گرفت ڈرامائی طور پر کمزور ہوتی دکھائی دے رہی ہے، ماہرین غیر قانونی تجارت کے ذریعے منی لانڈرنگ کو ہندوستان کی جی ڈی پی کے 5 فیصد تک مانتے ہیں۔ملک کی جی ڈی پی نے حال ہی میں 3.75 ٹریلین ڈالر کے نشانے کوپار کرلیا ہے، تو اس نظریے سے یہ پانچ فیصد بہت بڑی رقم میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ہندوستان کی انٹلیجنس ایجنسیوں اور پولیس کو غیر قانونی فنڈز اور منشیات، دہشت گردی اور جرائم کے گروہوں کے درمیان تعلق کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور فیڈریشن آف انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ایک حالیہ رپورٹ نے اسے ’’ملکی معیشت اور سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ‘‘ قرار دیا ہے، جس میں وزیر اعظم نریندر مودی پر زور دیا گیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کے خلاف ’’جنگی پیمانے پر تدابیر اپنائیں۔
حماس کی فنڈنگ
اس طرح، FATF کی حتمی تشخیص، جو صرف چند مہینوں میں ہونے والی ہے، اس بات کا ایک دلچسپ امتحان ہو گا کہ وہ کتنی سختی اپنانے کے لیے تیار ہے۔تاہم، حماس کے سلسلے میں، یہ سب کچھ حاشیہ پر ہونے والی کارروائیوں کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔ اسرائیلی اور امریکی انٹلیجنس ایجنسیوں کا خیال ہے کہ ایران مبینہ طور پر حماس کو سالانہ 100 ملین ڈالر فراہم کراتا ہے۔ ساتھ ہی کچھ ایسے امریکی سیاست داں بھی ہیں جن میں سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی شامل ہیں، جن کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی کچھ تنظیمیں بھی حماس کی فنڈنگ کا ذریعہ بن چکی ہیں۔اور اسی بنیاد پر وہ اقوامِ متحدہ کو امریکہ کی جانب سے سالانہ مدد دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس تناظر میں مغربی ممالک UNRWA کے کام کرنے پر بھی تشویش کا شکار ہیں۔ بنیادی طور پر امریکہ اور یوروپی یونین کی طرف سے مالی اعانت اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (UNRWA) کو غزہ میں فلسطینیوں کی مؤثر طریقے سے مدد فراہم کرنے کے لیے مہیا کی جاتی ہے، جومقبوضہ علاقے میں تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، کلیدی بنیادی ڈھانچہ اور خوراک کی فراہمی سمیت تقریباً تمام ضروری عوامی خدمات فراہم کرتی ہے۔ UNRWA کے بغیر، غزہ کی پٹی میں روزمرہ کی زندگی بالکل تھم جائے گی اور تازہ رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کے سبب UNRWA کو فلسطینیوں کے لیے صحت خدمات مہیا کرانے کے لیے کافی مشکلیں پیش آرہی ہیں۔
جب UNRWA 1949 میں قائم کیا گیا تھا، تب عرب-اسرائیل جنگ کے بعد اس نے تقریباً سات لاکھ بے گھر لوگوں کی مدد کی تھی۔ آج یہ تعداد تقریباً 56 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل کی جانب سے اس بات کی تشہیر کی جارہی ہے کہ اسے ایسے زبردست ثبوت ملے ہیں کہ ایجنسی فلسطینی انتہا پسندی کو ہوا دے رہی ہے، خواہ وہ حماس سے وابستہ افراد کو ملازمت دے کر ہو یا UNRWA کے زیر انتظام اسکولوں میں نصابی کتب اور مواد کے استعمال سے ہو جو اسرائیل کو غیر قانونی قرار دیتے ہیں اور یہودیوں کو بدنام کرتے ہیں۔ لیکن یہاں اسرائیل اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار نہیں ہے اور نہ ہی اپنی جارحیت کو روکنے کے لیے۔
اگست 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے UNRWA کی فنڈنگ واپس لے لی تھی اور تنظیم پر ’’ناقابل تلافی ناقص آپریشن‘‘ کا لیبل لگا دیا تھا۔ جب موجودہ صدر جو بائیڈن نے فیصلہ واپس لے لیا تو امریکی محکمہ خارجہ نے ’’اعلیٰ خطرے‘‘ سے خبردار کیا کہ حماس ’’غزہ کے لیے امریکی امداد سے ممکنہ طور پر بالواسطہ، غیر ارادی طور پر فائدہ اٹھا سکتی ہے۔‘‘ لیکن بائیڈن نے اس مشورے کو نظر انداز کر دیا، اور یوں امداد کا سلسلہ فی الحال جاری ہے۔
دریں اثنا، حماس کے حملے کے بعد ایک رپورٹ اس اندازے کے ساتھ سامنے آئی ہے کہ حماس نے اسرائیل کے خلاف اپنی جنگ کو فنڈ کرانے کے لیے 130 ملین ڈالر سے زیادہ کرپٹو کرنسی جمع کی ہے۔ امریکی سینیٹر الزبتھ وارن جوکہ ’’اینٹی کرپٹو آرمی‘‘ کی خود ساختہ جنرل ہیں، انہوں نے اس بنیاد پر 104 کانگریسی ساتھیوں کو وائٹ ہاؤس کو ایک خط پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جس میں انتظامیہ پر زور دیا گیا تھا کہ وہ کرپٹو کا قریب سے تجزیہ کریں جوکہ غیر قانونی فائنانسنگ میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ اس خط میں کرپٹو کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے ’’قومی سلامتی کا خطرہ‘‘ قرار دیا گیا اور اس دعوے کے لیے 130 ملین ڈالر کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا گیا تھا۔ لیکن پچھلے مہینے، ایلیپٹک جس نے یہ رپورٹ شائع کی تھی، اس نے وارن کے خط اور وال اسٹریٹ جرنل کی اپنی تحقیق کے حوالے سے دونوں پر اختلاف درج کرایا ہے۔
مجموعی طور پر اگر ہم دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ اپنی تمام طاقتوں کے باوجود ماضی میں بھی انکل سام کا غلط ذہانت کی بنیاد پر بڑی غلطیاں کرنے کا ٹریک ریکارڈ رہاہے۔ چند غلطیوں کو ملاحظہ کریں: خلیج ٹونکن کا واقعہ ویتنام میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کو بڑھانے کا بہانہ تھا۔ خصوصی فورسز نے غلط ملک میں اسامہ بن لادن کی تلاش میں برسوں گزار دیے اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی متنازع رپورٹوں کی بنیاد پر عراق کو امریکی حملے کا اور ملک میں امریکی فوجیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ماضی کے ان واقعات کی بنیاد پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہوسکتا ہے کہ اس مرتبہ بھی امریکہ اور اس کے حواری حماس کی فنڈنگ ڈھونڈنے کے لیے غلط جگہ پر تحقیقات کررہے ہوں، جس چیز کا انہیں واضح نوٹس لینا چاہیے۔ یعنی کہ اسرائیلی جارحیت کو ختم کرنے کا اس کے لیے وہ کچھ کرتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ یہ امریکہ اور اس کے مغربی ساتھیوں کی روش رہی ہے کہ وہ غلط خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر غلط اقدام کرتے ہیں اور غلط کارروائیاں کرتے ہیں جس کا ناقابل تلافی خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑسکتا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024