گزشتہ سے پیوستہ:یونیفارم سول کوڈ اور مسلم پرسنل لا

تاریخی اور سیاسی پس منظر

شبیع الزماں (پونے)

پورے ملک کے لیے یکساں کوڈ ہونا چاہیے، یہ خیال غالباً سب سے پہلے مشہور قانون داں موتی لال نہرو نے 1928 میں نہرو رپورٹ میں ظاہر کیا تھا۔ اس ڈرافٹ میں یہ بات تھی کہ آزاد ہندوستان میں شادی بیاہ کے معاملات کو یکساں ملکی قانون کے تحت لایا جائے گا۔ اس وقت جہاں علماء اکرام نے اس رپورٹ کی مخالفت کی تھی وہیں سیاسی وجوہات کے بناء پر انگریزوں نے بھی اسے رد کر دیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ یہ بحث دستور ساز اسمبلی میں زندہ ہو گئی۔ جس وقت آرٹیکل کی دفعہ 44 جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مملکت یہ کوشش کرے گی کہ بھارت کے پورے علاقہ میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ کی ضمانت ہو۔‘‘
اس پر دستور ساز اسمبلی میں بحث ہو رہی تھی۔ ماحول بہت گرم ہو گیا تھا۔ مسلم ممبران اس بات کے لیے بالکل تیار نہیں تھے کہ وہ اپنا پرسنل لا چھوڑ کر یونیفارم سول کوڈ اپنائیں گے انہوں نے اس کی شدید مخالفت کی۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا ’’روایتی سماجوں میں مذہب کا قانونی دائرہ بہت وسیع تھا اور وہ تقریباً پوری زندگی کا احاطہ کر لیتا تھا لیکن جمہوری معاشرے میں ہمیں اس کو محدود کرنا ہوگا۔ ہمارے سماج کی اصلاح کے لیے جو نا انصافی، تفریق، نا برابری اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے بھرا ہوا ہے اور جو ہمارے بنیادی حقوق سے ٹکراتی ہیں ان سے نمٹنا ہوگا۔‘‘ اس کے باوجود گرما گرم بحث جاری رہی ڈاکٹر امبیڈکر نے آخر میں کہا کہ ریاست کو یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ انہی لوگوں پر کرنا چاہیے جو رضاکارانہ طور پہ اسے اپنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح مسلمانوں پر یونیفارم سول کوڈ کا خطرہ اس وقت ٹل گیا تھا۔
انگریزوں نے اپنے آخری زمانے میں ہندوؤں کے لیے یونیفارم سول کوڈ بنانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، اس کے لیے 1941ء میں سر بی این راو کی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، اس کمیٹی نے پورے ہندوستان کا دورہ کیا ہندوؤں کے مختلف طبقات فرقوں اور ذاتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کیا اور اس کے بعد ایک ڈرافٹ تیار کیا جو تمام ہندوؤں کے لیے لاگو ہونے والا تھا۔ اسے ہندو کوڈ بل کہا گیا۔
اس ڈرافٹ پر نظر ثانی کے لیے 1948 میں ایک سلیکٹ کمیٹی بنائی گئی جس کے چیئرمین ڈاکٹر امبیڈکر تھے۔ اگر چہ اس بل کا نام ہندو کوڈ بل تھا لیکن یہ ہندوؤں کے علاوہ سکھوں، جینیوں اور بدھوں سبھی ذاتوں اور فرقوں کے لیے تھا۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے اس بل کے دو بنیادی مقاصد بتائے۔ اول یہ کہ عورت کو اس کے حقوق دلانا اور سماج میں اس کے مقام کو اونچا اٹھانا دوسرا یہ کہ کاسٹ کے نام پر سماج میں جاری تفریق اور نا برابری کو ختم کرنا۔
ہندو کوڈ بل کے مطابق بیٹی کو باپ کی جائیداد میں بیٹے کے برابر حصہ ملنے والا تھا۔ اسی طرح علیحدگی کے بعد بیوی کو نان نفقہ زندگی بھر کے لیے ملنے والا تھا۔ ہندو مردوں پر ایک سے زیادہ شادی کے لیے پابندی لگا دی گئی تھی اسی طرح کاسٹ سے متعلق کئی ترمیمات اور کئی پابندیاں اس بل میں شامل تھیں۔
حالانکہ یہ اقدامات بڑے انقلابی قسم کی تھے خاص طور سے مساوات مرد و زن کے معاملے میں۔ لیکن اس کے بعد بھی بعض فیمینسٹ اسکالروں کا کہنا تھا کہ اس بل میں مطلوبہ تبدیلی نہیں تھی جیسے خواتین کو زراعتی زمین میں حصہ نہیں دیا گیا تھا۔
لیکن ہندو قدامت پرستوں کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ان کے مذہب میں بہت زیادہ دخل اندازی کی گئی تھی اور اس کے لیے انہوں نے ڈاکٹر امبیڈکر پر سخت تنقید کی، امبیڈکر دفاعی پوزیشن میں آگئے اور وہ شاستروں سے دلائل دینے لگے کہ ہندو مذہب میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں ہے۔ ہندوستان بھر میں اس بل کی زور دار مخالفت ہونے لگی ہے اس بل کی مخالفت دو سطح پر تھی، ایک قانون ساز اسمبلی کے اندر دوسرے عوامی حلقوں میں۔ اسمبلی میں اس کی مخالفین میں ہندو مہاسبھا کے شیاما پرسام مکھرجی، اسمبلی کے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد، کانگریس کے صدر پرشوتم داس ٹنڈن اور ان کے علاوہ سردار ولبھ بھائی پٹیل۔ حالانکہ سردار پٹیل نے بہت کھل کر مخالفت نہیں کی لیکن وہ اس بل سے ناخوش تھے۔ شدید مخالفت کے سبب نہرو کے لیے یہ بل پاس کروانا مشکل ہو گیا۔
دوسری طرف اسمبلی کے باہر اینٹی ہندو کوڈ بل کمیٹی بنائی گئی جس میں ملک بھر کے مذہبی اور قدامت پرست ہندو شامل تھے۔ دوارکا کے شنکر اچاریہ نے اس کمیٹی کی حمایت کی اور کہا کہ دھرم مرد کا سب سے بڑا معاون ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ مرد کے اختیارات کی حفاظت کرے۔ اینٹی ہندو کوڈ بل کمیٹی ہندوستان بھر میں ریلیاں اور جلسے کرنے لگی، ہزاروں کی تعداد میں پروگرام کیے گئے۔ ان پروگراموں میں شرکت کرنے والے اپنے آپ کو دھرم ویر بتاتے تھے اور اس لڑائی کو دھرم یدھ یعنی مذہبی لڑائی کا نام دیتے تھے آر ایس ایس نے اپنی پوری قوت اس بل کے خلاف لگا دی۔ دسمبر 1949 میں آر ایس ایس نے رام لیلا میدان میں ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا جس میں اس بل پر زور دار تنقید کی گئی، کہا گیا کہ یہ بل ہندو سماج پر ایک ایٹم بم ہے۔ کسی نے اس کا موازنہ رولٹ ایکٹ سے کیا۔ دوسرے دن آر ایس ایس کے رضاکاروں نے اسمبلی کی عمارت کے اطراف مارچ کیا، ہندو کوڈ بل مردہ باد کے نعرے لگا ئے اور نہرو اور امبیڈکر کے پتلے جلائے گئے۔
اس موومنٹ کی قیادت سوامی کرپتری جی کر رہے تھے۔ سوامی جی نے امبیڈکر پر سخت حملے کیے اور ڈاکٹر امبیڈکر کی شاستراس کی تعبیرات کو لے کر انہیں عوامی مباحث کے لیے چیلنج کیا۔ سوامی جی نے ڈاکٹر امبیڈکر کی ذات کو لے کر بھی ان پر سخت حملے کیے اور کہا کہ ایک اچھوت کو ان معاملات میں دخل اندازی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو برہمنوں کے لیے خاص ہے۔ ہندو کوڈ بل کی دونوں سطح پر بہت مخالفت ہوئی۔ پارلیمنٹ کے باہر بھی اور پارلیمنٹ کے اندر بھی یہ کہا گیا کہ ہندوؤں کے قانون ہمیشہ کے لیے ہے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ ایک دلیل یہ بھی دی گئی کہ قانون ساز اسمبلی عوام کے ذریعے چنی گئی پارلیمنٹ نہیں ہے تو اس صورت میں اس کے فیصلے عوام پر کیسے تھوپے جا سکتے ہیں۔ اتنی شدید مخالفت کے بعد دستور ہند تو پاس ہو گیا لیکن ہندو کوڈ بل پاس نہ ہو سکا اور اس سے سب سے زیادہ تکلیف ڈاکٹر امبیڈکر کو ہوئی۔ اس بل کے لیے انہیں بہت زیادہ تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور بہت بے عزتی انہوں نے جھیلی تھی پھر بھی بل پاس نہ ہو سکا۔ 1950ء میں دستور ہند پاس ہوا۔ 1951 میں دل برداشتہ ہو کر ڈاکٹر امبیڈکر نے وزیر قانون کی حیثیت سے استعفی دے دیا۔ ڈاکٹر امبیڈ کر اور ہندو قدامت پرست دونوں ہی پنڈت نہرو سے ناراض تھے۔
اس کے باوجود پنڈت نہرو نے ہار نہیں مانی اور وہ کوشش کرتے رہے۔ 51-52 میں ہندوستان کا پہلا پارلیمنٹری الیکشن ہوا، اس الیکشن میں پنڈت نہرو نے اپنی تمام ریلیوں میں ہندوستانیوں پر یہ بات واضح کی کہ کامیاب ہونے کی صورت میں وہ ہندو کوڈ بل کا نفاذ کریں گے اور یہ بات بالکل واضح طور پر انہوں نے تقریباً اپنے تمام ہی جلسوں میں کہی۔ پنڈت نہرو کو شکست دینے کے لیے ہندو مہاسبھا، جن سنگھ اور رام راجیہ پریشد نے پنڈت نہرو کے بالمقابل پربھو دت برہم چاری کو سپورٹ کیا۔ برہم چاری نے بار بار پنڈت نہرو کو عوامی مباحث میں کھینچنے کی کوشش کی لیکن پنڈت نہرو نے چالاکی سے منع کر دیا۔ پنڈت نہرو نے یہ الیکشن بہت بڑے مارجن سے جیتا اور ہندوستان بھر میں کانگریس کی بڑے پیمانے پر جیت ہوئی۔ 489 میں سے اسے 364 سیٹیں ملی۔ اس جیت کے بعد پنڈت نہرو نے پھر سے ہندو کوڈ بل پاس کروانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس کے لیے انہوں نے کئی طرح کی کوششیں کیں۔
اول یہ کہ اس مرتبہ پنڈت نہرو بل ایک مرتبہ میں پاس کروانے کے بجائے اسے چار حصوں میں تقسیم کر دیا اور بل کے بعض ایسے حصے جن پر بہت زیادہ اعتراضات کیے جا رہے تھے انہیں تھوڑا نرم کر دیا۔ دوسرے پارلیمنٹ کے اندر نہرو کی مخالفت پہلے کے مقابلے کم تھی۔ ڈاکٹر راجندر پرساد چونکہ صدر بن گئے تھے اور صدر کو زیادہ بولنا نہیں ہوتا ہے اس لیے وہ کھل کر مخالفت نہیں کر پائے۔ دسمبر 1950ء میں خرابی صحت کی وجہ سے سردار پٹیل پرلوک سدھار گئے۔ 1951ء میں پرشوتم داس ٹنڈن کو ہٹا کر پنڈت نہرو خود کانگریس کے صدر بن گئے۔
اس کے ساتھ پنڈت نہرو نے کانگریس کے نوجوان ایم پیوں کو خطوط لکھے اور ان سے مل کر بل کی افادیت سمجھائی۔ خواتین اور پچھڑے طبقات کے نمائندے بھی بل کی حمایت میں تھے۔ اس طرح کم از کم کانگریس کے اندر بل کی شدید مخالفت نہیں تھی۔
لیکن لوک سبھا میں اپوزیشن کی نمائندگی ہندو مہاسبھا کا ذہین ترین وکیل این سی چٹرجی کر رہا تھا۔ چٹرجی نے بل پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ’’اگر یہ ایک سیکولر ریاست تھی تو ہندو کوڈ بل کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں نہ یہ قانون سبھی شہریوں کے لیے لگا دیا جائے۔ اگر حکومت ایمان داری سے یہ مانتی ہے کہ ایک شادی اچھی چیز ہے اور ایک سے زیادہ شادیاں لعنت ہیں تو پھر اس لعنت سے ہماری مسلم بہنوں کو کیوں نہ بچایا جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ یکساں قانوں بنانے کی تمہارے اندر ہمت ہی نہیں ہے۔‘‘
سوشلسٹ لیڈر جے پی کرپلانی نے کہا کہ حکومت صرف ہندوؤں کے لیے ایک شادی کا قانون لا کر منافقت کر رہی ہے۔ یہ قانون مسلمانوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ حکومت خواہ مخواہ ڈر رہی ہے حالانکہ مسلمان اس قانون کے لیے بالکل تیار ہیں
ہندو مہاسبھا کے شیاما پرساد مکھرجی نے بھی بل کی کھل کر مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ اس بل کو آپشنل بنا دیا جائے جو چاہے رضاکارانہ طور پہ اسے تسلیم کرے اور جو چاہے اسے مسترد کر دے۔ جب ان کی یہ بات نہیں مانی گئی تب انہوں نے کہا کہ بل صرف ہندووں کے لیے کیوں ہو؟ اسے مسلمانوں کے لیے بھی ہونا چاہیے۔ لیکن تمام تر مخالفتوں کے باوجود پنڈت نہرو اس بل کو پاس کروانے میں کامیاب رہے۔ 1955ء میں ہندو میرج ایکٹ اور اس کے بعد 1956ء میں اور دیگر قوانین پاس کروا لیے گئے۔

ہندو کوڈ بل پاس ہونے کے بعد یہ موضوع کانگریس اور سیکولر حلقوں سے نکل کر ہندو مہا سبھا، جن سنگھ، آر ایس ایس اور پھر بی جے پی کا موضوع بن گئے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ قانون کیوں پاس نہیں کروایا گیا؟ پنڈت نہرو کی وضاحت اسے سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ چونکہ ابھی ملک کی نئی نئی تقسیم ہوئی تھی اور لوگوں نے ایک خونی بٹوارا مذہب کے نام پر دیکھا ہے اور مسلم لیگ نے مسلمانوں کو یہی بات کہہ رکھی تھی کہ ہندو تمہارے مذہبی معاملات میں مداخلت کریں گے۔ اس لیے پنڈت نہرو نہیں چاہتے تھے کہ ایسے نازک وقت میں اس حساس موضوع کو چھیڑا جائے۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ ہندو سماج میں ریفارمز کی بہت زیادہ ضرورت تھی، وہاں عورتوں اور نچلی ذات کے لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ بھید بھاؤ ہوتا تھا اور ان کا استحصال کیا جاتا تھا اس کے بالمقابل مسلمانوں کے ہاں یہ مسائل اس درجے میں نہیں پائے جاتے تھے۔ تیسری چیز یہ بھی تھی کہ خود انگریزوں کے زمانے سے ہندو مصلحین ہندو سماج میں تبدیلیاں چاہتے تھے، اس کے بالمقابل مسلمانوں کے اندر سے یہ ڈیمانڈ کبھی بھی نہیں اٹھی۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ ہندو اس ملک کی بڑی آبادی تھی۔ ہندو کوڈ بل پاس ہو جانے کے بعد کم از کم ہندوستان کے ایک بڑے حصے میں اصلاحات کا عمل مکمل ہو جاتا تھا۔
اس طرح مسلمانوں کو پرسنل لا کا اختیار دیا گیا لیکن اس کے باوجود یونیفارم سول کوڈ کے لیے مستقل آوزیں اٹھتی رہیں اور اس میں ایک اہم موڑ اس وقت آیا جب بالآخر 1972ء میں متبنیٰ بل پیش ہوا جس کا مقصد بلا تفریق مذہب ملک کی تمام قوموں کے لیے متبنٰی کو اپنی اولاد کا درجہ دینا قرار پایا اور ان کو گود لینے والے مرد و عورت کے ترکہ میں وارث قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے لیے نہ صرف نا قابل قبول تھا بلکہ یہ براہ راست پرسنل لا میں دخل اندازی تھی۔
چنانچہ پورے ہندوستان میں مسلمانوں کے تمام ہی مکاتب فکر نے اس قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ان حالات کے نتیجے میں حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں ایک اجلاس بلایا۔ امیر شریعت مولانا منت اللہ رحمانی کے علاوہ اس وقت کے اکابر علماء اور دانشور اور قانون داں بھی اکٹھا ہوئے، انہوں نے بعض بہت اہم فیصلے کیے، انہی میں سے ایک فیصلہ ممبئی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے کنونشن کے انعقاد کا تھا جسے وہاں کے علماء، دانشوروں، مسلم سماجی کارکنوں اور مختلف جماعتوں کے ذمہ داروں نے بحسن و خوبی 27۔28 دسمبر 1982ء میں منعقد کیا، اسی کنونشن کے نتیجے میں آل انڈیا مسلم پر سنل لا بورڈ کا قیام عمل میں آیا۔
ہندوستان میں پرسنل لا یا پرسنل لا بورڈ کی تاریخ میں اب تک کا سب سے بڑا سنگ میل شاہ بانو کیس ہے۔ اندور کی شہری اور پانچ بچوں کی ماں ساٹھ سالہ شاہ بانو کو اس کے شوہر محمد احمد خان نے طلاق دے دی تھی۔ انہوں نے نان و نفقہ کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ذیلی عدالت نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ سنایا لیکن شوہر کے اپیل کے بعد معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا۔ 23 اپریل 1985 کو شاہ بانو کی دلیل کے پیش نظر عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا لیکن مسلم تنظیموں اور علمائے کرام نے اس فیصلے کے خلاف آواز بلند کی۔ ہندوستان بھر میں اس قانون کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کر کے یہ مطالبہ کیا کہ قانون کے ذریعہ شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ فیصلہ بدلا جائے۔ اس وقت ملک نازک صورت حال سے گزر رہا تھا۔ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی جیسے غیر سیاسی شخص ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے تھے۔ سکھ کانگریس سے سے ناراض تھے۔ آسام کا مسئلہ گرم تھا۔ اس صورت میں راجیو گاندھی حکومت مسلمانوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان اسباب کے مد نظر حکومت نے مسلم خواتین ترمیمی بل پاس کر شاہ بانو کیس میں دیے گئے فیصلے کو بدل دیا اور شاہ بانو کو نان و نفقہ کا حق نہیں مل سکا۔
اس فیصلے کا رد عمل دوسری جانب ہوا۔ شاہ بانو کیس میں مسلم احتجاج کے سامنے جھکنے کے بعد ہندو مڈل کلاس اور ہندو احیاء پرستوں کی طرف سے کانگریس پر شدید تنقید ہونے لگیں۔ ہندو ووٹرس کو خوش کرنے کے لیے راجیو گاندھی نے وہ ہمالیائی حماقت کر دی جس کی سزا کانگریس اب تک بھگت رہی ہے۔ راجیو گاندھی نے بابری مسجد کے تالے کھلوا کر ہندوؤں کو وہاں شیلا نیاس کی اجازت دے دی۔ واجپائی کی اعتدال پسند پالیسیوں کی وجہ سے بی جے پی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ 1984ء میں اڈوانی کو پارٹی کا صدر بنا دیا گیا۔ اڈوانی نے صدر بنتے ہی وی ایچ پی سے قریبی تعلقات بنائے اور رام مندر کے موضوع کو خوب گرمایا۔۔ اس کی مدد سے 1989ء کے جنرل الیکشن میں بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد دو سے بڑھ کر چوراسی ہوگئی۔ بی جے پی نے رام مندر تحریک کو 1991ء کے الیکشن میں بھی زور دار طریقے سے استعمال کیا۔ 1989 کے مقابلے اس کا ووٹ بینک گیارہ فی صد سے بڑھ کر اکیس فی صد یعنی تقریباً دُگنا ہوگیا۔ لوک سبھا میں اس کی سیٹوں کی تعداد پچاسی سے بڑھ کر ایک سو بیس ہوگئی۔ چھ دسمبر 1992 کو سنگھ، وی ایچ پی اور بی جے پی نے ڈیڑھ لاکھ کے قریب کار سیوکوں کو ایودھیا میں جمع کیا تاکہ مسجد شہید کی جا سکے۔ رام مندر موومنٹ کے ذریعے بی جے پی نے ہندوؤں کو متحد بھی کر دیا۔ ہندو ووٹ بینک مضبوط ہوا اور اس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ مرکز میں پہلی مرتبہ ہندوتوا فکر کی حکومت قائم ہوئی۔ 1996ء میں پہلے تیرہ دن کے لیے حکومت بنی، پھر 1998ء میں تیرہ مہینوں کے لیے اور 2014 اور 2019 میں پانچ پانچ سال کے لیے اقتدار ملا اور اب 2024 میں پھر اس کا استعمال ہونے والا ہے۔
پرسنل لا کی تاریخ میں اہم موڑ کاشی پور (اتر اکھنڈ) کی رہنے والی شاعرہ بانو کے کیس میں آیا۔ شاعرہ بانو کو اس کے شوہر نے 2015ء میں طلاق دی تھی۔ اس نے جب 2016 میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی تو وہاں بتایا کہ شوہر نے اس کو لگاتار نشیلی دوائیں دیں جس سے اس کی یادداشت کمزور ہو گئی اور پھر اس کو طلاق دے کر مائکہ بھیج دیا۔

لیکن شاعرہ بانو نے ایک نشست میں تین طلاق کو قبول نہیں کیا اور وہ عدالت پہنچ گئی۔ شاعرہ بانو نے اپنی عرضی میں مسلم پرسنل لا کے اس اپلیکیشن ایکٹ 1937 کی دفعہ دو پر سوالیہ نشان لگایا جن سے کثرت ازواج، تین طلاق اور حلالہ جیسے رواج کو فروغ ملتا ہے۔ کورٹ نے صرف طلاق ثلاثہ والے مسئلہ پر اپنا فیصلہ سنایا۔ عدالت نے طلاق ثلاثہ کو غلط ٹھیراتے ہوئے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ سنایا اور حکومت سے تین طلاق کے خلاف قانون بنانے کی ہدایت دی جس کے بعد حکومت پنے(Protection of Rights on Marriage Act, 2019) پاس کیا جسے ٹریپل طلاق قانون بھی کہا جاتا ہے۔ یہ قانون بننے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی اس کی مخالفت ہوتی رہی۔ اس قانون سے یہ بات واضح نہیں ہو پائی کہ یہ مسلم خواتین کو حقوق دلانے کے لیے بنایا گیا تھا یا مسلم مردوں کو سزا دینے کے لیے؟
اب 2024 کے انتخابات کے پس منظر میں یونیفارم سول کوڈ کی بحث پھر سے گرم ہو گئی ہے۔ مسلمانوں کے لیے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا معاملہ ریفارم سے زیادہ سیاسی ہی رہا ہے۔ سیاست سے ہٹ کر دونوں فریقین کے دلائل درج میں دیے جا رہے ہیں تاکہ قاری دونوں طرف کے پہلووں کو سمجھ سکیں۔
یونیفارم سول کوڈ کے حامیوں کے دلائل:
صنفی مساوات کی طرف قدم
قوانین کی سادگی اور وضاحت
یکسانیت اور مستقل مزاجی۔
جدید کاری اور اصلاح
سماجی ہم آہنگی۔
ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14,15,21,44-
یونیفارم سول کوڈ کے مخالفین کے دلائل:
مذہبی اور ثقافتی تنوع کی بقاء کے خلاف
مذہب کی آزادی کے حق کے خلاف
اتفاق رائے کا فقدان
نفاذ میں عملی چیلنجز
سیاسی حساسیت
ہندوستانی آئین کی دفعات – 25,26
-1یکساں سول کوڈ ۔ دلائل و حقائق کی روشنی میں۔ مولانا وحید الدین خان صاحب
-2 یونیفارم سول کوڈ اور مسلم پرسنل لاء اور عورت کے حقوق ۔ مولانا برہان الدین سنبھلی صاحب
-3 یونیفارم سول کوڈ ۔ مولانا منت اللہ شاہ رحمانی
-4مسلم پرسنل لاء مسئلہ ۔ تعارف و تجزیہ۔ مجاہد الاسلام قاسمی

(ختم شد)

 

***

 ہندو کوڈ بل پاس ہونے کے بعد یہ موضوع کانگریس اور سیکولر حلقوں سے نکل کر ہندو مہا سبھا، جن سنگھ، آر ایس ایس اور پھر بی جے پی کا موضوع بن گئے۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے یہ قانون کیوں پاس نہیں کروایا گیا؟ پنڈت نہرو کی وضاحت اسے سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ چونکہ ابھی ملک کی نئی نئی تقسیم ہوئی تھی اور لوگوں نے ایک خونی بٹوارا مذہب کے نام پر دیکھا ہے اور مسلم لیگ نے مسلمانوں کو یہی بات کہہ رکھی تھی کہ ہندو تمہارے مذہبی معاملات میں مداخلت کریں گے۔ اس لیے پنڈت نہرو نہیں چاہتے تھے کہ ایسے نازک وقت میں اس حساس موضوع کو چھیڑا جائے۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ ہندو سماج میں ریفارمز کی بہت زیادہ ضرورت تھی، وہاں عورتوں اور نچلی ذات کے لوگوں کے ساتھ بہت زیادہ بھید بھاؤ ہوتا تھا اور ان کا استحصال کیا جاتا تھا اس کے بالمقابل مسلمانوں کے ہاں یہ مسائل اس درجے میں نہیں پائے جاتے تھے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 06 اگست تا 12 اگست 2023