گروگرام میں نماز جمعہ کا مسئلہ،شر پسندماحول بگاڑنے کے لیے کوشاں

مساجد کی تعمیر کے لیے جگہ کی فراہمی سے مسئلہ حل ہوسکتاہے۔جماعت اسلامی ہند کے وفد کی مقامی افراد سے ملاقات

وسیم احمد ، دلی

گڑ گاوں کا نام بدل کر گروگرام تو رکھ دیا گیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا نام ہی نہیں بدلا ہے اس کے حالات بھی بدل گئے ہیں۔یہاں کے ماحول میں پہلے کبھی بھی فرقہ واریت کا زہریلا اثر نہیں پایا گیا مگر ادھر کچھ دنوں سے شر پسند عناصر نے اس ماحول میں فرقہ واریت کا رنگ گھول دیا ہے۔ گروگرام ایک صنعتی علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کی آبادی پانچ تا چھ لاکھ کے قریب ہے۔جبکہ مسجدوں کی تعداد محض آٹھ ہے۔ آبادی کے لحاظ سے مسجدوں کی یہ تعداد بہت کم ہے جبکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جب گروگرام کا ترقیاتی منصوبہ چل رہا تھا تو اس وقت حکومت نے نئے گڑگاوں میں بائیس مندر، بیس چرچ اور نو گردواروں کے لیے پلاٹوں کی منظوری دی تھی۔ لیکن مسجد کے لیے کوئی پلاٹ منظور نہیں کیا گیا ۔وقف بورڈ کے اسٹیٹ آفیسر جمال الدین کہتے ہیں کہ ہریانہ اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو مسجد کی زمین کے لیے درخواست دی گئی مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ راجیہ سبھا کے سابق ایم پی محمد ادیب نے بتایا کہ مسلمانوں کے ایک ٹرسٹ نے گڑگاوں میں مسجد کی زمین الاٹ کرنے کے لیے ریاستی حکومت کو اٹھارہ لاکھ روپے کا ڈپازٹ دیا تھا مگر الاٹمنٹ سے ایک دن پہلے یہ رقم لوٹا دی گئی ۔اس طرح مسجد بنانے کی یہ کوشش ناکام ہوگئی۔ شیتلا کالونی میں ایک مسجدہے لیکن اسے بھی غیر قانونی کہہ کر بند کردیا گیا جبکہ اسی گڑگاوں کے شہری اور دیہی علاقوں میں تین سو ساٹھ غیر قانونی مندروں کو باقاعدہ کردیا گیا ہے۔سیکٹر ستاون میں ایک مسلم ٹرسٹ نے مسجد کے لیے جگہ دی تھی۔اس جگہ پر خریدی گئی مسجد کا گراونڈ فلور بنایا گیا ۔اس کے بعد کی منزل بنانے کے خلاف ریسیڈنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن (آر ڈبلیو اے) کی جانب سے مقدمہ کردیا گیا ۔2011 میں سپریم کورٹ نے اس پر حکم التواء دیا جس کے نتیجے میں مسجد کی تعمیر کا کام ہنوز رکا ہوا ہے اور لوگ صرف گراونڈ فلور میں ہی نماز ادا کررہے ہیں جبکہ وہاں پر مزید فلوروں کی ضرورت ہے۔
گرو گرام میں مساجد کی بہت کمی ہے جس کے سبب مسلم آبای پارک جیسے عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے پر مجبور ہے۔ ان مقامات پر برسوں سے نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ اس پر کبھی کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا بلکہ مقامی غیر مسلم نماز کی جگہوں کو صاف ستھرا کرنے میں ان کی بھرپور مدد کیا کرتے تھے۔ وہاں کی انتظامیہ مسلمانوں کی مجبوری سمجھ رہی تھی اور انہیں بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس طرح حالات پُر امن تھے ۔غالباً یہ پُرسکون ماحول فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے عناصر کو بے چین کررہا تھا لہٰذا انہوں نے اعتراض کرنا شروع کردیا اور انتظامیہ پر دباو بنایا جانے لگا کہ وہ پارکوں میں نماز ادا کرنے پر روک لگائے۔’’ سنیوکت ہندو سنگھرش سمیتی ‘‘ نے جو بائیس سنگٹھنوں کی سرپرست تنظیم ہے ان نمازیوں کے خلاف ہنگامہ کیا اور کھلی جگہوں پر نماز ادا کرنے کے خلاف ذہن سازی شروع کردی۔علاقے میں تقریباً سینتیس مقامات پر انتظامیہ کی اجازت سے نماز ہورہی تھی مگر اس ہنگامے کے بعد بیس مقامات پر ہی اجازت برقرار رکھی گئی ۔ بقیہ جگہوں پر نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ انتظامیہ ان شدت پسندوں کے دباو میں آکر کام کرتی ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کو اس مسئلے کا مستقل حل نکالنا چاہیے۔ اس کا مستقل حل یہی ہے کہ حکومت مسلمانوں کو مسجد بنانے کے لیے زمین الاٹ کرے اور گرو گرام میں وقف کی جو انیس مساجد غیر مسلموں کے قبضے میں ہیں، انہیں ان سے واپس لے کر مسلمانوں کے حوالے کرے۔ اگر یہ مقبوضہ مساجد مسلمانوں کے حوالے کردی جائیں تو عوام میں ایک مثبت پیغام جائے گا اور حکومت کے تئیں اعتماد بڑھے گا ۔
گرو گرام میں شدت پسندوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی کے بعدجب مسلمانوں کو کھلے میدان میں نماز ادا کرنے سے روک دیا گیا اور وہ بے بسی کی عالم میں سرگرداں تھے کہ وہ نماز کہاں ادا کریں، ایسے وقت میں سیکٹر بارہ کے رہنے والے اکشے کمار نےانسانیت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ایک دکان میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی۔ مگر شر پسندوں کو ان کی یہ انسان دوستی بھی پسند نہیں آئی اور وہ سب یادو کے خلاف اشتعال انگیزی کرنے لگے۔ خوف کے مارے یادو کو اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور جگہ منتقل ہونا پڑا۔ اسی سیکٹر بارہ میں ایک مسلمان کسی ہندو کا پلاٹ کرائے پر لے کر فرنیچر کا کاروبار کرتے تھے۔جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ نماز ادا کرنے کے لیے ادھر ادھر پریشان ہورہے ہیں تو پلاٹ کے مالک کی منظوری لے کر وہاں پر نماز پڑھنے کی اجازت دی۔جب ان فرقہ پرستوں کو اس کی اطلاع ملی تو وہ سب نماز کی جگہ پر جمع ہو گئے اور گوردھن پوجا کرنا شروع کر دیا۔ پھر پورے پلاٹ پر گوبر بھر دیا جس کی وجہ سے وہاں پر دوبارہنماز ادا کرنا مشکل ہو گیا۔ یہی نہیں پلاٹ کے مالک پر اتنا دباو ڈالا گیا کہ اس نے اس مسلم کرایہ دار سے اپنی زمین خالی کرالی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس جگہ پر نماز ادا کرنے سے روکا گیا وہیں پر گوردھن پوجا کی گئی مگر اس پر انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
گروگرام کے علاقے میں جانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی ہندو سنجیدہ ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کے کاروبار بھی مشترک چلتے ہیں۔ مسلمانوں کی بیشتر دکانیں انہی سے کرائے پر لی گئی ہیں۔ مذہب وذات پات کے مسئلے پر کبھی ان میں اَن بَن نہیں ہوئی۔ ان کا اپنا ماحول نہایت ہی بھائی چارے والا ہے۔ البتہ کچھ شر پسند عناصر ہیں جنہیں یہ پُر امن ماحول پسند نہیں ہے، یہی عناصر خلفشار پھیلاتے ہیں۔ ’’ انڈیا ٹو مارو ‘‘ کے ایڈیٹر سید خلیق احمد نے گروگرام کے ہندو لیڈر اور وکیل کلبھوشن بھاردواج سے ایک طویل انٹرویو کے دوران پوچھا کہ مسلمانوں کے پارکوں میں نماز پڑھنے پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہمیں مسلمانوں کی نماز سے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ہمیں خوف یہ ہے کہ پارکوں میں نماز پڑھتے پڑھتے یہ لوگ سرکاری زمین پر قبضہ نہ کرلیں۔ اگر وہ اپنی مسجدوں میں یا اپنی ذاتی زمین پر نماز ادا کریں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ گروگرام کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے’ انڈیا ٹومارو ‘ کے ایڈیٹر سید خلیق احمد ودیگر رفقاء کے ساتھ علاقے کا دورہ کیا اور وہاں گڑگاوں گردوارہ کے چیئرمین شیر دل سنگھ سدھو سے ملاقات کی اور نماز کے لیے گردوارے کا دروازہ کھولنے کی پیشکش پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ایسے وقت میں جب مسلمانوں کو کچھ شر پسندوں کی جانب سے نماز کی مخالفت کا سامنا ہو اور ان کے پاس کوئی متبادل بھی نہ ہو، گردوارہ کے احاطے کو پیش کرنا بہت بڑی بات ہے۔پروفیسر سلیم نے’ سنیوکت ہندو سنگھرش سمیتی‘ گڑگاوں کے لیڈر کلبھوشن بھاردواج کے علاوہ سیکٹر بارہ میں آٹو موبائل مارکیٹ کے کار ریپیر ورکشاپ چلانے والے کئی دکانداروں سے بھی ملاقات کی اور ان سے صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے سماجی کارکنوں اور مسلمانوں سے بھی ملاقاتیں کی اور نماز کی ادائیگی کے لیے مستقل طور پر جگہوں کے بندوبست کیے جانے کے موضوع پر بات چیت کی۔
(یہ مضمون ’انڈیا ٹومارو‘ کے ایڈیٹر سید خلیق احمد کے ساتھ ایک انٹرویو پر مبنی ہے)
***

 

***

 گروگرام کے علاقے میں جانے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مقامی ہندو سنجیدہ ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کے کاروبار بھی مشترک چلتے ہیں۔ مسلمانوں کی بیشتر دکانیں انہی سے کرائے پر لی گئی ہیں۔ مذہب وذات پات کے مسئلے پر کبھی ان میں اَن بَن نہیں ہوئی۔ ان کا اپنا ماحول نہایت ہی بھائی چارے والا ہے۔ البتہ کچھ شر پسند عناصر ہیں جنہیں یہ پُر امن ماحول پسند نہیں ہے، یہی عناصر خلفشار پھیلاتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021