کھلی جگہوں پر نماز کی ادائیگی پر اعتراض مگر مسلمانوں کی مساجد پر غیر قانونی قبضوں پر خاموشی!
گڑگاؤں میں کئی مساجد غیر مسلموں کے قبضے میں : اوقافی جائیدادوں کی مفصل معلومات کے ساتھ ہفت روزہ دعوت کی ایکسکلوزیو رپورٹ
افروز عالم ساحل
کیا کوئی مسجد کسی غیر مسلم کو لیز پر دی جا سکتی ہے؟ یقیناً آپ کا جواب نفی میں ہوگا، لیکن مسلمانوں کے وقف بورڈ نے یہ کام انجام دیا۔ وہ بھی اس علاقے میں جہاں جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد نہیں ہے اور مسلمان اس کے لیے ان دنوں سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ جواب میں ان پر حملے ہو رہے ہیں انہی کے خلاف مقدمے درج ہو رہے ہیں۔
یہ کہانی ریاست ہریانہ کے گروگرام (گڑگاؤں) کی ہے جہاں جمعہ کے نماز کی ادائیگی اب ایک ’عالمی مسئلہ‘ بن چکا ہے۔ آپ یہ جان کر حیرت کے سمندر میں ڈوب جائیں گے کہ اسی شہر میں وقف بورڈ نے کئی مساجد، قبرستان، درگاہیں اور وقف کی کئی جائیدادیں غیر مسلموں کو لیز پر دی ہوئی ہیں، اور یہ معلومات کسی اور نے نہیں بلکہ خود ہریانہ وقف بورڈ نے دی ہیں اور وقف مینیجمنٹ آف انڈیا نے اپنی ویب سائٹ wamsi.nic.in پر شائع بھی کی ہیں۔
وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے مطابق گڑگاؤں میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والے چوموہا گاؤں میں 19345 مربع گز یعنی قریب چار ایکڑ زمین کو جس میں ایک مسجد بھی موجود ہے، 40 ہزار روپے ماہانہ کرایہ پر میرٹھ کے ڈیفنس کالونی میں رہنے والی مسز میگھا چودھری کو لیز پر دی گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ چونکانے والی بات یہ ہے کہ یہ لیز 31 دسمبر 2016 کو ختم ہوگئی ہے اور اب یہ مسجد کیسر سنگھ نامی ایک شخص کے ناجائز قبضے میں ہے۔
ایسی ہی کہانی گڑگاؤں میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والی فاضلپور جھرسا گاؤں کی ہے۔ یہاں 6590 مربع گز یعنی 1.36 ایکڑ زمین والی مسجد کو ہریانہ وقف بورڈ نے رشی نام کے ایک شخص کو محض 22 ہزار 425 روپے ماہانہ کرایہ کے لیز پر دیا تھا۔ یہ لیز سال 2017 میں ختم ہوگئی اور اب یہ مسجد اودمی نام کے ایک شخص کے ناجائز قبضے میں ہے۔ اسی طرح ہدایت پور چھاونی گاؤں کی ایک جامع مسجد کو بھی پرتیک کمار، پریم پرکاش، سنجئے گوئل اور رام کرشن نام کے چار لوگوں نے مل کر وقف بورڈ سے کرایے پر لیا تھا۔ سال 2017 میں لیز کی میعاد ختم ہوگئی اور اب یہ جامع مسجد کرشن چند نام کے ایک شخص کے قبضے میں ہے۔
یہ کہانی صرف مسجدوں کی ہی نہیں ہے بلکہ گڑگاؤں میں سیکڑوں وقف جائیدادوں کی بھی ہے۔ اور یہ سب کچھ وقف بورڈ کی نگرانی میں ہوا ہے۔ بورڈ نے قبرستان اور درگاہوں کو بھی نہیں چھوڑا، چنانچہ 17545 مربع گز یعنی 3.625 ایکڑ زمین پر مشتمل گڑگاؤں کے ایک قبرستان کو رکمنی نام کی ایک خاتون کو 28 ہزار روپے سالانہ کرایہ پر دے دیا گیا۔ وہیں ایک عیدگاہ چرنجیت سنگھ نامی ایک شخص نے محض 3370 روپے ماہانہ کرایہ پر لیز پر لیا ہے۔ لیز کی میعاد سال2017 میں ہی ختم ہو چکی ہے اور ساتھ ہی عیدگاہ کا بھی وجود مٹ چکا ہے۔ یہی نہیں وقف بورڈ نے ایک درگاہ کو بھی لیز پر دیا ہے۔ لیز سال 2014 میں ختم ہو چکی ہے، لیکن درگاہ کا کیا ہوا یہ وقف بورڈ کو پتہ نہیں ہے۔ خیال رہے کہ 9044 مربع گز یعنی 1.90 ایکڑ پر مشتمل اس درگاہ کا کرایہ محض 500 روپے ماہانہ تھا۔
گڑگاؤں میں کل کتنی مساجد ہیں؟
پورے ضلع گڑگاؤں میں جملہ 89 مساجد ہیں جبکہ صرف شہر گڑگاؤں میں وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ مسجدوں کی تعداد 35 ہے۔ ان 35 مساجد کی فہرست وقف بورڈ اور وقف مینیجمنٹ آف انڈیا دونوں کی ویب سائٹس پر موجود ہے۔ لیکن وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ پر چھان بین کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں 21 مساجد پر غیر قانونی قبضے ہیں اور قابضین سب کے سب غیر مسلمین ہیں جبکہ ایک مسجد پر پرائمری اسکول اور ایک مسجد پر گردوارہ بن چکا ہے۔ 11 مساجد کو موجود بتایا گیا ہے لیکن ان میں کئی کی حالت حد خراب ہے اور بعض کھنڈر میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ باقی 3 مساجد کے بارے میں وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔
غورطلب بات یہ ہے کہ سال 2018 میں ہریانہ وقف بورڈ نے ضلع انتظامیہ کو جملہ 19 مقامات کی فہرست دی تھی جہاں خود کی زمین ہوتے ہوئے بھی مسلمان نماز نہیں ادا کر پا رہے ہیں۔ بورڈ نے گروگرام کے ضلع کمشنر کو خط لکھ کر یہ اطلاع دی تھی کہ وقف بورڈ کے تحت آنے والی 9 مساجد پر گاؤں والوں کا قبضہ ہے اور 10 مقامات ایسے ہیں جو مسجد کے لیے مختص ہیں لیکن ان پر ہندوتوادی نماز نہیں پڑھنے دیتے۔ سوال یہ ہے کہ جب وقف بورڈ کے کنٹرول میں گڑگاؤں میں کل 89 مساجد ہیں تو اس نے صرف 19 مساجد کی نشاندہی کیوں کی تھی؟ کیا باقی کی 70 مساجد بحال ہیں؟ اس سوال کا بہتر جواب ہریانہ وقف بورڈ ہی دے سکتا ہے۔ وقف بورڈ کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ جب 19 مساجد کی فہرست ضلع انتظامیہ کو سونپ دی تو آگے کی کارروائی کا کیا ہوا؟ گڑگاؤں کے بعض سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ جو 19 مساجد کی فہرست وقف بورڈ نے ضلع کمشنر کو سونپی تھیں وہ ابھی بھی ہندوؤں کے قبضے میں ہیں، وہاں ابھی بھی بھینسیں اور دیگر جانور باندھے جاتے ہیں۔ یعنی ریاستی حکومت یا اس کی انتظامیہ نے ابھی تک ان مساجد کو مسلم کمیونٹی کو واپس دلانے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔
اگر جملہ وقف جائیدادوں کی بات کریں تو ضلع گڑگاؤں میں وقف بورڈ کے پاس جملہ 766 وقف جائیدادیں ہیں جن میں 89 مساجد، 108 قبرستان، 112 گھر، 209 پلاٹس، 50 زرعی زمینیں، 9 درگاہیں، 9 عیدگاہیں، 16 خانقاہیں، 128 دکانیں، 11 تکیے اور ایک عمارت شامل ہے۔ وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق ان میں صرف 4 جائیدادوں پر ہی مقدمہ چل رہا ہے اور صرف 16 جائیدادوں پر ہی غیرقانونی قبضے ہیں، جبکہ 60 وقف جائیدادوں کے بارے میں وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔
اگر صرف شہر گڑگاؤں کی بات کی جائے تو وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے مطابق یہاں وقف بورڈ کی جملہ 405 جائیدادیں ہیں۔ ان میں 35 مساجد، 42 قبرستان، 19 مکانات، 191 پلاٹس، 7 زرعی زمینیں، 6 درگاہیں، 6 عیدگاہیں، 3 خانقاہیں،91 دکانیں اور 3 تکیے شامل ہیں۔ ان تمام جائیدادوں میں وقف بورڈ صرف 5 جائیدادوں پر ہی غیرقانونی قبضہ بتاتا ہے، دو جائیدادوں کا معاملہ عدالت میں ہے۔ 23 وقف جائیدادوں کے بارے میں وقف مینیجمنٹ آف انڈیا کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔
امام کی تنخواہ اور مکاتب پر وقف بورڈ کا خرچ؟
جہاں گڑگاؤں میں زیادہ تر مساجد غیر قانونی قبضے میں ہیں، وہیں ہریانہ وقف بورڈ مساجد کے 18 خدمتگاروں کو تنخواہ دے رہا ہے جن کا خرچ سالانہ تقریباً 20 لاکھ روپے بتا رہا ہے۔ یہ جانکاری وقف بورڈ نے اپنی ویب سائٹ پر بھی دی ہے۔ ان تمام لوگوں کے نام وپتے بھی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ وہیں ہریانہ وقف بورڈ گروگرام میں مسجدوں میں چلنے والے پانچ مکاتب کو ماہانہ 14000 روپے گرانٹ بھی دے رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پورے ضلع گڑگاؤں میں وقف بورڈ کا ایک بھی مکتب نہیں ہے۔
سپریم کورٹ میں عرضی
گزشتہ دنوں گڑگاؤں میں نماز پڑھنے کے معاملے پر سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے، جس میں ہریانہ کے چیف سکریٹری اور ریاستی پولیس کے ذریعے عدالت کی توہین کرنے کا ذکر کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ کیونکہ انہوں نے غنڈہ عناصر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جنہوں نے گروگرام میں مسلمانوں کو کھلے مقامات پر نماز ادا کرنے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ یہ عرضی راجیہ سبھا کے سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے داخل کی ہے۔ اس معاملے کے وکیل ایڈووکیٹ فضیل ایوبی ہیں۔
اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ پولیس 2018 میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل کرنے میں نہ صرف ناکام رہی ہے، بلکہ پولیس اور انتظامیہ کی عدم فعالیت شر انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کو جنم دے رہی ہے۔ پولیس ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے جو مسلمانوں کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک رہے ہیں۔ یاد رہے کہ سال 2018 میں عدالت نے ہجومی تشدد کا نوٹس لیا تھا اور حکومت کو تشدد اور نفرت پر مبنی جرائم کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی تھیں اور صاف طور پر کہا تھا کہ ریاستی حکومتیں خاموش تماشائی نہیں بنی رہ سکتیں اور کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جمہوریت میں ہجومی لاقانونیت کی کوئی جگہ نہیں ہے۔
ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت کرتے ہوئے محمد ادیب نے کہا کہ جب گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلمانوں کے نماز پڑھنے پر ہنگامہ مچایا جا رہا تھاتب ہم لوگ مسلسل انتظامیہ سے شکایت کر رہے تھے۔ ہماری ان شکایتوں میں کئی نامزد لوگ بھی ہیں۔ لیکن جب پولیس انتظامیہ کی جانب سے ان کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا تو ہمیں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ کیونکہ 2018 میں سپریم کورٹ کے جسٹس دیپک مشرا نے جو گائیڈلائنس دیں یہ اس کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجھے پوری امید ہے کہ جب 3 جنوری 2022 کو عدالت کھلے گی، تو اس معاملے کی جلد از جلد سنوائی ہوگی، کیونکہ اب یہ معاملہ کافی سنجیدہ ہوگیا ہے۔ اب تو کھلے عام مجھے انجام بھگتنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔
محمد ادیب نے کہا کہ میں نے اس معاملے کے بارے میں 18 سیاسی پارٹیوں کو خطوط لکھے، ان کے لیڈروں سے بات کی لیکن کمیونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کو چھوڑ کر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ شاید وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر اس معاملے میں مسلمانوں کا ساتھ دے دیا تو پوپی کے الیکشن میں ہمارا ووٹر ہم سے دور چلا جائے گا۔ یعنی ہر نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹی ’ہندو پارٹی‘ بننا چاہتی ہے۔ کوئی 16 کیریٹ کی ہندو پارٹی ہے تو کوئی 22 یا 24 کریٹ کی ہندو پارٹی ہے۔
یہ پوچھنے پر کہ سپریم کورٹ میں آپ نے جو عرضی داخل کی ہے، اس کا تعلق عدالت کی توہین سے ہے۔ مسجد کا معاملہ تو پھر بھی برقرار رہے گا؟ اس پر محمد ادیب نے کہا کہ چونکہ مسجد کا معاملہ صوبائی حکومت سے جڑا ہوا ہے، اس لیے جلد ہی اس معاملے کو لے کر ہائی کورٹ جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گڑگاؤں میں 113 نئے سیکٹرز بنے ہیں، جس میں 40 سے زائد مندروں کو زمین الاٹ کی گئی ہے۔ وہیں 18 چرچ، 12 گردواروں کے لیے بھی زمینیں دی گئی ہیں، یہاں تک کہ بودھ اور جین مندروں کے لیے بھی زمینیں الاٹ کی گئی ہیں لیکن ایک انچ زمین بھی مسلمانوں کو مسجد کے لیے نہیں دی گئی، جبکہ یہاں چار لاکھ سے زائد مسلمان بستے ہیں۔
اتنا بے بس کیوں نظر آرہا ہے وقف بورڈ؟
سال 1998 میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میں کہا تھا، ’ایک بار وقف ہمیشہ کے لیے وقف۔ اس کی خرید یا فروخت نہیں ہو سکتی۔ اور کوئی بھی وقف املاک کے اصل کردار کو متاثر نہیں کر سکتا۔‘ اس کے باوجود اگر وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضے یا وقف جائیدادوں کی خرید وفروخت ہو رہی ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اس پورے معاملے میں اگر وقف بورڈ چاہتا تو بہت کچھ کر سکتا تھا، لیکن سب سے کمزور وبے بس یہی نظر آیا۔ وقف بورڈ کی یہ حالت تب ہے، جب قانون میں اسے کافی پاور ملا ہے۔
وقف ایکٹ کی دفعہ 28 کے مطابق، وقف ایکٹ کے دفعات اور اس کے تحت بنائے گئے قواعد کی توضیحات کے تابع، کسی ریاست میں ضلع کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ، یا اس کی غیر حاضری میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ یا سب ڈویژنل مجسٹریٹ، وقف بورڈ کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے ذمہ دار ہوگا۔ وقف بورڈ اپنے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کے ذریعے جب بھی ضروری سمجھے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے ٹریبونل سے ہدایت لے سکے گا۔
وہیں وقف ایکٹ کی دفعہ 7 میں یہ بھی واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ’ٹریبونل کو وقف جائیداد کے بلا اختیار قبضہ کے ذریعے نقصانات کا تخمینہ کرنے اور اسے بلا اختیار مداخلت کاروں کو وقف جائیداد کا ان کے غیر قانونی قبضہ کے لیے جرمانہ عائد کرنے اور کلکٹر یعنی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی وساطت سے مالگزاری اراضی کے بقایاجات کی حیثیت سے نقصانات وصول کرنے کے اختیارات حاصل ہیں۔ یہ دفعہ یہ بھی کہتی ہے کہ جو کوئی بھی سرکاری ملازم ہوتے ہوئے غاصبانہ قبضے کو روکنے یا ہٹانے کے لیے اپنے قانونی فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہو جائے، سزا کے طور پر اس پر ایسا جرمانہ عائد کیا جائے گا جو ایسے ہر جرم کے لیے پندرہ ہزار روپے تک ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ’دی وقف پراپرٹیز لیز رولز، 2014‘ کی دفعہ 3 واضح طور پر کہتی ہے کہ وقف بورڈ یا کوئی متولی مسجد، درگاہ، خانقاہ، قبرستان یا امام باڑہ کو لیز پر نہیں دے سکتا۔ حالانکہ اس پابندی کا اطلاق مسجد، درگاہ، خانقاہ، قبرستان یا امام باڑہ کے مرکزی احاطے سے باہر واقع وقف اراضی پر نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی انہی رولز میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2013 سے پہلے لیز پر دیا گیا کوئی بھی قبرستان پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش اور چندی گڑھ میں ان قوانین کی دفعات کے مطابق جاری رہے گا۔ سوال یہ ہے کہ وقف (ترمیمی) ایکٹ 2013 کے بعد بھی ہریانہ میں قبرستان، مساجد اور درگاہ وغیرہ جو لیز پر دیے گئے ہیں کیا یہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ جب ریاست میں مساجد اور قبرستانوں کی قلت ہے تو پھر وقف بورڈ نے کیا سوچ کر مساجد اور قبرستانوں کو لیز پر دے دیا؟
یہی نہیں وقف ایکٹ 2013 کی دفعہ 40 صاف طور پر کہتی ہے کہ اگر کوئی جائیداد وقف ہے:
(1) بورڈ کسی ایسی جائیداد کے بارے میں جس کے بارے میں اس کے پاس یہ یقین کرنے کی وجہ موجود ہے کہ یہ وقف کی ہوئی جائیداد ہے، خود معلومات اکٹھا کر سکے گا اور اگر اس سے متعلق کوئی سوال اٹھتا ہے کہ آیا کوئی خاص جائیداد وقف ہے یا سنی وقف ہے یا شیعہ وقف، تو اس کی جانچ کرنے کے بعد وہ جو مناسب سمجھے گا اس کا فیصلہ کر سکے گا۔
(2) ذیلی دفعہ (1) کے تحت کسی سوال پر بورڈ کا فیصلہ جب تک کہ اس کو ٹریبونل کے ذریعے منسوخ یا ترمیم نہ کیا جائے، حتمی ہوگا۔
(3) جہاں بورڈ کے پاس یہ یقین کرنے کی کوئی وجہ موجود ہے کہ انڈین ٹرسٹ ایکٹ، 1882 (1882 کا 2) یا سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ، 1860 (1860 کا 21) کے تحت یا کسی دیگر ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کسی ٹرسٹ یا سوسائٹی کی کوئی جائیداد وقف جائیداد ہے، وہاں بورڈ ایسے ایکٹ میں کسی بات کے ہوتے ہوئے بھی ایسی جائیداد کے بارے میں انکوائری کر سکے گا اور اگر ایسی انکوائری کے بعد بورڈ مطمئن ہو جائے کہ یہ جائیداد وقف کی ہوئی ہے تو ٹرسٹ یا سوسائٹی سے مطالبہ کر سکے گا کہ وہ ایسی جائیداد کو اس ایکٹ کے تحت وقف جائیداد کے طور پر رجسٹرڈ کرائے یا اس بات کی وجہ بتائے کہ ایسی جائیداد کو رجسٹر کیوں نہ کیا جائے۔ بشرطیکہ ایسے تمام معاملات میں اس ذیلی دفعہ کے تحت رجسٹر کرنے کے لیے تجویز کردہ کارروائی کی نوٹس اس اتھارٹی کو دی جائے جس کے ذریعہ ٹرسٹ یا سوسائٹی رجسٹرڈ کی گئی ہے۔
(4) بورڈ، ذیلی دفعہ (3) کے تحت جاری کردہ نوٹس کی تعمیل میں ظاہر کی جانے والی وجہ پر غور کرنے کے بعد ایسے احکامات جاری کرے گا جنہیں وہ مناسب سمجھے گا اور بورڈ کا یہ حکم حتمی ہو گا جب تک کہ وہ کسی ٹربیونل کے ذریعے منسوخ یا ترمیم نہ کیا جائے۔
اس طرح سے وقف ایکٹ کی دفعہ 40 بورڈ کو وقف املاک کی درستگی اور صداقت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتی ہے اور یہ وقف کے لحاظ سے کافی اہم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وقف بورڈ کو جب قانون کے تحت اتنا پاور ملا ہوا ہے تو پھر وہ املاک کے تحفظ میں ناکام ثابت کیوں ہورہا ہے؟ جس وقف بورڈ کے پاس ضلع انتظامیہ کو ہدایت کرنے کا حق حاصل ہے، وہ ضلع انتظامیہ کے سامنے گڑگڑاتا ہوا نظر کیوں آرہا ہے۔ وقف بورڈ کے عہدیداروں کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے کہ ہم نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے غیر قانونی قبضے ہٹانے کی گزارش کی ہے؟ ان سوالوں کا جواب تلاش کرنا ہر مسلمان مرد عورت کا فرض ہے۔ شاید ایسا اس لیے بھی ہورہا ہے کہ ہم سب لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ وقف بورڈ کا کیا کام ہے؟ شاید ہم نے اسے یاد کیا ہوتا تو آج ایسے حالات قطعی نہیں ہوتے۔
وقف بورڈ یعنی ڈکیتوں کا اڈہ!
جب ہفت روزہ دعوت نے راجیہ سبھا کے سابق ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب سے خاص بات چیت میں یہ کہا کہ وقف بورڈ کی دی گئی جانکاری کے مطابق گڑگاؤں میں کل 35 مساجد ہیں، لیکن زیادہ تر پر غیر مسلموں کے قبضے ہیں۔ تو اس پر محمد ادیب کہتے ہیں، ’وقف بورڈ مسلمانوں کے ڈکیتوں کا سب سے بڑا اڈہ ہے۔ انہوں نے ہریانہ میں وقف کی زمینیں بیچ کھائی ہیں۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ جلد ہی وقف بورڈ کے اس رویے کو لے کر ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن داخل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہریانہ وقف بورڈ سے میرا سوال ہے کہ آپ نے غیر قانونی قبضوں والی جائیدادوں پر بے دخلی کا نوٹس کیوں نہیں دیا۔ اور اگر نوٹس بھیجا ہے تو اب کی کارروائی کہاں تک پہنچی ہے؟
وقف معاملوں پر کام کرنے والے سابق چیف انکم ٹیکس کمشنر (آئی آر ایس) اکرم الجبار خان ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں کہتے ہیں کہ مئی 2018 میں جب گڑگاؤں میں نماز کا معاملہ اٹھا، تب ہی میں نے اس معاملے میں وقف بورڈ اور وقف کونسل کے ممبروں اور ذمہ داروں کو لکھا تھا لیکن آج تک کسی نے بھی مجھے اس کے متعلق جواب نہیں دیا۔ آج اگر یہ معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے تو یہ وقف بورڈ اور وقف کونسل کے نکمے پن کی وجہ سے ہے۔ کیا وقف کونسل کے ذمہ داروں کو نہیں معلوم کہ گڑگاؤں میں کیا چل رہا ہے؟ دہلی سے گڑگاؤں کے درمیان کا کتنا فاصلہ ہے؟ کیا وقف کونسل کا کوئی عہدیدار وہاں گیا اور مساجد کے اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی؟ میری نظر میں تو ایسی کوئی کوشش نظر نہیں آتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ 2018 سے یہ معاملہ چل رہا ہے۔ اگر ہریانہ وقف بورڈ نے اس معاملے کو تھوڑا سا سنجیدگی سے لیا ہوتا تو اب تک کئی شاندار مسجدیں گڑگاؤں میں بن کر تیار ہوچکی ہوتیں۔ دراصل، مسلمانوں کو وقف بورڈ سے اس بارے میں سوال پوچھنا چاہیے۔ ان کے ذمہ داروں پر مقدمہ درج کرانا چاہیے۔ ان کے خلاف عدالت جانا چاہیے۔ کیونکہ ان تمام حالات کے ذمہ دار وقف بورڈ میں بیٹھے ہوئے لوگ ہیں۔
کیا ہیں وقف بورڈ کے فرائض وذمہ داریاں؟
وقف ایکٹ کے دفعہ 32 کے مطابق، بورڈ کا فرض ہوگا کہ وہ وقف ایکٹ کے تحت اپنے اختیارات کا استعمال کرے جس سے یہ یقینی ہو جائے کہ اس کی نگرانی میں آنے والے اوقاف مناسب طریقے سے مینٹین، کنٹرول اور انتظام کیا جائے گا اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا استعمال انہی کاموں میں کیا جائے گا جس مقصد کے تحت یہ وقف بنا تھا۔
وقف بورڈ کے کچھ اہم فرائض:
1. ریکارڈ کو درست رکھنا، جس میں ہر وقف کی شروعات، آمدنی، مقصد اور استفادہ کنندگان کے بارے میں پوری جانکاری موجود ہو۔
2. یہ بات یقینی بنانا کہ اوقاف کی آمدنی اور جائیداد کا استعمال وہیں ہو رہا ہے جس مقصد کے لیے وہ وقف قائم کیا گیا تھا۔
3. اوقاف کے صحیح انتظام کے لیے ہدایات دینا۔
4. کسی وقف مینیجمنٹ کے لیے اسکیم طے کرنا، لیکن متاثرہ فریقوں کو سننے کا موقع دیے بغیر ایسا نہ کیا جائے۔
5. کسی ایسی صورت میں جہاں کسی وقف جائیداد کا مقصد معلوم نہ ہو یا وہ مقصد حاصل کرنا ممکن نہ ہو وہاں اس کی آمدنی کا استمعال غریبوں کے فائدے کے لیے یا مسلم معاشرے میں تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے۔ مگر اس کے متعلق کوئی بھی ہدایت متاثرہ فریقوں کو سننے کا موقع دیے بغیر نہیں دی جائے گی۔
6. متولیوں کے ذریعے پیش کردہ بجٹ کی جانچ پڑتال، منظوری اور اوقاف کے اکاؤنٹ کے آڈٹ کا بندوبست کرنا۔
7. متولی کو مقرر کرنے اور انہیں ہٹانے کا حق بورڈ کے پاس ہوگا۔
8. وقف کی کھوئی ہوئی جائیدادوں کی بازیابی کے لیے اقدامات کرنا
9. عدالتوں میں اوقاف سے متعلق معاملات کو لے جانا اور ان کا دفاع کرنا۔
10. وقف ایکٹ کے تحت بنائے گئے قواعد کے مطابق وقف کی کسی غیر منقولہ جائیداد کو لیز پر دینے کی اجازت دینا، لیکن ایسی کوئی منظوری اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک موجودہ بورڈ کے ارکان کی کم از کم دو تہائی اکثریت نے اس لیز کے حق میں اپنا ووٹ نہ دیا ہو۔
11. وقف فنڈ کا انتظام کرنا۔
12. متولیوں سے وقف کی املاک کے ریٹرنس، اعداد وشمار، اکاؤنٹس اور دیگر معلومات کا مطالبہ کرنا، جس کی بورڈ کو وقتاً فوقتاً ضرورت پڑتی ہو۔
13. وقف املاک، اکاؤنٹس، ریکارڈس یا ان سے متعلق دستاویزات کا معائنہ کرنا یا ان کا معائنہ کروانا۔
14. وقف اور اس جائیداد کی نوعیت اور حد کی چھان بین اور تعین کرنا، اور جب بھی ضروری ہو وقف املاک کا سروے کروانا۔
15. وقف اراضی یا عمارت کا بازار کے کرایے کی مناسبت سے تعین کرنا یا تعین کروانا۔
16. ان سبھی کاموں کو انجام دینا، جو اوقاف کے کنٹرول، دیکھ بھال اور انتظام کے لیے ضروری ہوں۔
اب ذرا معلوم کریں کہ آپ کی ریاست میں کیا وقف بورڈ یہ تمام کام انجام دے رہا ہے؟
آخر میں ایک کہانی یہ بھی!
گڑگاؤں کے سیکٹر 105 میں مقیم ایک شخص نے نام شائع نہ کرنے کے شرط پر ہفت روزہ دعوت کو بتایا کہ میرے گھر کے اطراف تین چار کلومیٹر کے دائرے میں کل پانچ مساجد ہیں۔ سب سے بڑی ایک مسجد میرے گھر کے قریب ہے۔ اس مسجد میں ایک ساتھ ہزار سے زائد لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ جمعہ کے دن بھی یہ مسجد پوری طرح سے نہیں پُر ہوتی ہے۔ عام دنوں میں تو زیادہ سے زیادہ 20-25 افراد ہی نماز کے لیے آتے ہیں۔ حد تو یہ یہاں کے کچھ لوگ جان بوجھ کر جمعہ کے دن وہیں کھلی اراضی میں نماز پڑھنے کے لیے جانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ہندوتوا تنظیموں کے لوگ ان کے نماز کی مخالفت کرنے آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ آفس اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے لوگ تھوڑی محنت کر کے پہلے ان مسجدوں میں نماز کے لیے آنے کی کوشش کرتے۔ ساتھ ہی آس پاس نہ جانے کتنی مسجدیں ویران پڑی ہوئی ہیں۔ دھیرے دھیرے کھنڈروں میں تبدیل ہورہی ہیں، ان کو دوبارہ آباد کرنے کی کوشش کی جاتی۔ اس پر وقف بورڈ سے سوال ہوتا کہ انہیں اس کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا ہے تو وہ اس کی دیکھ بھال کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ لیکن ہم ایسا کبھی نہیں کرتے۔
واضح رہے کہ ہفت روزہ دعوت نے مزید کچھ لوگوں سے بات کی تو یہ بات بھی سامنے آئی کہ گڑگاؤں میں زیادہ تر مسلمان کسی دوسری جگہ سے آکر یہاں کے آفسوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مزدور طبقے سے ہیں اور انہیں نماز کے لیے کافی وقت ملتا ہے۔ کئی لوگوں کے ساتھ یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ اگر انہوں نماز پڑھ کر لوٹنے میں تاخیر کی تو مالک ان کے پیسے کاٹ سکتا ہے۔ اس لیے بھی یہ لوگ دور کی کسی مسجد میں جانے کے بجائے قریب میں نماز پڑھنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
مذکورہ شخص نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے ان کے پڑوسی ان سے نماز کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کے مذہب میں صرف جمعہ کو ہی نماز پڑھی جاتی ہے؟ آپ لوگ اپنی ان مسجدوں میں کیوں نہیں جاتے؟ کھلی زمین پر ہی کیوں پڑھنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ دراصل یہ سوال وہ اس لیے بھی پوچھتے ہیں کیونکہ کچھ عرصے سے بعض لوگ باہر سے آ کر مسلمانوں کے متعلق طرح طرح کی بدگمانیاں پھیلا رہے ہیں مثلاً یہ کہ’یہ مسلمان ہر جگہ کو اللہ کی زمین بنا دینا چاہتے ہیں۔ کھلی جگہوں پر نماز پڑھنا دراصل ان کا ’زمین کا جہاد‘ ہے۔ پہلے سرکاری زمینوں پر قبضہ کرکے مسجد بنائیں گے، پھر ہمارے مندروں اور گھروں کو نشانہ بنائیں گے۔۔۔‘ وغیرہ۔ اب اس طرح کی باتوں کو سننے کے بعد وہ اپنے علاقے میں خالی مسجدوں کو دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ باہر سے آئے لوگوں کی بات شاید صحیح ہے، یہ اپنی مسجدوں میں کیوں نماز نہیں پڑھتے، کھلی جگہوں پر ہی کیوں پڑھنا چاہتے ہیں؟ اس لیے اب مقامی لوگ بھی ان مظاہروں کی حمایت کرنے لگے ہیں ۔
آج سے سات آٹھ سال قبل راقم الحروف بھی ہریانہ کے کئی علاقوں میں اسٹوریز کے لیے جا چکا ہے، تب اس نے کئی ایسی مساجد اور قلعے دیکھے تھے جس میں مویشی باندھے جارہے تھی۔ مسجد کی دیواروں پر گوبر تھوپا جارہا تھا۔ جواری یہاں بیٹھ کر جوا کھیل رہے تھے، تب راقم نے مسلمانوں کے کئی اہم رہنماؤں اور ملی تنظیموں سے اس بارے میں بات کی تھی اور کہا تھا کہ ہمیں اپنی مساجد اور قبرستانوں کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ اس کو بچانے کے لیے مہم کی شروعات کرنی چاہیے۔ لیکن اس بات کا اثر آج تک کسی پر نہیں ہوا اور نہ ہی کسی میں یہ فکر دیکھی گئی کہ ہمیں اپنی قدیم مساجد کو بچانا چاہیے۔
***
گڑگاؤں میں زیادہ تر مسلمان کسی دوسری جگہ سے آکر یہاں کے آفسوں اور فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مزدور طبقے سے ہیں اور انہیں نماز کے لیے کافی وقت ملتا ہے۔ کئی لوگوں کے ساتھ یہ بھی خطرہ رہتا ہے کہ اگر انہوں نماز پڑھ کر لوٹنے میں تاخیر کی تو مالک ان کے پیسے کاٹ سکتا ہے۔ اس لیے بھی یہ لوگ دور کی کسی مسجد میں جانے کے بجائے قریب میں نماز پڑھنا زیادہ مناسب سمجھتے ہیں۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 02 جنوری تا 08 جنوری 2022