گروگرام: ہندوتوا گروپ کے ارکان نے ایک اسکول میں کرسمس کی تقریب میں خلل ڈالا، اسٹیج پر چڑھ کر پروگرام روکا اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگائے

نئی دہلی، دسمبر 26: ہریانہ کے گروگرام ضلع کے پٹودی قصبے میں جمعہ کو ہندوتوا گروپ کے اراکین مبینہ طور پر ایک اسکول میں گھس گئے اور کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالا۔

شیئر کی گئی ویڈیوز میں سے ایک میں، ایک شخص بچوں کے ایک گروپ سے کہتا ہوا نظر آتا ہے ’’ہم عیسیٰ کی بے عزتی نہیں کرتے…لیکن میں ان بچوں کو، اگلی نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ کسی مذہب کے لالچ میں نہ آئیں، ورنہ ہندوستان کی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ آپ کو اس کی حفاظت کے لیے حلف لینا ہے۔۔۔ یہ حلف لے کر ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگائیں‘‘

ایک اور ویڈیو میں لوگوں کا ایک گروپ ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے نظر آ رہا ہے۔

اسٹیج پر نظر آنے والے شخص کی شناخت رام پردیپ پانڈے کے طور پر ہوئی ہے جو اتر پردیش کے گورکھپور کا رہنے والا ہے۔ پانڈے نے اسکرول ڈاٹ اِن کو بتایا کہ وہ 15 سے 20 دیگر لوگوں کے ساتھ تب اسکول پہنچا جب کسی نے اسے فون کرکے الزام لگایا کہ وہاں مذہبی تبدیلیاں ہورہی ہیں۔

پانڈے نے دعویٰ کیا کہ اس نے اسکول میں ہونے والی تقریب میں مسئلہ پیدا کرنے ولے علامات پر مبنی ایک کرسمس پوسٹر دیکھا۔اس نے کہا کہ گروپ نے ابتدائی طور پر اگلے آدھے گھنٹے تک تقریب کا مشاہدہ کیا، جس کے دوران یسوع مسیح کی پیدائش کی خوشی میں ایک ڈرامہ اور رقص کا انعقاد کیا گیا۔

اسکرول ڈاٹ اِن کے مطابق پانڈے نے کہا ’’ان (بچوں) کا دماغ نازک ہوتا ہے۔ جب ایسا کچھ ہوتا ہے تو بھگود گیتا، رام اور رامائن کے تئیں ان کی وفاداری ختم ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد ہم نے سوچا کہ وہ مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ ہم نے انھیں رکنے کو کہا۔ جب انھوں نے نہیں سنا تو ہم اسٹیج پر گئے اور جے شری رام کے نعرے لگائے۔‘‘

اپنی تقریر کے بعد پانڈے نے دعویٰ کیا کہ اسکول کے حکام نے پروگرام ختم کر دیا۔

پٹودی پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر نے بتایا کہ یہ واقعہ ایک مقامی اسکول میں ہوا نہ کہ چرچ میں جیسا کہ پہلے بتایا گیا تھا۔

پولیس نے واقعے کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد اس کی صداقت کی تصدیق کی۔ تاہم پولیس افسر نے مزید کہا کہ ’’کوئی شکایت درج نہیں ہوئی ہے۔ سب کچھ پرامن ہے۔‘‘

ایک مقامی پادری نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ یہ واقعہ خوف ناک تھا کیوں کہ وہاں خواتین اور بچے بھی موجود تھے۔

پادری نے کہا ’’ہر گزرتے دن کے ساتھ پریشانی بڑھتی جا رہی ہے… یہ ہماری عبادت اور مذہب کے حق کی خلاف ورزی ہے۔‘‘

یہ واقعہ گروگرام میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے عوامی مقامات پر نماز کی ادائیگی میں خلل ڈالنے کے بارے میں جاری تنازعہ کے درمیان پیش آیا۔ انھوں نے تین ماہ سے زیادہ عرصے سے مسلمانوں کو گروگرام میں نماز جمعہ کے لیے جمع ہونے سے بار بار روکا ہے۔

ہندوتوا گروپوں کے مطالبات کو مانتے ہوئے گروگرام ضلع انتظامیہ نے گزشتہ تین مہینوں میں 37 میں سے آٹھ عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے کی اجازت واپس لے لی ہے، جنھیں نماز کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔