ہندوتوا گروپ نے کرناٹک کے ایک اسکول میں کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالا

نئی دہلی، دسمبر 26: ایک ہندوتوا گروپ کے اراکین نے ہفتے کے روز کرناٹک کے منڈیا ضلع کے پانڈواپورہ قصبے کے ایک اسکول میں کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالا۔

ایک وسیع پیمانے پر شیئر کی گئی ویڈیو میں ہندوتوا کے کارکنوں کو نرملا انگلش ہائی اسکول اور کالج کے اساتذہ پر چیختے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، اور ان سے کرسمس کی تقریبات کو روکنے کے لیے کہا جاتا ہے۔

ویڈیو میں ایک آدمی کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے ’’ہندو بچے سانتا ڈریس، میری (Mary) ڈریس پہنے ہوئے ہیں…. یہ سکول انگریزوں کے زمانے کا ہے اور یہ (ڈریس) ہمارے ملک کے لیے نہیں ہیں۔‘‘

اسکول کی ہیڈ مسٹریس کنیکا فرانسس میری نے این ڈی ٹی وی کو بتایا ’’ہندوتوا کے کارکنوں نے کہا کہ وہ ہمارے ادارے میں [ہندو دیوی] سرسوتی کی تصویر لٹکائیں گے اور ہمیں اسکول کے احاطے میں گنیش چترتھی کا تہوار منانے کا حکم بھی دیا ہے۔ انھوں نے ہم پر الزام لگایا کہ ہم مذہب تبدیل کروا رہے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ انتظامیہ نے ابتدائی طور پر کووڈ 19 کی صورت حال کی وجہ سے اس سال کرسمس نہ منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم طلبا کی جانب سے رضاکارانہ طور پر پیسے جمع کرنے اور کیک کا آرڈر دینے کے بعد انھوں نے ایک چھوٹی سی تقریب کا اہتمام کیا۔

لیکن ایک طالب علم کے والدین نے اس پر اعتراض کیا اور ہندوتوا کارکنوں کو مطلع کیا، جنھوں نے اسکول کے حکام پر عیسائیت کی تبلیغ اور کرسمس منانے کا الزام لگایا۔

پانڈواپورہ پولیس اسٹیشن کے ایک اہلکار نے دی نیوز منٹ کو بتایا کہ اس سلسلے میں کوئی شکایت درج نہیں کی گئی ہے، لیکن انھوں نے ویڈیو کی بنیاد پر ہندوتوا گروپ کے اراکین کو خبردار کیا ہے۔

اس مہینے کے شروع میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں جنوری اور نومبر کے درمیان کرناٹک میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 39 واقعات درج کیے گئے تھے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ریاست میں ہندوتوا گروپوں کی طرف سے دعائیہ اجتماعات کے دوران عیسائیوں پر پرتشدد حملوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق یونائیٹڈ کرسچن فورم، ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس اور یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ کی ایک اور حقائق تلاش کرنے والی رپورٹ نے عیسائیوں پر سب سے زیادہ حملوں والی ریاستوں کی فہرست میں کرناٹک کو تیسرے نمبر پر رکھا ہے۔

کرناٹک میں عیسائی برادری نے بھی اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ریاست کے نئے انسداد تبدیلیِ مذہب بل میں انھیں نشانہ بنایا گیا ہے۔

اس بل میں خواتین، نابالغوں اور درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کا زبردستی مذہب تبدیل کروانے پر 10 سال قید کی زیادہ سے زیادہ سزا تجویز کی گئی ہے۔

جمعرات کو کرناٹک کی قانون ساز اسمبلی نے اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے درمیان بل کو صوتی ووٹ سے منظور کر لیا۔ تاہم یہ بل ریاستی قانون ساز کونسل میں پیش نہیں کیا گیا۔

حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس فی الحال ایوان بالا میں اکثریت نہیں ہے۔ لیکن دی ہندو کے مطابق حکومت کو امید ہے کہ اس بل کو قانون ساز کونسل میں اگلے سیشن میں پیش کیا جائے گا، جب تک ایوان میں بی جے پی کی طاقت بڑھنے کی امید ہے۔