‘گجرات ماڈل کے بعد مسلمانوں کے خلاف ’آسام ماڈل

مسلمانوں کو شہریت، جائیداد اور حقوق سے محروم کرنے کے لیے قانون کا سہارا!

نور اللہ جاوید، کولکاتا

مسلم سماج کو ‘قابل نفرت’ بنانے کی ادارہ جاتی کوشش
مشن بسندھر ،مکھیہ منتری مہیلا ادمیتا ابھیان جیسی فلاحی اسکیموں میں کھلے عام مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک
کیا بھارت کا آئین مذہب کی بنیاد پر حکومتوں کو مسلمانوں کو ادارہ جاتی طور پر قومی دھارے سے الگ تھلک کرنے،ترقیاتی و فلاحی اسکیموں سے محروم کرنےاور اسمبلی اور پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ حکومت کے غیر آئینی اقدامات کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت خاموش تماشائی کیوں ہے؟آئین کی حفاظت اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ گزشتہ 77 برسوں سے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو شدید تعصبات کا سامنا ہے۔حکومتوں کی بے التفاتی اور بے توجہی کی وجہ سے ملک کے مسلمان اور پسماندہ طبقات محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف جس طریقے سے ادارہ جاتی ناانصافی و زیادتی اور انہیں حاشیہ پر دھکیلنے کی جو کوششیں کی گئی ہیں اس سے نہ صرف آئین و جمہوریت مذاق بن کررہ گیا ہے بلکہ سماجی علوم کے ماہرین یہ خدشہ ظاہر کرنے لگے ہیں کہ بھارت بتدریح مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ صورت حال’’مدر آف ڈیموکریسی‘‘ کے دعویدار ملک کے لیے باعث شرم ہے۔المیہ یہ ہے کہ آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے والے اس پر شرم محسوس کرنے کے بجائے کھلے عام اعتراف بھی کررہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز ماحول پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہے ہیں ۔اتراکھنڈ سے لے کر آسام تک ایک ہی طرح کی کہانی دہرائی جارہی ہے۔بی جے پی کی زیر اقتدار ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ میں’ہندو وائزڈ‘ سیاست کا پوسٹر بوائے بننے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے ۔ریاست کی ترقی، کسانوں اور عام لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ہر وہ اقدام کیے جارہے ہیں جن سے ملک کی دوسری بڑی اکثریت کے لیے مشکلات پیدا ہوسکیں یا پھر ان میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہو۔اتراکھنڈ میں غیر قانونی تجاوزات ہٹانے کے نام پر مساجد، مدارس اور مزارات نشانے پر ہیں۔ پیشگی نوٹس کے بغیر بلڈوزر چلائے جارہے ہیں اور ہنگامہ آرائی کی صورت میں مسلم نوجوانوں کی یکطرفہ گرفتار یاں ہوتی ہیں۔ بے قصور مسلم نوجوانوں پر فائرنگ میں پولیس بھی شامل ہے۔ ہلدوانی میں ادارہ جاتی تعصب اور دشمنی کا گھناونا کھیل کھیلا گیا۔راجستھان اور مدھیہ پردیش کے نومنتخب وزرائے اعلیٰ ’پوسٹر بوائے‘ بننے کی مقابلہ آرائی میں شامل ہوچکے ہیں۔
ایک عرصے تک ’’گجرات ماڈل‘‘ کی بہت شہرت تھی ۔ یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے ’’گجرات ماڈل ‘‘ ہمہ جہت ترقی کا نام ہے لیکن نریندر مودی کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اس گجرات ماڈل کی بات نہیں کی جاتی۔ گجرات اقتصادی طور پر مودی کے وزیر اعلیٰ بننے سے قبل ہی مضبوط ریاست تھی ۔دنیا بھر میں گجراتی تاجر پھیلے ہوئے ہیں ، زر مبادلہ بڑے پیمانے پر آنے کی وجہ سے عام لوگوں کی اقتصادی حالت مضبوط تھی لیکن مودی کے دور حکومت میں ہیومن ڈیولپمنٹ کے اعتبار سے گجرات کا ریکارڈ مایوس کن رہا ہے۔شہری اور دیہی علاقوں کی معیشت میں نمایاں فرق، معاشی ناہمواری میں بھی اضافہ ہواہے۔چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ ’گجرات ماڈل‘ ہمہ جہت ترقی کا نام نہیں تھا بلکہ ’گجرات ماڈل‘ ایک شیطانی دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست کو فروغ دینے کانام ہے۔اس میں دراصل بی جے پی کے لیے ووٹنگ بلاک کے طور پر کام کرنے کے لیے سماجی اور اقتصادی طور پر متنوع آبادی میں سے ہندو اکثریت کو تشکیل دینے اور اسے بلند کرنے کی کوشش کی گئی۔جن علاقوں میں بی جے پی کی انتخابی کامیابی کے امکانات سب سے زیادہ کم ہیں وہاں مسلمانوں اور سیکولر لبرل طبقے کو مشترکہ دشمن بنانے اوربرادریوں کو پولرائز کرنے کے لیے تشدد کا حکمت عملی کے طور پر استعمال کرنے کا نام ’’گجرات ماڈل ‘‘ ہے۔2014کے بعد ملک کے مختلف حصوں میں ’’گجرات ماڈل ‘‘کے تجربات کو دہرانے کی کوشش کی گئی مگر حالیہ برسوں میں ’’دائیں بازو کی پاپولسٹ سیاست کو فروغ دینے، مسلمانوں کو ہرطرح کی مشکلات کے لیے ذمہ دار ٹھیرانے اور انہیں حاشیہ پر دھکیلنے کے لیے آسام میں جو اقدامات کیے گئے وہ گجرات ماڈل سے زیادہ سنگین ہیں۔ بلکہ سیدھے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ آر ایس ایس اور ہندو انتہا پسند تنظیمیں اور بی جے پی حکومت آسام میں شیطانی پاپولسٹ سیاست کے جو تجربات کر رہی ہیں وہ گجرات ماڈل سے کہیں آگے ہیں ۔گجرات ماڈل کا بنیادی مقصد نریندرمودی کے دامن سے گجرات فسادات کے داغ دھونا، انہیں ملک کی ترقی کا چہرہ بنانا اور اس کے لیے ہندو معاشرے کو پولرائز کرنا تھا۔اس کی راہ میں آنے والی روکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن حربے آزمائے جاتے تھے۔ مگر ’آسام ماڈل‘ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہاں آباد34فیصد مسلمانوں کو عضو معطل کردیا جائے اور یہ صورت حال پیدا ہوجائے کہ وہ میانمار کے روہنگیائی مسلمانوں کی طرح نقل مکانی کرنے پرمجبور ہوجائیں ۔آسام میں دیسی اور باہری کے نام پر گزشتہ سات دہائیوں سے کھیل جاری ہے ۔اس میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہے۔این آر سی کی فائنل فہرست شائع ہونے کے بعد بھی اس کھیل کا سلسلہ بند ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔کئی نسلوں سے مقیم لاکھوں بنگالی شہری اپنے ہی ملک میں مذہب اور زبان کی بنیاد پرنفرت کا سامنا کررہے ہیں ۔’گجرات ماڈل‘ میں 2002کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد انتظامی تعصب اور نظر انداز کیے جانے کے باوجود مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے ان سے ترقی حاصل کرنے کے مواقع چھیننے اور ان کی اقتصادیات پر براہ راست حملے نہیں کیے گئے ۔مگر2016بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ’’لسانی عصبیت ‘‘ کی جنگ میں جھلسنے والے آسام میں ثقافتی، لسانی اختلافات کی جگہ مذہبی اختلافات پیدا کرنے کے لیے بنگالی بنام آسامی کو ہندو بنام مسلم کردیا گیا۔ یہ آر ایس ایس کی دیرینہ سازش تھی اور 80کی دہائی سے ہی اس پروجیکٹ پر کام کا آغاز ہوگیا تھا چنانچہ 1983میں آسام کے ضلع نیلی میں قبائلیوں کے ہاتھوں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کرایا گیا۔’’نیلی قتل عام‘‘ 2002میں ہونے والے گجرات قتل عام سے زیادہ بھیانک اور سنگین تھا، فرق صرف یہ ہے کہ مودی کی مقبولیت کے باوجود گجرات کے قتل عام پر باتیں ہوتی ہیں ، اس کا جن وقتاً فوقتاً بوتل سے باہر آتا رہتا ہے۔گجرات فسادات کے ملزمین کو سزائیں بھی ملیں ،کمیشن کے سامنے مودی کو بھی پیش ہونا پڑا،امیت شاہ کو سپریم کورٹ کی تنقیدوں کا سامنا اور گجرات میں دربدری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔گجرات فسادات پر کتابیں ، تحقیقیں ، دستاویزی فلمیں بھی بنائی گئیں ۔’’بی بی سی کی ڈاکیومنٹری‘‘ تو حال ہی میں آئی ہے۔مگر نیلی قتل عام کے ایک بھی مجرم کو سزا نہیں ملی۔نہ کتابیں لکھی گئیں اور نہ ہی نیلی کے مظلوموں کا درد دنیا کے سامنے آسکا۔اس لیے آج ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو قابل نفرت قوم بنانے کے لیے جس ’’آسام ماڈل‘‘ کی تشکیل ہوئی ہے اس کا مطالعہ اور تجزیہ کیا جائے اور اس کی سنگینی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ آسام کے مسلمانوں کوروہنگیائی قوم بننے سے روکا جاسکے ۔آج کہا جارہا ہے کہ بھارت دھیمی رفتار سے ہی تانا شاہی اور مسلمانوں کے قتل عام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آسام میں میانمار کے تجربات کو دہرانے اور آسام میں آباد مسلمانوں کو روہنگیائی مسلمانوں کی طرح درد بدری پر مجبور کرنے کے ہائبرڈ پروجیکٹ پر تیزی سے کام ہورہا ہے ۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمانتا بسوا سرما آسام میں ’ہندوائزڈ‘ سیاست کے پوسٹر بوائے کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کا کرشماتی اثر زیادہ تر مسلم مخالف جارحانہ سیاست پر منحصر ہے۔انہیں اپنی ’بہتر کارکردگی‘ کی وجہ سے قومی سیاست میں جگہ نہیں مل رہی ہے بلکہ وہ مسلم مخالف جارحانہ پالیسی کی وجہ سے مسلسل سرخیوں میں ہیں اور ہندوؤں میں مقبول بھی ہیں اور میڈیا میں ان کی پذیرائی بھی ہے۔وہ تقسیم کی سیاست میں کس قدر یقین رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے ہے کہ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کو انہوں نے ’’میاں ‘‘کی ریلی قرار دے دیا۔ بحیثیت وزیراعلیٰ ان کے بیشتر اقدامات تقسیم کی سیاست کی عکاسی کرتے ہیں۔چاہے وہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدرسوں کے خلاف کارروائی ہو یا پھر خانگی مدارس پر لگام کسنے کے اقدامات یا کم عمری کی شادی اور سرکاری زمین کوخالی کرانے کی کارروائی ہو، ہرجگہ وہ جارحانہ مسلم مخالف رویے ہی کو پیش کرتے ہیں ۔’’یہی وہ آسام ماڈل‘‘ ہےجہاں کھلے عام مسلم دشمنی کو قانونی درجہ دیا جارہا ہے۔حالیہ برسوں میں آسام کی بی جے پی حکومت نے مسلمانوں کے خلاف جو اقدامات کیے ہیں اس کا مختصر تجزیہ ذیل میں پیش کی جارہا ہے تاکہ آئین اور قانوں کی پروا کیے بغیر مسلمانوں کے خلاف آسامی ہندوؤں میں نفرت پیدا کرنے ، مسلمانوں کو الگ تھلک کرنے کے لیے حکومتی سطح پر جو اقدامات کیے گئے ہیں ان سے ’آسام ماڈل‘ کی کیفیت کا اندازہ ہوجائے۔
مسلم شادی اور طلاق کے اندراج 1935 ایکٹ کی منسوخی
جمعہ کی شام23فروری 2024کو آسام کابینہ نےمسلم شادی اور طلاق کے اندراج ایکٹ 1935 کو ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے دو تاثر دینے کی کوشش کی۔ ایک یہ کہ آسام میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی طرف پہلا قدم ہے اور دوسرا یہ کہ اس ایکٹ کے خاتمے کے بعد بچپن کی شادی ختم ہوجائے گی ۔گزشتہ سال آسام میں بڑے پیمانے پر بچپن کی شادی کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تھا جس میں زیادہ تر مسلم جوڑوں کے خلاف کارروائی ہوئی ۔مسلم شادی اور طلاق کے اندراج ایکٹ 1935 کو منسوخ کرتے ہوئے تمام متعلقہ ڈی سی اور ضلعی رجسٹراروں کو مسلمانوں کی شادی اور طلاق کے معاملے کی ’’اسپیشل میرج ایکٹ ‘‘ کے تحت رجسٹرڈ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔
آسام حکومت کی دلیل ہے کہ یہ صوبہ آسام کے لیے انگریزوں کادیا ہوا آزادی سے پہلے کا ایک فرسودہ قانون ہے۔ اس ایکٹ کے مطابق شادیوں اور طلاقوں کی رجسٹریشن لازمی نہیں ہے اور رجسٹریشن کی مشینری غیر رسمی ہے جس سے موجودہ اصولوں کی عدم تعمیل کی کافی گنجائش باقی ہے۔ ایکٹ کی دفعات کے مطابق 21 سال سے کم عمر کے افراد (مردوں کے لیے) اور 18 سال (خواتین کے لیے) کی شادی کو رجسٹر کرنے کی گنجائش باقی ہے اور اس ایکٹ کے نفاذ کی کوئی نگرانی نہیں ہے۔مسلم شادی اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ ، 1935 کے تحت کام کرنے والے تمام 94 رجسٹراروں کو ایک بار دو لاکھ روپے مدد کے طور پر دی جائے گی کیوں کہ اس ایکٹ کے خاتمہ کے بعدیہ تمام رجسٹرار بے روزگار ہوجائیں گے ۔پہلے یہ کہا جارہاتھا کہ آسام میں جلد ہی ’’یکساں سول کوڈ ‘‘نافذ ہونے والا ہے ۔مگر اتراکھنڈ میں جس طریقے کا ’’یکساں سول کوڈ‘‘ لایا گیا ہے وہ اپنے آپ میں مذاق بن گیا ۔اس لیے ایسا لگتا ہے کہ آسام حکومت نے جلد بازی میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے قبل ’’اس ایکٹ کے خاتمہ کا فیصلہ کیا ہےتاکہ لوک سبھا انتخابات میں ہندو ووٹوں کو اس کے نام پر پولرائز کیا جاسکے۔مگر کئی سوالا ت ہیں جن کا جواب جاننا ضروری ہے ۔کیا اس ایکٹ میں بچپن کی شادی کی اجازت دی گئی تھی؟ کیا اس ایکٹ کے خاتمے کے بعد بچپن کی شادی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا؟تیسر اسوال یہ ہے کہ جس طریقے سے آسام کابینہ نے اسمبلی میں بل لائے بغیر کابینہ کے ذریعہ اس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا، کیا اس قسم کی منسوخی کا کوئی قانونی جواز ہے؟مگر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا بچپن کی شادی صرف مسلم سماج میں ہوتی ہے؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمانتا بسوا سرما اور ان کےوزرا نے بار بار کہا ہے کہ آسام میں آبادی میں اضافے کا خطرہ ایٹم بم کی طرح ہے، اس کے لیے کئی سطحوں پر اقدامات کی ضرورت ہے۔پہلے بچپن کی شادی پر روک تھام لگائی جائے ، دوسے زائد بچوں کی پیدائش کی حوصلہ شکنی کی جائے اور تعدد ازدواج کے خلاف قانونی کارروائی ہو۔اس کے ساتھ ہی یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ یہ تمام برائیاں مسلم سماج میں سب سے زیادہ ہیں۔تاہم فیملی ہیلتھ پلاننگ ، مردم شماری اور دیگرحکومتی اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ مسلم سماج میں بچپن کی شادی، ایک سے زائد شادی کی شرح دیگر سماج کے مقابلے میں کافی کم ہے۔جہاں تک آبادی میں اضافے کا سوال ہے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ دہائی میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح سب سے کم ہوئی ہے۔چنانچہ آسام حکومت نے تعدد ازدواج ، بچپن کی شادی اور ایک سے زائد شادی کے خلاف براہ راست قانون سازی کرنے کے بجائےایسے اقدامات کیے ہیں جن کے نام پر پولرائزیشن ہوسکے۔
آسام ملت فاؤنڈیشن کے صدر جنید خالد کہتے ہیں کہ اگر حکومت کم عمری کی شادی کو روکنے کے لیے سنجیدہ ہوتی تووہ اس ایکٹ میں ترمیم کرتی اور یہ بات بھی شامل کرتی کہ اس ایکٹ کے تحت صرف قانونی عمر کے تحت شادی کرنے والے دلہا اور دلہنوں کی شادیاں ہوسکتی ہیں۔اوراس ایکٹ کی مکمل منسوخی کے نتیجے میں صرف غیر رجسٹرڈ شادیاں ہونے کےامکان میں مزید اضافہ ہوگا ۔کانگریس سے تعلق رکھنے والے کلکتہ ہائی کورٹ کے وکیل امام ودود کہتے ہیں کہ اس ایکٹ کے تحت مسلمانوں کے لیے شادی کے رجسٹریشن کے عمل کو آسان بنایا جاتا ہے۔اس کے لیے ریاست بھر میں 94 قاضی ہیں ۔اب اگر مسلم میرج ایکٹ کو ختم کرکے ’’اسپیشل میرج ایکٹ‘‘ کے تحت شادی کو رجسٹرڈ کرنے کو لازمی کیا جارہا ہے تواس کے لیے نوڈل آفس ضلع کمشنر کو ذمہ داری دی گئی ہے جس کے لیے ایک ماہ قبل نوٹس کی مدت ہے ، زیادہ سے زیادہ دستاویزات جمع کرانے ہوں گے اور یہ ایک پیچیدہ عمل بھی ہے۔ غریب، ناخواندہ اور پسماندہ افراد کے لیے یہ ایک مشکل ترین معاملہ ہوجائےگا ۔
اے یو ڈی ایف کے ممبر اسمبلی مولانا رفیق قاسمی کہتے ہیں کہ ’’پہلے یہ یکساں سول کوڈکے نفاذ کی بات کرتے تھے مگر اتراکھنڈ میں فضیحت کے بعد انہوں نے پولرائزیشن اور بھرم پیدا کرنے کے لیے اس ایکٹ کو رد کیا ہے۔لوک سبھا انتخابات سے قبل یہ عمل بھرم پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔کیوں کہ یہ جانتے ہیں کہ ایک سے زائد شادی اور بچپن میں شادی کا رواج مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں میں ہے لیکن اس پر قانون سازی سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔رفیق الاسلام قاسمی سوال کرتے ہیں کہ کیا کابینہ کے پاس اس ایکٹ کو ختم کرنے کے اختیارات ہیں؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اس ایکٹ کا خاتمہ قانون سازی کے بغیر نہیں ہوسکتا جس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت بحث و مباحثہ سے گریز کر رہی ہے۔
فلیگ شپ اسکیم مشن بسندھرا میں مسلمان نظرانداز :
آسام میں بے زمین خاندانوں کو زمین الاٹ منٹ کرنے کے لیے ’’مشن بسندھرا اسکیم ‘‘ کی شروعات کی گئی تھی ۔11؍ نومبر 2022 کو جاری کردہ ریاستی محکمہ محصولات کے نوٹیفکیشن کے مطابق ایک شخص جس کا خاندان یکم جنوری تک گزشتہ تین نسلوں یا اس سے زیادہ عرصے سے مسلسل ریاست میں مقیم ہے۔ 2022، زمین کی آبادکاری حاصل کرنے کے لیے مقامی شخص کے طور پر شمار کیا جائے گااور وہ زمین الاٹمنٹ کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ یہ پوری اسکیم مذہبی تعصب کی نذر ہوچکی ہے۔مشن بسندھرا کے دوسرے مرحلے میں، حکومت کو زمین کے ٹائٹل کے لیے 13.93لاکھ درخواستیں موصول ہوئیں۔ جس میں 2.29لاکھ افراد کو زمین کا حق دیا گیا ہے۔بسندھرا ڈیش بورڈ پر اپ لوڈ کردہ اعداد و شمار اور ریاستی اسمبلی میں ریاستی محصولات کے وزیر کے بیانات کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ بنگالی نژاد مسلمانوں کی بڑی آبادی والے اضلاع میں مسترد ہونے والے درخواستوں کی شرح بالائی آسام کے اضلاع سے کافی زیادہ ہے(جہاں آسامی النسل اور قبائلیوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے) اسی مہینے 14؍ فروری کو وزیر اعلیٰ ہیمانت بسوا سرما نے اسمبلی میں اعلان کیا کہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے قبائل، آدیواسیوں اور گورکھا برادریوں کو مشن بسندھرا کے آنے والے ورژن میں آسام میں تین نسلوں سے اپنی رہائش گاہ کو ثابت کرنے والے دستاویزات پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ ہم مشن بسندھرا کے تیسرے مرحلے میں دستا ویزات طلب کیے بغیر ان دونوں برادریوں کو زمین الاٹ کریں گے۔دوسری طرف وہ اسمبلی میں کہتے ہیں کہ بنگالی مسلمان مقامی نہیں ہیں اور وہ اس کے مستحق نہیں ہیں۔
اس اسکیم کے تحت تعصب اور امتیازی سلوک کس طریقے سے برتا جارہا ہے اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ضلع دھیماجی جہاں آسامی النسل برادریوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے وہاں 40فیصد درخواست دہندگان کو زمین الاٹ کردی گئی ہے۔ 70لاکھ دس ہزار درخواست دہندگان میں سے 43,580 درخواست دہندگان کو منتخب کیا گیا۔اسی طرح ضلع ڈوبروگڑھ میں 38.5فیصد اور تین ضلع سوکھیا میں 36.4فیصد درخواست دہندگان کو زمین دے دی گئی ہے ۔اس کے برعکس مسلم اکثریتی ضلع بارپیٹا میں صرف 0.32فیصد درخواست دہندگان کو زمین الاٹ کی گئی ہے۔کل 35,246 درخواست دہندگان میں سے صرف 82 افراد کو زمین الاٹ کی گئی ہے ۔اسی طرح مسلم اکثریتی ضلع دھوبری میں کل77,180درخواست دہندگان میں سے صرف دو فیصد ہی زمین کے ٹائٹل کے لیے اہل قرار دیے گئے۔بارک ویلی کے مسلم اکثریتی ضلع کریم گنج میں کل13,361درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے محض 383 لوگوں کو مشن بسندھرا 2.0 کے تحت زمین دی گئی۔ ان میں سے صرف 01 مسلمان تھے۔ مشن بسندھرا 2.0 کے تحت، بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل مغربی آسامی ضلع، جس کی تقریباً 95 فیصد مسلم آبادی ہے، جنوبی سلمارا-مانکاچار میں ایک بھی درخواست دہندہ کو زمین کے ٹائٹل کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔جنوبی سلمارا مانکاچار ریاست کے سب سے زیادہ کٹاؤ سے متاثرہ اضلاع میں سے ایک ہے۔ اس کے ہزاروں مکین کچی رہائش گاہوں میں رہتے ہیں اور اپنی زمینوں کے کٹاؤ کی وجہ سے برسوں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔مگر انہیں اس اسکیم کے تحت کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
یا د رہے کہ 2016میں بی جے پی پہلی مرتبہ آسام میں اقتدار میں آئی تھی ، سربانند سونووال وزیر اعلیٰ بنائے گئے ۔انہوں نے سرکاری زمین خالی کرانے کی مہم شروع کی ۔جس میں غیر متناسب طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مئی 2016 سے جولائی 2021 کے درمیان تقریباً4 ,700 خاندانوں سے زمین لے لی گئی تھی ان میں زیادہ تر مسلمان تھے۔اور افسوس کہ اسی بے دخلی مہم کے احتجاج کے دوران مسلم نوجوان کی موت پر ایک متعصب فوٹو گرافر کے رقص کی تصویر پوری دنیا میں بھارت کی شرمندگی کاذریعہ بھی بن چکی ہے۔مئی 2021میں دوسری مرتبہ بی جے پی اقتدار میں آئی اور ہیمانت بسوا سرما وزیر اعلیٰ بنائے گئے جس کے بعد انہوں نے اس مہم کو متشدد بنایا۔2021سے فروری2024کے درمیان 9,200سے زیادہ خاندان جن میں زیادہ تر مسلم نژاد بنگالی تھے، سرکاری زمین پر مبینہ طور پر قبضہ کرنے کے الزام میں بے دخل کردیے گئے ۔ ڈھل پور کی بے دخلی کے معاملے میں حکومت نے تقریباً 1000سے زیادہ مسلم کسانوں سے زمین چھین لی جب کہ وہ کئی نسلوں سے اس پر کاشت کر رہے تھےاور پھر حکومت نے انہیں بے دخل کرکے ’’کمیونٹی فارمنگ پروجیکٹ ‘‘کے تحت یہ زمین آسامی النسل افراد کے حوالے کردی ۔
ہیمانت بسوا سرما مسلمانوں کو آسامی اور بنگالی کے درمیان تقسیم کرنے کے لیے 2022 میں ریاست کے تقریباً 40 لاکھ آسامی بولنے والے پانچ مسلم گروپوں کو دیسی کا درجہ دیا تھا مگر مشن بسندھرا اسکیم کے تحت گوریا، موریہ اور دیسی مسلم برادری کو بھی زمین نہیں مل رہی ہے۔آسامی النسل مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم’ سادو آسوم گوریہ موریہ دیشی پریشد‘ کےمطابق 1,500مسلمانوں نے مشن بسندھرا 2.0 کے تحت زمین کے ٹائٹل کے لیے درخواست دی تھی لیکن انہیں اسکیم کے تحت زمین نہیں مل رہی ہے۔انگریزی ویب سائٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق دیسی مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی بہت سی درخواستوں کو سرکل آفیسر نے منظور کیا تھا کیونکہ وہ اہل معیار پر پورا اترتے تھے۔تاہم، درخواستوں کو مسترد کرنے کے لیے اعلیٰ حکام کی طرف سے دباؤ اور احکامات کی وجہ سے انہیں پھر سے محروم کردیا گیا ۔باگبار سےممبر اسمبلی شرمن علی احمد نےکہتے ہیں کہ ’’بسندھرا کے تحت مسلمانوں کو زمین دینے سے انکار صرف ایک واقعہ ہےمگر اصل مقصد مسلمانوں کو قومی دھارے سے الگ کرنا ہے۔ آسوم مالا کے تحت ایک بھی سڑک (ریاستی شاہراہوں اور ضلعی سڑکوں کو تیار کرنے کا پروگرام) ایک بھی مسلم علاقے میں مختص نہیں کیا گیا ہے،‘‘۔دراصل یہ تمام اقدامات مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہیں ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 3 مارچ تا 9 مارچ 2024