گجرات :مہنگائی اور بیروزگاری کی ڈبل انجن سرکار
ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے ہندو ۔ مسلم کارڈ کا سہارا
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
گجرات کی انتخابی مہم کا بگل خود وزیر اعظم نے زلزلہ زدہ بھج میں جاکر بجادیا ۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گجرات کے فسادات وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی زندگی کا سب سے اہم موڑ ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل بھج کا زلزلہ ہے۔ اس وقت بی جے پی کے کیشو بھائی پٹیل گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے اور انہوں نے نریندر مودی کا دیس نکالا کر رکھا تھا ۔ مودی دہلی سےلے کر امریکہ تک کی خاک چھانتے تھے لیکن گجرات کے اندر ان کی دال نہیں گلتی تھی۔ اس زلزلہ کے بعد بازآباد کاری میں بری طرح ناکامی نے کیشو بھائی پٹیل کی ہوا اکھاڑ دی اور مودی جی کی قسمت کھل گئی۔ زلزلے کے بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بی جے پی کی شکست اور کانگریس کی کامیابی نے بی جے پی کے اندر زلزلہ برپا کردیا۔ اس کے نتیجے میں کیشو بھائی پٹیل کو ہٹا کر نریندر مودی پر داو لگانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ مودی نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے کر انتخاب جیت لیا ۔ بھج زلزلہ کے سبب کیشو بھائی کو ہٹاکر اگر مودی کو وزیر اعلیٰ نہیں بنایا جاتا تو انہیں سابرمتی ایکسپریس کی آگ کو ریاست بھر میں پھیلا کر اپنے قدم جمانے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ اس لیے یہ سانحہ مودی کی سیاسی زندگی میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے اس بار انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے اسی علاقہ میں کہا کہ 2001 کے گجرات زلزلے کے بعد کچھ لوگوں نے بھج کو مکمل طور پر ختم سمجھ لیاتھا اور یہ کہا تھا کہ اب اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات خودمودی کے بارے میں بھی درست ہے کیونکہ اس وقت بہت سارے لوگ یہ سوچنے لگے تھے کہ ان کی سیاسی زندگی اختتام پذیر ہوچکی ہے اور اب کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔ اپنے خطاب میں آگے مودی جی نے کہا ایسا شبہ کرنے والوں کو بھج کے جوش و خروش کا اندازہ نہیں تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھڑاہوگیا اورآج ملک کے سب سے تیزی سے ترقی کرنے والے اضلاع میں سےشامل ہے۔ مودی کے ساتھ یہی ہوا لوگ ان کے جوش و خروش کا اندازہ نہیں لگا سکے نیز جیسے ہی انہیں موقع ملا تیزی سے ترقی کرتے ہوئے وہ وزیر اعظم بن گئے ۔ مودی بھج کو زمین پر گرکر اٹھنے کی ایک شاندار کہانی بتاتے ہیں جبکہ یہ بات خود ان پر بھی صادق آتی ہے۔
وزیر اعظم مودی کے مطابق اس کامیابی کے پیچھے ضلع کچھّ کے لوگوں کا جوش اور دو دہائیوں کی انتھک محنت ہےمگر مودی کی کامیابی کے پیچھے محنت کے ساتھ عیاری و مکاری کا بھی اہم کردار ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جو شخص پانچ سال کے اندر ملک کو ترقی یافتہ بنانے کاوعدہ کرکے آیا تھا وہ آٹھ سال بعد مزید پچیس سال مانگ رہا ہے اور ڈھٹائی کے ساتھ کہتا ہے کہ ہندوستان 2047ء میں ترقی یافتہ ملک ہوگا۔ انسان جو مرضی میں آئے کہنے کے لیے آزاد ہے مگر اس پر تالی بجانے کی مجبوری تو عوام پر نہیں ہے ۔ بھلا ہو اندھے مقلدین کا جن کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ وہ تالیوں کی گڑگڑاہٹ سن کر بغیر کچھ سوچے سمجھے اتباع کرنے لگتے ہیں، اور یہی مودی کی مسلسل انتخابی کامیابی کا راز ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ 2001ء کے خوفناک زلزلہ کی تباہی کے بعد انہوں نے ضلع کو ترقی دینے کا وعدہ کیا تھا اور 2022ء میں وہ پورا ہو چکا ہے۔ اب 2047ء تک وہ ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا وعدہ کررہے ہیں ۔ مودی جی بھول گئے کہ اس وقت ان کی عمر 97؍سال ہوگی ۔ کیا وہ اس کبر سنی تک اقتدار پر فائز رہ کر ملک کو ترقی یافتہ بنا پائیں گے؟ وزیر اعظم نے اس موقع پر 470 ایکڑ رقبہ پر محیط ایک یادگاری میوزیم کا افتتاح کیا جس پر زلزلہ میں ہلاک ہونے والے تقریبا 13,000 افراد کے نام درج ہیں۔ انسان کا معاملہ بھی عجیب ہے کہ وہ اپنے سے قبل مرنے والوں کو تو یاد کرتا ہے مگر خود اپنی موت کو بھول جاتا ہے۔
ریاستی انتخاب نے وزیر اعظم نریندر مودی کو زلزلے کی یاد دلائی ورنہ تو وہ اسے بھول ہی گئے تھے ۔ اس افتتاح سے قبل وزیراعظم نے 5 ہزار کروڑ کے نئے پراجکٹس کا سنگ بنیاد رکھا اور بعد میں روڈ شو کیا۔ اس طرح آگے پیچھے انتخاب اور درمیان میں زلزلے کے سبب مرنے والوں کی یاد۔ اسی کو لاشوں کی سیاست کہتے ہیں۔ وہ لاشیں کبھی زلزلے میں مرنے والوں کی ہوتی ہیں تو کبھی فساد میں ہلاک ہونے والوں کی مگر سیاست تو سیاست ہی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم کو فی الحال اروند کیجریوال کی مفت اسکیموں پر بڑا اعتراض ہے۔ وہ اسے ریوڑی کہہ کر ان کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ انتخاب سے قبل نت نئے پراجکٹس کا سنگ بنیاد رکھنا اور اول فول قسم کے وعدے کرنا کیا ہے؟ مودی اور کیجریوال کی ریوڑی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مودی کے وعدے ہوا میں اڑنے والے رنگ برنگے غباروں کی طرح ہوتے ہیں جن کے پیچھے عام لوگ زندگی بھر بھاگتے رہتے ہیں مگر ہاتھ آتے ہی فوراً پچک جاتےہیں ۔ یہ غبارے ان سرمایہ داروں کو براہِ راست فائدہ پہنچاتے ہیں جن کو اس کے ٹھیکے ملتے ہیں جبکہ کیجریوال کی ریوڑیاں زمینی سطح پر عام لوگوں کو فائدہ پہنچاتی ہیں ۔
جمہوریت کے علاوہ ملوکیت میں بھی بادشاہ اپنی مقبولیت میں اضافہ کی خاطر ریوڑیاں بانٹتے تھے ۔ علاؤالدین خلجی اپنے چچا جلال الدین خلجی کوٹھکانے لگا کر اقتدار پر فائز ہوا تو عام لوگوں میں قبول عام حاصل کرنے کے لیے اس نے ایک چھوٹی توپ بنوائی تھی۔ اس کا قیام جہاں بھی ہوتا اس کے اطراف لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو جاتا تھا۔ انہیں خوش کرنے کی خاطر وہ اپنی توپ میں سکے بھر کر لوگوں کی جانب اچھال دیتا تھا ۔ لوگ ان سکوں پر ٹوٹ پڑتے اور اس طرح جلال الدین خلجی کو بھول کر علاؤالدین خلجی کے حامی ہو جاتے۔ مودی جی سکوں کے بجائے سپنے اچھالتے ہیں اور غافل عوام ان کے پیچھے دوڑنے لگتے ہیں ۔ کیجریوال ریوڑیاں اچھالتے ہیں اور لوگ انہیں حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر گرنے لگتے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ ملک کے عوام کب تک ان خیالی ریوڑیوں سے دل بہلاتے رہیں گے اور کبھی حقیقت کی دنیا میں قدم رکھیں گے بھی یا نہیں؟ مثلاً مودی جی نے بھج کے اندر کھادی کی صنعت میں آٹھ گنا اضافہ کا دعویٰ کیا اگر ایسا ہے تو ترنگا بنانے کی خاطر چین اور امبانی سے پولیسٹر خریدنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
وزیر اعظم نے وہاں سے لوٹ کر گاندھی نگر میں سوزوکی کی 40 سالہ تقریب سے خطاب کیا۔ اتفاق سے اس وقت گجرات میں بی جے پی کی سرکار نہیں تھی ورنہ اس کا سہرا بھی وہ اپنے سر پر باندھ لیتے جیسا کہ انہوں نے دعویٰ کیا کی بھج کے زلزلے کے وقت وہ وزیر اعلیٰ نہیں تھے پھر بھی ایک عام کارکن کی حیثیت سے دوسرے ہی دن بھج پہنچ گئے تھے۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ وہ کیسے اور کتنے لوگوں کی مدد کر سکیں گے لیکن انہوں نے لوگوں کے درمیان رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعید نہیں کہ اس کی تصدیق کے دوران واڈ نگر اسٹیشن کی چائے یاد آجائے جس کا وجود مشکوک ہے۔ اس تقریب کے دوران وزیر اعظم نے پانچ سال پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا کہ ملک اور دنیا میں گجرات کو بدنام کرنے اور ریاست میں سرمایہ کاری روکنے کی پے در پے سازشیں رچی گئیں حالانکہ گجرات کسی سازش کے تحت بدنام نہیں ہوا بلکہ ان کی نااہلی کے سبب فسادات کے پھیلنے کی وجہ سے دنیا بھر میں وہ تنقید کا نشانہ بنا ۔ بلقیس بانو کے مجرمین کو رہا کرکے ان کی سرکار نے گجرات کے نام پر پھر سے بٹاّ لگادیا ہے۔ اس سے قبل 2017میں تو مودی نے بی جے پی کے خلاف منموہن سنگھ پرپاکستان سے مل کر سازش کرنے کا سنگین الزام بھی لگادیا تھا جو انتخاب کے بعد اوندھے منہ گرگیا۔
گجرات میں انتخابی ہوا سازی کے لیے حال میں ایک سروے کرایا گیا ۔ اس میں خود گودی میڈیا نے کچھ ایسے انکشافات کردیے کہ اس کو گوگل سے غائب کر دیا گیا ۔ اس کی تفصیل ای ٹی جی ریسرچ نامی سروے کرنے والوں کی ویب سائٹ پر بھی موجود نہیں ہے ہاں ٹائمز ناو کی کچھ ویڈیوز کو ہنوز ہٹایا نہیں گیاہے، بعید نہیں کہ بہت جلد وہاں سے بھی اسے غائب کردیا جائے۔ اس جائزے کے مطابق اگر آج انتخاب ہوجائیں تو بی جے پی کو 115-125نشستوں پر کامیابی مل سکتی ہے۔ کانگریس 39-44 کے درمیان سمٹ جائے گی اور عآپ کو 13-18 سیٹیں ملیں گی دیگر لوگ صرف 2-4 سیٹ جیت سکیں گے۔ یہ عجیب و غریب نتائج ہیں کیونکہ جب رائے دہندگان سے سوال کیا گیا کہ انتخاب میں سب سے اہم موضوع کیا ہے تو 49 فیصد لوگوں کے نزدیک وہ مہنگائی تھا ۔ اس میں کیا شک ہے کہ گجرات کی ڈبل انجن سرکار اس کے لیے ذمہ دار ہے۔
سوال یہ ہے کیا لوگ ووٹ دیتے وقت اسے بھول جائیں گے؟ اس کے بعد دوسرے نمبر پر 26 فیصد لوگوں کے نزدیک بیروزگاری اہم ترین مسئلہ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس عفریت کی بھی براہ راست ذمہ داری بی جے پی پر آتی ہے۔ مہنگائی کے خلاف کانگریس نے 4 ستمبر کو دہلی میں ایک میگاریلی کا اہتمام کیا ہے اس کے خلاف عوام میں بیداری پیدا کی جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ گجرات کے رائے دہندگان اس سے کتنے متاثر ہوتے ہیں۔ مہنگائی اور بیروز گاری کے خلاف کانگریس کی ملک گیر مہم بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ گجرات کی ترقی کا جو ڈھول پیٹا جاتا ہے وہ صرف 14 فیصد لوگوں کے نزدیک اہم ہے اور ذات پات و مذہب کو محض 11 فیصد لوگ اہمیت دیتے ہیں ۔ بی جے پی کے پسندیدہ موضوعات کو پچیس فیصد سے زیادہ لوگ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے باوجود 42 فیصد لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ ہندو مسلم منافرت کا کھیل انتخاب پر چھا جائے گا۔ سوال یہ ہے جس مسئلے کو 11فیصد لوگ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں وہ 42 فیصد لوگوں کے نزدیک انتخاب پر کیونکر چھا جائے گا؟ جواب یہ ہے کہ یہ ذرائع ابلاغ کا کمال اور افواہوں کی سیاست ہے جو رائے دہندگان کو باولا کردیتی ہے۔ گجرات کے 29فیصدووٹرس کو نہیں لگتا کہ فرقہ پرستی انتخابات پر حاوی ہوجائے گی اور 10 فیصد کے مطابق یہ ہو سکتا ہے۔ اس بابت 19 فیصد لوگ کچھ کہنے کی حالت میں نہیں ہیں۔ بلقیس بانو کا مسئلہ اچھال کر انتخاب جیتنے کا خواب دیکھنے والی بی جے پی کے لیے یہ اچھی خبر نہیں ہے۔ پچھلے پچیس سالوں سے گجرات میں بی جے پی کا راج ہے اس کے باوجود جب لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے اپنے وعدے پورے کیے تو 45 فیصد نے مثبت جواب دیا مگر منفی جواب دینے والے بھی 39 فیصد ہیں جبکہ 16 فیصد خاموش ہیں یعنی گودی میڈیا کے جائزے میں بھی اکثریت نے وعدہ پورا کرنے کے حق میں رائے نہیں دی ۔ وزیر اعظم مودی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے بعد کانگریس کو ان کی ہمدرد بناکر پیش کیا ۔ اس کے سبب بی جے پی سے ناراض رائے دہندگان نے بھی کوئی متبادل موجود نہ ہونے کے سبب اسی کو ووٹ دیا ۔ اب عوام کے سامنے عام آدمی پارٹی کی شکل میں ایک ہندو نواز متبادل موجود ہے اس لیے بعید نہیں کہ لوہا لوہے کو کاٹے اور بی جے پی سے ناراض ہندو عام آدمی پارٹی کو ووٹ دیں۔ گجرات میں فی الحال ایک تھوڑی بہت مسلم نواز کانگریس، ہندو نواز مگر مسلمانوں کی غیر مخالف عآپ اور مسلم مخالف بی جے پی زور آزمائی کررہے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے کہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کی مخلوط حکومت گجرات میں بن جائے۔
وزیر اعظم کے ذریعہ باقاعدہ انتخابی مہم کا افتتاح تو ابھی ہوا ہے لیکن غیر رسمی آغاز اسی سال 12 مارچ کو ہو گیا تھا ۔ چار ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے فوراً بعد مودی جی اپنی آبائی ریاست گجرات کے دورے پر پہنچ گئے اور دو روز میں تین روڈ شو کر ڈالے ۔اس وقت انہوں پچاس کلومیٹر کا فاصلہ سڑک پر طے کرکے انتخاب کی تیاری شروع کردی گئی یعنی یہ ناٹک بہت پہلے شروع ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم فی الحال جس طرح کے وعدے گجرات میں کررہے ہیں اس سے بھی بڑے وعدے انہوں نے یو پی میں کیے تھے ۔ اس سے متاثر ہو کر کورونا کے دوران مودی اور یوگی سرکار کی ناکامیوں اور گنگا میں تیرتی لاشوں کو بھول کر عوام نے پھر سے بی جے پی کو ووٹ دے دیا تھا مگر الیکشن جیت کر مودی جی اب ان وعدوں کو بھول گئے۔ گجرات کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ ان سے کیے جانے والے پرانے اور اترپردیش والوں سے کیے جانے والے نئے وعدوں یاد کرکے اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں ۔ ورنہ پھر وہی پچاس سال پرانی قوالی سن کر دل کو بہلانا پڑے گا ؎
تیرا وعدے پہ وعدہ ہوتا گیا ، دل بیتاب زیادہ ہوتا گیا جینے کی مہلت گھٹتی گئی ، مرنے کا تقاضا ہوتا گیا
اتر پردیش کی حالتِ زار سے متعلق دو دل دہلانے والی ویڈیوز فی الحال مودی اور یوگی کا نام روشن کررہی ہیں۔ ان میں سے ایک میں دو سالہ بھائی کی لاش کے ساتھ ایک لڑکا بھٹکتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی تفصیل یوں ہے کہ باغپت میں ایک ناراض ماں نے اپنے بیٹے کو سڑک پر پھینک دیا اور وہ گاڑی کے نیچے آکر جاں بحق ہوگیا۔ پوسٹ مارٹم کے بعد نعش والد کے حوالے کر دی گئی مگر ایمبولینس فراہم کرنے سے انکار کر دیا گیا ۔ بے بس باپ بچے کی لاش کو گود میں لے کر پیدل چل پڑابہت دیر بعد جب وہ تھک گیا تو اس نےلاش اپنے بڑے بیٹے کے حوالے کر دی۔ پروین اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر راجستھان سے آیا تھا لیکن اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ پرائیویٹ گاڑی کے لیے دے سکے اس لیے لاش کو پیدل لے کر جانے پر مجبور ہوگیا۔ دوسرا ویڈیو دیوریا ضلع اسپتال کا ہے۔ اس میں ایک بیٹا اپنی بوڑھی ماں کو کندھے پر اٹھائے چل رہا ہے۔ ویڈیو میں وہ چیختے ہوئے کہہ رہا ہے ”ایک ایمرجنسی کیس ہے لیکن اسٹریچر نہیں دیا جا رہا ہے جبکہ ہسپتال میں دو اسٹریچر خالی ہیں۔ ماں مرنے والی ہے، لیکن اسٹریچر نہیں ہے۔‘‘اسی دوران بزرگ خاتون کی موت ہوجاتی ہے۔ یوگی انتظامیہ کا یہ حال ہے کہ وہ شرمندہ ہونے کے بجائے اس کی تردید کرتا پھرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بیٹا اسٹریچر ملنے کے باوجود اپنی بوڑھی ماں کو گود میں اٹھا کر جھوٹے الزامات لگائے گا؟
اپنی اس طرح کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر بی جے پی کو انتخاب سے قبل ہندو مسلم کارڈ کھیلنا پڑتا ہے اور پچیس سال تک حکومت کرنے کے باوجود انتخاب جیتنے کی خاطر بلقیس بانو کے مجرمین کو رہا کرنے کی شرمناک حرکت کرنی پڑتی ہے۔ گجرات دراصل مودی اور شاہ کی جنم بھومی ہے۔ اس ریاست میں ساڑھے بارہ سال نریندر مودی وزیر اعلیٰ رہے اور اس دوران انہوں نے کسی اور کو ابھرنے ہی نہیں دیا ۔ اس لیے جب وہ وزیر اعظم بن کر دہلی گئے تو ایک غیر معروف رہنما آنندی بین پٹیل کو وزیر اعلیٰ بنانا پڑا۔ اس کے بعد امیت شاہ اور آنندی بین کے درمیان ایک سرد جنگ چھڑ گئی۔ امیت شاہ اس وقت پارٹی کے صدر تھے مگر آنندی بین ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ اس مہابھارت کا یہ نتیجہ نکلا کہ دو سال اور ڈھائی ماہ کے بعد آنندی بین کی چھٹی کردی گئی اور امیت شاہ اپنی برادری کے وجئے روپانی کو وزیر اعلیٰ بنانے میں کامیاب ہوگئے ۔ پچھلے الیکشن میں وہ ایک سو پچپن کا ہدف لے کر میدان میں اترے تھے مگر سو تک پہنچنے میں مودی سمیت شاہ کو پسینہ چھوٹ گیا۔ وجئے روپانی نہایت نااہل وزیر اعلیٰ تھے اس کے باوجود پچھلے سال تک انہیں کھینچا گیا۔ ان کی قیادت میں اگلا الیکشن جیتنا ممکن نہیں ہے اس لیے ایک ایسے ناتجربہ کار بھوپندر پٹیل کو ان کی جگہ لگایا گیا جو پہلی بار رکن اسمبلی بناتھا ۔ بھوپندر پٹیل اپنے پیش رو سے بھی زیادہ نااہل نکلے۔ اگلے الیکشن میں اس کی کامیابی مشکل ہے اس لیے اب صرف گودھرا کا سہارا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلقیس بانو پر مظالم ڈھانے والوں کو رہا کرکے عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بعید نہیں کہ بی جے پی ان بدمعاشوں کو ٹکٹ دے دے یا ان کا چہرا دکھا کر ووٹ مانگے۔ اقتدار کے حصول کی خاطر یہ لوگ تو کسی بھی سطح تک گر سکتے ہیں لیکن عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ خود کیا کرتے ہیں؟
***
***
مہنگائی اور بیروز گاری کے خلاف کانگریس کی ملک گیر مہم بی جے پی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ گجرات کی ترقی کا جو ڈھول پیٹا جاتا ہے وہ صرف 14؍فیصد لوگوں کے نزدیک اہم ہے اور ذات پات و مذہب کو محض 11فیصد لوگ اہمیت دیتے ہیں ۔ بی جے پی کے پسندیدہ موضوعات کو پچیس فیصد سے زیادہ لوگ اہمیت نہیں دیتے۔ اس کے باوجود 42 فیصد لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ ہندو مسلم منافرت کا مدعا انتخاب پر چھا جائے گا۔ سوال یہ ہے جس مدعا کو 11فیصد لوگ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں وہ 42 فیصد لوگوں کے نزدیک انتخاب پر کیونکر چھا جائے گا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022