گجرات الیکشن: بی جےپی بمقابلہ عاپ…!

کانگریس کی بھارت جوڑویاترامیں کیاریاست کے رائے دہندگان بھی ہیں شامل…!

(دعوت نیوز نیٹ ورک)

گاندھی خاندان کاانتخابی تشہیر میں برائے نام حصہ لیناکانگریس کو ‘آتم نربھر’ بنانے کی جانب ایک قدم…!
موربی حادثے بھول گئے، گجرات ماڈل کا ذکر نہیں،مبینہ ‘لو جہاد’ اور رام مندرکا راگ الاپاگیا
گجرات کی سیاسی فضا پوری طرح زہر آلود ہو چکی ہے۔ انتخابی تشہیر میں نفرت آمیز بیانات اور تنازعہ سے بھرپور تقریریں جاری ہیں۔ موربی کے المناک واقعہ کو ’ایکٹ آف گاڈ‘ مان کر بھلا دیا گیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس مرتبہ گجرات کی انتخابی تشہیر میں ’’صدام حسین‘‘ کی بھی انٹری ہو گئی ہے۔ مودی بنام راہل گاندھی بنانے کی کوشش جاری ہے۔ ’لو جہاد‘ یکساں سول کوڈ اور رام مندر کا جن دوبارہ بوتل سے باہر آ چکا ہے۔ دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے نوٹوں پر ہندوؤں کے معبودوں لکشمی اور گنیش کی تصویریں چھاپنے کا مطالبہ کر کے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ دوسری طرف تقریباً پون صدی گجرات پر حکومت کرنے کے بعد بھی بی جے پی کو گجرات ماڈل کے بجائے سرجیکل اسٹرائک اور دفعہ 370کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔
سمجھا جا رہا ہے کہ عام آدمی پارٹی اور بی جے پی میں ہی ٹکر کا مقابلہ ہو گا۔ جہاں تک کانگریس پارٹی کا سوال ہے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا جاری ہے۔ اس دوران راہل گاندھی نے چند دن گجرات کو بھی دیے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کانگریس نے گجرات اسمبلی انتخابات کے لیے اپنی پوری طاقت کیوں نہیں جھونکی جبکہ پچھلے انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی بہت زیادہ خراب تو نہیں تھی۔ اس تعلق سے احمد آباد کے سینئر صحافی سہل قریشی نے ہفت روزہ دعوت سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ’’اس بار کانگریس کے ساتھ پٹیل برادری نہیں ہے اور نہ ہاردک پٹیل جیسے نوجوان لیڈر اس کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف کھیل بگاڑنے کے لیے عام آدمی پارٹی اور اویسی بھی آگئے ہیں۔ لہذا مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فی الحال بی جے پی کو ٹکر دینے والی کوئی دوسری پارٹی میدان میں موجود نہیں ہے یہاں تک کے عام آدمی پارٹی بھی پست ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ حالاں کہ عام آدمی پارٹی نے جس دم خم کے ساتھ شروعات کی تھی اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید کچھ کر جائے گی لیکن بعد میں وہ کم زور پڑتی گئی گویا غبارے میں کسی نے سوئی چبھو دی ہو’’ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے زور کو کم کرنے کے لیے دلی ایم سی ڈی انتخابات کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے تاکہ پارٹی کی طاقت تقسیم ہو جائے‘‘۔
سہل قریشی سے سوال کیا گیا کہ اے بی پی نیوز چینل کے ایک سروے کے مطابق تو عام آدمی پارٹی کو گجرات میں 49فیصد اور بی جے پی کو 40 فیصد لوگ پسند کر رہے ہیں؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فی الحال بی جے پی کے شکست کھانے جیسی کوئی صورت تو نظر نہیں آ رہی ہے اور اس بار بی جے پی کو ٹکر دینا اس لیے بھی آسان نہیں ہے کیوں کہ آج بھی اس کا ہتھیار ہندوتوا ایجنڈا ہی ہے۔ سہل قریشی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح سر عام امت شاہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ گجرات میں اوکھا کے قریب واقع جزیرے بیٹ دوارکا سے فرضی مزاروں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ بیٹ دوارکا ہندوؤں کے معبود کرشن کا مسکن ہے۔ لہذا کانگریس پارٹی کی مخالفت کے باوجود بی جے پی حکومت صفائی کا کام جاری رکھے گی۔ گجرات کے کھمباٹ اسمبلی حلقہ میں ایک انتخابی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے امت شاہ نے مزید کہا کہ ہمارے بھوپیندر بھائی (وزیر اعلی بھوپیندر پٹیل) اور ہرش بھائی (وزیر داخلہ ہرش سنگھوی) نے بیٹ دوارکا میں فرضی مقبروں کو منہدم کر دیا ہے۔ تمام مقبروں کے نام پر تجاوزات ہو رہی تھیں، اب انہیں ہٹا دیا گیا ہے لیکن کانگریس کہتی ہے کہ ہم پولارائز کر رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے اپنے خطاب کے دوران سامعین سے سوال کیا کہ کیا تجاوزات نہیں ہٹانی چاہیے، چاہے وہ مزار ہو یا قبر؟ لیکن کانگریس کو ایسا کرنا پسند نہیں ہے۔ فکر نہ کریں چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں بی جے پی صفائی کا کام جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ آپ کو کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔
سوال یہ ہے کہ گجرات میں بیس سال سے بھی زیادہ عرصہ سے بی جے پی کی حکومت ہے اور اب بھی امت شاہ کو لگتا ہے کہ گجرات کے لوگ ڈر کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں؟ انہوں نے لوگوں سے کہا کہ وہ یکم جنوری 2014 کا ٹکٹ بک کروالیں کیوں کہ اس دن رام مندر ان کے لیے کھول دیا جائے گا۔ سہل قریشی نے کہا کہ بی جے پی نے کام تو کچھ بھی نہیں کیا بس انہی باتوں کے ذریعہ یہ انتخاب جیتنا چاہتی ہے، ظاہر ہے گجرات آر ایس ایس کی لیبارٹری جو ہے۔ 2002 کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں پی ایم مودی کا قد تو بڑا ہوا ہے لیکن بی جے پی کا قد چھوٹا ہوا ہے۔ آج چھوٹے سے چھوٹا الیکشن بھی مودی کے بغیر جیتنا محال ہے اگرچہ انتخابی تشہیر میں پی ایم مودی نے کہا ہے کہ ’’اس بار گجرات کے عوام گجرات کا الیکشن لڑ رہے ہیں‘‘۔
سہل قریشی کے مطابق ایک نئی بات یہ ہو سکتی ہے کہ اس مرتبہ عام آدمی پارٹی سے بی جے پی کو بھی نقصان ہو سکتا ہے کیوں کہ عام آدمی پارٹی شہری علاقوں میں اور خاص طور پر سورت میں خوب زور لگا رہی ہے جہاں سے بی جے پی جیت کر آتی رہی ہے۔ پچھلے انتخابات میں پٹیلوں کے ریزرویشن کے حوالے سے غصے کے باوجود سورت کی سولہ سیٹوں میں سے بی جے پی کو پندرہ سیٹیں ملیں۔ ڈانگ، ولساڑ اور واپی جیسے آدی واسی علاقوں میں کانگریس کا دبدبہ زیادہ ہے۔ وہاں بھی عام آدمی پارٹی نے خوب محنت کی ہے اور آدی واسیوں، دلتوں اور مسلم علاقوں میں بھی اس نے زور لگایا ہے ایسے میں وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی کانگریس کو نقصان پہنچائے گی۔
راقم الحروف نے سہل قریشی سے اس ویڈیو کے متعلق جاننا چاہا جس میں پرجا پری سماج کے لوگوں نے عہد لیا ہے کہ وہ بی جے پی کو کبھی ووٹ نہیں دیں گے اور یہ کہ تقریباً 50 لاکھ لوگوں نے بی جے پی کے خلاف حلف بھی اٹھایا ہے؟ جواب میں سہل قریشی نے کہا کہ ’’ایسا ہر انتخاب کے موقع پر ہوتا ہے کہ ایک یا دو ویڈیوز وائرل ہو جاتے ہیں کہ ہم بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے لیکن آخر میں ہندو۔مسلم کارڈ ہی چلتا ہے‘‘۔ مثال کے طور پر جیسے جیسے الیکشن قریب آ رہا ہے ہندوتوا کھیل میں تیزی آ رہی ہے۔ ’لو جہاد‘ کے نام پر حال ہی میں سورت کے ایک کالج میں تین مسلم نوجوانوں کو وی ایچ پی کے کارکنوں نے بڑی طرح پیٹا اور تادم تحریر ان کے خلاف ایف آئی بھی درج نہیں ہوئی۔ وہیں کھیڑا کے آئی ٹی آئی میں وی ایچ پی والوں نے خوب ہنگامہ کیا اور کالج انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ یہاں انہیں برقعے والیاں اور داڑھی ٹوپی والے نظر نہیں آنے چاہئیں چناں چہ انتظامیہ نے فوری ایک کمیٹی تشکیل دی اور یقین دہانی کرائی کہ اس پر غور و خوض کیا جائے گا۔ دوسری طرف حال ہی میں ’لو جہاد‘ کے الزام میں تین لڑکوں کو وی ایچ پی کے کارکنوں نے مارا پیٹا لیکن تادم تحریر اس پر بھی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی ہے۔
گاندھی خاندان نے گجرات الیکشن میں کیوں توجہ نہیں دی؟
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ گجرات الیکشن میں گاندھی خاندان کیوں سرگرم نہیں ہے؟ بھارت جوڑو یاترا کو گجرات سے کیوں نہیں جوڑا گیا؟ کیا وجہ ہے کہ راہل گاندھی نے گجرات کی انتخابی تشہیر کے لیے صرف دو ہی دن نکالے؟ کیا اسے حکمت عملی اور روڈ میپ کے طور پر دیکھا جائے یا پھر کانگریس کی مایوسی سے تعبیر کیا جائے؟ شاید یہ راہل گاندھی کی حکمت عملی ہو کہ انہوں نے گجرات اسمبلی سے اپنے آپ کو دور رکھا اور آئے بھی تو برائے نام ہی حصہ لیا۔
ان سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے کے لیے ’ستیہ ہندی’ یوٹیوب چینل نے ایک ڈبیٹ کا انعقاد کیا جس میں کئی سیاسی ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ ان میں سے ایک ماہر سیاست راجیش ٹھوکر بھی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کانگریس مقامی لیڈروں اور کارکنوں کی بل بوتے پر ہی یہ الیکشن لڑنے جا رہی ہے کیوں کہ ہماچل پردیش کی انتخابی تشہیر میں بھی راہل گاندھی نے زیادہ وقت نہیں دیا تھا بلکہ ایک ریلی میں انہوں نے صاف کہہ دیا تھا کہ وہ بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے ملک کا مزاج بدلنے کی کوشش کریں گے۔ راجیش ٹھاکر کے مطابق شاید کانگریس نے اس بار راہل بمقابلہ مودی کرانے میں نقصان سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی یہ چاہتی ہے کہ الیکشن راہل بمقابلہ مودی ہو۔ شاید اسی لیے راہل گاندھی کی حالیہ شکل و شباہت پر بھی طنز کیا جا رہا ہے اور ان کو صدام حسین سے تشبیہ دی جارہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنا یہ حلیہ اس لیے بنایا ہے تاکہ وہ سرخیوں میں رہیں۔ راجیش ٹھاکر کے مطابق گجرات کو تین زونس میں تقسیم کیا گیا ہے۔ شکستی سنگھ گوئل اور ارجن منڈواریا ایک زون سنبھال رہے ہیں۔ بھرت سنگھ سولنکی اور جگدیش ٹھاکر او بی سی بیلٹ کو سنبھال رہے ہیں جب کہ سکھ رام راٹھور آدی واسی بیلٹ پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
اسی مباحثہ میں سیاسی تجزیہ نگار مہیش پانڈیا بھی تھے جنہوں نے راجیش ٹھاکر کی باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ ’’سابق میں راہل گاندھی کو ’پپو’ بنانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اس لیے ان کو ان سب چیزوں سے دور رکھا گیا ہے، اس کے علاوہ کانگریس کے پاس پیسہ بھی نہیں ہے کہ جس سے وہ بڑی بڑی ریلیاں کروائے۔ سینئر صحافی ونود اگنیہوتری نے کہا کہ دراصل راہل گاندھی کانگریس کو آتم نربھر بنانا چاہتے ہیں‘‘۔
مجموعی طور پر گجرات میں سیاسی بساط بچھ چکی ہے۔سیاسی پارٹیاں اپنازور لگارہی ہیں، لیکن انتخابی تشہیر میں ہندو۔مسلم کاموضوع ہی چھایا ہوا ہے۔ نہ گجرات ماڈل کی بات ہورہی ہے، نہ موربی حادثے کو یاد کیا جا رہا ہے، نہ مہنگائی، بے روزگاری اور روپیہ کی گرتی ہوئی قیمت ہی انتخابی موضوعات بنے ہیں اور نہ ہی تعلیم صحت اور خستہ حال سڑکوں کی بات ہو رہی ہے۔
***

 

***

 ’’اس بار کانگریس کے ساتھ پٹیل برادری نہیں ہے اور نہ ہاردک پٹیل جیسے نوجوان لیڈر اس کے ساتھ ہیں۔ دوسری طرف کھیل بگاڑنے کے لیے عام آدمی پارٹی اور اویسی بھی آگئے ہیں۔ لہذا مجموعی طور پر دیکھا جائے تو فی الحال بی جے پی کو ٹکر دینے والی کوئی دوسری پارٹی میدان میں موجود نہیں ہے یہاں تک کے عام آدمی پارٹی بھی پست ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ حالاں کہ عام آدمی پارٹی نے جس دم خم کے ساتھ شروعات کی تھی اس سے ایسا لگ رہا تھا کہ شاید کچھ کر جائے گی لیکن بعد میں وہ کم زور پڑتی گئی گویا غبارے میں کسی نے سوئی چبھو دی ہو’’ سیاسی پنڈتوں کا ماننا ہے کہ عام آدمی پارٹی کے زور کو کم کرنے کے لیے دلی ایم سی ڈی انتخابات کا بھی اعلان کر دیا گیا ہے تاکہ پارٹی کی طاقت تقسیم ہو جائے۔‘‘
سینئر صحافی سہل قریشی


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022