گجرات پولیس کے ذریعے مسلم مردوں کو سرِ عام کوڑے مارنے کا معاملہ: ملزم پولیس افسران نے ہائی کورٹ سے انھیں سزا نہ دینے کی اپیل کی
نئی دہلی، اکتوبر 12: ان چار پولیس افسران نے، جن پر اکتوبر 2022 میں پانچ مسلم مردوں کو سرعام کوڑے مارنے کے لیے توہین عدالت کا الزام لگایا گیا تھا، بدھ کے روز گجرات ہائی کورٹ پر زور دیا کہ وہ انھیں سزا نہ دینے اور شکایت کنندگان کو مناسب معاوضہ دینے پر غور کرے۔
سینئر ایڈوکیٹ پرکاش جانی نے چاروں ملزمان کی نمائندگی کرتے ہوئے جسٹس اے ایس سپیہیا اور گیتا گوپی کی بنچ سے کہا کہ وہ پولیس افسران کے سروس ریکارڈ پر پڑنے والے اثرات پر غور کریں۔
جانی نے بنچ کو بتایا ’’ہم نے ریاستی پولیس کو 10 سے 15 سال سے زیادہ کی خدمت دی ہے۔ فوری کارروائی میں اگر عدالت ہمیں قصوروار ٹھہراتی ہے، تو ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ براہ کرم ہمیں سزا نہ دیں کیوں کہ اس کا ہمارے سروس ریکارڈ پر بہت برا اثر پڑے گا۔ ہم آپ سے گزارش کرتے ہیں کہ براہ کرم شکایت کنندگان کو معاوضے کا حکم دینے پر غور کریں۔‘‘
ملزم پولیس اہلکاروں میں انسپکٹر اے وی پرمار، سب انسپکٹر ڈی بی کماوت، کانسٹیبل راجو بھائی رمیش بھائی ڈابھی اور ہیڈ کانسٹیبل کنک سنگھ لکشمن سنگھ شامل ہیں۔
عدالت نے شکایت کنندگان سے جواب طلب کرتے ہوئے معاملہ پیر تک ملتوی کر دیا۔
پولیس کے ذریعے متاثرین کو کوڑے مارنے کی ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ ان مردوں کو عوام سے معافی مانگنے کو کہا جا رہا ہے۔ پانچوں افراد نے گجرات ہائی کورٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ وہ پولیس تشدد کا نشانہ بنے اور 15 پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
جس کے بعد 4 اکتوبر کو جسٹس سپیہیا اور ایم آر مینگڈے کی ایک ڈویژن بنچ نے ان پولیس افسران کے خلاف ڈی کے باسو بمقابلہ مغربی بنگال کیس میں سپریم کورٹ کی ہدایات کی خلاف ورزی پر دیوانی توہین اور توہین عدالت کے قوانین کے تحت کارروائی شروع کی۔
1996 کے مقدمے میں سپریم کورٹ نے رہنما اصول وضع کیے تھے، جن پر عمل کرنا پولیس کے لیے کسی بھی شخص کو گرفتار یا حراست میں لیتے وقت ضروری ہے۔
چاروں پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی ناڈیاد کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کی انکوائری رپورٹ کی بنیاد پر شروع کی گئی۔
درخواست گزاروں نے مطالبہ کیا کہ پولیس اہلکاروں کو سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے مطابق ’’توہین اور عدم تعمیل کی سزا‘‘ دی جائے۔