گجرات کی عدالت نے کالعدم تنظیم ایس آئی ایم آئی سے مبینہ رابطوں کے الزام میں یو اے پی اے کے تحت گرفتار 122 افراد کو 19 سال کے بعد بری کیا
احمد آباد، مارچ 7: گجرات کی ایک عدالت نے کالعدم تنظیم طلباء اسلامی موومنٹ آف انڈیا (ایس آئی ایم آئی) کے ممبر ہونے کے الزام میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کے تحت گرفتار شدہ 122 افراد کو ہفتے کے روز 19 سال بعد بری کیا۔ سورت پولیس نے 2001 میں 127 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
چیف جوڈیشل مجسٹریٹ اے این دیو کی عدالت نے 122 افراد کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کردیا۔ جب کہ باقی پانچ ملزمان مقدمے کی سماعت کے دوران انتقال کر چکے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق عدالت نے کہا ’’عدالت کو پتا چلا ہے کہ ملزمین تعلیمی پروگرام میں شرکت کے لیے جمع ہوئے تھے اور انھوں نے کوئی ہتھیار نہیں لیا ہوا تھا۔ استغاثہ نے یہ بھی ثابت نہیں کیا ہے کہ ملزمین ایس آئی ایم آئی سے متعلق کسی بھی سرگرمی کے لیے جمع ہوئے تھے۔ چھاپوں کے دوران بھی موقع سے گرفتار 123 میں سے کسی ایک فرد نے بھی فرار ہونے کی کوشش نہیں کی۔ نہ ہی ضبط شدہ دستاویزات کا ایس آئی ایم آئی سے کوئی تعلق ہے۔‘‘
28 دسمبر2001 کو سورت سٹی پولیس نے نوساری بازار کے ایک ہال پر چھاپہ مارا تھا اور ایک تقریب کے لیے ملک بھر سے آنے والے 123 افراد کو گرفتار کیا تھا۔
پولیس نے دعوی کیا تھا کہ انھوں نے ایس آئی ایم آئی میں داخلہ لینے والے فارم ملے تھے، ساتھ ہی دہشت گرد اسامہ بن لادن کی تعریف کرنے والے بینرز، کتابیں اور ادب بھی برآمد کیے تھے۔
پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ پولیس کو دیکھتے ہی ان میں سے متعدد افراد نے اپنے ثبوت مٹانے کے لیے اپنے سم کارڈ چبا لیے تھے۔ تاہم پولیس اپنے ان دعووں کو ثابت کرنے میں ناکام رہی۔
اجتماع کے شرکا گجرات کے مختلف حصوں کے علاوہ تمل ناڈو، مغربی بنگال، مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک، اترپردیش اور بہار سے آئے تھے۔
اپنے دفاع میں ملزمین نے کہا تھا کہ ان کا تعلق ایس آئی ایم آئی سے نہیں ہے اور وہ یہاں آل انڈیا اقلیتی تعلیم بورڈ کے تحت منعقدہ سیمینار میں شرکت کے لیے جمع ہوئے تھے۔ تاہم پولیس نے انھیں اس حقیقت کی بنیاد پر ایس آئی ایم آئی سے مربوط کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ ہال اے آر قریشی اور ایس آئی ایم آئی کے قومی ممبر ساجد منصوری کے بھائی علیف ماجد منصوری کے ذریعہ بک کیا گیا تھا۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ تعلیمی سیمینار ایس آئی ایم آئی کی سرگرمیاں انجام دینے کا محاذ تھا۔
ضلعی حکومت کے پلیڈر ایڈوکیٹ نین سکھاڈ والا نے کہا کہ وہ اس بارے میں حکم کا مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں یا نہیں۔