گجرات کے مسلم کش فسادات :عدالت سے انصاف ملنے کی امیدوں کو دھکا

مظلوموں کے ساتھ کھڑے رہنے والوں پر ہی قانون کا شکنجہ

سبطین کو ثر

گزشتہ جمعہ یعنی 24 جون 2022 کو سپریم کورٹ نے سنہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں تفتیش کاروں (ایس آئی ٹی)کی طرف سے دائر کی گئی حتمی رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے سنہ 2013 کے سابقہ فیصلے کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ درخواست گزار ذکیہ جعفری اور تیستا سیتلواد کی مشترکہ عرضیوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ درخواست میرٹ پرکھری نہیں اترتی ہے۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے تیستا سیتلواد اور اس مقدمے میں پیروی کرنے والی دیگر تنظیموں و شخصیات کے خلاف سخت ترین تبصرہ کر کے انہیں اس معاملے کو طول نہ دینے کی نصیحت کی اور ان کے کردار پر بھی سوالات کھڑے کیے۔ سپریم کورٹ کے درخواست مسترد کرنے اوروزیرداخلہ امت شاہ کے ایک نیوز ایجنسی کو دیے گئے انٹرویو کے فوراًبعد ہی ممتاز سماجی کارکن تیستا سیتلواد اور گجرات کے سابق ڈی جی پی آر بی سری کمارکو پولیس نے گرفتار کر لیا اور دونوں کو 02 جولائی تک پولیس تحویل میں بھیج دیا گیا ہے۔
تیستا سیتلواد
محترمہ تیستا سیتلواد انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم(سی جے پی)’سٹیزنس فار جسٹس اینڈ پیس‘سے وابستہ ہیں اور کئی برسوں سے ملک میں انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کر رہی ہیں۔ وہ ایک صحافی بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے شوہرجاوید آنند کے ساتھ مل کر فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کی روداد کو منظرعام پر لانے کے لیے ’کمیونلزم کمبیٹ‘ نام کے ایک میگزین کی اشاعت بھی شروع کی جس کی وہ نائب مدیرہ بھی ہیں۔ ہندستان کے اسکولوں میں تاریخ اور علوم سماجیات کے نصاب میں اقلیت مخالف مواد کو شامل کیے جانے کی جانچ پڑتال کے لیے انہوں نے سنہ 1997 میں ایک پروجکٹ شروع کیا تھا اوراس کا نام کھوج رکھا تھا۔ ان کی اس مہم کی ہر طرف سے ستائش کی گئی تھی۔ تیستا سیتلواد کو بھارت میں خواتین کے تحفظ اور انہیں خودمختار بنانے نیز ان کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کے لیے کئی طرح کی تحریکیں بھی شروع کرنے کے لیے جانا جاتا ہے۔پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کو سماج کے اہم دھارے میں شامل کرنے کے لیے بھی وہ ہمیشہ پیش پیش رہی ہیں۔ سب رنگ کے نام سے ان کی غیر سرکاری تنظیم نے بھی پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے حقوق کے لیے کافی کام کیے ہیں۔انسانی حقوق کی اس سرکرہ تنظیم کی وہ قومی ترجمان بھی رہی ہیں۔ حکومت نے ان کی اس تنظیم کا رجسٹریشن یہ کہہ کر منسوخ کردیا تھا کہ اس تنظیم کے نام پرکافی غیرملکی فنڈز اکٹھے کیے گئے ہیں اور اس کا استعمال نجی طور پر کیا گیا ہے۔ تیستا سیتلواڈ وومین ان دی میڈیا کمیٹی نامی غیرسرکاری تنظیم کی بانیوں میں سے ایک ہیں۔ یہ تنظیم خواتین صحافیوں کو ملازمت سے متعلق خدشات اور خواتین سے متعلق مسائل پررپورٹنگ کے دوران صنفی حساسیت کے تئیں بیداری پیداکرنےکےلیےبنائی گئی ہے۔ وہ اس تنظیم کی متحرک ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ وہ جرنلسٹس اگینسٹ کمیونلزم نام کی تنظیم کی بانی رکن، پیپلز یونین فار ہیومن رائٹس (پی یو ایچ آر)کی جنرل سکریٹری اور پاکستان – انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی کی فعال رکن بھی ہیں۔
گجرات میں سنہ 2002 میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں مظلومین کی وکالت کرنے کی پاداش میں وہ فی الوقت پولیس کے شکنجے میں ہیں۔ ان پر کئی طرح کے الزامات عائد کیےگئے ہیں۔
سپریم کورٹ کی سہ رکنی بینچ نے بھی ان کو فساد متاثرین اور مظلومین کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے، حکومت کے خلاف غلط طریقے سے قانونی چارہ جوئی کرنے اور گمراہ کن ثبوتوں کے ذریعہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی اور دیگر 59 افراد کے خلاف مقدمات قائم کرنے کی پاداش میں جہدکاروں ہی کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ایک طرح کی سفارش کی تھی۔ چنانچہ اس کے فوری بعد گجرات اے ٹی ایس نے تیستا کو ممبئی کی رہائئش گاہ سے حراست میں لیا اور دو جولائی تک اے ٹی ایس کی تحویل میں بھیج دیا ہے۔
واضح ہو کہ اقوامِ متحدہ کی خصوصی ایلچی میری لالور نے اس عاجلانہ کارروائی پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
میری نے بیان دیا کہ ’’تیستا نفرت اور تعصب کے خلاف ایک مضبوط آواز ہے اور انسانی حقوق کا دفاع کرنا کوئی جرم نہیں۔ میں ان کی رہائی کی اپیل کرتی ہوں اور بھارتی حکومت کے ذریعے ان لوگوں کی ہراسانی کو فوراً ختم کرنے کی گزارش بھی۔‘‘
دوسری جانب ایمنیسٹی انڈیا کے ایک پوسٹ میں انسدادِ دہشت گردی دستے کی اس کارروائی کو "سیدھی انتقامی کارروائی” سے تعبیر کیا گیا ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ انہیں اپنی بے گناہی ثابت کرنی پڑ رہی ہے لیکن سچائی یہ ہے کہ ان کی گراں قدر صحافتی اور سماجی خدمات کے پیش نظر انہیں کئی ملکی و بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔
سنہ 1993 میں پی یو سی ایل جرنلزم فار ہیومن رائٹس ایوارڈ
چمیلی دیوی جین ایوارڈ برائے نمایاں خواتین میڈیا پرسن
سنہ 1999 میں جاوید آنند کے ساتھ مشترکہ طور پر مہارانا میواڑ فاؤنڈیشن کا حکیم خان سور ایوارڈ
سنہ 2000 میں دلت لبریشن ایجوکیشن ٹرسٹ کا انسانی حقوق کا ایوارڈ
سنہ 2002 کا راجیو گاندھی نیشنل سدبھاونا ایوارڈ (مشترکہ طور پر ہرش مندر کے ساتھ)یہ ایوارڈ کانگریس پارٹی کی طرف سے سالانہ قومی خیر سگالی کو فروغ دینے والی شخصیات کو دیا جاتا ہے۔
سنہ 2003 میں نیورمبرگ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ
سنہ 2004 میں ڈیفنڈر آف ڈیموکریسی ایوارڈ (مشترکہ طور پر ہیلن کلارک کے ساتھ)، یہ ایوارڈپارلیمنٹیرینز فار گلوبل ایکشن کے توسط سےدیا گیا۔
سنہ 2004 میں ویجل انڈیا موومنٹ کے ذریعہ ایم اے تھامس نیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ
سنہ 2006 کا نانی اے پالکھی والا ایوارڈ، جو ٹاٹا گروپ کے ذریعے چلائے جانے والے ٹرسٹ کے ذریعے دیا جاتا ہے۔
سنہ 2007 میں ماتوشری بھیما بائی امبیڈکر ایوارڈ
سنہ 2007 میں پدم شری، حکومت ہند کی طرف سے مہاراشٹر میں عوامی امور کے لیے نوازا گیا۔
سنہ 2009 فیماایکسی لینس ایوارڈ – کویت میں فیڈریشن آف انڈین مسلم ایسوسی ایشنز کی طرف سے دیا گیا
پیکس کرسٹی انٹرنیشنل پیس ایوارڈ (مشترکہ طور پر آسٹریلوی آرٹسٹ ایڈی کنیبون کے ساتھ)، ایوینجلیکل گروپ "پیکس کرسٹی” کی طرف سے دیا گیا۔
سنہ 2020 میں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔
ذکیہ جعفری
ذکیہ جعفری کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کی بیوہ ہیں۔ 28 فروری 2002 کوجب گجرات فسادات کی آگ میں جل رہا تھا، احمد آباد میں واقع مسلمانوں کی کثیر آبادی والے علاقہ گلبرگ سوسائٹی کوشرپسندوں اور فسادیوں نےچاروں طرف سے گھیر لیا اور اس میں آگ لگادی۔ اس خوفناک آتشزدگی میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری سمیت 68 لوگ زندہ جل گئے۔ایس آئی ٹی نے فسادات کی جانچ کی تھی اور تحقیقات کے بعد گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی گئی تھی۔
ذکیہ جعفری کے شوہر احسان جعفری کو 2002 میں گجرات کے فساد میں ذکیہ جعفری کی موجودگی میں زندہ جلا دیا گیا تھا۔ ایک عورت کے لیے اس کی زندگی میں اس سے بڑااور کوئی غم نہیں ہوسکتا کہ اس کا سہاگ اس کی زندگی میں اس کی آنکھوں کے سامنے اجڑ گیا ہو۔اس کی زندگی بھر کی خوشیوں، امیدوں اور ارمانوں کا خون ہوگیا ہو۔ وہ خود بیوہ اور اس کے بچے باپ کے سایے سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے ہوں۔ ایک عورت ہی اس غم کی شدت کو اچھی طرح محسوس کر سکتی ہی کہ زندگی میں شوہر کی کیا اہمیت ہوتی ہے اس کو الفاظ کے پیکر میں ڈھال کر محسوس نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ذکیہ جعفری سنہ2006سے ہی انصاف کے لیے لڑ رہی ہیں۔ ذکیہ جعفری کے انصاف کے مطالبے نے 2008 میں زور پکڑا جب سپریم کورٹ نے حکومت کو گلبرگ سوسائٹی واقعہ سمیت نو کیسز کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا۔ اس نے جعفری کی شکایت کا جائزہ لینے کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی تشکیل کی۔
ذکیہ جعفری نے 2006 میں گجرات کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کے سامنے شکایت درج کرائی جس میں انڈین پینل کوڈ کی مختلف دفعات کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے اندراج کا مطالبہ کیا۔ ان کی شکایت میں مختلف سرکاری افسر اور بشمول نریندر مودی کئی سیاست داں نامزد تھے۔ مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔
2008 میں سپریم کورٹ نے فسادات کے سلسلے میں جاری کردہ معتدد ٹرائلز پر رپورٹ پیش کرنے کے لیے ایک ایس آئی ٹی کا تقرر کیا اور بعد ازاں ایس آئی ٹی کو ذکیہ جعفری کی طرف سے دائر شکایت کی تحقیقات کا حکم بھی دیا۔
خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے 8 فروری 2012 کو ایک حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی۔ ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں نریندر مودی سمیت 59 لوگوں کو یہ کہتے ہوئے کلین چٹ دے دی تھی کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذیلی عدالت نے بھی ایس آئی ٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر انہیں کلین چٹ دے دی تھی۔2013 میں ذکیہ جعفری نے کلوزر رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے عرضی داخل کی تاہم مجسٹریٹ نے ایس آئی ٹی کی رپورٹ کو برقرار رکھا اور جعفری کی عرضی کو خارج کر دیا۔پھر ذکیہ جعفری نے گجرات ہائی کورٹ سے رجوع کیا جس نے 2017 میں مجسٹریٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور ذکیہ جعفری کی درخواست کو خارج کر دیا۔ذکیہ جعفری نے اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔سپریم کورٹ کے تین ججز کے بنچ نے ذکیہ جعفری، تحقیقاتی ٹیم اور دیگر کے تفصیلی دلائل سننے کے بعد دسمبر 2021 میں کیس میں فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔
ذکیہ جعفری مسلم کش فسادات کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر بضد رہیں۔ 2016 میں احمد آباد کی ایک خصوصی ایس آئی ٹی کی عدالت کی طرف سے 2002 کےگودھرا سانحہ کے بعد گلبرگ سوسائٹی میں ہونے والے قتل عام میں وشو ہندو پریشد کے ایک لیڈرسمیت 24 دیگر کو مجرم قرار دینے کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ذکیہ جعفری نے کہا تھا "یہ فیصلہ میرے لیے آدھے انصاف کے مترادف ہے۔” ذکیہ جعفری نے بیورو کریسی کی بے عملی، پولیس کی لاپروائی اور سازش، تشدد کو ہوا دینے والوں کے خلاف مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ جمعہ کو عدالت نے کیس میں تفتیش کاروں کی طرف سے دائر کی گئی حمتی رپورٹ کو قبول کرتے ہوئے سنہ 2013 کے فیصلے کو برقرار رکھا۔عدالت نے ذکیہ جعفری کی درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ یہ میرٹ پر پوری نہیں اترتی۔اس فیصلے سے ذکیہ جعفری کافی مایوس ہیں لیکن ابھی انہوں نے اس پر اپنا کسی طرح کا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے تاہم ابھی ان کے پاس ریوویو پیٹیشن دائر کرنے کی گنجائش موجود ہے لیکن ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ اس سے مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گااور ذکیہ جعفری کو یہ ملال رہے گا کہ انہیں انصاف نہیں مل سکا۔
احسان جعفری
احسان جعفری حریت پسند رہنما، اتحاد کے علمبرداراور ادبی شخصیت تھے۔ برہان پور میں پیدا ہوئے، وہ چھ سال کی عمر میں یعنی سنہ 1935 میں احمد آباد منتقل ہو گئے۔ احمد آباد کے آر سی ہائی اسکول میں دوران تعلیم انہوں نے اردو میں ایک رسالہ شائع کیا اور پھر 1940 کی دہائی میں تحریک آزادی میں شامل ہو گئے۔ مزدور یونین کے رہنما بننے کے بعد انہیں 1949 میں "انقلاب کی تحریک چھیڑنے” کی وجہ سے ایک سال کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ رہائی کے بعد وہ پروگریسیو ایڈیٹرز یونین کے جنرل سیکرٹری بن گئے اور قانون کی ڈگری مکمل کی جس کے بعد انہوں نے احمد آباد میں بطور وکیل پریکٹس کی۔ 1969 کے فرقہ وارانہ فسادات میں جس نے شہر کو تباہ کر دیا تھا، اس میں ان کا گھر بھی جلا دیا گیا جس کے نتیجے میں ان کے خاندان کو ریلیف کیمپ میں پناہ لینی پڑی تھی۔ بعد ازاں انہوں نے احمد آباد کے ایک صنعتی علاقے میں تقریباً اسی جگہ پر اپنا گھر دوبارہ تعمیر کیا، اور کافی تگ و دو کے بعدانہوں نےبوہرہ ہاؤسنگ ایسوسی ایشن، گلبرگ سوسائٹی قائم کی۔
احسان جعفری کے لیے سنہ 1969 ایک اہم سال تھا کیونکہ فرقہ وارانہ فسادات نے انہیں پوری طرح سیاست میں شامل ہونے پر ابھارا۔ انہوں نے اندرا گاندھی کی کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور 1972 میں اس کی احمد آباد برانچ کے صدر بنے۔ وہ 1977 میں احمد آباد سے رکن پارلیمان منتخب ہوئے۔ ایک ایسے وقت میں جب کانگریس انتہائی غیر مقبول تھی، گجرات میں اس سے پہلے یا اس کے بعد سے کوئی بھی مسلم امیدوار احمد آباد کے لیے بطور ایم پی منتخب نہیں ہوا تھا۔ انہوں نے دوبارہ کبھی الیکشن نہیں لڑا لیکن عوامی معاملات میں شامل رہے، حالانکہ ادب (بشمول اردو شاعری) نے ان کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔
فروری 2002 میں انہوں نے نریندر مودی کے خلاف انتخابی مہم چلائی جو راجکوٹ میں ضمنی انتخاب لڑ رہے تھے۔ اپنی ایک تقریر میں انہوں نےلوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ انہیں ووٹ نہ دیں کیونکہ وہ آر ایس ایس کے حامی ہیں۔
آر بی سری کمار(گجرات کے سابق ڈی جی پی)
آر بی سری کمار 1971 بیچ کے آئی پی ایس افسر ہیں جن کا تعلق ترواننت پورم، کیرالا سے ہے۔ انہیں اپریل 2002 کے دوران ایڈیشنل ڈی جی پی (انٹیلی جنس) کے طور پر تعینات کیا گیا تھا۔ سری کمار نے کیرالا یونیورسٹی سے تاریخ میں ماسٹر زکی ڈگری حاصل کی اور گاندھیائی فکر، انگریزی ادب اور جرائم (ایل ایل ایم) میں بھی ماسٹرز کیا۔
گجرات میں پوسٹنگ سے پہلے، سری کمار کو سنٹرل انڈسٹریل سیکیورٹی فورس (سی آئی ایس ایف) میں 1979 میں تعینات کیا گیا تھا اور 1980-84 تک سی آئی ایس ایف یونٹ کے کمانڈنٹ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد وہ کھیڑا اور کچھ اضلاع کے ایس پی کے عہدے کے لیے گجرات واپس آئے۔ انہوں نے گجرات بجلی بورڈ (گجرات توانائی وکاس نگم لمیٹڈ)میں سیکیورٹی ڈائریکٹر کے طور پر بھی کام کیا۔ان کا سب سے طویل عرصہ گجرات سے باہر انٹیلی جنس بیورو( آئی بی)میں تھا جہاں وہ 1987 سے 1999 تک کئی عہدوں پر فائز رہے۔ سری کمار 1992 تک نئی دہلی میں آئی بی ہیڈکوارٹر میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر تعینات تھے۔اس کے بعد ان کا تبادلہ ترواننت پورم میں اسسٹنٹ انٹیلی جنس بیورو ((ایس آئی بی)کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر کر دیا گیا۔
سنہ2002 کے دوران، سری کمار گجرات واپس آئے، جب ریاست میں کیشو بھائی پٹیل کی حکومت تھی۔ انہیں گجرات میں اے ڈی جی پی کا عہدہ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سری کمار کو وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی حکومت میں انٹیلی جنس ڈپارٹمنٹ کا انچارج بنایا گیا۔
ریاستی حکومت کے ساتھ سری کمار کا پہلا ٹکراؤ اس وقت ہوا جب انہوں نے اس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جے ایم لنگڈوہ کو رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گجرات کے 182 حلقوں میں سے 154 علاقے فسادات سے متاثر ہوئے تھے اور ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو بے گھر ہونے کی وجہ سے بے دخل کیا گیا۔ ان کی رپورٹ نے حکومت کے دعوؤں کی تردید کی تھی کیونکہ حکومت نے کہا تھا کہ اسمبلی انتخابات کا ماحول کافی پرامن تھا۔
سنجیو بھٹ (سابق آئی پی ایس افسر)
سنجیو بھٹ گجرات کیڈر کے سابق پولیس سروس افسر ہیں۔ گجرات 2002 کے فسادات میں اس وقت کے وزیراعلی نریندرمودی کے ملوث ہونے کے ثبوتوں کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنے والے پولیس افسر سنجیو بھٹ ہی تھے ۔ سنجیوبھٹ نے عدالت کے سامنے ایک ’حلف نامہ‘پیش کیا تھا جس میں انہوں نے اس وقت کے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو گجرات 2002 کے فسادات میں ملوث ہونے کا قصوروار قرار دیا تھا۔ حلف نامہ میں سنجیو بھٹ نے تحریر کیا تھا کہ مودی نے اپنی رہائش گاہ پر سرکاری افسروں کی، جن میں اعلیٰ پولس اہلکا ربھی شامل تھے ، ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں انہوں نے یہ حکم دیا تھا کہ’ ہندوؤں کو غصہ نکالنے دیا جائے۔ یہ ’حکم‘ ایک طرح سے تمام پولیس والوں کے لیے ایک طرح کا اشارہ تھا کہ وہ فسادات پر قابو پانے کے اپنے فرائض کو انجام دینے میں عجلت سے کام نہ لیں مسلمانوں کے خلاف ہندو جس طرح بھی اپنے غصے کو نکالنا چاہتے ہیں نکالنے دیں ۔ سنجیو بھٹ نے اپنے حلف نامہ میں تحریر کیا تھا کہ انہوں نے 27 فروری 2002 کے روز مودی کی رہائش گاہ پر ہونے والی میٹنگ میں خود شرکت کی تھی۔
سنہ 2015 میں سنجیو بھٹ کو پولیس سروس سے "غیر مجاز غیر حاضری” کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2015 میں سپریم کورٹ نے ان کے خلاف دائر کردہ مقدمات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دینے کی درخواست کو بھی مسترد کر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 20 جون 2019 کو ان کے خلاف 1990 کے دوران ہونے والے ایک حراستی موت کے مقدمے میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سنجیو بھٹ فی الوقت جیل میں ہیں۔ سنجیو بھٹ ایک کشمیری پنڈت ہیں۔انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی، بامبے سے انہوں نےسنہ 1985 میں ایم ٹیک کیا تھا۔سنہ 1988 میں انہوں نے گجرات پولیس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اپنی پولیس سروس کے دوران انہوں نے فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی تھی اور معاشرے میں بھائی چارہ اور ہم آہنگی کے لیے متواتر کام کرتے رہے۔ ان کا کریئر تنازعات سے پر رہا لیکن انہوں نے حق و صداقت کے راستے پر چلنے کو ترجیح دی جس کے باعث انہیں محکمہ جاتی کارروائی کا بھی سامنا کرنا پڑا اور حکومت وقت سے ٹکرانے کی بھی قیمت چکانی پڑی۔ وہ بے لاگ لپیٹ گفتگو اور قانونی پیرائے میں کام کرنے کے لیے جانے جاتے تھے۔
سنجیوبھٹ نے فسادات کے تقریباً 9سال کے بعد 14 اپریل 2011 کو سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کیا۔ حلف نامے کے مطابق مودی نے اعلیٰ پولیس اہلکاروں کو ہدایت دی کہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف غصہ نکالنے دیا جائے۔ انہوں نےحلف نامہ میں یہ بھی واضح کیا تھاکہ مذکورہ میٹنگ میں یہ طے کیا گیا تھا کہ کارسیوکوں کی لاشیں احمد آباد لاکر آخری رسومات ادا کی جائیں گی۔ اس فیصلے کی سنجیوبھٹ کے بقول انہوں نے یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ اس سے مذہبی تشدد کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ سنجیوبھٹ کے مطابق اس وقت کے پولیس ڈائریکٹر جنرل کے چکرورتی اور اس وقت کے احمد آباد کے پولس کمشنر پی سی پانڈے نے کارسیوکوں کی لاشیں لانے کی مخالفت کی تھی۔ سنحیوبھٹ کے حلف نامہ کے بعد انہیں معطل کردیا گیا اور وہ آج تک معطل چلے آرہے تھے بلکہ اب تو عمر قید کے مجرم بن چکے ہیں۔
سنجیوبھٹ کو حراستی موت کے جس تیس سالہ پرانے معاملے میں عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے اس سلسلے میں شویتا بھٹ نے جو تفصیلات جاری کی ہیں اگر وہ صحیح ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ بھٹ کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے ۔ بات 1990 کی ہے جب جام نگر فرقہ وارانہ فسادات کی زد میں تھا۔ فسادی جن کا تعلق وی ایچ پی سے تھا، گرفتار کیے گئے تھے، ان میں سے ایک پربھوداس ویشنانی کی موت ہو گئی تھی۔ اسے حراستی موت کہا جاتا ہے جبکہ موت حراست میں نہیں ہوئی تھی۔ ویشانی اسپتال میں بھرتی تھا، وہاں سے اسے جب چھٹی ملی اور وہ باہر آیا تب اس کی موت واقع ہوئی۔۔۔ شویتا بھٹ کا کہنا ہے کہ گرفتاریاں بھی سنجیوبھٹ نے نہیں کی تھیں بلکہ ان کے جام نگر پہنچنے سے پہلے ہی فسادیوں کی گرفتاریاں ہوچکی تھیں ۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022