دہلی: جہانگیر پوری مسلم مخالف تشدد کی گراؤنڈ رپورٹ
نئی دہلی، اپریل 21: جہانگیرپوری کے مسلم رہائشی جنھوں نے 16 اپریل کو ہنومان جینتی جلوسوں کے بعد مسلمانوں کے مکانات ، ان کی دکانوں اور مذہبی مقامات پر حملے کا مشاہدہ کیا ہے وہ خوف اور دہشت میں ہیں۔ مسلمانوں کا الزام ہے کہ پولیس کی کارروائی ’’یک طرفہ‘‘ ہے۔ وہ بنیادی طور پر مسلمانوں کو گرفتار کر رہے ہیں جب کہ وہ ریلیوں میں موجود شرپسند تھے جنھوں نے تشدد کا آغاز کیا تھا۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے دفاع میں کام کیا اور اس مسجد کی حفاظت کی جس پر تلواروں اور دیگر تیز دھارے والے ہتھیاروں سے لیس شرپسندوں نے حملہ کیا تھا۔
تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے ’’دونوں برادریوں‘‘ سے ’’ملزمان‘‘ کو گرفتار کیا ہے۔ اب تک پولیس نے 28 افراد کو گرفتار کیا ہے، ان میں سے پانچ مسلم برادری کے ایک ہی خاندان سے ہیں۔ گرفتار دو نابالغ افراد بھی مسلم برادری سے ہیں۔ اب تک کی جانے والی کل گرفتاریوں میں سے صرف پانچ ہی ہنومان جینتی جلوس سے وابستہ افراد میں سے ہیں۔
تاہم ڈی سی پی (نارتھ ویسٹ) اوشا رنگنانی نے پولیس کے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کسی کو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے یقین دلایا ہے کہ ’’ملزمان‘‘ کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ تاہم کوئی بھی نہیں جانتا ہے کہ ان کی تعریف کے مطابق کون ’’ملزم‘‘ ہے کیوں کہ جو دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عمل بنیادی طور پر مسلمانوں کے خلاف شروع کیا گیا ہے۔
مقامی مسجد کے سامنے جلوس کو تین بار کیوں نکالا گیا؟ اس کے پیچھے سازش کیا تھی؟ جلوس کے تیسرے دور کے بعد ہی تشدد کا آغاز ہوا۔ مقامی مسلمانوں کے مطابق جلوس نے تیسرے مرحلے کے دوران مسلمانوں کے خلاف بدسلوکی کا استعمال کیا ، جارحانہ نعرے لگائے ، مسجد میں داخل ہوئے اور اس کے مرکزی دروازے پر چڑھ گئے۔ تاہم پولیس اس سے انکار کرتی ہے کہ جلوس میں شامل شرپسند مسجد میں داخل ہوئے اور مسجد کے گیٹ کے اوپر زعفرانی جھنڈا لگایا۔ میڈیا کو دیے گئے پولیس کے بیانات سے لے کر تشدد کے سلسلے میں رجسٹرڈ ایف آئی آر تک میں، پولیس غیر جانبدار ایجنسی کی حیثیت سے نہیں بلکہ جلوس میں شامل لوگوں کی زبان بول رہی ہے۔
جلوس میں شامل لوگوں نے جلوس کے دوران تلواریں اور دیگر تیز دھار والے ہتھیاروں کو کیوں اٹھایا؟ پولیس نے اسلحہ لے جانے کی اجازت کیوں دی؟ کیا پولیس کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ ان تمام ہتھیاروں کو جلوسوں سے لے لے اور ان کے خلاف اور جلوس کے منتظمین کے خلاف مقدمات درج کرے؟ پولیس ان تمام امور پر خاموش ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق 16 اپریل کو تین ریلیاں نکالی گئیں۔ پہلی دو ریلیوں کے دوران کوئی تصادم نہیں ہوا۔ لیکن تیسری ریلی کے دوران مسجد کے باہر مسلمانوں کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ ریلی کے شرکا نے مسجد کے داخلی دروازے پر زعفرانی جھنڈے کو لہرانے کی کوشش کی۔ 18 اپریل کو پولیس کمشنر راکیش استھانا نے اعتراف کیا کہ تیسری ریلی کے لیے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ لہذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی اجازت نہیں تھی تو پولیس نے تیسری ریلی کی اجازت کیوں دی؟ اس نے ریلی میں شامل لوگوں کو علاقے سے منتشر کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کیے؟ جب وہ لوگ اسلحہ اٹھا رہے تھے تو اس نے ریلی کو مسجد میں کیوں جانے دیا؟ لیکن پھر بھی پولیس کا دعویٰ ہے کہ جہانگیرپوری تشدد کے پیچھے مسلمان اہم سازشی ہیں۔
کون اس کی تفتیش کرے گا؟ بنیادی طور پر پولیس ریلی کے شرکا کے لیے اتنی ’’دوستانہ‘‘ کیوں تھی اور انھیں تلواروں اور دوسرے ہتھیاروں سے مسلح ہوکر حساس مسلم محل وقوع سے گزرنے کی اجازت کیوں دی؟ اگر پولیس اس کی تفتیش کرتی ہے تو اس کے نتائج پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ پورے واقعہ میں پولیس کے کردار کو مسلم برادری کے نزدیک مشتبہ مانا جارہا ہے۔
ایک عینی شاہد نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ مسجد کے باہر سے گزرنے والا جلوس 16 اپریل کو تیسرا جلوس تھا۔ انھوں نے الزام لگایا کہ جلوس کے شرکا تلواریں اور دوسرے ہتھیاروں کو اپنے ہاتھوں میں لہرا رہے تھے۔ مسلمانوں اور جلوس کے شرکا کے مابین بحث اس وقت ہوئی جب کچھ شرپسند مسجد میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض نعرے بازی کی۔ دوسروں نے مسجد کے انٹری گیٹ پر زعفرانی جھنڈا لگانے کے لیے نعرے لگائے۔
ایک مقامی مسلمان نور احمد نے بتایا ’’اگر کوئی آپ کے مذہبی مقام میں زبردستی داخل ہوتا ہے اور آپ کے مذہب کے خلاف نعرے بازی کرتا ہے اور اپنے مذہب کا جھنڈا لگانے کی کوشش کرتا ہے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ مزاحمت نہیں کریں گے؟‘‘
ایک اور رہائشی جہانگیر نے کہا ’’کالی پوجا اور گنیش جینتی پر بھی ریلیاں نکالی گئیں۔ لیکن یہ پہلی بار تھا جب لوگوں نے مذہبی جلسے میں تلواروں اور دوسرے ہتھیاروں کی نمائش کی۔
جہانگیر نے کہا کہ ریلی کے کچھ شرکا نے تلواریں لہرائیں اور کچھ لوگوں نے مسلمانوں سے ’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ لگانے کو کہا۔ ان میں سے کچھ مسجد کے پھاٹک پر چڑھ گئے اور ’’بھگوا‘‘ جھنڈے کو لہرانے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بحث ہوئی، جس کے بعد بعد ریلی سے کچھ شرپسندوں نے مسجد میں پتھر پھینکے۔ کچھ پتھر مسجد کی چوتھی منزل پر گرے، جس سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔
ایک اور عینی شاہد عبدل نے کہا ’’جب شرپسندوں نے مسجد پر پتھر پھینکے تو مسلمان اپنے دفاع میں جوابی کارروائی کر رہے تھے۔ شرپسند ہی آتش زنی اور گاڑیوں کو جلانے میں ملوث تھے۔ یہ ’’افطار‘‘ کا وقت تھا، تو ہم مسلمان کیوں سنگسار اور آتش زنی کی سرگرمیوں کا سہارا لیں گے؟‘‘
صورت حال کو قابو میں لانے کے لیے پولیس کو 40 سے 50 آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے۔ پولیس کو صورت حال پر قابو پانے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگا۔ اس درمیان دو بائک جل گئیں اور آٹھ پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔
مسجد سے پتھراؤ ایک بے بنیاد الزام ہے: مقامی مسلمان
مقامی مسلمانوں نے بتایا کہ میڈیا کے ایک حصے کے یہ الزامات کہ مسجد سے پتھراؤ کیا گیا تھا، بے بنیاد اور غلط ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی مسجد کی چھت پر جا سکتا ہے اور اپنے آپ دیکھ سکتا ہے کہ مسجد سے پتھر پھینکے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ چھت پر باؤنڈری کی دیوار لمبی لمبی جالیوں سے بنی ہے اور جالی میں سے پتھر پھینکنا ممکن نہیں ہے۔ مقامی مسلمانوں کا الزام ہے کہ پتھراؤ ریلی میں شامل شرپسندوں نے کیا تھا۔
ریلی کے لیے کوئی اجازت نہیں تھی
پولیس کے مطابق 16 اپریل کو صرف دو ریلیوں کے لیے اجازت دی گئی تھی۔ تیسری ریلی کے لیے کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ اس کی وجہ سے دہلی پولیس نے ریلی کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے، جو وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے ہیں۔
گرفتاری کے دوران سوالات اٹھائے گئے
اب تک کی گئی 28 گرفتاریوں میں سے دو کے نابالغ ہونے کی اطلاع ہے۔ مسلمانوں نے پولیس پر اقلیتی برادری کے خلاف متعصب ہونے کا الزام عائد کیا ہے، لیکن پولیس ان الزامات سے انکار کر رہی ہے۔ دہلی کے پولیس کمشنر راکیش استھانا نے کہا کہ گرفتاریاں ’’دونوں برادریوں‘‘ سے کی گئی ہیں۔ انھوں نے یقین دلایا کہ ملزم کے خلاف ان کی ذات ، مسلک یا برادری کے امتیازی سلوک کے بغیر کارروائی کی جائے گی۔ انھوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے جانے والی ’’افواہ‘‘ پر اعتماد نہ کریں۔ کرائم برانچ کو 16 اپریل کے واقعے کے بارے میں تفتیش تفویض کی گئی ہے۔
مسلمان خواتین نے پولیس پر ان کے ساتھ بدتمیزی کا الزام لگایا
انڈیا ٹومورو کو انٹرویو دیتے ہوئے بہت سی مسلمان خواتین نے کہا کہ ’’پولیس نے رات کے چھاپوں کے دوران، تلاشی کے بہانے ان کے ساتھ بدسلوکی کی اور جب انھوں نے پولیس کی بدسلوکی کے خلاف احتجاج کیا تو پولیس نے دھمکی دی کہ انھیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔‘‘
اس سے مسلم رہائشیوں میں خوف پیدا ہوا ہے۔ لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ’’امن کمیٹی‘‘ کے اجلاس کا انعقاد کرکے امن کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کے وفد نے متاثرہ افراد کے اہل خانہ سے ملاقات کی
دریں اثنا جماعت اسلامی ہند کے ایک وفد جس میں اس کے قومی نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینئر، سکریٹری محمد احمد، اور حلقہ دہلی کے صدر عبد الواحد نے جہانگیرپوری کے متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔ انھوں نے خود متاثرین کی طرف سے واقعے کے پیچھے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔
بعد میں جماعت اسلامی ہند کے وفد نے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ویسٹ) اوشا رنگنانی سے ملاقات کی اور متاثرہ افراد کو درپیش پریشانیوں کے بارے میں انھیں آگاہ کیا۔ انھوں نے وفد کو یقین دلایا کہ بے گناہ افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
(رپورٹ: مسیح الزماں انصاری، بشکریہ انڈیا ٹومورو)