جہانگیر پوری تشدد: دہلی کی ایک عدالت نے پانچ ملزمین کی پولیس حراست میں آٹھ دن کی توسیع کی

نئی دہلی، اپریل 24: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق دہلی کی ایک عدالت نے ہفتہ کو جہانگیرپوری تشدد کے ملزم پانچ افراد کی پولیس حراست میں آٹھ دن کی توسیع کر دی۔

ان پانچ افراد- انصار، سونو عرف امام شیخ، سلیم، آہیر اور دلشاد – پر سخت قومی سلامتی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یہ پولیس کو بغیر کسی مقدمے کے 12 ماہ تک کسی شخص کو حراست میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔

پولیس نے الزام لگایا ہے کہ تشدد کے پیچھے اصل سازش کار انصار ہے۔ سونو کو مبینہ طور پر جہانگیرپوری جھڑپوں کی ایک ویڈیو میں فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

میٹروپولیٹن مجسٹریٹ مینک گوئل نے کہا کہ ملزمین کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے یکم مئی کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ اس نے دیگر ملزمان سنور کالیا، صدام خان، انور، چاند اور سلمان کے خلاف بھی ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے۔ یہ اس وقت ہوا جب پولیس نے عدالت کو بتایا کہ وہ مفرور ہیں۔

پی ٹی آئی کے مطابق سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ انھیں ملزمین سے اچھی طرح سے پوچھ گچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ پولیس نے یہ بھی کہا کہ انھیں تشدد کے دوران استعمال ہونے والے مبینہ غیر قانونی ہتھیاروں کے ذرائع کا پتہ لگانے کی بھی ضرورت ہے۔

جہانگیرپوری تشدد

16 اپریل کو بجرنگ دل نے ہندو تہوار ہنومان جینتی کے موقع پر شمال مغربی دہلی کے جہانگیر پوری میں تین جلوس نکالے تھے۔ رہائشیوں کا کہنا تھا کہ جلوس کے شرکا تلواروں اور ترشولوں سے لیس تھے، جب کہ ویڈیوز میں ان میں سے کچھ بندوقیں اٹھائے ہوئے اور ’’جے شری رام‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے بھی دکھائی دے رہے ہیں۔

جب تیسرا جلوس ایک مسجد سے گزرا اور رہائشیوں کے مطابق کچھ شرپسندوں نے مسجد کے دروازے پر بھگوا جھنڈا لگانے کی کوشش کی تو تشدد پھوٹ پڑا، جس میں آٹھ پولیس اہلکار اور ایک مقامی باشندہ زخمی ہوا۔

تشدد کے الزام میں کم از کم 24 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

اس معاملے میں داخل کی گئی پہلی معلوماتی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جلوس ’’پرامن طریقے‘‘ سے نکالا جا رہا تھا جب تک کہ یہ مسجد تک نہیں پہنچا، جہاں ’’انصار کے ساتھ 4-5 لوگوں نے جھگڑا شروع کر دیا۔‘‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’اس کے بعد دونوں طرف کے لوگوں نے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا۔‘‘

جہاں عام آدمی پارٹی نے الزام لگایا کہ ہے انصار بھارتیہ جنتا پارٹی کا لیڈر ہے، وہیں بھگوا پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اروند کیجریوال کی قیادت والی پارٹی سے وابستہ ہے۔