’’مسجد کو بلڈوز کریں، مندر کو چھوڑ دیں‘‘ پالیسی ایم سی ڈی کے دوہرے معیار کو ظاہر کرتی ہے: جہانگیر پوری کے مسلم رہائشیوں کا الزام

نئی دہلی، اپریل 21: جہانگیرپوری میں تجاوزات کے خلاف انہدامی مہم نے دہلی کی میونسپل کارپوریشن کے دوہرے معیار کو واضح کردیا ہے۔

تجاوزات کے انہدام کی مہم کا آغاز کل مقامی جامع مسجد اور دیگر مسلم پراپرٹیز پر ہونے والے شرپسندوں کے حملوں کے بعد کیا گیا تھا جو 16 اپریل کو اس علاقے میں ہنومان جینتی جلوس کا حصہ تھے۔ جمعرات کے روز سپریم کورٹ نے میونسپل کارپوریشن کو دو ہفتوں کے لیے انہدام کی مہم کو معطل کرنے کا حکم دیا۔

انہدام کے دوران ایم سی ڈی کے اہلکاروں نے جامع مسجد کی باؤنڈری کی دیواروں کو گرا دیا، لیکن اسی راستے میں چند میٹر کے فاصلے پر ایک مندر پر کچھ نہیں کیا۔ اگر یہ مانا جائے کہ مسجد نے سرکاری اراضی پر تجاوز کیا ہے، تو اس کے مطابق مندر کا کچھ حصہ بھی سرکاری اراضی پر ہے۔ جب غیر قانونی تجاوزات کو ختم کیا جارہا تھا تو انصاف کا نقاضا تھا کہ حکام کو مسجد کے ساتھ ساتھ مندر کے ذریعہ کی جانے والی تجاوزات کو بھی منہدم کرنا چاہیے تھا۔

تاہم ایم سی ڈی کے اہلکاروں نے مندر کو بالکل بھی ہاتھ نہیں لگایا اور انھوں نے مسجد ، متعدد مسلمانوں کی دکانوں اور مکانات اور کچھ ہندو دکانوں اور مکانات کو نشانہ بنایا۔ ایم سی ڈی حکام نے مندر کے منتظمین کو خود ہی تجاوزات کو دور کرنے کی اجازت دی۔

مسجد انتظامیہ کے مطابق ایم سی ڈی حکام مسجد کے معاملے میں بھی اسی طرح کی نرمی کی اجازت دے سکتے تھے۔ مسجد کے منتظمین کا کہنا ہے کہ جب بلڈوزر استعمال کیے جاتے ہیں تو اس سے عمارت کے دیگر حصوں کو بھی، تجاوزات والے حصے کے علاوہ بھی، نقصان ہوتا ہے۔ لیکن جب آپ خود تجاوزات کو ہٹاتے ہیں تو آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آپ کی عمارت کے کسی اور حصے کو نقصان نہیں پہنچا ہے۔

مسجد کے قریب رہنے والے ایک شخص نے کہا ’’مندر کے منتظمین کو خود سے تجاوزات کو دور کرنے کی اجازت دے کر اور مسجد کے منتظمین کو اس سہولت سے انکار کرتے ہوئے ایم سی ڈی حکام نے ثابت کیا ہے کہ وہ غیرجانبدار نہیں ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف متعصب ہیں۔ اگر وہ غیرجانبدار ہوتے تو وہ مسجد کی انتظامیہ کو بھی وہی موقع فراہم کرتے۔‘‘

ایم سی ڈی کے ذریعہ کوئی پیشگی اطلاع جاری نہیں کی گئی تھی

رہائشیوں نے انڈیا ٹومورو کو بتایا کہ انھیں ایم سی ڈی کے ذریعے تجاوزات کو دور کرنے کے فیصلے کے بارے میں کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اگر ایم سی ڈی نے انہیں اس کے بارے میں آگاہ کیا ہوتا تو وہ خود ہی تجاوزات کو ہٹا دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم سی ڈی کی اچانک کارروائی کی وجہ سے انھیں خاطر خواہ معاشی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ جہانگیرپوری ایک کم آمدنی والے طبقے کے افراد کا علاقہ ہے اور یہاں کے زیادہ تر رہائشی بہت غریب ہیں۔

ایم سی ڈی کی طرف سے نشانہ بنائی گئی زیادہ تر جائیدادیں مسلمانوں کی تھیں اور کچھ ہندوؤں کی بھی تھیں۔ رقیہ، جو گلی نمبر 2 میں گزشتہ 10 سالوں سے سڑک کے کنارے ایک دکان چلا رہی تھی، نے کہا کہ ایم سی ڈی نے انھیں کوئی نوٹس نہیں دیا۔ اس کا دعویٰ ہے کہ MCD نے اسے دکان کے لیے 10 سال کی اجازت دی تھی۔ ’’لیکن انھوں نے اچانک میری دکان کو کیوں گرا دیا؟ مجھے نہیں معلوم۔‘‘

انہدام کی وجہ سے بہت سے لوگ روزی روٹی کے ذرائع بھی کھو بیٹھے ہیں۔

تین بچوں والی رقیہ کی روزی روٹی کا واحد ذریعہ وہی دکان تھی۔ اسے اس کارروائی کی وجہ سے تیس ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ رقیہ نے کہا ’’ایم سی ڈی نے میرے ذریعہ معاش کو تباہ کر دیا ہے۔ اب میں اپنا اور اپنے تین بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کیا کروں گی؟‘‘

نذیر، جس کا گھر کشل سنیما ہال کے قریب واقع ہے، کا کہنا ہے کہ ایم سی ڈی نے اس کے گھر کی اسٹیل کی سیڑھیاں توڑ دیں۔ وہاں بہت سی سڑکوں پر ایسی سیڑھیاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چوں کہ لوگوں کے پاس 25 سے 30 مربع گز یا اس سے بھی چھوٹے پلاٹ ہیں، اس لیے سیڑھیاں بنانے کے لیے کافی جگہ نہیں ہے۔ ’’لہذا ہم کیا کرتے ہیں کہ ہم پہلی اور دوسری منزل تک پہنچنے کے لیے اسٹیل کی سیڑھیاں بناتے ہیں اور سیڑھیوں کے اڈے کا کچھ حصہ گلی میں ہوتا ہے۔ اور یہ جہانگیرپوری کے مسلم علاقے کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یہ ہر جگہ ہے۔‘‘

گلی نمبر 2 کے ایک اور رہائشی نے بتایا کہ ایم سی ڈی نے گلی نمبر 2 سے کشال سنیما تک 18 دکانیں ہٹا دیں۔

بہار سے تعلق رکھنے والے رمن جھا نے کہا کہ ایم سی ڈی نے ان کی ’’گمٹی‘‘ یعنی چھوٹی دکان کو بھی گرا دیا۔ جھا کہتے ہیں ’’میں پچھلے 15 سالوں سے پان کی دکان چلا رہا تھا۔‘‘ اسے بھی اپنی روزی روٹی کی فکر ہے۔

جھا کا کہنا ہے کہ اس نے مقامی ہندوؤں کی رہائش گاہوں پر پوجا اور دیگر مذہبی رسومات بھی ادا کیں۔ جھا نے کہا ’’میں نے ایم سی ڈی کے عہدیداروں سے بات کی تھی۔ انھوں نے مجھے یقین دلایا تھا کہ میری دکان کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔ لیکن انھوں نے اسے منہدم کر دیا۔‘‘

تجاوزات ہٹانے کے بہانے اس انہدامی کارروائی نے ایک ایسے وقت میں سیکڑوں لوگوں کا ذریعہ معاش چھین لیا ہے جب ملک شدید بے روزگاری کا شکار ہے۔ ایم سی ڈی کی کارروائی نے علاقے کے غریب لوگوں کے لیے ایک بڑا معاشی بحران پیدا کر دیا ہے۔