غازی آباد: بزرگ مسلم شخص پر حملہ کرنے والے تمام 9 ملزمان کی عبوری ضمانت منظور
نئی دہلی، جون 19: پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق اترپردیش کے غازی آباد شہر کی ایک عدالت نے رواں ماہ کے شروع میں ایک بزرگ مسلمان شخص پر حملے کے ملزم نو افراد کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔
اس حملے کی ایک ویڈیو گذشتہ اتوار سے ہی سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے۔ اس میں ملزموں کو اس بوڑھے شخص کو مارتے ہوئے اور اس کی داڑھی کاٹتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ واقعہ 5 جون کو غازی آباد کے علاقے لونی میں پیش آیا تھا۔
متاثرہ شخص نے، جس کی شناخت عبد الصمد کے نام سے ہوئی ہے، الزام لگایا کہ اسے جنگل کے علاقے میں ایک کمرے میں لے جانے کے بعد گن پوائنٹ پر گھنٹوں اس پر تشدد کیا گیا تھا۔
پولیس نے مرکزی ملزم پرویش گجّر کو 13 جون کو گرفتار کیا تھا۔ 15 جون کو پولیس نے بتایا کہ انھوں نے اس معاملے میں دو مزید مشتبہ افراد کو بھی گرفتار کیا ہے۔ دو دن بعد چھ دیگر افراد کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔
ملزموں کو 17 اگست تک عبوری ضمانت مل گئی ہے۔ تاہم، گجّر ایک اور مقدمے کے سلسلے میں عدالتی تحویل میں رہے گا۔ یہ بات اس کے وکیل پرویندر ناگر نے نیوز ایجنسی کو بتائی۔
غازی آباد پولیس نے دعوی کیا کہ گجّر اور اس کے ساتھیوں نے عبدالصمد پر اس لیے حملہ کیا کیوں کہ اس نے مبینہ طور پر انھیں ’’تعویذ‘‘ فروخت کیا تھا جس سے ان کے اہل خانہ پر ’’منفی اثر پڑا‘‘ تھا۔
تاہم پولیس کا یہ بیان عبد الصمد کے بیان سے بالکل مختلف ہے۔ عبدالصمد نے ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ ملزم نے اسے ہندو دیوتا رام کے نام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملزم نے اسے بتایا کہ انھوں نے بہت سارے مسلمانوں کو مارا پیٹا ہے اور اسے برادری کے لوگوں کی مارپیٹ کی ویڈیو دکھائی۔
پولیس نے اپنے بیان میں ان میں سے کسی بات کا ذکر نہیں کیا۔
واقعہ کو ’’فرقہ وارانہ زاویہ‘‘ دینے پر ٹویٹر اور صحافیوں کے خلاف ایف آئی آر
دریں اثنا منگل کو ضلع غازی آباد کی پولیس نے بزرگ مسلمان شخص پر حملے کے سلسلے میں ٹویٹر، نیوز ویب سائٹ دی وائر اور صحافی رعنا ایوب اور محمد زبیر سمیت سات دیگر افراد کے خلاف پہلی انفارمیشن رپورٹ درج کی۔ ایف آئی آر میں غازی آباد میں پیش آئے اس واقعے کے بارے میں پوسٹ کردہ مخصوص ٹویٹس کا ذکر کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں، جس میں مصنفہ صبا نقوی اور کانگریس کے سلمان نظامی، شمع محمد اور مشکور عثمانی کا بھی نام شامل ہے، الزام لگایا گیا ہے کہ انھوں نے اس واقعے سے متعلق ٹویٹ کی تصدیق نہیں کی اور اسے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دیا۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے ’’ملزم اور دوسرے لوگوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین دشمنی پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘‘ پولیس نے کہا کہ ٹویٹس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو ختم کرنے کی کوشش تھی۔ ملزمان میں صحافی اور سیاسی شخصیات شامل ہیں۔
پولیس نے ٹویٹر کے ہندوستانی یونٹ کے چیف کو بھی ایسے پیغامات نہ روکنے کے سبب ایک نوٹس بھجوایا ہے۔