گلاتا ٹاور: دنیا کا قدیم ترین ٹاور جس سے پہلے لائٹ ہاوس کا کام لیا جاتا تھا
زمین کے دل فریب مناظر کا بلندی سے بھی نظارہ ممكن
افروز عالم ساحل
میری آنکھوں کے سامنے جو نظارہ ہے، اسے شاید ہی دنیا کے کسی مصنف کا قلم بیان کر پائے، شاید ہی کوئی مصور اس کا خاکہ کاغذ پر اتار پائے، یا پھر شاید ہی کوئی کیمرہ اس نظارے کو قید کر پائے۔ یہاں تو کیمرہ کا پانوراما فیچر بھی کام نہیں کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دلفریب نظارے کی کیفیت کو صرف اور صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ استنبول کی تمام مشہور عمارتیں آپ کے لیے سجا کر رکھ دی گئی ہیں۔ مساجد کی سنہری گنبدیں، آسمان میں شگاف ڈالتے سفید موم بتیوں جیسے مسجد کے مینار، فضا میں لہراتے ترکی قومی جھنڈے، ترکی مکانوں کی سُرخ چھتیں، آبنائے باسفورس کے ساحل اور اس کے دونوں جانب پہاڑ اور جنگل، سمندر کی خاموش لہریں، ایسا لگتا ہے جیسے نیلگوں ساٹن کے رومال کی طرح بچھے ہوئے ہوں۔ اور پلوں پر دوڑتی ہوئی گاڑیاں اور چیونٹیوں کی طرح نظر آتے ہوئے انسان، ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے کوئی ویڈیو گیم کھیل رہا ہے۔۔۔
اس وقت میں زمین سے تقریبا 220 فٹ کی بلندی پر استنبول کے گلاتا ٹاور کی سب سے اوپری منزل پر کھڑا ہوں۔ آج موسم کافی سرد ہے لیکن استنبول کا یہ نظارہ ایک عجیب سی گرمی کا بھی احساس دلا رہا ہے۔ ذہن میں بار بار خیال آتا ہے کہ کاش! آج سورج نے بے وفائی نہ کی ہوتی تو پھر بڑے غضب کا منظر ہوتا۔ نیلے شفاف آسمان پر چمکتے ہوئے سورج کی کرنوں میں باسفورس کا دھیرے دھیرے ہلکورے لیتا پانی کیا قہر ڈھاتا اور غروب ہوتے سورج کی ترچھی روشنی میں شاخ زریں، آبنائے باسفورس اور مرمرا کا پانی سیال سونے میں بدل جاتا۔ یا پھر اس وقت چاندنی رات ہوتی تو شاید چاند پر کچھ میرا بھی رعب پڑتا، ایک ایسی تصویر نکالتا جس میں چاند میرے بغل میں کھڑا ہوتا اور چاند کی روشنی میں شاخ زریں کے سنہرے پانی کو سیاہ ہوتے دیکھتا۔ یا پھر کاش کہ میں بھی ایک بار چلیبی کی طرح آسمان میں اڑان بھرتا اور استنبول کے ان حسین نظاروں کا دیدار کرتا۔ پھر یہ سوچنے لگا کہ یہ تمام آپشنز تو میرے پاس موجود ہیں لیکن شاید مجھے یہاں ایک ہفتے قبل ہونا چاہیے تھا جب استنبول برف کی چادروں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس وقت گلاتا ٹاور سے استنبول کو دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا۔ میں شاید خوابوں کی دنیا میں پہنچ گیا تھا، لیکن آنکھوں کے سامنے برف کا منظر جم سا گیا۔۔۔
یہ دلفریب نظارے اس وقت میرے دل و دماغ پر پوری طرح حاوی ہوچکے ہیں اور میں ان بے شمار خیالات کے ساتھ ان نظاروں کو اپنے کیمرہ میں قید کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہوں۔ اسی درمیان میری نظر ان درجنوں قفلوں پر پڑی، جنہیں عاشق اپنی نشانی کے طور پر یہاں چھوڑ گئے تھے۔ دراصل، ہر ملک میں ایسے محبت کرنے والے جوڑے ضرور ہوتے ہیں، جو کسی نہ کسی ورثے پر اپنی محبت کی نشانی چھوڑ آتے ہیں۔ اپنے وطن ہندوستان میں دیواروں پر نام لکھنے کا رواج تو میں دیکھ چکا ہوں، لیکن استنبول کے گلاتا ٹاور پر اپنی محبت کی نشانی چھوڑ آنے کا یہ انداز کچھ مختلف ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عاشقوں کے جوڑے گلاتا ٹاور کے اس حصے میں آ کر ایک دوسرے کو شادی کی پیشکش کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو ہمیشہ کے لیے مقفل کر دیتے ہیں۔ یہ قفل اسی کی ایک نشانی ہیں جو اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کبھی کوئی دیوار صرف ایک دیوار نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بھی کچھ ہوتی ہے۔ ان میں کئی گہرے راز چھپے ہوتے ہیں۔ گلاتا ٹاور کی بلند ترین دیواروں نے جہاں ایک طرف نہ جانے کتنے عاشقوں کی محبت کے رازوں کو جذب کر رکھا ہے، وہیں ان دیواروں کے سینوں میں کئی سانحات کے راز بھی دفن ہیں۔ ابھی کچھ دنوں قبل کی ہی بات ہے کہ استنبول کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کے چائلڈ ڈیولپمنٹ ڈپارٹمنٹ میں زیر تعلیم 20 سالہ ہلال یامور گلاتا ٹاور سے گر کر جان کی بازی ہار گئیں۔ زیادہ تر لوگوں نے اس واقعے کو غلطی سے پیش آنے والا حادثہ قرار دیا، لیکن کیمرے کی فوٹیج نے اس خیال کو تقویت دی کہ اس لڑکی نے خود کشی کی تھی۔ یہ واقعہ جون 2021 کا ہے۔ اس سے قبل اپریل 2019 میں بھی ایک نامعلوم خاتون اس ٹاور سے گر کر ہلاک ہو گئیں۔ اس حادثے میں یہ واضح نہیں ہو پایا کہ اس نے خودکشی کی تھی یا حادثے سے پھسل کر گر گئی تھی۔ ایسی ہی ایک کہانی 23 سالہ نوجوان کی بھی سامنے آئی جب اس نے 1973 میں اس ٹاور سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی تھی۔ یہ نوجوان استنبول کے شاعر یاسر اوزجان کا بیٹا تھا۔ یاسر اوزجان نے اس واقعے کے بعد گلاتا ٹاور کے نام ترکی زبان میں ایک نظم بھی لکھی تھی۔
عالمی سطح پر شناخت رکھنے والے گلاتا ٹاور کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ یہ ٹاور دنیا کے قدیم ترین ٹاوروں میں سے ایک ہے جسے بازنطینی شہنشاہ اناستاسیئس نے چھٹویں صدی میں ’لائٹ ہاؤس ٹاور‘ کے طور پر تعمیر کیا تھا جس کا مقصد سمندری جہازوں کو راستہ دکھانا تھا۔ اس ٹاور کو 1204ء میں چوتھی صلیبی جنگ کے دوران منہدم کر دیا گیا۔ 1348ء میں جینوئس نے اسے دوبارہ تعمیر کرایا اور اسے ’’دی ٹاور آف جیسس کرائسٹ‘‘کا نام دیا۔ اس ٹاور کو 1445-46ء میں مزید بلند کیا گیا۔ سلطان فاتح نے جب 29 مئی 1453 کو قسطنطنیہ فتح کیا تو اسی دن گلاتا کالونی اور اس ٹاور کی کنجیاں انہیں پیش کردی گئیں، اور یکم جون بروز جمعہ کو سلطان فاتح نے اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کے بعد ہر صدی میں اس ٹاور کی مرمت کی جاتی رہی۔ اسے عیسائی جنگی اسیروں کی پناہ گاہ کے طور پر بھی استعمال کیا گیا جنہیں 16ویں صدی میں قاسم پاشا شپ یارڈ میں کام پر رکھا گیا تھا۔ شپ یارڈ کی زنجیروں کا ایک چھوٹا سا حصہ آج بھی اس گلاتا ٹاور کے میوزیم میں موجود ہے۔
اس کے بعد سلطان مرات (سوم) کی اجازت سے انجینئر، ریاضی داں، میکینکل سائنٹس اور اس دور کے سب سے اہم نجومی تقی الدین بن معروف نے یہاں ایک رسد گاہ قائم کی تھی، لیکن یہ رسد گاہ 1579ء میں بند کر دی گئی۔ اس ٹاور کے قریب ہی ترکی اور فرنچ زبان میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ مشہور فلسفی Jean-Jacques Rousseau کے والد Isaac Rousseau 1705 سے 1711ء کے درمیان شاہی گھڑی ساز کے طور پر گلاتا ٹاور میں رہتے تھے۔ بہرحال، اس ٹاور کو 1717ء سے ’فائر واچ ٹاور‘ کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے استنبول میں آتشنزنی کے واقعات بہت زیادہ ہوتے تھے، کیونکہ اس زمانے میں زیادہ تر مکانات لکڑیوں کے بنے ہوتے تھے۔ اگر کہیں آگ لگ جاتی تو اسی ٹاور سے ایک بڑا ڈرم بجا کر لوگوں کو خبردار کیا جاتا تھا۔ لیکن سلطان سلیم (سوم) کے دور میں اس ٹاور میں ہی آگ لگ گئی اور اس کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو گیا۔ تب اس ٹاور کی مرمت کرکے اسے دوبارہ قائم کیا گیا۔ 1831 میں دوبارہ آگ لگی، اور پھر سے اس کی مرمت کی گئی۔ 1875 میں ایک طوفان نے اس ٹاور کے اوپری حصے کو نقصان پہنچایا۔ اس طرح اس کی مرمت کا سلسلہ چلتا رہا۔ آخری مرتبہ سال 1965ء میں اس کی مرمت کا کام شروع ہوا جو 1967ء میں ختم ہوا۔ اس کے بعد سے آج بھی ٹاور اسی شکل میں موجود ہے۔ غور طلب رہے کہ جون 2020ء میں بھی اسے تھوڑی سی مرمت کے لیے کچھ عرصہ بند کیا گیا تھا، جسے 6 اکتوبر 2020 کو کھول دیا گیا۔ 6 اکتوبر کا دن استنبول کے لیے خاص ہے، یہ دن استنبول کی یوم آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ پہلے اس ٹاور میں ایک کیفٹیریا بھی ہوا کرتا تھا، لیکن اب اس کیفٹیریا کو بند کردیا گیا ہے، کیونکہ اب گلاتا ٹاور ایک میوزیم ہے۔
اس ٹاور کی شہرت پوری دنیا میں ہے۔ یونسیکو نے اس ٹاور کو سال 2013 میں اپنی عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا تھا۔ تقریباً 70 میٹر اونچا یہ ٹاور اب تک استنبول کی سب سے اونچی عمارت تھی، لیکن اب اسی استنبول میں ’چملیجا ٹاور‘ بھی ہے، جس کا افتتاح صدر رجب طیب ایردوان نے 29 مئی 2021 کو کیا ہے۔ ’چملیجا ٹاور‘ کی بلندی 365 میٹر ہے اور یہ سطح سمندر سے 583 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔ اس ٹاور کی تعمیر مارچ 2016 میں شروع ہوئی اور یکم جون 2021 کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔ ترکی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ یوروپ کا سب سے اونچا ٹاور ہے۔
گلاتا ٹاور پر گھنٹوں وقت گزارنے کے بعد ہم نے واپسی کا ارادہ کیا۔ دراصل اب ہمارا گلاتا میوزیم دیکھنے کا وقت شروع ہوا تھا، کیونکہ آنے کے وقت ہم لفٹ سے سیدھے اوپر آگئے تھے۔ اس ٹاور کی نو منزلیں ہیں۔ اس میں لگی لفٹ صرف ساتویں منزل تک جاتی ہے، باقی کی دو منزلوں کا راستہ سیڑھیوں کے ذریعے طے کرنا ہوتا ہے۔
ہم جیسے جیسے اس ٹاور سے نیچے اتر رہے تھے، تاریخ کی بے شمار معلومات سے روبرو ہورہے تھے۔ میوزیم میں کئی نایاب چیزیں موجود ہیں۔ یہاں قدیم زمانے میں استعمال کی جانے والی کئی کشتیوں کے ماڈلز رکھے ہوئے ہیں۔ کچھ ایسی بھی کشتیوں کے ماڈلز ہیں جو سمندر میں طوفان کی وجہ سے ڈوب گئی تھیں۔ یہاں آپ کو انجینیئر، میکینکل سائنٹسٹ اور خلافت عثمانیہ کے دور کے نجومی تقی الدین بن معروف سے بھی متعارف ہونے کا موقع ملے گا اور یہ معلوم ہو گا کہ ترکی کا سائنس کے میدان میں کیا رول رہا ہے۔ ان شاء اللہ کبھی تقی الدین بن معروف کی شخصیت اور ان کے کاموں سے بھی آپ کو واقف کروانے کی کوشش کروں گا۔
یہاں آپ کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ پروں کے ذریعے فضاء میں اڑنے کا دوسرا کامیاب تجربہ بھی یہیں ہوا تھا۔ آپ کو یہاں ہیزارفن احمد چلیبی کے بارے میں جاننے کا موقع ملے گا، جنہوں نے سال 1632 میں سلطان مرات (چہارم) کے دور میں لکڑی سے بنے عقاب کے پروں کو پہن کر اسی گلاتا ٹاور سے اسکودار کے لیے اڑان بھری تھی۔ ان کی یہ اڑان 3358 میٹر دوری تک کی تھی۔ وہ آبنائے باسفورس کے ایشیائی ساحل ’’اسکودار‘‘ سے ہوتے ہوئے ’’اسکوتاری‘‘ تک گئے تھے۔ اس پرواز کو یوروپ میں دلچسپی سے دیکھا گیا اور اس پرواز کو ظاہر کرنے والے نقش و نگار انگلینڈ میں بنائے گئے تھے۔ ان سے متعلق اس گلاتا میوزیم میں کافی معلومات ہیں ۔ان شاء اللہ کبھی انہی معلومات کی بنیاد پر ہیزارفن احمد چلیبی کی شخصیت اور ان کی زندگی سے متعلق کہانیوں پر لکھنے کی کوشش کروں گا۔ یہاں ایک بڑے سے پروجیکٹر اسکرین پر ہیزارفن احمد چلیبی کا ویڈیو لگایا گیا ہے جس کے سامنے کھڑے ہو کر آپ اپنے ہاتھ پیر ہلائیں گے اور چلیبی سمندر کے اوپر سے اڑتے ہوئے اسکودار میں اتر جائیں گے۔ اسی میوزیم میں ایک گفٹ شاپ بھی ہے، جہاں سے آپ کئی نایاب چیزیں خرید سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس گلاتا ٹاور میں جانے کے لیے آپ کو 100 لیرا کا ٹکٹ خریدنا پڑے گا، لیکن اگر آپ طالب علم ہیں تو آپ کو 30 لیرا کا میوزیم کارڈ مل جائے گا، جس سے آپ استنبول کے معتدد میوزیمس کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ٹکٹ خریدتے وقت آپ پرانے زمانے کے ٹرام کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی ٹرام میں گلاتا ٹاور میں جانے کے لیے ٹکٹیں فروخت کی جاتی ہیں۔ چلتے چلتے بتا دوں کہ یہ وہی گلاتا ٹاور ہے جسے دسمبر 2021 کے آخر میں ہمارے ہم وطن ہندوستانی بھائیوں نے راجستھان جودھ پور کا ’امید پیلیس‘ بتاکر سوشل میڈیا پر وائرل کیا تھا۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 20 فروری تا 26فروری 2022