غداری کا قانون جتنا قدیم اتنا ہی متنازعہ

سپریم کورٹ کے واضح موقف کے باوجود دفعہ کا بار بار غلط استعمال

محمد صبغۃاللہ ندوی

غداری کے قانون کا غلط استعمال کسی سے مخفی نہیں ہے، حکومت کا قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہونا اور اس کے جائزہ کے لیے کمیٹی تشکیل دینا بھی ایک طرح سے اس کا اعتراف ہی ہے۔
انگریزوں نے جاتے جاتے اپنے پیچھے کئی ایسی چیزیں چھوڑیں جن کی مار آج بھی آزاد بھارت میں شہری جھیل رہے ہیں۔ انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124اے جسے عام طور پر غداری کا قانون (Sedition Law) کہاجاتا ہے، دراصل انگریزوں کی دین یا انگریزی سرکار کا نوآبادیاتی قانون ہے۔انگریزوں نے 1870 میں یہ قانون بنایا تھا اور بنگال کے صحافی جوگیندر چندربوس کے خلاف پہلی بار 1891 میں اس کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس قانون کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ راجہ یا انگریزی سرکار کے خلاف کوئی بول نہ سکے یا کوئی تحریک نہ چلا سکے تاکہ اس کی راج شاہی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، اور انگریزی سرکار کے خلاف جو مجاہدین آزادی آواز اٹھا رہے تھے یا تحریک چلا رہے تھے ان کو کچلا جا سکے۔ اب نہ وہ حالات رہے اور نہ راج شاہی رہی۔ راج شاہی کی جگہ ملک کی آزادی کے بعد جمہوریت ہے جس میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔ ایسے میں یہ سوال کافی اہم ہو جاتا ہے کہ غداری کا قانون کیوں برقرار ہے اور یہ کس کے خلاف اور کیوں استعمال کیا جا رہا تھا؟ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مدن بی لوکر نے 14 ستمبر 2020 کو ’بولنے کی آزادی اور عدلیہ‘ کے موضوع پر ایک ویبنار میں بولتے ہوئے کہا تھا کہ سرکار بولنے کی آزادی پر قدغن لگانے لیے غداری کے قانون کا سہارا لے رہی ہے اور اچانک ایسے معاملوں کی تعداد بڑھ گئی ہے جن میں لوگوں کے خلاف غداری کے الزامات لگائے گئے‘ اب تو سپریم کورٹ نے آئی پی سی کی دفعہ 124کے خلاف عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے اس کے استعمال پر روک لگادی ہے۔ کورٹ میں سرکارکے موقف سے یہ تو واضح ہو گیا کہ وہ پوری طرح قانون کی تنسیخ کے حق میں نہیں ہے۔ شاید وہ اس میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، قانون کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں سرکار کچھ کرے۔ حیرت ہے کہ ایک طرف سرکار پرانے اور فرسودہ قوانین کی تنسیخ کی بات کرتی ہے، انہیں غلامی کی علامت بتا کر ایسے 1500 قوانین منسوخ بھی کردیے گئے اور مزید 1500 منسوخ کرنے کی باتیں کہہ رہی ہے جیسا کہ گزشتہ دنوں مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے اس کا اشارہ دیا ہے، لیکن اس فہرست میں غداری کے قانون کو شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ غلامی کی پہچان کا اطلاق اگر سب سے زیادہ کسی قانون پر ہوتا ہے تو وہ غداری کا قانون ہے جس کے بارے میں سپریم کورٹ نے بھی کہا کہ ’یہ نوآبادیاتی قانون ہے، یہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیے بنایا گیا تھا، اس قانون کو انگریزوں نے گاندھی جی اور تلک دھر وغیرہ کو خاموش کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔کیا آزادی کے 75سال بعد بھی یہ ضروری ہے؟‘
برطانیہ اور دیگر ممالک میں قانون کی تنسیخ:
غداری کے قانون کو بنانے والے برطانیہ نے اپنے یہاں 2009 میں اسے منسوخ کر دیا ہے۔ تنسیخ کے وقت وہاں کے وزیر قانون نے کہا تھا کہ یہ قانون کافی عرصہ سے برطانیہ میں استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ اس کو دانستہ طور پر منسوخ کیا جا رہا ہے کیونکہ یہ دولت مشترکہ کے ممالک میں رائج ہے اور دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں اس قانون کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔برطانیہ کو امید تھی کہ دوسرے ممالک اس کے نقش قدم پر چلیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آسٹریلیا نے اپنے آئین سے 2010 میں غداری کے لفظ کو ہٹا دیا ہے جبکہ اسکاٹ لینڈ نے غداری کے قانون کو 2010 میں اور جنوبی کوریا نے 1988 میں ختم کر دیا ہے۔انڈونیشیا میں بھی یہ قانون ختم ہو چکا ہے۔
ہر سیاہ قانون کا غلط استعمال:
غداری کا قانون ہی کیا ملک میں جتنے بھی سیاہ قوانین بنائے گئے خواہ وہ ٹاڈا ہو یا پوٹا، یو اے پی اے ہو یا غداری کا قانون۔ ان سب کا بے دریغ اور غلط استعمال ہوا ہے۔ سرکار قانون سازی کے وقت ضرور کہتی ہے کہ وہ اس کے استعمال پر نظر رکھے گی، لیکن عموما ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس طرح کے قوانین منسوخ بھی ہوجاتے ہیں پھر بھی ان کی مار ختم نہیں ہوتی۔ درج مقدمات چلتے رہتے ہیں۔سپریم کورٹ نے نہ صرف غداری کے قانون کے استعمال پر روک لگائی ہے بلکہ دفعہ 124اے کے تحت جتنے بھی ٹرائل ہیں ان سب پر بھی اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک مرکزی حکومت اس قانون میں تبدیلی کے اپنے وعدے کو نہیں نبھاتی اور یہ امید ظاہر کی کہ اس وقت تک کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی جائے گی ۔اس طرح یہ قانون اور اس کے تحت درج تمام مقدمات پر ایک طرح سے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ اس قانون کے تحت ملزمین ضمانت کے لیے عرضی داخل کر سکتے ہیں۔
روز اول سے غداری کا قانون متنازعہ رہا ہے
غداری کا قانون روز اول سے متنازعہ رہا ہے اور جب جب اس کا استعمال ہوا، آوازیں اٹھیں۔ آزاد ہندوستان میں ابتدامیں غداری کے قانون کا استعمال کم ہوا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کا رجحان بڑھتا رہا اور ہر پارٹی کی حکومت میں اس کا استعمال کیا گیا۔ جب استعمال بڑھا تو این سی آر بی نے بھی 2014 سے اس کے ڈیٹا کو جمع کرنا شروع کیا۔ اگر این سی آربی کے ڈیٹا کی بات کریں تو 2014 سے 2021 تک 475 معاملے درج کیے گئے جبکہ پرائیوٹ ایجنسیاں ان کی تعداد ہزاروں میں بتاتی ہیں۔ غور طلب امر ہے کہ ابتک 124اے کے تحت صرف 13 لوگوں کو قصوروار ٹھیرایا گیا جبکہ معاملے ہزاروں کی تعداد میں ہیں جو نچلی عدالتوں میں چل رہے ہیں۔ یعنی زیر التوا معاملوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ قانون کے بارے میں ماہرین قانون نے جو کہا یاکہتے ہیں، اگر ان کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو مختلف مقدمات میں عدالتوں کے تبصروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا غلط استعمال ہوتا ہے اور اس بات کو عدالتوں نے خاص طور سے بیان کیا کہ صرف حکومت یا اس کی پالیسیوں پر تنقید اس قانون کے تحت نہیں آتی۔ سپریم کورٹ نے رومیش تھاپر بنام ریاست مدراس اور پنجاب وہریانہ ہائی کورٹ نے تاراسنگھ گوپی چند بنام ریاست (1951) میں بھی یہی بات کہی تھی۔اب تو سپریم کورٹ نے یہ لکیر کھینچ دی کہ کسی کے پاس ’جہادی لٹریچر‘ کا پایا جانا مقدمہ چلانے کے لیے کافی نہیں۔ ونود دوا معاملہ میں سپریم کورٹ نے ان کے خلاف تمام ایف آئی آر رد کردی تھیں۔فی الحال جو معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے وہ اسی کے ذریعہ سنایا گیا ایک فیصلہ ہے۔ دراصل 1962 میں کیدار ناتھ بنام ریاست بہار معاملے میں دفعہ 124 اے کے آئینی جواز کو سپریم کورٹ کی 5 رکنی بنچ نے برقرار رکھا تھا لیکن اس کے غلط استعمال سے بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ تقریر یا ایسا تبصرہ جس میں سرکار کی مذمت ہو یا اس سے عدم اتفاق کا اظہار ہو، اسے غداری اس وقت تک نہیں کہہ سکتے جب تک اس سے افراتفری نہ مچ جائے،تشدد برپا نہ ہو جائے یا لا اینڈ آرڈر کا مسئلہ نہ پیدا ہو جائے۔ کشور چندر وانگ کھیمچا، کنہیا لال شکلا جیسے سرکردہ صحافیوں اور ترنمول کانگریس کی ممبر پارلیمنٹ مہوا مترا کی عرضیوں میں نہ صرف اس قانون کو چیلنج کیا گیا بلکہ کیدار ناتھ والے معاملہ کو بھی اٹھایا گیا کہ اس میں عدالت کا تبصرہ صحیح تھا یا نہیں، معاملہ کی سماعت ٹھیک سے ہوئی تھی یا نہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو سزا سنائی گئی تھی وہ صحیح بھی تھی کہ نہیں، اسی طرح اس قانون کو برقرار رکھنے کا عدالت کا فیصلہ صحیح تھا یا نہیں۔ فی الحال عدالت کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ قانون کو رد کرتی ہے تو کیدار ناتھ والے فیصلہ کو رد کرنا ہو گا اور سابقہ فیصلوں کو برقرار رکھنا ہو گا، جن میں اظہار رائے کی آزادی پر توجہ دی گئی ہے۔
ماہرین قانون کی آراء:
غداری کے قانون کا غلط استعمال کسی سے مخفی نہیں ہے، حکومت کا قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہونا اور اس کے جائزہ کے لیے کمیٹی تشکیل دینا بھی ایک طرح سے اس کا اعتراف ہی ہے۔ حالانکہ سرکار نے کہا ہے کہ کسی قانون کے غلط استعمال کا مطلب یہ نہیں کہ قانون کو ختم کر دیا جائے۔ تاہم غداری کے قانون پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔ 2018 میں لا کمیشن نے کہہ دیا تھا کہ آزادی اظہار رائے کو کنٹرول کرنے کے لیے دفعہ 124اے نہیں ہے۔ رہی بات ماہرین قانون کی تو ایڈووکیٹ فواز شاہین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے اور ساری حکومتیں کرتی ہیں۔ اس کے تحت کسی پر الزام ثابت تو نہیں ہوتا لیکن جس کے خلاف استعمال ہوتا ہے، اس کی بدنامی ضرور ہوتی ہے اور اس کے کیریئر پر ایک ایسا دھبہ لگ جاتا ہے جس کے ساتھ سماج میں اس کا جینا دو بھر ہو جاتا ہے۔ جبکہ پروفیسر فیضان مصطفی نے نیوز کلک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کا ہر سرکار نے غلط استعمال کیا ہے۔ اور اس کے آئینی جواز پر آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی سوال اٹھایا جاتا رہا ہے۔ ادھر لا کمیشن کے سابق سربراہ جسٹس (ریٹائرڈ) اے پی شاہ نے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں واضح طور پر کہا تھا کہ یہ افسوس کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے 3 بار موقف واضح کرنے کے باجود نہ صر ف اس سرکار نے بلکہ مختلف سرکاروں نے دفعہ 124اے کا غلط استعمال کیا ہے۔ ممبئی میں ڈی ایم ہریش اسکول آف لا کے افتتاح کے موقع پر سپریم کورٹ کے سابق جج (ریٹائرڈ) جسٹس روہنٹن نریمن نے سرکار پر تنقید کرنے والوں کے خلاف غداری کے قانون کے استعمال پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب اس قانون کو پوری طرح سے ختم کرنے اور اظہار آزادی کی اجازت دینے کا وقت آ گیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اظہار رائے کی آزادی کا استعمال کرنے والوں کے خلاف غداری کے سخت قانون کا استعمال کیا جا رہا ہے اور غیر مہذب الفاظ کااستعمال کرنے والوں سے ٹھیک طریقے سے نمٹا نہیں جا رہا ہے۔ غرضیکہ تمام ماہرین قانون، سماجی کارکنان اور سماج کے سنجیدہ لوگ غداری کے قانون کی مخالفت کر رہے ہیں۔ خاموش ہیں تو ریاستی سرکاریں اور جواز کی وکالت کرتی ہے تو مرکزی حکومت۔ رہی یہ بات کہ سرکار غداری کے قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہوئی ہے تو اس کے کیا امکانات ہیں؟ اس سلسلہ میں ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں ہو سکتی، البتہ اسی طرح کی تبدیلی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ٹاڈا کے بعد پوٹا بنا تھا اور پوٹا کے بعد یو اے پی اے بنا ایسا ہی کچھ غداری کے قانون کے ساتھ بھی بن سکتا ہے۔
mob : 8383967644
email : [email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 04 ڈسمبر تا 10 ڈسمبر 2022