جرأت و طاقت کا مظہر فلم ’جئے بھیم ‘

پولیس کی حراست میں موت دنیا کا سب سے عظیم جرم

ایم آئی شیخ
(مہاراشٹر پولیس کے ریٹائرڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ)

آئینی تحفظات کے باوجود اب بھی پولیس حراست میں تشدد جاری
یہ بات جگ ظاہر ہے کہ بھارتی پولیس انگریزوں کے زمانے میں جس طرح ظلم کیا کرتی تھی اسی طرح اکیسویں صدی میں بھی کرتی ہے۔ اور اسی چیز کو پردے پر پوری جرأت اور طاقت کے ساتھ دکھانے کا کام تمل ادکار شیو کمار سوریا نے جئے بھیم فلم میں کیا ہے۔اس فلم نے پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا ریویو دعوت کے قارئین تک پہنچانا ناگزیر ہو گیا ہے۔
مختصر فلم کی کہانی
اس فلم کی کہانی دراصل 1993 میں پیش آنے والے ایک حقیقی واقعے سے اخذ کی گئی ہے۔ تمل ناڈو کے مُردنی گاؤں میں کُراو نامی قبائلیوں کے چار گھر تھے۔ وہ اتنے غریب تھے کہ چوہے پکڑ کر کھایا کرتے تھے۔ فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ان چار گھروں میں سے ایک گھر راجکنّو اور ان کی بیوی سینگنی کا بھی ہے۔
یہ لوگ چوہے مارنے کے ساتھ ساتھ سانپوں کو پکڑنے میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ ایک بار ایسا ہوتا ہے کہ گاؤں کے سرپنچ کے گھر میں ایک سانپ نکل آتا ہے، جسے پکڑنے کے لیے راجکنوں کو بلایا جاتا ہے۔ وہ سرپنچ کے گھر جا کر سانپ کو پکڑ کر لے جاتا ہے اور سانپ کو پکڑنے کی اجرت بھی نہیں لیتا ہے کیوں کہ سرپنچ کی بیوی اس کے آبائی وطن کی رہنے والی تھیں۔ جب وہ ان سے اپنے علاقائی تعلق اور نسبت کا اظہار کرتا ہے تو سرپنچ کی بیوی آگ بگولا ہوجاتی ہے اور اسے ذلیل کر دیتی ہے۔ اب کہانی آگے بڑھتی ہے۔ اسی رات سرپنچ کے گھر چوری ہو جاتی ہے۔ چوری شدہ مال میں اس کی بیوی کے زیورات بھی شامل تھے۔ جبکہ چوری کرنے والا کوئی دوسرا شخص ہوتا ہے۔ لیکن شک کی سوئی راجکنوں کی طرف جاتی ہے۔ کیونکہ اس کی ذات کو قانونی طور پر جرائم پیشہ قبیلہ سمجھا جاتا ہے۔ مسلمان آج اسی صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ دھماکے جہاں بھی ہوتے ہیں شک مسلمانوں پر ہی جاتا ہے۔ منسوخ ہو چکے TADA، POTA سے لے کر موجودہ UAPA تک بلا شبہ گرفتار کیے گئے زیادہ تر مسلمان ہی ہیں۔
بہر حال چوری کے بعد پولیس راجکنو اور اس کے رشتہ داروں کو بغیر کسی تردد کے پکڑ کر لے جاتی ہے اور انہیں اس قدر اذیت دی جاتی ہے کہ اسکرین پر یہ مناظر دیکھ کر لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اسی جبرو تشدد میں راجکنو کی موت واقع ہو جاتی ہے جس کے بعد مقامی پولیس اہلکار اس کی لاش کو اٹھا کر تمل ناڈو کی سرحد کے پار سڑک کنارے پھینک دیتے ہیں اور اس کے رشتہ داروں کو دوسری ریاست کی جیل میں ٹھونس کر بے فکری کے عالم میں رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ راجکنو کا خون انہیں پچ جائے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ آئین اور قانون پر اعتماد رکھنے والے وکیل چندرو جو کہ حقیقت میں آگے چل کر مدراس ہائی کورٹ کے جج کی شکل میں وظیفہ یاب ہوئے۔ وہ اس کیس کی تہ تک جاتے ہیں۔ پولیس کے حصے کا کام بھی وہ خود کرتے ہیں۔ تحقیقات میں وہ پولیس کی کرتوت کو اجاگر کر کے ان کے خلاف ثبوت یکجا کرتے ہیں اور عدالت میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں کہ حقیقت میں راجکنو کے قاتلوں کو سزا ہو جاتی ہے۔
فلم میں کوئی بہت زیادہ سِنیماٹک لِبرٹی (cinematic liberty) نہیں لی گئی ہے۔ اسے حقیقت کے بالکل قریب رکھا گیا ہے۔ اور یہی اس فلم کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ فلم میں کوئی گانے نہیں ہے۔ کوئی رومانس نہیں ہے۔ اس کے باوجود فلم میں اتنی جان ہے کہ وہ دیکھنے والوں کو آخر تک باندھے رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ پولیس کی راجکنو کے قتل کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش اور ایڈووکیٹ چندرو کی اس قتل کو اجاگر کرنے کی تگ ودو کے بیچ کی کشمکش دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عدالت میں سرکاری وکیل اور ایڈوکیٹ چندرو (سوریا) کے بیچ کی بحث بھی لاجواب ہے۔
اگست 2021 میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے کہا تھا کہ ’’ آئینی تحفظات کے باوجود ابھی بھی پولیس حراست میں تشدد، ظلم اور پولیس کے ہاتھوں اموات کی وجہ سے پولیس اسٹیشن میں ہی انسانی حقوق کی پامالی کی گنجائش بڑھ جاتی ہے۔ پولیس جب کسی کو حراست میں لیتی ہے تو اس شخص کو فوری قانونی مدد نہیں ملتی۔ گرفتاری کے بعد پہلے گھنٹے میں ہی گرفتار شدہ شخص سمجھ جاتا ہے کہ اب اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘‘۔
اصل میں دنیا میں سب سے سنگین جرم حراست میں ہوئی موت کو مانا جاتا ہے۔ اس لیے کہ پولیس محکمے کو بنانے کی غرض وغایت ہی انسانی جان و مال کا تحفظ ہے۔ پولیس کے بھروسے ہی کسی بھی ملک کے شہری اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ کیوں کہ شہریوں کی حفاظت کی ذمہ داری کی ہی اسے تنخواہ دی جاتی ہے۔ وہی اگر شہریوں پر اتنا تشدد کرے کہ ان کی موت ہی واقع ہو جائے تو اس سے زیادہ انسانیت سوز کوئی دوسری چیز نہیں ہو سکتی ہے۔
ویسے بھی انصاف حاصل کرنے کے لیے طاقتور ہونا ضروری ہے۔ جمہوریت میں وہ لوگ آسانی سے قانون کی پکڑٖ سے بچ جاتے ہیں جو صاحب حیثیت ہوتے ہیں۔ مشکل ان غریب، دبے کچلے، اقلیتی طبقوں کو ہوتی ہے جن کے پاس نہ دولت ہوتی ہے نہ جن کی کوئی حیثیت۔ انہیں امید سرکاری اداروں، سرکار کی پولیس اور عدلیہ سے ہوتی ہے کہ وہ ان کے ساتھ انصاف کریں گے۔ انہیں سے اگر ناانصافی ہونے لگے تو ان طبقات کا اعتماد جمہوری نظام سے اٹھ جاتا ہے۔ اسے بھلے ہی سرکار کو کوئی فرق نہ پڑتا ہو لیکن یہ ایک ایسی حالت ہوتی ہے کہ غریبوں کی آہ وزاری سے عرش تک لرزنے لگتا ہے۔
اس فلم کو دیکھنے کے بعد ناظرین کو اتنی تسلی ضرور ملتی ہے کہ جس طرح ان قبائلیوں کے ساتھ انصاف کیا گیا اسی طرح ہمارے ساتھ بھی انصاف ہوگا۔ چونکہ اس فلم کی اتنی پذیرائی ہو رہی ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ اسے دیکھنے کے بعد ملک کے منصف مزاج لوگ اپنے ملک کے کریمنل جسٹس سسٹم کی اصلاح کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کریں گے۔
حالانکہ سپریم کورٹ نے کسی بھی گرفتاری کے فوری بعد پولیس کو کیاکرنا چاہیے اس کے لیے گیارہ نکاتی رہنما اصول ڈی کے بسو ججمنٹ میں دیے ہیں لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ عام طور پر ان رہنما اصولوں کا بہت کم ہی لحاظ رکھا جاتا ہے۔
اتر پردیش کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے حیرانی ہوتی ہے کہ عدالتیں اپنے دائرہ اختیار میں پولیس کی مداخلت کو کیسے برداشت کر رہی ہیں۔ یو اے پی اے کا دھڑلے سے بیجا استعمال، عام تو عام خاص لوگوں کی بالخصوص علماء کرام کی گرفتاری، کاشکاروں، نامہ نگاروں کے خلاف ملک سے بغاوت کے مقدمے اور سرعام انکاؤنٹر کے نام پر انسانوں کے قتل جیسے عمل جمہوریت کی صحت کے لیے بڑے ہی مضر ثابت ہوں گے۔
اس فلم کے بہانے ہی سہی جو بحث ملک گیر سطح پر ہو رہی ہے اسے اور آگے بڑھاتے ہوئے اگر مرکزی حکومت اور پارلیمنٹ کے منتخب نمائندے پولیس محکمے میں اصلاح کرسکیں تو اس فلم کو بنانے کی محنت رنگ لائے گی۔ ورنہ یہ ایک پیالی میں کا طوفان بن کر رہ جائے گی۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021