’فکر انقلاب‘

اکابر علما کی خدمات کا حسین مرقع

مبصر: محمد عارف اقبال

دارالعلوم دیوبند (اتر پردیش) کو علمائے دیوبند اپنے مذہبی حلقے میں ’ازہرہند‘ بھی کہتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کا قیام 1857 کی تحریک آزادی سے متصل ہے۔ ٹھیک آٹھ سال کے بعد 1866 میں مولوی محمد قاسم نانوتوی نے مسلمانانِ ہند میں دینی تعلیم کو فروغ دینے اور اسے مستحکم کرنے کے لیے اسے قائم کیا۔ اس ادارے کا علمی، تعلیمی اور تربیتی نظام اپنے زمانے میں اس قدر مثالی بن گیا کہ ہندوستان کے مختلف دیگر علاقوں میں بھی اسی طرز پر دینی مدارس کھلنے لگے لیکن جو امتیاز دارالعلوم دیوبند کو حاصل رہا ہے دوسرے کسی مدرسہ کو شاید اب بھی حاصل نہیں۔ البتہ لکھنؤ اور اعظم گڑھ میں چند ایسے مدارس کی بنیاد رکھی گئی جو اپنے امتیازی نصاب اور تعلیم و تربیت کے لحاظ سے نمایاں محسوس کیے گئے۔ ان میں دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ، مدرسۃ الاصلاح اعظم گڑھ، جامعۃ الفلاح بلریا گنج، اعظم گڑھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ پھر ایسا ہوا کہ ہندوستان میں قدیم مدارس کے طرز پر مختلف ریاستوں میں بھی چھوٹے چھوٹے مدارس کے جال بچھادیے گئے۔ تاہم زیادہ تر مدارس میں قدیم درس نظامی ہی کو رائج رکھا گیا۔ لیکن تعلیمی نصاب کے ضمن میں قدیم روایات سے ہٹ کر اجتماعی طور پر کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ آمدنی کا ذریعہ ہمیشہ عوام سے چندہ وصولی کرنے کو ہی معیار رکھا گیا۔ مدارس کے ذریعے ہندوستان میں ایک دوسری وبا یہ بھی پھیلی کہ ’مسلک‘ کو ترجیح دی جانے لگی۔ مدارس مختلف خانوں میں بٹ گئے۔ دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث یا وہابی کے ساتھ بعض مدارس پر ’جماعت اسلامی‘ کا ٹھپا بھی لگادیا گیا۔ حد تو یہ ہوئی کہ تمام مسالک نے ایک دوسرے کے خلاف ’مسلک‘ کی بنیاد پر نہ صرف ’مناظرے‘ کیے بلکہ ایک دوسرے کے خلاف کتابیں بھی لکھی جانے لگیں۔ اس صورت حال سے عام مسلمانوں میں ذہنی انتشار پیدا ہونے لگا۔ پھر شیعہ سنی کے اختلافات شروع ہوگئے بالخصوص انقلاب ایران کے بعد ۔ مولانا منظور نعمانی نے تو انقلاب ایران کے خلاف ایک کتاب لکھ ڈالی۔ اس طرح دیوبند میں ایک ’مولوی صاحب‘ کو باضابطہ اس لیے رکھا گیا کہ وہ ہندوستان کی خالص دعوتی و دینی جماعت کے خلاف کتابیں لکھا کریں۔
ایسی صورت حال میں ہندوستان کے مدارس اسلامیہ کی دینی و مذہبی تعلیمات کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ انتشار و اختلافات کو ہوا دینے میں انہی مدارس نے ’مسلک‘ کے نام پر ’مسلم اتحاد‘ کو کبھی بھی دوام بخشنے کی کوشش نہیں کی۔ دوسری اہم بات یہ کہ برسوں تک ان مدارس کو یہ ادراک بھی نہ تھا کہ ’ماں کی گود‘ جو بچے کے لیے ایک یونیورسٹی کا درجہ رکھتی ہے، عورتوں کے لیے بھی دینی مدارس اور مکتب کھولے جائیں۔ اس کے ساتھ ان مدارس نے کبھی بھی اردو زبان و ادب کو اپنے نصاب کا حصہ نہیں بنایا۔ اس کے باوجود آج یہ افواہ زوروں پر ہے کہ اردو کے تحفظ میں ان مدارس کا ہی کلیدی رول ہے۔ یہ ایسا مذہبی بیانیہ (Narrative)ہے جو اردو کے دشمنوں کے لیے مواد فراہم کرتا ہے۔ تاہم اکابر دیوبند میں چند وہ شخصیات شامل ہیں جنہوں نے اپنی ذاتی کوششوں سے اردو زبان و ادب کا نہ صرف گہرا مطالعہ کیا بلکہ شعر و سخن سے بھی ان کی دلچسپی غیر معمولی رہی ہے۔ ان میں مولانا نور عالم خلیل امینی مرحوم بھی شامل ہیں۔
ہندوستان کی موجودہ صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ مذہبی علما اب بھی مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ان کے نزدیک دین و مذہب سے کے نام پر سیاست کرنا آسان ہوگیا ہے۔
زیرنظر کتاب/ رسالہ ’فکر انقلاب‘ کی یہ خصوصی اشاعت حصہ اول کا تسلسل ہے جو دارالعلوم دیوبند کے اکابر کی یاد میں نکالا گیا ہے۔ اس کے پہلے حصے پر ’اردو بک ریویو‘ کے گزشتہ خاص شمارہ (جنوری تا دسمبر 2021) میں راقم نے تبصرہ لکھا تھا۔ اس کے نگراں مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی بڑے کھلے دل اور وسیع ذہن کے حامل انسان ہیں۔ ان کو اپنے مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے بڑی محبت اور انسیت ہے۔ وہ ایک عرصے سے ان اہم شخصیات کے تعارف اور خدمات کو اجاگر کرنے کا کام انجام دے رہے ہیں جس کی نوعیت دستاویزی ہے۔ ’فکر انقلاب‘ کے اس دوسرے حصہ میں ان اکابر دیوبند کو جگہ دی گئی ہے جو حصہ اول میں بحالت مجبوری جگہ نہیں پاسکے تھے۔ اس میں تقریباً 70 شخصیات شامل ہیں۔ بعض شخصیات پر دو دو مضامین ہیں۔ مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی کے دو مضامین ’1857 کی تحریک آزادی میں مولانا نانوتوی کا کردار‘ اور ’تحریک آزادی میں علماء دیوبند کا کردار‘ شامل کتاب ہیں۔ اس خصوصی اشاعت میں جن اہم شخصیات کی خدمات کا احاطہ
کیا گیا ہے ان میں چند نام درج ذیل ہیں:
اشرف علی تھانوی، شاہ عبدالقادر رائے پوری، مفتی عتیق الرحمٰن عثمانی، سیّد ازہر شاہ قیصر، سعید اکبرآبادی، مولانا منت اللّہ رحمانی، عبدالقادر مالیگانوی، حامدالانصاری غازی، مسیح اللّٰہ خاں شروانی، وحیدالزماں کیرانوی، قاری سیّد صدیق حسن باندوی، (مولانا) علی میاں ندوی، قاضی مجاہدالاسلام قاسمی، محمد رضوان القاسمی، شاہ ابرارالحق حقی، سیّد انظرشاہ کشمیری، شاہ حکیم محمد اختر، مولانا حبیب الرحمٰن، مفتی رشید احمد میواتی، مولانا نور عالم خلیل امینی، مولانا شاہین جمالی، مولانا ولی رحمانی، مولانا حبیب الرحمٰن اعظمی، مفتی احمد خانپوری، مفتی محمد فاروق میرٹھی، مولانا عبداللّٰہ کایودروی، مولانا اللّٰہ وسایا (گوجرانوالہ)، قاری سیّد محمد عثمان منصور پوری، مولانا غلام محمد وستانوی اور مولانا اعجاز عرفی قاسمی وغیرہم۔
ان شخصیات میں مولانا حامدالانصاری غازی اور مولانا غلام احمد وستانوی کی خدمات پر چند باتیں عرض ہیں۔ تاہم شخصیات کو جاننے کے لیے اس خصوصی اشاعت (حصہ دوم) کو خرید کر لازماً مطالعہ فرمائیں۔
مولانا حامدالانصاری غازی (1909-1992) کا شمار علامہ انور شاہ کشمیری کے ممتاز تلامذہ میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اردو صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ الجمعیۃ دہلی، مدینہ بجنور اور انقلاب ممبئی سے بحیثیت ایڈیٹر وابستہ رہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم قاری محمد طیب صاحب کے داماد بھی تھے۔ وہ عالم ہی نہیں بلکہ محقق، ادیب، صحافی، شاعر، انشا پرداز، ہر میدان میں ممتاز تھے۔ (صفحہ 286) ان کا انتقال عروس البلاد ممبئی میں 16 اکتوبر 1992 کو ہوا اور وہیں مدفون ہوئے۔ ’اسلام کا نظام حکومت‘ حامدالانصاری غازی کی ایک معرکة الآرا کتاب ہے جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے نصاب کا حصہ بنایا۔ اس کا پہلا ایڈیشن ندوۃ المصنّفین دہلی سے شائع ہوا تھا۔ بلاشبہ غازی صاحب کا شمار دارالعلوم دیوبند کی ان عبقری شخصیات میں ہوتا ہے جن کی شخصیت شش جہات تھی۔ وہ مسلکی انتشار سے مبرا تھے۔
اس کتاب کی فہرست میں دوسری اہم دینی و علمی شخصیت مولانا غلام محمد وستانوی (صفحہ 885) کی ہے۔ ان کی پیدائش صوبہ گجرات کے وستان میں ہوئی۔ ان کی ابتدائی دینی تعلیم گجرات کے جامعہ فلاح دارین ترکیسر میں ہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے مدرسہ مظاہرالعلوم، سہارنپور میں تعلیم حاصل کی۔ پھر ان کا رجحان عصری علوم کی طرف ہوا تو MBA کی ڈگری حاصل کی۔ غلام محمد وستانوی صاحب نے بھی مسلک سے اوپر اٹھ کر قوم و ملت کو ہر طرح کے علوم سے متصف کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ انہوں نے نہ صرف مکتب اور مدارس قائم کیے بلکہ 90 ایکڑ پر مشتمل ایک ایسا تعلیمی ادارہ قائم کیا جہاں پرائمری سے لے کر MBBS تک کی پڑھائی ہوتی ہے۔ انجینئرنگ کالجز بھی قائم کیے، دیگر پیشہ ورانہ کورسیز کو بھی اپنے تعلیمی ادارے میں متعارف کرایا۔ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، نندوربار (مہاراشٹر) کے بانی اور کارگزار صدر غلام محمد وستانوی صاحب نے اس ادارے کا قیام 1980 میں کیا۔ اس ادارے کے مقاصد اور نصب العین سے اندازہ ہوتا ہےکہ وستانوی صاحب دینی و عصری علوم میں فرق نہیں کرتے بلکہ دونوں کو ناگزیر محسوس کرتے ہوئے نونہالان قوم و ملت کی تعلیم کے لیے ہمیشہ فکرمند رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کا شاید یہ واحد دینی، اصلاحی و اسلامی ادارہ ہے جس کے ماتحت ملک بھر میں ایک لاکھ 70 ہزار طلبا کو تعلیم دی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ادارہ ہی نہیں بلکہ تعلیمی تحریک ہے جس کے روح و رواں غلام محمد وستانوی صاحب ہیں۔ اب ان کے صاحبزادے بھی اس ادارے کے انتظامی امور میں معاون ہیں جن میں حذیفہ وستانوی صاحب خاص طور سے بےحد فعال اور متحرک نظر آتے ہیں۔ غلام محمد وستانوی صاحب پر یہ جامع مضمون شکیل انصاری (دھولیہ) نے لکھا ہے۔ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم (اکل کوا) کے تعلیمی نصاب کی خصوصیت یہ بتائی جاتی ہے کہ فقہ میں دارالعلوم دیوبند کا نصاب لیا گیا ہے اور ادب عربی میں دارالعلوم ندوۃ العلما کا نصاب شامل ہے۔ اس کے علاوہ عالم عرب کی کئی اہم یونیورسٹی کے نصاب بھی شامل ہیں۔ (صفحہ 887)
مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی کی یہ کاوش یقینی طور پر نہ صرف داد و تحسین کی مستحق ہے بلکہ دارالعلوم دیوبند کے اکابر علما کا حسین مرقع ہے۔ اکابر علما کی خدمات کو یکجا کردینا ہی ایک بڑا کارنامہ محسوس ہوتا ہے۔
***

 

***

 جدید سائنس میں مشاہدے اور نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی بھی نظریہ یقینی اور حتمی نہیں ہوتا۔ نئی معلومات کے ساتھ نظریات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ اس کے برخلاف قرآن کی ہر بات حرف آخر ہوتی ہے اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ۔ إنه لقول فصل و ما هو بالهزل (سورہ الطارق) جيسى آیات اس حقیقت کو بیان کرتی ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  11 ستمبر تا 17 ستمبر 2022