فرض روزے

رمضان کی آمد سے قبل گزشتہ سال کے چھوٹے ہوئے روزے قضا کرلیں

حمیرا علیم

اللہ تعالی نے ہر مسلمان پر روزے فرض فرمائے لیکن چونکہ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے انسانیت کو فضول رسوم سے پاک کر دیا ہے اس لیے انسانی فطرت اور جسمانی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالٰی نے چند مواقع پر اس کی رخصت بھی دی ہے کہ روزہ قضا کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان عذر شرعی کے علاوہ قصداً ایک بھی روزہ قضا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
اگر کسی شخص نے ماہ رمضان میں شرعی عذر سے روزہ نہیں رکھا، مثلاً بیماری یا سفر، یا عورتوں میں حیض یا بچے کی پیدائش کی وجہ سے، تو رمضان کے بعد اس کی قضاء کرنا چاہیے، یعنی جتنے دنوں کے روزے نہیں رکھے ان کی قضاء لازم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔:
وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ۔۔ (البقرہ:185)
ترجمہ: ۔۔اور جو کوئی مریض ہویا سفر پر ہو ، تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔۔
رمضان المبارک کے بعد قضاء میں تاخیر کرنا مناسب نہیں الا یہ کہ کوئی عذر شرعی ہو۔ اگر آپ نے بغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر روزہ نہیں رکھا تو دو صورتوں میں سے ایک کا اطلاق ضروری ہے:
-1 آپ نے رات سے پہلے روزہ نہ رکھنے کا فیصلہ کیا، اور آپ نے روزہ رکھنے کا ارادہ نہیں کیا۔ اس صورت میں روزہ کی قضاء صحیح نہیں ہے، کیونکہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا تعلق ایک خاص وقت سے ہے، اور اگر کوئی شخص اس کی قضاء نہ کرے تو اس وقت کے بعد صحیح نہیں ۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ:” ہمیں یہ (یعنی حیض) آئے گا اور ہم سے روزوں کی قضاء کا کہا گیا، لیکن ہمیں نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔(بخاری)
یاد رہے کہ روزوں کی قضاء کا وقت اگلا رمضان شروع ہونے تک رہتا ہے۔ اس مدت کے دوران کسی بھی وقت لگاتار یا مختلف دنوں میں پورا کرسکتے ہیں۔ .کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے اس امر کے موافق نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ (بخاری) یعنی عبادات ویسے ہی قابل قبول ہیں جیسے نبیؐ نے کی ہیں۔
2- آپ نے رات سے پہلے روزے کی نیت کی اور دن کا روزہ شروع کیا، پھر بغیر کسی عذر کے دن میں روزہ توڑ دیا۔ آپ کو اس دن کی قضاء کرنی ہو گی۔بغیر کسی عذر کے افطار کرنے والے کو بھی اللہ سے توبہ کرنی چاہیے۔ اپنے کیے پر نادم ہونا چاہیے آئندہ کبھی ایسا نہ کرنے کا عزم کرنا چاہیے، اور بہت سے اعمال صالحہ کرنا ہوں گے جیسے نفل روزے رکھنا وغیرہ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاِنِّىۡ لَـغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًـا ثُمَّ اهۡتَدٰى ۞
( طٰہ:82)
ترجمہ: لبتہ جو توبہ کر لےاور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھا چلتا رہے، اُس کے لیے میں بہت درگزر کرنے والا ہوں۔
رسول اللہ ﷺ نے رمضان میں دن کے وقت جماع کرنے والے کو اس دن کی قضا کا حکم دیا اور فرمایا: اس کی جگہ ایک دن روزہ رکھ۔ علامہ البانی نے صحیح کہا ہے اور سنن ابن ماجہ میں بھی صحیح قرار دیا گیاہے۔
اگر کسی نے بغیر کسی عذر کے دن میں جماع کرکے روزہ توڑ دیا تواس پر لازم ہے کہ اس کی قضاء اور کفارہ بھی ادا کرے۔ (بخاری) میں عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں: "میں رمضان کے روزے رکھتی تھی اور مجھ پر قضا روزے واجب الادا تھے۔ شعبان تک ان کی قضا نہ ہوسکی اور یہ رسول اللہ ﷺ کی (شوہر کے طور پر) وجہ سے تھا۔”
اگر کوئی شخص اگلا رمضان شروع ہونے تک روزوں کی قضاء میں تاخیر کرتا ہے تو درج ذیل دو صورتوں میں سے ایک کا اطلاق ہوگا:
-1 تاخیر کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ وہ بیمار ہو اور مذکورہ بیماری ایک رمضان سے دوسرے رمضان کے شروع ہونے تک برقرار رہے۔ کسی شخص پر اس معاملے میں تاخیر کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے، کیونکہ اس کے پاس عذر ہے اور اسے صرف ان دنوں کی قضا کرنا ہے جو چھوٹ گئے ہیں۔ پس وہ جتنے دنوں کے روزے نہیں رکھے ان کی قضا کرے۔
-2 تاخیر کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے یعنی سستی کی وجہ سے روزے قضا نہیں رکھے ہیں جیسا کہ کسی شخص کو یہ طاقت اور اختیار حاصل تھا کہ وہ چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کر سکتا تھا لیکن وہ ابھی تک بھی اپنے آپ کو ڈھیل دیتا رہااور روزے قضا نہیں کیا۔ایسے شخص کو جلدی کرنی چاہیے اور جلد از جلد چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلے۔حافظ نے کہا کہ شعبان کے روزے رکھنے کے شوق سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگلا رمضان شروع ہونے تک روزوں کی قضاء میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔
صرف روزے رکھے یا فدیہ بھی دے ؟
متعدد ائمہ کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نے رمضان کے روزے چھوڑ دیے اس پر ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء لازم ہے، لیکن ان کا اس بات میں اختلاف ہے کہ صرف روزے قضا کیے جائیں یا روزوں کی قضا کے ساتھ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلانا بھی ضروری ہے؟
امام مالک،امام شافعی اور امام احمد نے کہا کہ اسے ایک مسکین کو کھانا کھلانا ضروری ہے، اور انہوں نے اس کی دلیل کے طور پر بعض صحابہ سے روایت کی ہے جیسے حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایات مروری ہیں۔جبکہ امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے کہ روزہ کی قضاء کے ساتھ ساتھ مسکین کو کھانا کھلانا ضروری نہیں ہے۔انہوں نے دلیل کے طور پر اس حقیقت کا حوالہ دیا کہ اللہ تعالیٰ رمضان کے روزے نہ رکھنے والے کو صرف چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کا حکم دیاہے اور کسی مسکین کو کھانا کھلانے کا ذکر نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
–وَمَنۡ کَانَ مَرِيۡضًا اَوۡ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنۡ اَيَّامٍ اُخَرَؕ۔۔ (البقرہ:185)
ترجمہ: ۔۔اور جو کوئی مریض ہویا سفر پر ہو ، تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔۔
اس دوسرے قول کو امام بخاری نے بھی پسند کیا ہے۔ ابراہیم نخعی نے کہا کہ اگر کوئی شخص اگلے رمضان تک روزوں کی قضا میں کوتاہی کرے تو اسے چاہیے کہ دونوں مہینوں کے روزے رکھے۔ اس بنا پر ہمیں اللہ کے بندوں پر فرض نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے اس سے زیادہ کچھ کریں۔ ابن عباس اور ابو ہریرہ سے جو روایت کی گئی ہے اس کی تعبیر مستحب سے کی جا سکتی ہے۔نیز ابو ہریرہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مرسل روایت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مسکین کو کھانا بھی کھلانا چاہیے۔ پھر امام بخاری نے کہا: لیکن اللہ تعالیٰ نے مسکین کو کھانا کھلانے کا ذکر نہیں کیا بلکہ فرمایا: ’’دوسرے دنوں سے اتنی ہی تعداد (روزے نہ رکھنے والے دنوں کی) قضاء لازم ہے۔‘‘
شیخ ابن عثیمین نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مسکین کو کھانا کھلانا واجب نہیں ہے. اس مسئلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ آدمی پر قضاء کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، لیکن اگر اس میں تاخیر کرے تو گناہ ہو گا۔”
اس بنا پر تو صرف روزوں کی قضا واجب ہے، لیکن اگر کوئی شخص صدقہ کرنا چاہے اور کسی مسکین کو روزہ نہ رکھنے کے باعث کھانا کھلائے تو یہ اچھی بات ہے۔
ان آیات، احادیث اور فتووں کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم سے جو بھی روزے قضا ہوئے ہیں ان کو آنے والے رمضان سے قبل رکھنا واجب ہے۔خواہ ہم ان کا فدیہ دے چکے ہوں یا نہیں۔خصوصاً خواتین اس معاملے میں کوتاہی کر جاتی ہیں چونکہ حالت حیض ، بچوں کی پیدائش اور رضاعت کی وجہ سے قضا روزوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے تو وہ صرف فدیہ دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہیں۔جب کہ آیات کے مطابق جب عذر شرعی ختم ہو جائے تو روزے ہی رکھنے ہوتے ہیں۔
اب ایک او ر مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی خاتون کو یہ یاد نہیں کہ بلوغت کے بعد اس کے کتنے روزے قضا ہو چکے ہیں تو وہ اپنی عادت کے مطابق 3۔ 5۔ 7۔ 10 دن کے حساب سے سال گن لے اور اتنے روزے رکھ لے۔مثلاً ایک لڑکی 14 سال کی عمر میں بالغ ہوئی اور تیس سال کی عمر میں اسے روزے کی قضا کا حکم معلوم ہوا۔اس کا منتھلی سائیکل 7 دن کا ہے تو وہ 16×7= 112 دن کے روزے چھوڑ چکی ہے۔اب وہ چاہے تو لگاتار 4 ماہ روزے رکھے یا مختلف دنوں میں الگ الگ روزے رکھے یہ اس پر منحصر ہے۔
میں اپنا تجربہ بتا سکتی ہوں۔عموماً ًرمضان کے قضا روزے تو ہر سال رکھ ہی لیتی ہوں مگر میرے بچے رمضان کی پیدائش ہیں۔ میں نے ان کی رضاعت اور پیدائش کی وجہ سے چھوٹے ہوئے روزوں کا حساب لگا کر دسمبر سے مارچ تک مستقل روزے رکھ کر قضا ادا کر لی تھی۔کیونکہ ان مہینوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں اور روزے آسانی سے رکھے جا سکتے ہیں۔
اگر کوئی روزے قضا نہیں کر سکا اور کسی ایسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے کہ ڈاکٹر اسے روزے رکھنے کی صورت میں بیماری بڑھنے کا خدشہ ظاہر کرے تو پھر عذر شرعی ہے قضا نہ بھی کریں تو اللہ تعالٰی سے معافی کی امید ہے۔لیکن اس کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب ڈاکٹر یہ تجویز کرے۔خود سے یہ عذر گھڑنا کہ میں کمزوری یا بیماری کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا اور کچھ نہیں ماسوائے اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے۔اللہ تعالٰی ہم سب کو دین پڑھنے اسے سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین
***

 

***

 کسی شخص کو یہ طاقت اور اختیار حاصل تھا کہ وہ چھوٹے ہوئے روزوں کی قضاء کر سکتا تھا لیکن وہ ابھی تک بھی اپنے آپ کو ڈھیل دیتا رہااور روزے قضا نہیں کیا۔ایسے شخص کو جلدی کرنی چاہیے اور جلد از جلد چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرلے۔حافظ نے کہا کہ شعبان کے روزے رکھنے کے شوق سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگلا رمضان شروع ہونے تک روزوں کی قضاء میں تاخیر کرنا جائز نہیں ہے۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 11 فروری تا 17 فروری 2024