مہاراشٹر میں ایکناتھ شندے کی بغاوت

کیا عوام کو اپنے نمائندوں کو واپس بلانے کا حق دینے کا وقت نہیں آیا؟

نہال صغیر، ممبئی

مہاراشٹر میں شیو سینا کے خلاف خود اس کے معتمد ایکناتھ شندے نے بغاوت کردی اور ساتھ ہی چالیس کے قریب ایم ایل ایز بھی لے گئے ۔اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں اس کے بجائے کیوں نہ اس بات پر غور کیا جائے کہ ان عوامی نمائندوں کو اکثریت اور فتح سے کس نے ہمکنار کیا تھا ؟ کیا اس طرح بغاوت اور دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد کرکے حکومت بنانے کی بات کرنا عوام کے جذبات کا استحصال نہیں ہے ؟ عوامی نمائندوں کی عوام کے ساتھ اسی دھوکہ دہی کی وجہ سے عرصہ سے ’رائٹ ٹو ریکال‘ یعنی واپس بلانے کا قانون بنانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے مگر اس پر ہنوز غور نہیں کیا گیا ۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ’رائٹ ٹو ری کال‘ قانون کے لیے ایک عوامی تحریک شروع کی جائے اور عوام کو بااختیار بنایا جائے کہ جب وہ اپنے نمائندوں سے غیر مطمئن ہوں اور ان کی غیر دستوری اور غیر اصولی حرکتوں سے شاکی ہوں تو ان کے پاس یہ قوت ہو کہ وہ اس نمائندے کو واپس بلالیں ۔جس جمہوریت کی تعریف میں بڑے بڑے لوگ رطب اللسان ہیں وہ اسی وقت بہتر ہو سکتی ہے جب عوام کے پاس یہ اختیار ہو کہ وہ پانچ سال کے لیے کسی کو برداشت کرنے کی بجائے درمیان میں ہی اس سے چھٹکارا پالیں ۔سماجی کارکن جتن دیسائی کہتے ہیں ووٹر کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ اپنے نمائندوں سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں انہیں واپس بلالیں۔اس معاملہ پر ایڈووکیٹ شوکت علی بیڈگری کہتے ہیں ’’عوام کو اس کا شعور ہی نہیں وہ خود یہ سوچتے ہیں کہ جن کو انہوں نے ووٹ دیا وہ ان کے مالک بن گئے ہیں ، پہلے یہ لوگ انگریزوں کے غلام تھے اب یہ لوگ آزاد بھارت کے غلام ذہنیت کے لوگ ہیں ‘‘۔
اردو کے معروف صحافی معصوم مرادآبادی نے اپنے ایک مضمون کے آخر میں لکھا ہے ’’خود کو اصولوں اور سیاسی اخلاقیات کا سب سے بڑا علمبرارقرار دینے والی ’’دنیا کی سب سے بڑی پارٹی‘‘ نے ایک بار پھر جمہوریت کو لہولہان کردیا ہے‘‘۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بی جے پی نے صرف جمہوریت کو ہی لہو لہان نہیں کیا ہے بلکہ اس نے جمہوری حکمرانی کےبتائے گئے اخلاقی قدروں کو ہی پامال کردیا ہے ۔ اس کے سامنے اخلاقی قدریں اور اصول نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہ صرف ایک ہی مقصد رکھتی ہے ’’کسی بھی قیمت پر اقتدار کا حصول‘‘۔ اب وہ مہاراشٹر کی منتخبہ اور عوامی طور پر مقبول حکومت کو گرا کر کسی بھی طرح اپنے سنگھی ایجنڈے کو بروئے کار لانا چاہتی ہےاور یہ بات پوری طرح واضح ہے لیکن بی جے پی مہاراشٹر کے ریاستی صدر چندر کانت پاٹل نے اس الزام کو مسترد کردیا کہ مہاراشٹر سیاسی ڈرامہ کے پیچھے بی جے پی ہے ۔ انہوں نے کہا ”شیوسینا کا کوئی بھی ممبراسمبلی ان کے رابطے میں نہیں ہے۔ ہم نے ایکناتھ شندے سے بھی کوئی بات نہیں کی ہے۔ یہ شیوسینا کا اندرونی معاملہ ہے“۔اس پر سنجے رائوت نے سوال کیا کہ اگر اس معاملہ سے بی جے پی کو کوئی لینا دینا نہیں ہے اور یہ شیو سینا کا اندرونی معاملہ تھا تو سورت اور گوہاٹی میں بی جے پی حکومت نے ان کی خاطر داری کے لیے اتنے انتظامات کیوں کیے ؟
منگل ۲۱؍ جون سے مہاراشٹر میں نئے سیاسی ڈرامے کی شروعات ہوئی جس کے کلائمکس کا انتظار پورے ملک کو ہے لیکن بے یقینی اور تذبذب والی کیفیت برقرار ہے ۔ ویسے بھی گوہاٹی کا وہ ہوٹل جسے مہاراشٹر کی موجودہ سیاسی ڈرامہ کا محور بنایا گیا ہے معلوم ہوا ہے کہ اس کو نو دنوں کے لیے بک کیا گیا ہے ۔اس لیے جب تک نو دن پورے نہیں ہوتے تب تک کسی نتیجہ کی امید نہیں ہے اس کے بعد بھی یہ ہوسکتا ہے کہ معاملہ کو طول دیا جائے لیکن مہاراشٹر کے مراٹھی صحافیوں کا خیال ہے کہ ایکناتھ شندے کے لیے وقت کو طول دینا نقصاندہ ہی ثابت ہوگا ۔ اگر یہ معاملہ ایک دو دن میں حل ہوجاتا اور ایکناتھ شندے کی بغاوت کے نتائج فوری اثر سے نکل آتے تو شیو سینا وقتی طور پر ان کی ہوتی ۔تعجب ہے کہ انہوں نے نارائن رانے ، چھگن بھجبل اور راج ٹھاکرے کے انجام سے کچھ حاصل نہیں کیا ۔ ممکن ہے کہ وہ انجام سے واقف ہوں مگر ای ڈی اورمحکمہ انکم ٹیکس کی شکل میں جو مصیبت پیچھے لگی ہوئی ہے اس سے بچنے کا انہیں واحد راستہ یہی نظر آیا ہو۔
جتن دیسائی کہتے ہیں ٹھیک ہے کہ آسام کی سیلاب کے سبب بدترین صورتحال کے درمیان وہاں کے فائیو اسٹار ہوٹل بند نہیں کیےجاسکتے لیکن کسی ریاست کے وزیر اعلیٰ کی اپنے عوام کے لیے کیا ترجیح ہونی چاہیے ۔ آسام میں اس وقت سیلاب سے ایک سو پچیس افراد موت کے منھ میں جاچکے ہیں اور تقریبا دو درجن اضلاع کے لوگ سیلاب کی ہولناکی کا سامنا کررہے ہیں ۔مہاراشٹر میں بھی کسانوں کی حالت اچھی نہیں ہے مانسون کی آمد کے باوجود بارش اتنی نہیں ہورہی کہ کسان کھیتوں میں بوائی کا کام کرسکیں لیکن یہاں وزیر زراعت بھی گوہاٹی میں جاکر بیٹھ گئےہیں۔یہ منظر بہت تکلیف دہ ہے کہ ایک طرف اتنے بڑے پیمانے پر لوگ مصائب میں مبتلا ہیں اور دوسری جانب دوسری ریاست میں حکومت کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کے لیے عوامی نمائندوں کی خرید و فروخت کا بازار گرم ہے ۔
سیاست میں بدعنوانی
بی جے پی جب اقتدار میں تھی تب وہ بڑے شد مد کے ساتھ حکومت پر حملہ آور ہوتی تھی کہ اس نے بدعنوانی کو بڑھاوا دیا ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ خود سیاسی نظام میں مختلف نظریہ رکھنے والی پارٹی ہے جو اخلاقیات پر یقین رکھتی ہے ۔ مگر اب جبکہ اقتدار اس کے ہاتھوں میں ہے تو گذشتہ حکومتوں سے بڑھ کر جمہوری قدروں کو پامال کررہی ہے اور بڑے پیمانے پر اس کے دور میں ریاستی حکومتوں کو عدم استحکام کا شکار بنایا جارہا ہے ۔ اس کے لیے ایم ایل ایزکی خریدو فروخت کا الزام اس پر لگتا رہا ہے ۔مرکز کی موجودہ بی جے پی حکومت کے دور میں حزب اختلاف کی آواز دبانے ، بدعنوانوں کو اپنے یہاں محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنے اور مرکزی ایجنسیوں کا استعمال اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنے کا کام بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے ۔سیاست میں بدعنوانی اس حد تک در آئی ہے کہ اسے معمول زندگی کا ایک حصہ سمجھ لیا گیا ہے اور برادران وطن کے ایک گروہ میں تو اسے احترام کی حیثیت حاصل ہے اور اس کے لیے ایک نئی اصطلاح گھڑ لی گئی ’’چانکیہ نیتی‘‘، اس کے باوجود کچھ لوگ سیاست کو بدعنوانی کی آلودگی سے پاک کرنے کی صرف فکر رکھتےہیں ، حقیقت میں بدعنوانی کو دور کرنے کے لیے کوشش نہیں ہورہی ہے ۔
موجودہ حکومت میں بدعنوانی کے واقعات سامنے نہیں آرہے ہیں تو صرف اس لیے کہ انہیںبے نقاب کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے ۔حکومت کی سارے توپوں کا رخ صرف اپوزیشن کی طرف ہے یا وہ سیاست داں ہیں جن سے اسے سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا ہے ۔یہ کام مرکزی حکومت بڑی بے شرمی کے ساتھ کررہی ہے ۔ حد یہ ہے کہ اس نام نہاد تہذیبی پارٹی کی سرپرستی کرنے والا سنگھ یعنی آر ایس ایس بدعنوانی خواہ وہ مالی ہو یا اخلاقی اس پر ایک لفظ نہیں بولتا ۔ بڑی بڑی باتیں کرنے والے موہن بھاگوت نے آج تک حکومت گرانے اور حکومت بنانے کے لیے استعمال کیے جانے والے طریقوں پر خاموش ہیں ۔ انہیں یہ فکر تو ہے کہ اکھنڈ بھارت بنے گا مگر وہ کن بنیادوں پر بنے گا اس کی اخلاقی حیثیت کیا ہوگی اس پر ایک لفظ نہیں بولتے ۔ اس سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ سنگھ نے بھی بدعنوانی کو قبول کرلیا ہے ؟ اس کا جواب سنگھ کے ساتھ بی جے پی اور انہیں بھی دینا ہوگا جو سنگھ کے پیچھے اندھے بن کر دوڑے چلے جارہے ہیں ۔ سنگھ کی یہ خواہش تھی کہ اس کی پہنچ ملک کے گائوں اور قصبات تک میں ہو جسے نریندر مودی نے پورا کردیا لیکن اس نفوذ کے ساتھ ہی مذہب کی وہ اخلاقی قدریں کیا ہوگئیں ؟ کیا ہم یہ مان لیں کہ سنگھ کو اخلاقی قدروں سے کوئی مطلب نہیں جو کسی قوم کی تعمیر کی بنیاد ہوتا ہے ؟اور اگر ایسا ہے تو مذہبی اور تہذیبی تنظیم ہونے کا دعویٰ کرنے والا سنگھ ان بدعنوانیوں کو مذہب کے کس خانہ میں رکھے گا ؟
آخری بات یہ کہ بالفرض مہاراشٹر کی موجودہ مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت گر جاتی ہے اور بی جے پی کی قیادت میں کوئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو کیا بی جے پی اپوزیشن کو اس کا کردار ادا کرنے کا موقع دے گی ؟ جس کا بہترین استعمال خود اس نے ڈھائی سال تک کیا ہے اور بلاشبہ خوب کیا ہے ۔ جمہوری طرز حکومت میں سب سے بہتر کام اپوزیشن کا ہی بتایا جاتا ہے جو حکومت کے فیصلوں پر نظر رکھتی ہے اور اس کے غلط فیصلوں کی کھل کر نکتی چینی کی جاتی ہے مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ بی جے پی جمہوریت میں دی گئی آزادی کا بھرپور استعمال کرتی ہے مگر وہ دوسروں کو اس کا موقع نہیں دیتی ۔
***

 

***

 سیاست میں بدعنوانی اس حد تک در آئی ہے کہ اسے معمول زندگی کا ایک حصہ سمجھ لیا گیا ہے اور برادران وطن کے ایک گروہ میں تو اسے احترام کی حیثیت حاصل ہے اور اس کیلئے ایک نئی اصطلاح گھڑ لی گئی ’’چانکیہ نیتی‘‘، اس کے باوجود کچھ لوگ سیاست کو بدعنوانی کی آلودگی سے پاک کرنے کی صرف فکر رکھتےہیں ، حقیقت میں بدعنوانی کو دور کرنے کیلئے کوشش نہیں ہورہی ہے ۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 جولائی تا 09 جولائی 2022