ڈاکٹر بشریٰ تسنیم
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ہر قوم کے لیے عید اور خوشی کے دن ہیں اور آج یعنی اختتام رمضان پر ہماری عید کا دن ہے‘‘۔ نبی اکرم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو فرمایا: ’’تم سال میں دو دن خوشی منایا کرتے تھے۔ اب خدا نے تم کو ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں‘ یعنی ’’عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ‘‘۔
شبِ عید: عیدالفطر کی رات کو فرشتوں میں بوجہ خوشی کے دھوم مچ جاتی ہے اور اللہ رب العزت ان پر جلوہ فرماتے ہوئے دریافت کرتے ہیں کہ بتاو مزدور اپنی مزدوری پوری کرچکے تو اس کی جزا کیا ہے؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ اسے پوری پوری اُجرت ملنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’فرشتو! تم گواہ رہو میں نے روزہ داروں کو بخش دیا اور ان کے لیے جنت واجب کردی‘ اسی لیے اس رات کا نام فرشتوں میں لَیْلَۃُ الْجَائِزَۃِ یعنی ’انعام کی رات‘ ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو دونوں عیدوں کی شب بیداری کرے گا‘ نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ تو اس بندے کا دل نہیں مرے گا‘ جس دن اوروں کے دل مُردہ ہوجائیں گے۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’جو ان پانچ راتوں کو جاگے گا تو اس کے لیے جنت واجب ہوجائے گی: ۱- ذی الحجہ کی آٹھویں رات ۲- ذی الحجہ کی نویں رات ۳- ذی الحجہ کی دسویں رات ۴- عیدالفطر کی رات ۵- شعبان کی پندرہویں رات۔
چاند رات: ہمارے معاشرے میں ایک خاص قسم کا تاثر رکھتی ہے جس میں خوشی و مسرت اور دوستوں‘ رشتہ داروں کی ملاقاتوں پر دلی خوشی کا احساس پایا جاتا ہے۔ وہ رات جس کو ’انعام کی رات‘ کا نام دیا گیا وہ گھروں بازاروں میں قید سے نجات کا تاثر دیتی ہے۔ لگتا ہے وہ تمام جکڑے ہوئے شیطان اپنے لاو لشکر اور تمام تر ہتھیاروں اور چال بازیوں کے ساتھ مسلمانوں کے گھروں، محلوں، بازاروں پر پل پڑتے ہیں۔ عید کا چاند نظر آتے ہی نہ ذہن جگمگاتے ہوئے لگتے ہیں نہ دلوں میں وہ نور کا سماں ہوتا ہے۔ چاند رات میں بازاروں کی رونق دیکھنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں رمضان المبارک کے کچھ اثرات باقی رہ گئے ہیں۔
ہم سب کو اپنے معمولات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم ان مقدس ساعتوں میں کہاں اور کیا کرنے میں مصروف ہوں گے جب اللہ رب العزت روزہ داروں میں اپنی رحمت خاص سے انعامات تقسیم فرما رہے ہوں گے؟ کیا ہم دنیا کی چیزوں کی طلب میں اخروی انعام کو بھول جاتے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے نظر عنایت اور خصوصی انعام کی اہمیت نہیں ہے؟ عید کی تیاری کے سب مراحل اگر پہلے پورے کرنلیے جائیں توباس مقدس‘ عظیم رات کے ایک ایک لمحے سے بخوبی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
عید کا دن: ترغیب منذری میں درج ہے کہ: ’’عید کی صبح کو اللہ تعالیٰ بہت سارے فرشتوں کو شہروں میں بھیجتا ہے۔ وہ گلی کوچوں‘ راستوں میں کھڑے ہوکر پکارتے ہیں جن کی پکار کو انسان اور جنات کے سوا سب سنتے ہیں۔ فرشتے کہتے ہیں: اے اُمت محمدیہ کے لوگو! تم اپنے رب کریم کی طرف نکلو‘ جو بہت انعام دیتا ہے اور بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ جب روزے دار عیدگاہ میں پہنچ جاتے ہیں توناللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے فرماتا ہے: ان مزدوروں کا کیا بدلہ ہونا چاہیے جنہوں نے اپنے کام احسن طریقے سے انجام دیے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں: اے ہمارے آقا! ان کا بدلہ یہی ہے کہ ان کی پوری پوری مزدوری دے دی جائے۔
اللہ تعالیٰ فرماتابہے: اے فرشتو! تم گواہ رہو ان کے رمضان کے روزے اور نماز کی وجہ سے میں ان سے خوش ہوگیا اور ان کو بخش دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم مجھ سے مانگو میں اپنی عزت اور جلال کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس اجتماع میں دنیا و آخرت کی جو کچھ بھی بھلائی مجھ سے مانگو گے میں دوں گا اور تمہارا خصوصی خیال رکھوں گا‘ اور جب تک میری ناراضی سے ڈرتے رہو گے تمہاری خطاوں اور لغزشوں سے درگزر کرتا رہوں گا اور مجھے اپنی عزت و بزرگی کی قسم ہے! نہ تمہیں رسوا اور ذلیل کروں گا اور نہ مجرمین کے سامنے تمہاری رسوائی ہونے دوں گا۔ تم سب کو میں نے معاف کردیا۔ تم نے مجھے راضی کرنے کی کوشش کی‘ میں تم سے راضی ہوگیا۔ یہ اعلان اور انعامِ بخشش سن کر فرشتے جھوم اُٹھتے ہیں اور مومنین کی کامیابی پر جشن مناتے ہیں‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زکوٰۃ الفطر فرض ہے جو لوگوں کو ان گناہوں سے پاک کرے گا جو رمضان میں روزے کے ساتھ دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئے۔ جو نماز عید سے قبل ادا کرے گا اس کی زکوٰۃ الفطر قبول ہوگی۔ جو عید کی نماز کے بعد ادا کرے گا تو اسے صدقہ و خیرات کا ثواب مل جائے گا۔
آپ نے مکہ مکرمہ کے گلی کوچوں میں ایک آدمی بھیج کر یہ اعلان کرایا کہ: ’’آگاہ ہوجاو‘ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد‘ عورت‘ آزاد‘ غلام چھوٹے بڑے پر واجب ہے‘‘۔
جو لوگ زکوٰۃ لینے کے مستحق ہیں وہ صدقہ فطر لینے کے بھی مستحق ہیں۔ گھر کا سربراہ اپنے گھر کے ہر فرد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے‘ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا۔ بچہ اگر ایک دن کا بھی ہو تب بھی صدقہ فطر دینا ہوگا۔
عید کی صبح اٹھ کر روز مرہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر عید کی نماز کے لیے تیاری کرنا واجب ہے۔ اگر اس دن حسبِ عادت رمضان المبارک کی طرح سحری کے وقت اٹھے اور نماز تہجد ادا کرے‘ اپنے رب سے مزدوری لینے کی رات اور ان مبارک ساعات کو اپنے لیے توشۂ آخرت بنا سکتا ہے۔ شب ِ عید کی بہت فضیلت ہے۔ جو عید کی رات جاگ کر عبادت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور قیامت کے دن اس کا دل زندہ رہے گا۔
شب عید کو آج ہمارے گھر‘ گلیاں اور بازار جو نقشہ پیش کرتے ہیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں محاسبہ نفس کی اشد ضرورت ہے۔ مزدور اپنی مزدوری لینے کے بجائے شیطانی مشغولیات سے دلوں کو مردہ کر رہے ہوتے ہیں‘ اور وہ تمام اجر و ثواب جو پورے رمضان المبارک میں سمیٹا ہوتا ہے‘ ایک رات میں ضائع ہو جاتا ہے۔
عید کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھا کر گھر سے روانہ ہونا سنت نبویؐ ہے۔ رسول اللہ ﷺ طاق عدد عموماً سات کھجوریں کھا کر گھر سے عید کے لیے روانہ ہوتے تھے۔
عیدگاہ پیدل جانا احسن ہے بوجہ عذر سواری پر جانا بھی جائزہے۔
مرد خواتین، بچے سب عیدگاہ جائیں۔ اس نماز کو شہر سے باہر ادا کرنا سنت ہے۔ بلا عذر شرعی اس نماز کو شہر میں پڑھ لینا خلافِ سنت ہے۔ سارے شہر کی گلی کوچوں اور راستوں سے مسلمان اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کرتے ہوئے ایک کھلے میدان میں جمع ہوتے ہیں۔ سب قوموں کے تہوار ہوتے ہیں اور بالعموم وہ اپنے تہوار مناتے وقت کھیل تماشے‘ شراب پینے اور ناچ گانے وغیرہ میں کھوجاتے ہیں۔ مسلمانوں کے تہوار اپنے رب کی حمد ونثنا سے شروع ہوتے ہیں اور جائز حدود میں سیر و تفریح، کھیل کود، میل جول، کھانے پکانے، دعوتِ طعام کے ساتھ جاری رہتے ہیں۔ الغرض اسلام کی بنیادی باتوں سے کسی بھی موقع پر صرفِ نظر نہیں کیا جاتا۔ ایسی حرکات جو انسانوں کو حیوانوں کے درجے پر لے آئیں قطعی منع ہیں۔ مومنوں کا اپنی افرادی قوت کا مظاہرہ کرنا بھی خوشی کے موقع پر جائز ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے گروہ کی شکل میں عید گاہ کی طرف جانے اور بلند آواز سے تکبیر پڑھنے کی تلقین کی اور یہ کہ ایک راستے سے جاو تو واپسی پر دوسرے راستے سے آو۔
نمازِ عید اور خواتین: نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تمام گھر والے جشن عید منانے اور خوشی و مسرت کے موقع پر عید گاہ میں حاضر ہوں۔ آپؐ نے مزید فرمایا کہ اگر کسی عورت کے پاس چادر (برقعہ) نہ ہو تو کوئی دوسری عورت اپنی چادر میں اس کو لے جائے۔
نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ نماز کے بعد امام اپنی جگہ پر کھڑا ہو کر لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر خطبہ دے اور ہر شخص با ادب ہو کر خطبہ سنے۔ اگر عورتوں تک امام کی آواز نہ پہنچتی ہو تو امام الگ انہیں دوبارہ خطبہ سنائے۔ اس تاکید سے خواتین کا عیدگاہ میں حاضر ہونے کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
عید شعائر اسلام میں سے ہے۔ لہذا ہر مومن پر واجب ہے کہ وہ اس کا احترام کرے اور اس کے تقاضے سنتِ نبویؐ کے مطابق پورا کرے۔
عید کے دن نماز سے پہلے گھر سے روانہ ہونے سے لے کر تمام راستے اور نماز کھڑی ہونے تک زیادہ سے زیادہ تکبیریں پڑھنا چاہیے تاکہ ساری فضا ایک نورانی احساس اور پاکیزہ جذبے سے معمور ہوجائے اور ہر گلی اور شاہ راہ رب کی بڑائی کے اعلان سے گونج اُٹھے۔
عید کے دن رسول اللہ ﷺ اس دعا کو پڑھا کرتے تھے:
ترجمہ: خدایا! ہم تجھ سے پاک و صاف زندگی اور ایسی ہی عمدہ موت طلب کرتے ہیں۔ خدایا! ہمارا لوٹنا ذلت و رسوائی کا نہ ہو۔ خدایا! ہمیں اچانک ہلاک نہ کرنا‘ نہ اچانک پکڑنا اور نہ ایسا کرنا کہ ہم حق ادا کرنے اور وصیت کرنے سے بھی رہ جائیں۔ خدایا! ہم تجھ سے حرام سے اور دوسروں کے سامنے سوال بننے کی فضیحت سے بچنے کی دعا کرتے ہیں۔ اے اللہ‘ ہم تجھ سے پاکیزہ زندگی‘ نفس کا غنٰی‘ بقا‘ ہدایت و کامیابی اور دنیا و آخرت کے انجام کی بہتری طلب کرتے ہیں۔ اے ہمارے رب‘ ہم شکوک و شبہات اور آپس میں نفاق‘ ریا‘ بناوٹ اور دین کے کاموں میں دکھاوے کے عمل سے پناہ چاہتے ہیں۔ اے دلوں کے پھیرنے والے رب! ہمارے دل ہدایت کی طرف پھیرنے کے بعد ٹیڑھے نہ کرنا اور ہمیں اپنی طرف سے خاص رحمت عطا فرمانا۔ بے شک تو سب کچھ دینے والا ہے۔
اسلامی تہواروں میں نہ لہو و لعب ہے اور نہ انسانیت سوز نظارے بلکہ خاک ساری و خشیت الٰہی کے جلوے ہیں۔ ایثار و مساوات کے مجسمے اور ہمدردی و غم خواری کے نمونے ہیں۔ اتحاد و اتفاق کی جیتی جاگتی عملی تصویر نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کا وطیرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خوشی کے موقع پر اپنے رب کو فراموش نہیں کرتے بلکہ سب سے پہلے اسی کی بڑائی و کبریائی کے گن گاتے ہیں۔ مومن اپنی دنیا کی آسائشوں کے بجاے آخرت کے لیے ہر لمحہ فکر مند رہتا ہے۔ اسی لیے عید کی تیاریوں میں مگن ہوکر ایسا ہوش و خرد سے بے بہرہ نہیں ہو جاتا کہ فرائض کی بجا آوری تک
بھول جائے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ عید کی شب شاپنگ، مہندی، چوڑیوں، سلائیوں اور میچنگ کی فکر میں گزر جاتی ہے حتی کہ نماز فجر بھی فوت ہوجاتی ہے۔ حالاں کہ یہ گھڑیاں رب کی رضا کے حصول کی خصوصی گھڑیاں ہیں۔
عید کی حقیقی خوشیوں کو محض دنیاوی خوشیوں کا محور نہیں جاننا چاہیے بلکہ توشۂ آخرت پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ مومن کی پانچ عیدیں ہیں:
-۱ جس دن گناہ سے محفوظ رہے اور کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔
-۲ جس دن دنیا سے اپنا ایمان سلامت لے جائے اس کی وہ عید ہے۔
۳ -جس دن دوزخ کے پُل سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے۔
-۴ جس دن دوزخ سے بچ کر جنت میں داخل ہوجائے۔
-۵ جس دن اپنے رب کی رضا کو پالے اور اس کے دیدار سے اپنی آنکھیں روشن کرے وہ عید کا دن ہے۔
حضرت علیؓ کو کسی نے عید کے دن دیکھا کہ آپ خشک روٹی کھا رہے ہیں۔ دیکھنے والے نے کہا: اے ابو تراب! آج عید ہے۔ آپ نے فرمایا: ہماری عید اس دن ہے جس دن کوئی گناہ نہ کیا ہو۔
وہب بن منبہ کو کسی نے عید کے دن روتے دیکھا تو کہا: آج تو مسرت و شادمانی کا دن ہے۔ حضرت وہبؓ نے فرمایا: یہ خوشی کادن اس کے لیے ہے جس کے روزے مقبول ہوگئے۔
حضرت شبلیؒ نے عید کے دن لوگوں کو کھیل کود میں مشغول دیکھ کر فرمایا: لوگ عید میں مشغول ہوکر وعید کو بھول گئے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ عید کے آداب و فضائل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے اپنے آپ کو آراستہ کیا۔ عید توان کی ہے جو خدا کی وعید اور پکڑ سے بچ گئے۔
عید ان کی نہیں جنہوں نے آج بہت سی خوشبوؤں کا استعمال کیا‘ عید تو ان کی ہے جنہوں نے گناہوں سے توبہ کی اور اس پر قائم رہے۔
عید ان لوگوں کی نہیں جنہوں نے بڑی بڑی دیگیں چڑھا دیں اور بہت سے کھانے پکائے‘ عید تو ان کی ہے جنہوں نے حتی الامکان نیک بننے کی کوشش کی اور نیک بنے رہنے کا عہد کیا۔
عید ان کی نہیں جو دنیاوی زینت کے ساتھ نکلے‘ عید تو ان کی ہے جنہوں نے تقویٰ و پرہیزگاری کو زادِ راہ بنایا۔
عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ عمدہ سواریوں پر سواری کی‘ عید توان کی ہے جنہوں نے گناہوں کو ترک کر دیا۔
عید ان کی نہیں جنہوں نے اعلیٰ درجے کے فرش سے (قالینوں سے) اپنے مکانوں کو آراستہ کرلیا‘ عید تو ان کی ہے جو دوزخ کے پُل سے گزر گئے۔
عید ان کی نہیں جو کھانے پینے میں مشغول ہوگئے‘ عید ان لوگوں کی ہے جنھوں نے اپنے اعمال میں اخلاص پیدا کیا۔
اللہ رب العزت اُمت مسلمہ کو حقیقی عید سے ہم کنار فرمائے۔ آمین!
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اپریل تا 13 اپریل 2024