ترکی میں عید کا نرالا انداز اورجوش و خروش

تفریح کےلیے ترک شہری سیاحتی مقامات اور ساحلوں کا رخ کرتے ہیں

افروز عالم ساحل

ترک عوام ’رمضان بیرامی‘ یعنی عید کی خریداری میں مشغول ہیں۔ بازاروں اور شاپنگ مالوں میں چہل پہل اور رونق دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کپڑوں کی دکانیں ہوں یا جوتوں کی، جیویلری شاپس یا ریسٹورنٹ و ہوٹلیں۔۔۔ ہر جگہ لوگوں کا ہجوم نظر آرہا ہے۔ دکانوں میں بچوں کی کینڈیز کی فروخت میں بھی تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ وہیں نوجوان ابھی سے پارکوں میں افطار کے وقت کباب سینکتے اور پارٹیاں کرتے نظر آنے لگے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان اس پلاننگ میں مصروف ہیں کہ انہیں اس بار عید میں کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔

۲۲ سال کی سونگل ایشیک بھی کافی پر جوش نظر آرہی ہیں۔ انہیں خوشی اس بات کی ہے کہ وہ اس مرتبہ عید کے موقع پر اپنے والدین کے ہاتھوں کا بوسہ اور ان کی خوب ساری دعائیں لے سکیں گی، اور ان کے رشتہ داروں سے ملاقات بھی ہو سکے گی۔ ساتھ ہی کپڑوں کی خریداری کی پوری فہرست ان کے پاس موجود ہے۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں وہ بتاتی ہیں کہ اس عید کا انہیں بے صبری سے انتظار ہے۔ گزشتہ دو سال کوویڈ کی وجہ سے وہ عید کی خوشیاں نہیں منا سکی تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ رشتہ داروں سے ’ہرچلیک‘ یعنی عیدی بھی خوب ملے گی۔ انہیں خوشی ہے کہ اس بار ان کی فیملی عید پر گاؤں نہیں جارہی ہے بلکہ گاؤں کے زیادہ تر رشتہ دار ملنے کے لیے استنبول آ رہے ہیں۔

یہ پوچھنے پر کہ عید کے دن ترکی کے لوگ کیا کرتے ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ سب سے پہلے ہم قریب کی مسجد میں عید کی نماز ادا کرنے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد ہم اپنے بڑوں کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہیں، بدلے میں وہ خوب ساری دعائیں اور عیدی دیتے ہیں۔

کیا یہاں عید پر لوگ گلے نہیں ملتے؟ اس سوال پر سونگل کہتی ہیں کہ پہلے کچھ لوگ ایسا کرتے تھے، لیکن کوویڈ کی وجہ سے اب ایسا کوئی نہیں کرتا۔ ویسے یہ ترکی کے کلچر کا حصہ نہیں ہے، زیادہ تر دوسرے ممالک کے لوگ ایسا کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ عید کی نماز پڑھنے کے بعد گھروں میں لوکوم (جسے ٹرکش ڈلائٹ بھی کہا جاتا ہے) کے ساتھ ٹرکش کافی کا مزہ لیتے ہیں۔ ساتھ میں بکلاوا (ٹرکش مٹھائی) بھی ہوتا ہے۔ اس کے بعد رشتہ داروں کے آنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن کے ساتھ ٹرکش کھانے کا لطف لیتے ہیں۔ خاص طور پر محلے کے بچے کینڈیز کے لیے سبھی کے گھروں میں جاتے ہیں۔ کینڈیز اکٹھا کرنے کے لیے عید ان کے لیے ایک خاص موقع ہوتا ہے، اسی لیے بچے اسے کینڈی عید بھی کہتے ہیں۔ اور ہاں! عید کے دن خاص طور پر سرما ضرور بنتا ہے۔ یہ سرما کیا ہوتا ہے؟ اس پر وہ ہنستے ہوئے بتاتی ہیں کہ اسے انگور کے پتے اور چاول کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔

ترکی کے مہدی پیرتکلی بھی اس بار عید کے لیے اپنے گاؤں نہیں جا رہے ہیں، لیکن وہ خوش ہیں کہ استنبول میں وہ چچا کے گھر کے رہ کر دوستوں کے ساتھ عید منا سکیں گے۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں مہدی بتاتے ہیں کہ ترکی میں پہلے کے لوگ رشتہ داروں سے ملنے جلنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے، لیکن آج کے موجودہ ماڈرن دور میں ایسا زیادہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ خاص طور ہر نوجوان طبقے کو عید کی چھٹیوں کا انتظار رہتا ہے تاکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کسی خاص مقام پر گھومنے کے لیے جا سکیں۔

واضح رہے کہ ترکی میں ہندوستان کی طرح عیدگاہ کا اجتماع نہیں ہوتا بلکہ لوگ مساجد میں عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔ یہاں گلے ملنے کا رواج نہیں ہے، بلکہ ترک لوگ اپنے بزرگوں کے احترام میں ان کے دائیں ہاتھ کا بوسہ لیتے ہیں۔ یہاں ہندوستان کی طرح سوئیاں بھی نہیں بنتی ہیں اور نہ بریانی یا گوشت پلاؤ، بلکہ یہاں ٹرکش کھانوں کا ہی لطف لیا جاتا ہے اور بچوں کو کینڈی ملتی ہے۔ اور ہاں! بچے یہاں بھی عیدی لینا نہیں بھولتے۔ اس کے لیے وہ اپنے رشتہ داروں کے یہاں ضرور جاتے ہیں اور عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترکی میں عید پر تین دنوں کی سرکاری چھٹی ہوتی ہے اس دوران سارے پبلک ٹرانسپورٹ مفت ہوتے ہیں، یعنی آپ تین دنوں تک کسی بھی سرکاری بس، ٹرین، میٹرو یا ٹراموے سے اپنے شہر میں مفت سیر کر سکتے ہیں۔ لوگ شام کو مختلف سیاحتی مقامات پر، خاص طور پر ساحلوں پر جمع ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال عید کے موقع پر یہاں نو دنوں کی چھٹی تھی، اس بار بھی لوگوں کو یہی امید ہے کہ حکومت اس کا اعادہ کرے گی۔ ویسے اس مرتبہ شاید پانچ دنوں تک چھٹی رہے گی کیونکہ اگر عید ۲ مئی یعنی پیر کو ہوئی تو ہفتہ و اتوار کی چھٹیاں بھی اس میں شامل ہو جائیں گی۔ اس لیے ترکی عوام ان چھٹیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اپنی اپنی پسند کے سیاحتی مقامات پر جانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔

ہفت روزہ دعوت نے اس موقع سے ترکی میں رہنے والے کچھ ہندوستانی نوجوانوں سے بھی بات چیت کی کہ ان کی عید یہاں کیسے گزرتی ہے۔

ترکی میں گزشتہ ۱۱ برسوں سے مقیم کمال کریم کہتے ہیں کہ وہ عید کے دن اپنے وطن انڈیا کو بہت یاد کرتے ہیں، جی چاہتا ہے کہ بس فلائٹ پکڑوں اور گھر پہنچ جاؤں۔ لیکن میں ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ میری بیوی و بچی بھی یہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ ترکی سے ہی تعلق رکھتی ہیں، اس لیے ان کا پورا دن اپنے سسرال میں گزرتا ہے۔ شام میں وہ اپنے ترک دوستوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ باقی ہم ہندوستانیوں کے لیے یہاں عید میں کچھ بھی خاص نہیں ہوتا۔ یہاں کے کھانوں میں بھی وہ مزہ نہیں جو ہمارے کھانوں میں ہوتا ہے۔ کریم کا تعلق ہندوستان کے شہر حیدرآباد سے ہے وہ ان دنوں استنبول میں قیام پذیر ہیں۔

ترکی کے ایک اور شہر کونیا میں رہنے والے عطاء الرحمٰن کا کہنا ہے کہ یہاں عید میں بھی لوگ شرٹ پینٹ اور کوٹ ہی پہن کر نماز کے لیے جاتے ہیں انڈیا کے لوگوں کی طرح کرتا پاجامہ کوئی نہیں پہنتا۔ عطاء الرحمٰن اپنی پہلی عید کو یاد کرتے ہوئے ہنستے ہیں اور پھر بتاتے ہیں میں جوش میں اپنی پہلی عید میں کرتا پاجامہ پہن کر مسجد میں چلا گیا، سارے لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے کہ جیسے میں کوئی نمونہ ہوں۔ تب سے آج تک کرتا پاجامہ نہیں پہنا۔ یہاں میں سب سے زیادہ گاؤں کی عیدگاہ کو یاد کرتا ہوں۔

وہ مزید بتاتے ہیں کہ گزشتہ چھ سالوں سے میں عید کے دن اپنے انڈین دوستوں کو دعوت دیتا رہا ہوں۔ پورے ترکی میں رہنے والے میرے ہندوستانی دوست کونیا آتے ہیں اور پھر ہم اپنے طریقے سے عید مناتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جو خوشی اپنے وطن میں ملتی ہے وہ یہاں نہیں مل سکتی۔ اس دن گھر والوں کے ساتھ ساتھ دوستوں کی یاد بہت آتی ہے۔ عطاء الرحمٰن کا تعلق ریاست بہار سے ہے۔

حیدرآباد کے سید محمد شہباز کا کہنا ہے کہ عید کے مجھے گھر کی بریانی اور شیر خرما کی یاد شدت سے آتی ہے۔ یہاں تو ہم کسی سے گلے بھی نہیں مل سکتے۔ ٹرکش دوستوں سے بھی دعوت کی امید نہیں، کیونکہ ان میں زیادہ تر اپنے اپنے مقامات پر گئے ہوئے ہوتے ہیں۔ بس ہم کوشش کرتے ہیں کہ جتنے بھی ہندوستانی ہیں، انہی سے مل لیا جائے۔ لیکن یہاں ہندوستانی بھی گنے چنے ہی ہیں۔ لہذا پورا دن سو کر ہی گزارنا پڑتا ہے۔ بعد میں ہم سب ہندوستانی دوست مل کر دعوت کرتے ہیں۔ محمد شہباز استنبول میں گزشتہ ۱۱ برسوں سے رہ رہے ہیں۔

دہلی کی افشان خان کی ترکی میں پہلی عید ہے اس لیے وہ کافی پر جوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے اس بار کی عید میرے لیے خاص ہوگی کیونکہ میں بھی بیس برسوں بعد عید کی نماز پڑھنے جا سکوں گی۔ مجھے یاد ہے کہ ہندوستان میں جب چار پانچ سال کی تھی تو ابو کے ساتھ عید گاہ گئی تھی۔ لیکن ترکی کی عید میں اچھی بات یہ ہے کہ یہاں خواتین بھی عید کی نماز ادا کرتی ہیں۔ پھر میں ٹرکش دوستوں کو عید کی دعوت پر بھی بلاؤں گی تاکہ وہ ہمارے ملک کی عید کے کلچر سے واقف ہو سکیں۔

 

***

 ترکی میں ہندوستان کی طرح عیدگاہ کا اجتماع نہیں ہوتا بلکہ لوگ مساجد میں عید کی نماز ادا کرتے ہیں۔ یہاں گلے ملنے کا رواج نہیں ہے، بلکہ ترک لوگ اپنے بزرگوں کے احترام میں ان کے دائیں ہاتھ کا بوسہ لیتے ہیں۔ یہاں ہندوستان کی طرح سوئیاں بھی نہیں بنتی ہیں اور نہ بریانی یا گوشت پلاؤ، بلکہ یہاں ٹرکش کھانوں کا ہی لطف لیا جاتا ہے اور بچوں کو کینڈی ملتی ہے۔ اور ہاں! بچے یہاں بھی عیدی لینا نہیں بھولتے۔ اس کے لیے وہ اپنے رشتہ داروں کے یہاں ضرور جاتے ہیں اور عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  01 تا 07 مئی  2022