ای ایف ٹی اے سے سمجھوتہ بھارتی معیشت کے لیے خوش آئند
یوروپی ممالک سے اشیا و خدمات کی دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کی راہ ہموار
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
معاہدہ بعض صنعتوں بالخصوص زراعت کے لیے باعث تشویش۔ سمجھوتے کو مفید تر بنانے کے لیے نگرانی ضروری
بھارت نے گزشتہ 10؍ مارچ کو چار یوروپی ممالک کے گروپ یوروپین فری ٹریڈ اسوسی ایشن (EFTA) کے ساتھ ایک تاریخی تجارتی سمجھوتے پر دستخط کر دیے ہیں۔ یہ سمجھوتہ دراصل سرمایہ کاری اور اشیا و خدمات کی دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہوا ہے۔ اس کے تحت آئندہ 15 سالوں میں بھارت میں 1100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ یہ ہمارے ملک کا ایک ایسے گروپ کے ساتھ پہلا تجارتی معاہدہ ہے جس میں ترقی یافتہ ممالک کی شمولیت ہوئی ہے۔ ای ایف ٹی اے ممالک میں ناروے، آئس لینڈ، سوئٹزرلینڈ، لکٹینسٹائن، ہیں۔ اس سمجھوتے میں تحقیق، اختراعیت، خدمات کی تجارت سرمایہ کاری کا فروغ اور تعاون سرکاری خریداری، تجارت میں ٹیکنیکل رکاوٹیں دور کرکے تجارتی سہولتیں شامل رہیں۔ اس سمجھوتے سے ملک میں دس لاکھ لوگوں کو روزگار ملنے کی توقع ہے۔ اس سمجھوتے کا خاص مقصد ہے کہ سرمایہ کاری کو بہتر طریقے سے فروغ دیا جائے گا۔ یہ آزاد تجارتی معاہدہ سے ہمارے ملک کو کم ترین وسائل سے اونچے وسائل والا ملک بنانے میں اہم رول ادا کرے گا۔ گزشتہ دنوں عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کریسل نے اپنی رپورٹ میں وضاحت کی کہ بھارت اپنی مالیاتی اور انفراسٹرکچرل اصلاحات کی وجہ سے 2031 تک اوسط آمدنی والا ملک بن جائے گا۔ اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بھارت جاریہ مالی سال 202324 میں مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 7.6 فیصد اور 2024-25 میں 6.8 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ آج ہمارا ملک 3.6 لاکھ کروڑ ڈالر کی جی ڈی پی کے ساتھ پانچویں بڑی معیشت ہے ہم سے پہلے امریکہ، چین جاپان اور جرمنی ہیں۔ گمان ہے کہ 2030-31 تک بھارتی معیشت کا حجم دوگنا ہو کر 6.7 لاکھ کروڑ ڈالر تک ہوجائے گا اور لوگوں کی فی کس آمدنی بھی 4500 ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ ماہرین اقتصادیات اس گمان کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ اگر 4500 ڈالر فی کس آمدنی کو مان لیا جائے تو ہمارا ملک اوسط آمدنی والے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ روس، یوکرین اور اسرائیل۔ فلسطین جنگوں اور موجودہ عالمی مندی کے مد نظر بھارت کے لیے اب ضروری ہوگیا ہے کہ برآمدات بڑھانے کے لیے ای ایف ٹی اے کے بعد دیگر ممالک کے ساتھ ایف ٹی اے پر بات چیت کی رفتار کو تیز کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں خصوصی معاشی خطوں (SEZ) کے نئے کردار مثلاً پیداواری بنیاد پر ترغیب (PLI) میک ان انڈیا جیسے منصوبوں کو متحرک کرکے یکسوئی سے برآمدات کی ہمت افزائی کی جائے۔ بھارت کے لیے پہلے سے ہی متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ (ایف ٹی اے) کو بڑھاوا دینے میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ اس سے روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔ ای ایف ٹی اے کے بعد بھارت کے ذریعہ برطانیہ، کناڈا، عمان، جنوبی افریقہ، امریکہ، اسرائیل و دیگر خلیجی ریاستی کونسل اور یوروپی یونین کے ساتھ بتدریج ایف ٹی اے کو بسرعت روبہ عمل لائے گا اس طرح ہمارا ملک عالمی معاشی اداریاتی تنظیم کے مطابق 2027 میں دنیا کی تیسری بڑی معیشت اور عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کریسیل کے اندازہ کے مطابق 2031 تک زیادہ فی کس آمدنی والا ملک بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ چار یوروپی ممالک سے ہونے والی تجارت میں سوئٹزرلینڈ کی شراکت 90 فیصد سے زائد ہے۔ اس سمجھوتہ میں بینکنگ، ڈیجیٹل کاروبار، مالی خدمات، ٹیکسٹائل، زرعی پیداوار اور فارما جیسے شعبے شامل ہیں، اس کے ذریعے گروپ میں شامل ممالک کے بازار میں بھارت کی رسائی آسان ہو جائے گی۔ ساتھ ہی بھارت مختلف اشیا کے لیے درآمداتی فیس میں تخفیف کرے گا۔ زراعت ، ڈیری، سونا اور کوئلے کے شعبوں کو اس تجارتی معاہدہ سے الگ رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی پی ایل آئی اسکیم سے منسلک شعبوں کے لیے بھی ہمارا گھریلو بازار نہیں کھولا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گرین ونڈ انرجی (بادیائی توانائی) فوڈ پروسیسنگ، فارما، کیمیکلس کے ساتھ اچھی کوالیٹی والی مشینری کے شعبوں میں ای ایف ٹی اے ممالک سرمایہ کاری کریں گے۔ جس سے ان شعبوں میں ہمارے ملک کی درآمدات کم ہوں گی اور مسابقت سے ہمارے پیداوار کی خصوصیات اور بہتری پر توجہ ہوگی۔ اس سمجھوتہ میں شامل اہم ملک سوئٹزرلینڈ کی شمولیت سے ملک میں دل پسند گھڑیاں، چاکلیٹ اور ذائقہ دار بسکٹ کم قیمتوں پر دستیاب ہوں۔ گی اس کے تحت آئندہ 7 سالوں میں سلسلہ وار موجودہ درآمداتی فیس ختم کرنا ہو گا۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بھارت کے بازاروں میں بھی ان ممالک کی رسائی آسان ہو جائے گی، نتیجتاً بھارتی کمپنیاں بھی اپنے سپلائی چین میں متفرق اشیا کے نمونے لانے کی کوشش کریں گی۔ اس سمجھوتہ کو بروئے کار لانے کے لیے بھارت پندرہ سالوں سے کوشاں رہا ہے۔ 2013 میں اس مسئلہ پر گفت و شنید کا دور ہی ختم ہوگیا تھا مگر 2016 میں گفتگو دوبارہ شروع کی گئی۔ کئی ممالک جس میں ترقی پذیر اور ترقی یافتہ بھی ہیں بھارت کے ساتھ آزاد تجارتی سمجھوتہ کرنے کے متمنی ہیں، اس کے علاوہ ہمارے ملک میں دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی (ڈیمو گرافک ڈیوڈنڈ) ہے جس کا فائدہ ہماری حکومت اپنی نا اہلی کی وجہ سے نہیں اٹھا پا رہی ہے۔ بے کار اور بے روزگار نوجوانوں کی فوج مایوسی کے بھنور میں پھنستی جا رہی ہے، جنہیں نفرت کا افیم کھلا کر مدہوش کر دیا گیا ہے۔ پھر بھی بڑے پیمانے پر مہارت کی تربیت کی مہم، بڑھتا سروس سکٹر، سبک رفتاری سے بڑھتی برآمدات اور معیشت میں خارجی جھٹکوں سے نکلنے کی صلاحیت بھارت کے لیے سنگ میل بن سکتی ہے۔
آج بھی ملک کے پرتشدد حالات کی وجہ سے غیر ملکی کمپنیاں سرمایہ کاری سے ہچکچا رہی ہیں۔ اس لیے بھارت میں سرمایہ کاری پر زور اس سمجھوتہ کا اہم جز ہے۔ ای ایف ٹی اے کے ذریعہ یوروپی ممالک کے ساتھ ہونے والا معاہدہ کسٹم ڈیوٹیز، تجارت اصولوں اور ٹکنیکل دشواریوں کو آسان بنانے، ممکنہ طور پر سرحدوں کے مال و اسباب کی سپلائی میں تیزی لانے اور کاروباریوں کے حمل و نقل کی لاگت کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ سمجھوتہ آئی پی سلامتی کو تحفظ کے ساتھ مضبوطی عطا کرتا ہے، جس سے ملکی کمپنیوں کو نئی پیداوار اور دانش ورانہ ملکیت سے فائدہ ہوسکتا ہے۔ جینرک دواوں میں ملک کے مفاد اور پیٹنٹ سے متعلق تشویش کو اس میں مکمل طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ ٹی ای پی اے کے حمایتیوں کا ماننا ہے کہ یہ سمجھوتہ بھارت کی معاشی بہتری کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ای ایف ٹی اے ممالک سے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ٹرانسفر کے بڑے امکانات ہیں۔
موجودہ سمجھوتہ تجارت کو فروغ دینے کا وعدہ ضرور کرتا ہے مگر بھارتی صنعتوں خصوصاً زراعت کے لیے باعث تشویش بھی ہے۔ بڑی بھارتی کمپنیوں کو پیداوار بڑھانے اور اس کو عالمی بازار میں مسابقت کرنے کی ان کی بہتر صلاحیت کی وجہ سے زیادہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ساتھ ہی اس سمجھوتے سے مختلف علاقوں میں غیر مساوی طور سے تقسیم کیے جا سکتے ہیں بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک جو اپنے جدید تر صنعتوں کو ترقی یافتہ ممالک میں قائم کمپنیوں کے ساتھ مسابقت سے بچانے کے لیے اکثر درآمدہ اشیا پر ٹیکسوں پر انحصار کرتے ہیں، آزاد تجارتی سمجھوتہ اصلاً ترقی یافتہ ممالک کو فیس کم کرنے کو کہتے ہیں جس سے سستے درآمدات سے بازار میں باہری اشیا کا سیلاب آجاتا ہے اور مقامی کاروبار، روزگار اور گھریلو صنعتی ترقی میں خلل پڑسکتا ہے، کم ٹیکسوں کی وجہ سے یوروپی اشیا اپنی بہتر خصوصیات اور اچھی صلاحیت کے لیے معروف ہیں، سستے ہوں گے۔ اس سے بھارتی پیداوار کی قیمتوں پر دباو پڑ سکتا ہے۔ یوروپی کسانوں کو اکثر حکومتوں سے ملنے والی بڑی سبسیڈی کا بڑا فائدہ ملتا ہے جو ہمارے ملک میں کسانوں کو ملنے والی سبسیڈی سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس سے بھارتی کسانوں کے لیے اپنی پیداوار کےلیے خصوصاً قیمت کے معاملے میں مسابقت دشوار ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ یوروپ میں غذائی سلامتی اور کوالیٹی کے بڑے سخت پیمانے (Standard) مقرر ہیں جس سے بھارتی کسانوں کے کم کوالٹی کے اسباب کو یوروپی اسٹینڈرڈ پر پورا اترنے ہیں دشواری ہوسکتی ہے۔ ایسے اسٹینڈرڈ کو پورا کرنے پر زرعی پیداوار کی لاگت بڑھ جائے گی۔
***
***
چار یوروپی ممالک سے ہونے والی تجارت میں سوئٹزرلینڈ کی شراکت 90 فیصد سے زائد ہے۔ اس سمجھوتہ میں بینکنگ، ڈیجیٹل کاروبار، مالی خدمات، ٹیکسٹائل، زرعی پیداوار اور فارما جیسے شعبے شامل ہیں، اس کے ذریعے گروپ میں شامل ممالک کے بازار میں بھارت کی رسائی آسان ہو جائے گی۔ ساتھ ہی بھارت مختلف اشیا کے لیے درآمداتی فیس میں تخفیف کرے گا۔ زراعت، ڈیری، سونا اور کوئلے کے شعبوں کو اس تجارتی معاہدہ سے الگ رکھا گیا ہے۔ ساتھ ہی پی ایل آئی اسکیم سے منسلک شعبوں کے لیے بھی ہمارا گھریلو بازار نہیں کھولا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گرین ونڈ انرجی (بادیائی توانائی) فوڈ پروسیسنگ، فارما، کیمیکلس کے ساتھ اچھی کوالیٹی والی مشینری کے شعبوں میں ای ایف ٹی اے ممالک سرمایہ کاری کریں گے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 07 اپریل تا 13 اپریل 2024