عدلیہ شہریوں کے لیے انصاف کی فراہمی، ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور حکم رانوں کے عتاب سے ان کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ خاص طور پر سپریم کورٹ پر تو ملک کے آئین کی حفاظت اور اس میں دی گئی ضمانتوں کے تحفظ کی بھی ذمہ داری عائد ہے۔ سپریم کورٹ نے بارہا اپنی اس اہم ذمہ داری کو ادا کیا اسی وجہ سے سپریم کورٹ کو ملک کے مظلوم عوام اپنی آخری پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔گجرات فسادات 2002 کے متاثرین کے لیے فراہمی انصاف کی طویل جدوجہد میں بھی سپریم کورٹ نے بڑا ہی اہم کردار ادا کیا تھا۔اگر سپریم کورٹ موجود نہ ہوتی یا وہ اس طرح کا اہم کردار ادا نہ کرتی تو گجرات فساد کے مختلف مقدمات میں مظلوموں کو انصاف کا ملنا ممکن نہ ہوتا۔ سپریم کورٹ نے کئی معاملات میں مداخلت کی، بعض طاقت ور سیاسی افراد کے دباو کی وجہ سے ان کی سنوائی میں ہونے والی رکاوٹوں کو دور کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ مقدمات کی سنوائی کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہے، جس کی وجہ سے ظلم کے شکار افراد میں یہ امید پیدا ہوئی کہ ان کے مقدمے کی کارروائی غیر جانب داری کے ساتھ اور منصفانہ انداز میں پوری ہو گی۔ عدلیہ پر یہ بھروسہ اور اعتماد ہر جمہوری سماج کی ایک بنیادی ضرورت ہے، لیکن ذکیہ جعفری کی عرضی کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے جو حالیہ فیصلہ دیا ہے اور اس کا استعمال کرتے ہوئے پولیس نے جس طرح معروف سماجی جہد کار تیستا سیتلواد اور سابقہ گجرات ڈی جی پی آر بی سری کمار کو گرفتار کیا ہے وہ نہایت ہی پریشان کن ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر سپریم کورٹ کے فیصلے اور اس کے ضمیموں کے اقتباسات کی بنیاد پر ہی تیار کی گئی ہے، اور یہ کارروائی بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے محض دوسرے ہی دن انجام دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس وقت کی حکومت کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے کہا کہ”۔۔۔ کچھ افراد اور سرکاری افسروں نے ریاست میں سنسنی پیدا کرنے، حالات کو خراب رکھنے اور حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کی ۔۔۔۔اور جو لوگ اس کام میں ملوث ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے”۔ فیصلے میں شامل اس تبصرے کا کیا یہی مقصد تھا کہ اس کی آڑ لے کر حکومت دوسرے ہی دن اپنے مخالفین کو دبوچنا شروع کر دے؟ حکومت کا یہ رویہ اور طرز عمل ملک میں ان لوگوں کے حوصلوں کو پست کرنے کا کام کرے گا جو مظلوم اور ستائے ہوئے لوگوں کے حقوق کے دفاع اور انہیں انصاف دلانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ انسانی حقوق یا سماج کے لیے کام کرتے ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کے مخالف یا ملک کے دشمن نہیں ہوتے بلکہ وہ عوام کو انصاف دلانے کے کام میں حکومت کی مدد کرتے ہیں جو کہ حکومت کی اصل ذمہ داری ہے۔ لیکن اگر حکومت محض اس پر تنقید اور اس کی خامیوں پر انگلی اٹھانے والوں کو اپنے سیاسی انتقام کا نشانہ بنائے اور اس کے لیے عدالتوں اور ان کے فیصلوں کا اس طرح غلط استعمال کرے تو پھر عوام کا اعتماد جس طرح حکومتوں پر سے ختم ہو رہا ہے اسی طرح بتدریج عدالتوں پر سے بھی اٹھتا جائے گا، اور جب کسی جمہوری سماج میں عدلیہ پر سے عوام کا اعتماد کم زور ہو جائے تو یہ صورت حال اس سماج کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اب تک ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال تو خراب تھی ہی کہ بعض سنگین ترین الزامات کے حامل افراد سیاسی طور پر عروج اور ترقی کے زینے طے کرتے کرتے اونچے مقامات تک پہنچ گئے، لیکن اب عدالتوں سے بھی اس طرح کے جرائم کرنے والوں کو آسانی سے ضمانتیں ملنے لگی ہیں۔ گزشتہ دنوں ممبئی کی سیشن کورٹ نے بھی بدنام زمانہ ‘بلی بائی’ نامی ایپ تیار کرنے والے ملزمین نیرج اور اس کے دو ساتھیوں کو ضمانت دے کر معاشرے میں واپس بھیج دیا، عدالت کا یہ رویہ سماج میں برائیوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا۔ اور برے لوگ مزید آزادی کے ساتھ جرائم اور خرابیوں کے ذریعے سماج کو گندہ کرتے رہیں گے! جب کہ دوسری جانب حقوق انسانی کی جدوجہد کرنے والے کئی نوجوان اور سماجی کارکنان معمولی یا ناکردہ جرائم کے لیے برسوں سے پابند سلاسل ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس سے عوام عدلیہ کے تئیں بدظن ہوتے ہیں اور اس پر سے ان کا بھروسہ ختم ہوتا ہے اور جب کسی سماج کے شہری انصاف سے ناامید ہو جائیں تو وہ سماج انتشار اور بدامنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ملک کو اس صورت حال سے بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری تو ہے ہی ملک کے تمام شہری بھی اس بات کے برابر ذمہ دار ہیں کہ وہ اس صورت حال پر سنجیدہ نوٹ لیں اور صورت حال کی اصلاح کی کوشش کریں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 03 جولائی تا 09 جولائی 2022