بھارتی عوام کی جانب سے آئین کو تسلیم کیے ہوئے 72 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ 26 ؍نومبر 1949ء کو جیسے ہی آئین ساز کمیٹی نے بھارتی آئین کو اختیار کرنے کا اعلان کیا اس وقت بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک بن گیا تھا۔ بھارتی آئین کے بانیوں نے اس میں اپنے ملک کے لیے نہایت ہی مثالی اہداف اور ان کے حصول کے لیے درکار اداروں اور طریقہ کار دونوں کے متعلق اہم فیصلے کردیے تھے۔ یہ مثالی اہداف ملک میں قومی یکجہتی، جمہوری اور مساویانہ سماج کا قیام تھے۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی طے کر دی گئی تھی کہ اس مثالی سماج کی منزل کا حصول ایک سماجی ومعاشی انقلاب کے ذریعے ہو اور اس کے لیے آئینی وجمہوری اداروں کا استعمال کرتے ہوئے پوری جمہوری روح کے ساتھ ہی کوشش کی جائے۔
دراصل آئین کے بانیوں کی نظر میں قومی یکجہتی، سماجی انقلاب اور جمہوریت ایک اٹوٹ جال کے تانے بانے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ ان میں سے کسی بھی ہدف کے لیے نہ تو علیحدہ سے کوشش کی جاسکتی ہے اور نہ اس طرح ان مقاصد کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ تینوں اہداف باہم ایک دوسرے پر منحصر ہیں اور ان کا حصول بھی ایک ساتھ ہی ہو سکتا ہے۔ چنانچہ آئین سازوں نے آئین تشکیل دیتے ہوئے ملک اور ملکی نظام کے متعلق جو پیش بینی کی تھی اس کا سب سے لازمی عنصر ملک کے لیے طے کردہ ان تین عظیم اہداف کی باہمی انحصاری اور ان کے درمیان ایک اٹوٹ بندھن کا تصور ہے لہٰذا اسی پیش بینی کے مطابق انہوں نے آئین میں ان اہداف کے حصول کے لیے اداروں اور طریقہ کار کا تعین کیا تھا۔ اس لیے ان اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ آئین کے طے کردہ جمہوری ادارے اور عملی طریقے نہ صرف باقی رہیں بلکہ وہ موثر بھی ہوں۔
قومی یکجہتی کے ہدف کا حصول بھارت جیسے کثیر مذہبی، کثیر لسانی وثقافتی متنوع ملک کے لیے بہت بڑا چیلنج تھا۔ چنانچہ آئین کی تشکیل میں اس کا خاص لحاظ رکھا گیا، فیصلہ سازی کے لیے زیادہ تر اتفاق رائے کے حصول کی کوشش کی گئی۔ یہ اصول اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ جن سیاسی تنازعات میں انسانی جذبات شدت کے ساتھ شامل ہوں ان کے فیصلوں میں اکثریت کا اصول کوئی کامیاب طریقہ کار نہیں ہے۔ بعض صورتوں میں 52 لوگوں کا 48 لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنا اگر اخلاقی اعتبار سے خلافِ عدل نہ بھی ہو تو سیاسی اعتبار سے خلاف ِحکمت ضرور ہو گا، اور اس طرح کی کوشش قومی یکجہتی کے ہدف کے حصول کو ناممکن بنا دے گی۔ چنانچہ آئین میں قومی زبان، وفاقیت اور بعض دوسرے مسائل میں اکثریت کے فیصلے کو مسلط کرنے کے بجائے اتفاق رائے کےحصول کی کوشش کی گئی۔ لیکن موجودہ حکومت محض عددی اکثریت کے بل پر اس بنیادی اصول کو مسلسل پامال کر کے جس طرح فیصلے کر رہی ہے وہ آئین کی بنیادی روح کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور یہ کیفیت ملک کے لیے بہر صورت مہلک ثابت ہو رہی ہے۔ قومی یکجہتی کے ہدف کے حصول کے لیے آئین سازی کے دوران ایک اور طریقہ کار جو اختیار کیا گیا تھا وہ موافقت ومصالحت کا اصول تھا۔ خود بھارت کا آئینی ڈھانچہ بھی موافقت ومصالحت کے اصول کی بہترین مثال ہے۔ مثلاً وفاقی نظامِ حکومت اور وحدانی نظامِ حکومت ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ لیکن آئین میں ان دونوں صورتوں کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچہ آئین ساز کمیٹی میں ان سے متعلق الگ الگ رائے رکھنے والے شدت پسند عناصر موجود تھے لیکن اس شدت پسندی کو چھوڑ کر موافقت ومصالحت کی راہ اپنائی گئی اور دونوں آراء کو سمونے کی کوشش کی گئی۔ بھارت جیسے ملک میں جہاں مختلف مذاہب اور کلچر سے وابستہ لوگ بستے ہیں یہی اصول کارگر ہو سکتا ہے۔ اقتدار پر فائز کوئی بھی گروہ جب بھی اس اصول کو توڑنے کی کوشش کرے گا وہ جلد یا بدیر منہ کی کھائے گا کیوں کہ شدت پسندی بطور اصول کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
آج جب کہ ہم تشکیل ونفاذِ آئین کا جشن منا رہے ہیں تو ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ یہ جشن سے زیادہ احتساب کا موقع ہے۔ کسی بھی آئین کی کامیابی اور اس کے موثر ہونے پر غور کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کا حقیقی وجود اور اس کی کامیابی صرف اس کے طریقہ استعمال پر منحصر ہے۔ ماضی میں بھی کئی حکمرانوں نے طاقت کے نشے میں آئین، آئینی طریقہ کار اور اس کی روایات کو پامال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح کی کوششیں آج بھی ہو رہی ہیں۔ ایسے مرحلے میں عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمرانوں کو سیدھے راستے پر رکھنے کے لیے موثر کردار ادا کریں۔ گزشتہ دنوں کسانوں نے یہ کام کر دکھایا ہے اور تمام لوگوں کو راہ دکھائی ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 05 تا 11 دسمبر 2021