طالبان سے تعلقات استوار کرنے میں بھارت مستعدی دکھائے

افغانستان کے بدلتے ہوئے حالات میں ہندوستان کو سرمایہ کاری کے مواقع حاصل طالبان بدل گئے ہیں۔ گھبرانے کے بجائے بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے

افروز عالم ساحل

افغانستان پر طالبان کےتقریباً قبضے نے دنیا بھر کے سلامتی اور سفارت کاری کے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ حیرانی اس بات کی بھی ہے کہ چین، ایران اور روس جیسے ممالک بھی اب طالبان کی حمایت میں نظر آ رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان نے اس معاملے پر ابھی تک پوری طرح سے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ یہی نہیں، اس درمیان آسام میں سوشل میڈیا پر طالبان کی حمایت میں مواد پوسٹ کرنے پر گرفتاری کی خبریں بھی آچکی ہیں۔ لیکن ہندوستان کے سینئر جرنلسٹ اور مصنف ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک نہ صرف طالبان کی حمایت میں لکھ رہے ہیں بلکہ ٹی وی چینلوں اور مذاکروں میں بھی طالبان کی کھلی حمایت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔‌ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کو بھی طالبان سے بات چیت کرنی چاہیے ۔

ہفت روزہ دعوت نے ان کی حمایت کی وجوہات کو جاننے کی غرض سے جب ان سے یہ پوچھا کہ ہندوستان کو طالبان سے کیوں بات چیت کرنی چاہیے؟ تو ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک نے نہ صرف ہمارے تمام سوالات کے کھل کر جواب دیے بلکہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ شروع سے ہی طالبان کے ساتھ رابطے میں ہیں اور ابھی بھی ان کی بات چیت ہو رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب تک افغانستان میں جتنی بھی حکومتیں بنی ہیں، سب خارجی دخل اندازی کے بعد بنی ہیں۔ اب اگر ہندوستان، امریکہ اور برطانیہ جیسے ملک ذرا مستعدی سے کام کریں تو عین ممکن ہے کہ خالص افغان حکومت بن سکتی ہے اور پاکستان اس کے دائرہ اثر سے پوری طرح باہر ہو سکتا ہے۔ طالبان سے تعلق استوار کرنے میں ہندوستان کو گھبراہٹ کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان، افغانستان کو کیا دے سکتا ہے کچھ بھی نہیں! ایسے میں وہ کیا خاک اثر ڈالے گا۔ اس کے پاس تو خود ہی کھانے کو نہیں ہے تو دوسرے کو کیا کھلائے گا؟ جبکہ ہندوستان بہت کچھ کر سکتا ہے۔ ایسے میں ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم وہاں فعال کردار ادا کریں۔ افغان عوام کی مدد کریں۔ ان کو راستہ دکھائیں۔ ہمارے پاس شاندار موقع ہے کہ اس بہانے ہم پاکستان سے بھی اپنے رشتے کافی حد تک سدھار سکتے ہیں۔ جب ہم پاکستان سے ڈپلومیٹک رشتہ بنائے ہوئے ہیں جس سے ہم‌نے کئی بار جنگ لڑی ہے تو پھر طالبان سے رشتہ استوار کرنے میں کیوں گھبرا رہے ہیں۔

ڈاکٹر ویدک کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ میں ہم پہلی بار سلامتی کونسل کے صدر بنے ہیں۔ ہمیں وہاں یہ تجویز پیش کرنا چاہیے تھا کہ افغانستان میں ایک سال کے لیے ’پیس آرمی‘ بھیجی جائے اور امن قائم کیا جائے۔ اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں۔

اگر انتخابات میں طالبان جیت گئے تو؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ جو بھی کامیاب ہو گا اسے اقتدار سنبھالنے کا حق حاصل ہو گا۔ اگر طالبان کامیاب ہوتے ہیں تو یقیناً اقتدار انہی کا ہو گا۔ لیکن افسوس کہ ہم نے سلامتی کونسل میں یہ موقع کھو دیا ہے۔

بھروسہ کے ساتھ ساتھ چوکس رہنےکی ضرورت

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ طویل گفتگو میں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کہتے ہیں کہ طالبان کی پرانی باتیں اب پرانی ہوچکی ہیں۔ ان باتوں کو یاد رکھنے یا دہرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اب طالبان کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کے بارے میں بھی کوئی منفی بات نہیں کہی ہے بلکہ طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے تو یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان، افغانستان میں جن منصوبوں پر کام کر رہا ہے اسے چاہیے کہ وہ انہیں مکمل کرے کیوں کہ وہ افغان عوام کے لیے ہیں۔ انہوں نے اس کام کی تعریف کی ہے۔ وہاں کسی ہندوستانی کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے بلکہ طالبان نے ان کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ میں ہمارے ملک کے پرجوش نوجوان سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے اوپر قابو رکھیں۔ ہمیں طالبان کی تعریفوں کے پل نہیں باندھنے چاہئیں۔ ابھی ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ آگے کیا کر رہے ہیں۔ ابھی وہ جو کچھ بھی کہہ رہے ہیں، اچھا کہہ رہے ہیں۔ یقیناً ان پر بھروسہ کرنا چاہیے لیکن تھوڑا الرٹ بھی رہنے کی ضرورت ہے۔ اس پورے خطے میں امن کے لیے افغانستان میں امن بہت ضروری ہے اور یہ ہمارے ملک کے نقطہ نظر سے بہت اہم ہے۔

ہندوستان نے اگر طالبان سے بات کی تو کیا نقصانات ہو سکتے ہیں؟

میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہندوستان طالبان سے بات کرے تو کوئی نقصان نہیں ہو گا بلکہ اس کے کئی فائدے ہو سکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم طالبان کے برتاؤ کو سدھار سکتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاس پیسہ ہے، ان کی فوج کو ٹریننگ دینے کی صلاحیت ہے اور ہمارے پاس ایک عہدہ بھی ہے۔پورے جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے ملک کے طور پر ہم اپنی شناخت رکھتے ہیں اور طالبان بھی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ طالبان کو یہ معلوم ہے کہ ہزاروں افغانی ہندوستان میں آج سے نہیں، سو ڈیڑھ سو برسوں سے رہ رہے ہیں اور ان کے ساتھ ہندوستانیوں کا برتاؤ کافی بہتر ہے۔ یہاں کسی پٹھان کو کسی ہندوستانی سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ آپ دہلی کے لاجپت نگر چلے جائیے بہت خوش نما ماحول آپ کو نظر آئے گا۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ افغانیوں نے کافی محبت کا سلوک کیا ہے۔ ہم کو کوشش کرنی چاہیے کہ طالبان اپنے پرانے راستے پر نہ چلیں ان کو نئے راستے پر چلانے کے لیے پاکستان ان کو جتنا متاثر کر سکتا ہے اس سے زیادہ ہم ان پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

اگر طالبان سے رشتے خراب ہوئے تو؟

اگر طالبان سے ہمارے رشتے خراب ہوتے ہیں تو ایرانی سرحد کے قریب جارانج سے ڈیلارام تک جانے والی شاہراہ کو طالبان توڑ دیں گے۔ اس سڑک پر ہندوستان نے 150 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ یہ سڑک اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ یہ ہندوستان کو ایران کے راستے افغانستان میں متبادل راستہ فراہم کرتی ہے۔ طالبان کے پاس اسے توڑنے کی وجہ بھی ہے۔ وہ کہیں گے کہ ہندوستان نے یہ سڑک ایران کی مدد کرنے یا اس سے مدد حاصل کرنے کے لیے بنائی ہے۔ یہی نہیں وہ ہرات کے سلمہ ڈیم کو جسے فرینڈشپ ڈیم بھی کہتے ہیں توڑ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک کے کئی پروجکٹ رک جائیں گے۔ ہمارے ایسے کئی کام جو لوگوں کی خدمت کے لیے بنائے گئے ہیں وہ تباہ و برباد ہو جائیں گے۔ ہمیں اس سے روکنا چاہیے۔

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کہتے ہیں کہ ہمیں افغانستان کو چین کے تصرف میں جانے سے روکنا ہو گا اس سے ہمارا وہ خطیر سرمایہ خطرے میں پڑ جائے گا جو ہم نے وہاں لگا رکھا ہے۔ چین کابل کے قریب اینک کے تانبے کی کان کنی میں سرمایہ لگانے کا منصوبہ پہلے ہی بنا چکا ہے۔ اندازہ ہے کہ کانوں میں ۶۰ لاکھ ٹن تانبہ موجود ہے۔ وہاں لیتھیم کی کانیں بھی ہیں چین کی اس پر بھی نظر ہے۔ افغانستان کے شمال میں کئی سو کلو میٹر لمبی دریا ہے جس میں بے شمار گیس اور پٹرولیم کی موجودگی کا پتہ چلا ہے۔ اس لیے ہندوستان کو چاہیے کہ وہ طالبان سے پورا تعاون کرے۔ جہاں اس نے تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے وہاں وہ مزید سرمایہ کاری کرے۔ افغانستان میں ہیروں کی کانیں بھی پائی جاتی ہیں جن کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

طالبان سے ابھی بھی ہوتی ہے میری بات چیت ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک بتاتے ہیں کہ میں گزشتہ بیس برسوں میں کئی بار افغانستان جا چکا ہوں۔ پٹھان اپنے مہمان کی عزت ایسے کرتے ہیں جیسے پرانے زمانے میں آریہ لوگ کرتے تھے۔ پٹھان جس کو اپنا مہمان بناتے ہیں اس کے لیے جان بھی دینے کو تیار رہتے ہیں۔ وہاں طالبان کے لیڈر مجھ سے ملتے رہے ہیں۔ پندرہ اگست کے دن بھی اور اس کے بعد بھی کئی طالبان لیڈروں سے میری بات ہوئی۔ ان کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے افغان دوستوں سے میری بات چیت ہوتی رہی ہے۔

حکومتِ ہند نے اب تک مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا ہے

کیا حکومت نے آپ کے ذریعے کبھی طالبان سے بات چیت کی کوشش نہیں کی؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کہتے ہیں موجودہ حکومت سے پہلے ملک میں گزشتہ پچاس سالوں میں جتنی بھی حکومتیں بنیں وہ سب مجھ سے برابر رابطہ رکھتی تھیں۔ کئی وزرائے اعظم کے سامنے جب کوئی معاملہ اٹک گیا اور وہ ان کے سفیروں، وزیروں سے بھی نہیں سلجھا تو وہ مجھ سے درخواست کرتے تھے۔ میری کوشش سے کبھی کبھی معاملے سلجھ جاتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب میں نوجوان تھا، پی ایچ ڈی کر رہا تھا، اندرا گاندھی جی مجھے بلاتی تھیں، ان کی نظر میں مَیں بیٹے کی طرح تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ میرا خاندان کانگریس مخالف ہے اس کے باجود وہ میری عزت کرتی تھیں۔ لیکن موجودہ مودی حکومت نے مجھ سے کبھی رابطہ نہیں کیا لیکن میں حکومت کو کوئی الزام نہیں دیتا، کیونکہ میں انہیں جو کچھ سکریٹ بتا سکتا ہوں، وہ سب میں لکھ دیتا ہوں۔ میرا مضمون ملک کے تقریباً دو سو اخباروں میں روز شائع ہوتا ہے اور تمام لیڈروں کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ یعنی جو کچھ میں کہنا چاہتا ہوں وہ ان تک پہنچ جاتا ہے۔ مجھے اس بات کی بالکل بھی شکایت نہیں ہے کہ وزیر اعظم مجھے فون نہیں کرتے۔ میرا جو فرض ہے وہ میں ادا کر رہا ہوں۔ اپنے ملک کی خدمت کے لیے افغانستان کے لوگوں کی خدمت کے لیے اور اس پورے برصغیر کے فائدے کے لیے جو کچھ مجھے لکھنا چاہیے وہ میں لکھ رہا ہوں۔

میڈیا وہی دکھا رہا ہے جو اس سے‌کہا جا رہا ہے

انڈین میڈیا میں طالبان اور افغانستان پر جو کچھ دکھایا جا رہا ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک کہتے ہیں کہ اس معاملے میں اپنے صحافیوں کو زیادہ برا بھلا نہیں کہنا چاہیے۔ یہ لوگ کیا کریں گے انہیں جو کرنے کو کہا جاتا ہے یہ وہی کرتے ہیں۔ اور دوسرا مسٔلہ طالبان کا بھی ہے۔ ماضی میں جو انہوں نے کیا ہے اسی آئینے میں ان کو دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف ان کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ طالبان کو کابل پر قبضہ کیے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا ہے، اس ایک ہفتے میں کتنا جانی نقصان ہوا ہے؟ جلال آباد کے جلسہ میں تین لوگوں کے مرنے کی اطلاع ہے لیکن میرا خیال ہے کہ احمد زئی اور گل زئی قبائل کے لوگ آپس میں لڑ گئے ہوں گے۔ ہمارے سفیروں کو بھی یہ بات شاید ہی معلوم ہو کہ ماضی میں احمد زئی اور گل زئی قبائل کے درمیان کئی بار فساد ہو چکا ہے جیسے ہمارے ملک میں ذات پات کی بنیاد پر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ان باریکیوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ چالیس لوگ کابل کے ہوائی اڈے پر ہلاک ہوئے۔ پہلے دن یہ خبر آئی کہ امریکیوں فوجیوں نے گولی چلائی۔ کسی نے کہا کہ طالبان نے گولی چلائی ہے۔ اب کس نے گولی چلائی یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ بہر حال میرا ماننا ہے کہ گزشتہ پچیس برسوں میں طالبان میں کافی تبدیلی آئی ہے۔ طالبان میں اب نئی نسل آگئی ہے۔ کئی لوگ یوروپ، امریکہ اور انڈیا سے پڑھے ہوئے ہیں۔

***

 

***

 کون ہیں ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک؟

سال 1944 میں مدھیہ پردیش کے اندور میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک ایک قد آور صحافی، مصنف اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ گزشتہ پچپن سال سے افغانستان پر تحقیقی کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں اب تک جتنے بھی صدور ہوئے ہیں سب کے ساتھ ان کے بہتر تعلقات رہے ہیں بلکہ خانگی روابط بھی رہے ہیں۔ ان میں کئی ایسے بھی ہیں جو ان کے گھر آچکے ہیں۔ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے افغانستان کے عام شہریوں سے بھی ان کے روابط ہیں اور مسلسل ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک نے ۱۹۶۵ میں انڈین اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا اور افغانستان پر تحقیقی مقالہ لکھا۔ ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک اس زمانے میں واحد ایسے طالب علم تھے جو افغانستان پر کام کر رہے تھے۔ ۱۹۶۹ میں ان کا پہلی بار کابل جانا ہوا۔ کابل یونیورسٹی میں انہوں نے کئی سال گزارے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’تب سے مسلسل افغانستان سے میرا رشتہ برقرار ہے۔‘ ان کے پی ایچ ڈی مقالے کا عنوان تھا ’ افغانستان میں سوویت امریکہ مقابلہ‘ اس ریسرچ سے ظاہر ہونے والے نتائج کے بارے میں ڈاکٹر ویدک بتاتے ہیں کہ سرد جنگ کے زمانے میں جب ساری دنیا دو ٹکڑوں میں بٹی ہوئی تھی تب افغانستان پوری دنیا میں اکیلا ایسا ملک تھا جس نے امریکہ اور روس دونوں کو خود سے دور رکھا ہوا تھا۔ یہ بڑے کمال کی بات تھی۔ اس کے علاوہ سال ۲۰۰۲ میں ڈاکٹر ویدک نے ایک کتاب ’افغانستان: کل، آج اور کل‘ لکھی تھی جسے ہندی زبان میں راج کمل پرکاشن نے شائع کیا تھا۔ ۱۹۹۹ میں اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں جب انڈین ایئر لائنز کے طیارے کو ہائی جیک کیا گیا تھا، تب انہوں نے اس طیارے کو آزاد کرانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک ہندی روزنامہ ’نو بھارت ٹائمس‘ اور ’پی ٹی آئی‘ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021