ڈونلڈ ٹرمپ کے گھر پر امریکہ کی خفیہ دستاویزات کا انبار
صدارت ختم ہونے کے باوجود دستاویزات قبضے میں!
مسعود ابدالی
سابق صدر کی اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت۔جاسوسی ایکٹ کی سنگین خلاف ورزی
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک غیر روایتی سیاستداں اور ہر اعتبار سے مختلف امریکی صدر تھے۔ حساس قومی معلومات اور دستاویزات کے معاملے میں ٹرمپ صاحب کا رویہ بہت ہی عجیب سا تھا۔ ان کے سابق مشیرِ قومی سلامتی جان بولٹن کا کہنا ہے کہ ’ ڈونلڈ ٹرمپ حساس معلومات کو محفوظ رکھنے میں بہت سست اور غیر ذمہ دار تھے اور ہم اس حوالے سے مسلسل پریشان رہتے تھے‘۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ صدر ٹرمپ نے تقرر کے صرف ایک سال بعد جناب بولٹن پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں سبکدوش کر دیا تھا اور ان کی برطرفی کا اعلان صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ سے کیا جو دراصل بصد سامانِ رسوائی کا مظہر تھا ۔اس اعتبار سے جناب بولٹن کے بیان کو ذاتی مخاصمت کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اپنی مدتِ اقتدار کی تکمیل کے بعد سے جناب ڈونلڈ ٹرمپ بہت سی تحقیقات بھگت رہے ہیں۔ ان پر امریکی صدارتی انتخاب کے لیے کلیہ انتخاب (Electoral College) کے ووٹوں کی گنتی کے دوران امریکی مقننہ پر حملے کی منصوبہ بندی، سرپرستی اور ’بغاوت‘ کی حوصلہ افزائی کا الزام ہے۔
صدر ٹرمپ نے مبینہ طور پر ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والی ریاست جارجیا کے سکریٹری آف اسٹیٹ (ریاستی وزیر اعلیٰ) پر دباو ڈالا کہ جارجیا کے نتائج کو تبدیل کر کے سابق صدر کی برتری ظاہر کی جائے۔ اس ضمن میں ان کی فون گفتگو کا پورا ریکارڈ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے پاس موجود ہے۔ امریکی قانون کے تحت انتخابی نتائج سے ’چھیڑ چھاڑ‘ ایک سنگین جرم ہے جس کی تحقیقات جاری ہیں۔
سابق صدر پر ان کی نیویارک میں واقع جائیداد کی قیمت کم ظاہر کرنے اور ریاستی ٹیکس بچانے کے لیے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے کا الزام بھی ہے۔ جناب ٹرمپ کو نیویارک کی اٹارنی جنرل محترمہ لٹیٹا جیمز نے اصالتاً طلب کیا۔ دس اگست کو پیشی کے دوران سابق صدر نے امریکی آئین کی پانچویں ترمیم کا سہارا لے کر مکمل خاموشی اختیار کی۔ اس ترمیم کے تحت تحقیقات کے دوران ملزم کو سوال و جواب کے دوران خاموش رہنے کی اجازت ہے اس لیے کہ ادا کیا ہوا ہر جملہ ملزم کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے، چنانچہ ملزمان تحقیقاتی افسر سے انفرادی ملاقات کے دوران خاموش رہ سکتے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹہ طویل اس ملاقات میں سابق صدر نے صرف ایک سوال کا جواب دیا اور وہ یہ تھا کہ آپ کا نام کیا ہے، باقی ہر سوال کے جواب میں وہ فرماتے Madam, I take 5 یعنی ’محترمہ پانچویں ترمیم کے تحت ملنے والے تحفظ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میں خاموشی اختیار کر رہا ہوں‘ اب ان پر باقاعدہ فرد جرم عائد کی جائے جس کی سنگینی کے پیش نظر پروانہ گرفتاری کا اجرا بھی خارج از امکان نہیں۔
ان تمام الزامات کے ساتھ سب سے سنگین معاملہ حساس سرکاری دستاویزات کے ساتھ ان کا غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے۔ امریکہ کے جاسوسی ایکٹ مجریہ 1917 کے تحت حساس مواد کی تصویر لینے، اہم معلومات کی نقل بنانے اور امریکی دفاع سے متعلق معلومات کو کسی دوسرے ملک کے فائدے کے لیے استعمال کرنا سنگین جرم ہے جس کی کم ازکم سزا دس سال قید ہے۔ امریکی صحافیوں کی تنظیمیں اور آزادیِ اظہار رائے کی انجمنیں اس قانوں کو پسند نہیں کرتیں، ان کا خیال ہے کہ اس دفعہ کا سہارا لے کر کئی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ گزشتہ 105 سال کے دوران جاسوسی ایکٹ کے تحت 1000 افراد کو سزا ہو چکی ہے۔ اسی بنا پر 1920 میں ایک ترمیم کے ذریعے ایک خاص مدت کے بعد خفیہ معلومات کو مشتہر کرنے کی ہدایت کی گئی لیکن یہ صدر کے صوابدیدی اختیار سے مشروط ہے۔ صدر اوباما کے دور میں اس قانون کے تحت 8 اور ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 صحافیوں پر فرد جرم عائد کی۔
قصرِ مرمریں کے ذرائع کہتے ہیں کہ اپنے دورِ اقتدار میں صدر ٹرمپ بہت سی سرکاری فائلیں اور دستاویز اپنے ساتھ گھر لے جاتے تھے اور ان کاغذات میں خفیہ یا کلاسیفائیڈ مواد بھی شامل ہے۔ صدر ٹرمپ کا موقف تھا کہ وہ نو سے پانچ کام کرنے والے کلرک نہیں بلکہ امریکہ کے ہمہ وقتی صدر ہیں لہٰذا وہ بہت سی فائلیں رات کا کھانا کھا کر فرصت کے اوقات میں گھر پر دیکھتے ہیں۔ بادی النظر میں صدر کا موقف بہت معقول ہے کہ بحیثیت صدر انتہائی خفیہ یا عام ہر قسم کی دستاویزات تک انہیں رسائی حاصل تھی اور اگر وہ مطالعے کے لیے کچھ دستاویزات گھر لے گئے تو کیا برائی ہے۔ تاہم اس میں ایک آئینی سقم ہے۔ امریکی قانون کے تحت خفیہ دستاویزات کو محفوظات یا Archive سے باہر لے جانے سے پہلے ان کا مکمل اندراج ضروری ہے جس کا صدرٹرمپ نے کوئی اہتمام نہیں کیا۔ اس بارے میں سابق صدر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے گھر لے جانے والے مواد کو محدود مدت کے لیے غیر مخفی یا declassify کردیا کرتے تھے لیکن اسکے لیے باقاعدہ یادداشت یا memorandum جاری کرنے کے تکلف میں پڑے بغیر وہ ان فائلوں کے کلاسیفائیڈ لیبل پر خط تنسیخ پھیر کر پینسل سے ’عارضی طور پر غیر مخفی‘ لکھ دیتے تھے۔
معاملہ یہاں تک بھی رہتا تو ٹھیک تھا۔ بائیڈن انتظامیہ کے محکمہ انصاف کا خیال ہے کہ سابق صدر جو فائلیں اور دستاویزات مطالعے کے لیے اپنے گھر لے گئے ان میں سے بہت سی انہوں نے اپنی مدت صدارت مکمل ہونے پر واپس نہیں کیں جو ایک سنگین جرم ہے۔
چنانچہ چند ماہ پہلے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت کے شبہ میں ان کے خلاف کھاتا کھول دیا گیا اور دورانِ تحقیق وزارت انصاف کے اہلکاروں نے خدشہ ظاہر کیا کہ سابق صدر جنوری 2021 میں اپنا عہدہ چھوڑنے کے بعد وائٹ ہاؤس سے جاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی معلومات کے علاوہ کچھ حساس نوعیت کا ریکارڈ اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ یہ دستاویزات ان فائلوں کے علاوہ ہیں جو جناب ٹرمپ دوران صدارت اپنے گھر لے جایا کرتے تھے۔
ابتدائی معلومات کی تصدیق کے بعد اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ (Merrick Garland) کی درخواست پر وفاقی عدالت کی فلوریڈا رجسٹری سے ڈونلڈ ٹرمپ کے پر تعیش گالف کورس اور سیاحتی مرکز مارا لاگو کی تلاشی کا پروانہ یا سرچ وارنٹ حاصل کیا گیا۔ ٹرمپ دور صدارت میں مارا لاگو جنوب کا وہائٹ ہاؤس کہلاتا تھا۔ پروانہ حاصل کرنے کے بعد 11 اگست کو مارے جانے والے چھاپے میں ایف بی آئی اہلکاروں نے تلاشی کے دوران 20 بکسوں پر مشتمل خفیہ دستاویزات کے 11 سیٹ برآمد کر لیے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس چھاپے میں 300 سے زیادہ خفیہ یا کلاسیفائیڈ دستاویزات برآمد کی گئی ہیں جن میں سی آئی اے، نیشنل سیکیورٹی اور ایف بی آئی کا ریکارڈ شامل ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق کچھ فائلیں جوہری ہتھیاروں سے متعلق ہیں۔ ان میں سے کچھ ڈبوں پر ’ٹاپ سیکریٹ‘، ’سیکریٹ‘ اور ’کانفیڈینشل‘ لکھا ہوا ہے۔ کچھ مواد پر ’پوٹینشل پریذیڈینشل سیکریٹ‘، ’متفرق خفیہ دستاویزات‘، لکھا ہوا ہے۔ کچھ فائلوں میں ہاتھ سے لکھے ہوئے نوٹس اور تصاویر بھی ہیں۔ ایف بی آئی کے چھاپے کے دوران ٹرمپ کی رہائش گاہ میں اُن کے دفتر، خواب گاہ، کمرہِ مطالعہ، اسٹور رومز اور اُن کے اسٹاف کے زیرِ استعمال کمروں کی تلاشی لی گئی۔
چھاپے کے وقت صدر ٹرمپ نیویارک میں تھے اور اطلاعات کے مطابق سابق خاتون اول اور ٹرمپ کے چھوٹے صاحبزادے گھر پر موجود تھے جنہوں نے ایف بی آئی کے ایجنٹوں سے مکمل تعاون کیا۔ ملانیہ ٹرمپ صاحبہ نے بھی تلاشی کے دوران کسی تلخ کلامی بحث مباحثہ یا ناخوشگوار واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔
چھاپے کے دوسرے روز ریاست اوہایو کے شہر سنسناٹی Cincinnati میں ایک مسلح شخص نے ایف بی آئی کے دفتر میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے ہلاک کر دیا گیا۔ تحقیقات کے بعد اس شخص کی شناخت رکی شفر Ricky Shiffer کے طور پر کئی گئی۔ مبینہ ملزم کا تعلق ٹرمپ نواز انتہا پسندوں سے تھا۔ بیالیس سالہ رکی 6 جنوری کو دارالحکومت پر حملے کا نامزد ملزم اور ایف بی آئی کو مطلوب تھا۔
اپنے گھر پر چھاپے کو صدر ٹرمپ نے سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کے ایما پر پر اٹھاے گئے ان اقدامات کا مقصد انہیں 2022 کے وسط مدتی انتخابات کے لیے رپیبلکن پارٹی کی انتخابی مہم سے روکنا اور 2024 کے صدارتی انتخابات میں جناب ٹرمپ کو نااہل کرانا ہے۔ سابق صدر نے 2024 کے انتخابات میں صدر بائیڈن کا مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ان کے پیشرو صدر بارک حسین اوباما آفس چھوڑتے ہوئے 3 کروڑ 30 لاکھ صفحات پر مشتمل کلاسفائیڈ دستاویزات اپنے ساتھ لے گئے تھے جن میں بہت سی جوہری ہتھیاروں سے متعلق تھیں۔ تاہم امریکہ کے قومی محفوظات (National Archive) کی جانب سے فوری جاری ہونے والے بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کے دعوے کی تردید کردی گئی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر اوباما کی مدت صدارت مکمل ہوتے ہی حساس نوعیت کے تمام دستاویزات قومی محفوظات نے اپنے قبضے میں کرلی گئی تھیں۔
دوسرے دن صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے اٹارنی جنرل نے وضاحت کی یہ کارروائی ان کے حکم پر عدالت سے اجازت لے کر کی گئی ہے اور اس بارے میں صدر بائیڈن سے مشورہ تو کجا امریکی صدر کو پیشگی اطلاع بھی نہیں دی گئی۔ اسی کے ساتھ امریکہ محکمہ انصاف نے پروانہِ تلاشی جاری کرنے والے منصف (جج) سے وارنٹ اور تلاشی کے دوران ملنے والی معلومات کو مشتہر کرنے کی درخواست کی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ انتقام نہیں بلکہ فروغ انصاف کے لیے قائم کیا گیا ہے اور قانون کی حکمرانی کے لیے امریکی محکمہ انصاف پر عزم ہے۔
اپنی جوابی درخواست میں جناب ٹرمپ کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل نے حساس معلومات رکھنے سے متعلق صدارتی استحقاق کی وضاحت کے لیے درخواست دائر کر رکھی ہے کہ اس کا فیصلہ ہونے تک ایف بی آئی کو ان دستاویزات کے جائزے سے روکا جائے۔ ٹرمپ نے حساس معلومات رکھنے سے متعلق صدارتی استحقاق کے تعین کے لیے ’خصوصی ماسٹر‘ مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت کی جانب سے خصوصی ماسٹر ایسی ضبط شدہ دستاویزات کے جائزے کے لیے نامزد کیا جاتا ہے جنہیں کوئی اہم شخصیت اپنے پاس رکھنے کا استحقاق رکھتی ہو۔ یعنی عام ایف بی آئی اہلکار ان دستاویزات کی چھان پھٹک نہیں کر سکتے۔
جناب ٹرمپ کی درخواست پر جج نے کہا کہ منفی پروپیگنڈے کے حوالے سے درخواست گزار کی تشویش جائز ہے لیکن عوامی دلچسپی کی بنا پر دستاویز کا مکمل طور پر سربمہر رہنا بھی مناسب نہیں ہے۔ جج نے محکمہ انصاف کو ہدایت کی کہ وہ اس حلف نامے میں جن معلومات کو خفیہ رکھنا چاہتا ہے ان کے بارے میں ترمیم کی تجویز پیش کرے۔ دوسرے دن وفاقی عدالت نے ٹرمپ کے اعتراض کے باوجود سربمہر وارنٹ کو کھول دیا۔
پروانہ تلاشی کی درخواست میں سابق صدر کی جانب سے جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت کے شبہ کا اجمالی ذکر تو ہے لیکن ان مبینہ جرم کے تحت کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک وفاقی جج کی جانب سے ارتکاب جرم کے ممکنہ ارتکاب کے شبہ پر پروانہِ تلاشی کا اجرا صدر ٹرمپ کے لیے نیک شگون نہیں۔
ان کے گھر سے برآمد ہونے والی دستاویزات کی تفصیل بھی سنسنی خیز ہے۔ اب اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہے کہ مدت صدارت کے اختتام کے بعد ان دستاویزات کی ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس موجودگی قانون کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی نجی رہائش گاہ سے جو مواد قبضے میں لیا گیا ہے ان میں سے کچھ پر قومی سلامتی کے حوالے سے اہم اور خفیہ ترین کے نشان لگے ہوئے ہیں جنہیں صرف نامزد سرکاری تنصیبات میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔
اپنے دفاع میں سابق صدر نے کہا کہ وہ اپنی مدت صدارت کے دوران گھر لے جانے والی تمام دستاویزات کو اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے ان کی خصوصی حیثیت کو ختم کر چکے تھے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ امریکی آئین کے رو سے انہیں یہ اختیار حاصل تھا لیکن وہ اس کا کوئی دستاویزی ثبوت اب تک پیش نہیں کر سکے اور برآمد ہونے والی دستاویزات میں اصل لیبل اب تک چسپاں ہیں۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ جن ایجنٹوں نے ان کے گھر کی تلاشی لی ہے وہ جو کچھ بھی چاہتے وہاں رکھ سکتے تھے ۔یہ الزام اس اعتبار سے مہمل ہے کہ تلاشی، عدالتی حکم پر لی گئی اور ایف بی آئی ایجنٹوں نے تلاشی کے دوران فارنسک ثبوت کا اہمتام کر رکھا ہے۔ سابق امریکی صدر کا کہنا ہے کہ انہوں نے قومی محفوظات سے یہ دستاویزات اٹھوانے کی درخواست کی تھی اور اس سال کے شروع میں ان کی رہائش گاہ سے کچھ بکس واپس محفوظات میں جمع کرا دیے گئے لیکن باقی دستاویزات اٹھوانے کا انتظام نہیں کیا گیا چنانچہ محفوظات کی کوتاہی کا انہیں ذمہ دار ٹہرانا درست نہیں۔
جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی، انصاف کی راہ میں حائل ہونے اور اہم دستاویزات کو سنبھالنے میں مجرمانہ غفلت ایک سنگین جرم ہے اور لگتا ہے کہ محکمہ انصاف جلد ہی اس سلسلے میں تحقیقات کا آغاز کردے گا اور بظاہر سابق صدر کے خلاف الزامات سنگین نظر آرہے ہیں۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***
***
اپنے گھر پر چھاپے کو صدر ٹرمپ نے سیاسی انتقام قرار دیتے ہوئے کہا کہ صدر بائیڈن کے ایما پر پر اٹھاے گئے ان اقدامات کا مقصد انہیں 2022 کے وسط مدتی انتخابات کے لیے رپیبلکن پارٹی کی انتخابی مہم سے روکنا اور 2024 کے صدارتی انتخابات میں جناب ٹرمپ کو نااہل کرانا ہے۔ سابق صدر نے 2024 کے انتخابات میں صدر بائیڈن کا مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا ہے
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022