از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد
بخار کی مشہور دوا ڈولو 650 کی مقبولیت میں کوویڈ کے دوران بے تحاشہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس وقت یہ دوا ہر گھر کے لیے لازمی جز بنی ہوئی تھی، اور ابھی بھی لوگ ذرا سے بخار میں بغیر کسی ڈاکٹر کی تجویز یا مشورے کے بے تکلف اس کا استعمال کر لیتے ہیں۔ سابق میں لوگ سردی بخار کے لیے گھریلو ٹوٹکے آزمایا کرتے تھے جس سے صحت پر کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے تھے، جیسے دودھ میں ہلدی ملا کر پلایا جاتا تھا یا تلسی کے پتوں کا عرق پلایا جاتا تھا اور یہ سارے گھریلو نسخے کارگر ثابت بھی ہوا کرتے تھے لیکن اب دور بدل گیا ہے۔ اب ان گھریلو نسخوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی، پھر اسی طرح سر درد ہونے پر زندہ طلسمات یا زنڈو بام کا استعمال کیا جاتا تھا مگر اب اس کا استعمال بھی تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ لوگ اب فوری صحت یاب ہونے کی چکر میں گولیوں کا استعمال کرتے ہیں، انہیں اس بات کی فکر نہیں ہوتی کہ ان کے استعمال سے کیا مضر اثرات صحت پر پڑنے والے ہیں، بس ان کے سر پر ایک ہی دھن سوار رہتی ہے کہ جن طبی مشکلات سے وہ گزر رہے ہیں ان سے فوری نجات حاصل ہو جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طب نے جو ترقی کی ہے اس سے انسانیت کو بے پناہ فائدہ پہنچا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بہت سے نقصانات سے بھی دوچار کیا ہے۔ سابق میں کینسر، کوڑھ اور دق جیسے مہلک امراض کا کوئی علاج نہیں تھا اس جدید طب نے ان کا علاج دریافت کر کے انسانیت کو بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ ہمارا اس بات پر مکمل یقین ہے اور یہ یقین ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ شفا دینے والی ذات تو بس اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ اسباب کے ذریعے ہی شفا دیتا ہے۔
جس تیزی کے ساتھ طبی میدان میں ترقی ہوئی ہے اسی تیزی کے ساتھ مادیت نے اس شعبے کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ یہ شعبہ کسی زمانے میں خدا سے قربت کا ذریعہ مانا جاتا تھا مگر آج اس پر مادہ پرستی کا سایہ پڑ گیا ہے۔ اس شعبہ میں انسانیت کی خدمت کا تصور پنہاں تھا مگر آج یہ انسانیت کا دشمن بن گیا ہے۔ ہمارے ملک میں اس شعبے سے وابستہ افراد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا لیکن آج انہیں ڈاکوؤں و چوروں سے تشبیہ دی جانے لگی ہے۔ آخر اس شعبے کی یہ نوبت کیوں آئی ہے؟ اس کی صرف ایک وجہ ہے اور وہ مادہ پرستی ہے۔ آپ کسی کارپوریٹ ہاسپٹل کو دیکھ لیجیے، وہاں مریض اپنی مرضی سے جا تو سکتا ہے لیکن اپنی مرضی سے واپس نہیں آ سکتا، کیونکہ وہاں صرف پیسے سے علاج ہوتا ہے، جس کے پاس پیسہ نہ ہو یا کم ہو اگر وہ مر رہا ہو تب بھی اس کو ہاتھ نہیں لگایا جاتا تاوقتیکہ وہ پائی پائی جمع نہیں کروادیتا۔
علاج کسی بھی انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہمارے ملک میں اس شعبے کو خدمت کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں علاج مفت ہوتا ہے۔ ہمارے ملک کے سرکاری دواخانوں کا تو خدا ہی حافظ ہے۔ حکومت اس جانب توجہ ہی نہیں دیتی۔ کئی ممالک ایسے ہیں جو اپنی جی ڈی پی کا چھ سے آٹھ فیصد تک کا حصہ طبی سہولتیں فراہم کرنے پر خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے ملک کی بد قسمتی دیکھیے کہ وہ اپنی جی ڈی پی کا صرف اور صرف ڈیڑھ فیصد ہی اس اہم شعبے پر خرچ کرتا ہے، اسی وجہ سے یہاں خانگی دواخانوں کا جال بچھا ہوا ہے جہاں صرف پیسے کی زبان سنی جاتی ہے۔ جس ملک میں اس طرح کا نظام ہو گا وہاں رشوت کا چلن عام نہیں ہو گا تو کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ دواساز کمپنیاں ڈاکٹروں کو اپنی دوا تجویز کرنے کے لیے رشوت دیتی ہیں، اسی کی زندہ مثال ڈولو 650 ہے۔
سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کے تحت ایک درخواست جسے فیڈریشن آف میڈیکل اینڈ سیلس ریپریزینٹیٹو نے دائر کی، اس میں سپریم کورٹ سے شکایت کی گئی کہ ڈولو 650 بنانے والی کمپنی نے اس دوا کو تجویز کرنے کے لیے ڈاکٹروں کو ایک ہزار کروڑ روپے بطور رشوت ادا کی ہے، لہٰذا سپریم کورٹ اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے اس کی مکمل تحقیقات کا حکم دے اور اس معاملے کی جانچ کروائے۔ سپریم کورٹ نے اس درخواست کو سماعت کے لیے قبول کر لیا ہے۔ اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمپنی نے اس دوا کو فروخت کرنے کے لیے ایسے طریقے اپنائے ہیں جو فروختگی کے اصولوں کے مغائر ہیں۔
درخواست میں درج کیے گئے الزامات میں کتنی صداقت ہے اس سے قطع نظر اس معاملے میں سپریم کورٹ نے بہت سخت موقف اختیار کیا ہے۔ اس درخواست میں اگرچہ بہت سے الزامات لگائے گئے ہیں لیکن دو باتیں غور طلب ہیں: پہلی یہ کہ اس دوا کی مقدار یعنی (dosage)کیوں زیادہ رکھی گئی ہے؟ عام طور پر اس قبیل کی دواؤں کی مقدار (جسے پیراسٹامول کہا جاتا ہے) پانچ سو ملی گرام ہوتی ہے لیکن ڈولو، 650 ملی گرام کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کی یہ مقدار صرف تجارتی مقصد کے لیے رکھی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ایک قانون ہے جس کے تحت بہت سی دوائیں تجارتی مقصد کے لیے نہیں ہوتیں جنہیں نیشنل لسٹ آف اسنشیل میڈیسن یعنی انتہائی ضروری ادویات کی فہرست میں رکھاگیا ہے، اس فہرست میں وہ دوائیں جو عوام کے لیے انتہائی ضروری ہیں وہ درج ہیں، ان دواؤں کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے اسے (ڈرگ پرائس کنٹرول آرڈر) ڈی پی سی او کہا جاتا ہے، اس فہرست کے تحت پیراسٹامول پانچ سو ملی گرام کی مقدار کی دوا پر قیمت فروخت کی حد لگی ہوئی ہے، اس سے زیادہ پر نہیں۔ اگر کوئی کمپنی اس مقدار سے زیادہ کی دوا بناتی ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قیمت خود طے کرے، یہی وجہ کہ کمپنی نے دوا کی مقدار 650 ملی گرام رکھی ہے تاکہ وہ حکومتی قیمت فروخت کی حد کے زمرے میں آنے سے بچ سکے۔ درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ مقدار صحیح نہیں ہے بلکہ یہ غیر معقول یعنی (irrational dosage) غیر معقول مقدار ہے اسی لیے ملک میں یکساں تجارتی کوڈ ہونا چاہیے۔ پیراسٹامول ایک دوا ہے اسے چاہے کوئی کمپنی بھی تیار کرے اسے مقررہ مقدار میں ہی رہنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے بھی حکومت سے اس بابت سوال کیا ہے کہ پیراسٹامول کی مقدار کیا ہونی چاہیے؟ سپریم کورٹ میں حکومت کا حلف نامہ داخل ہونا باقی ہے، دیکھنا ہو گا کہ حکومت کیا موقف اختیار کرتی ہے۔
دوسرا الزام اس درخواست میں یہ لگایا گیا ہے کہ کمپنی نے نہ صرف غیر معقول مقدار (irrational dosage) کی دوا بنائی ہے بلکہ غیر معقول مجموعہ (irrational combination) بھی اس دوا میں رکھا ہے۔ عام طور پر دوائیں دو اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں اسی لیے ان کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے۔ دواساز کمپنیاں انتہائی ضروری ادویہ کی فہرست کو مد نظر رکھتے ہوئے دوائیں تیاری کرتی ہیں تاکہ بنائی جانے والی دوا اس فہرست کے تحت نہ آجائے، اگر اس فہرست کے تحت آجائے گی تو اس پر حکومت کا کنٹرول ہو گا۔ یہ ڈولو 650 کا مجموعہ بھی غیر معقول ہے۔ کوویڈ کے دوران ایک دوا جو کھانسی کے علاج کے لیے ہوتی تھی بہت مشہور ہوئی تھی، اس کی قیمت دواؤں کی فہرست کے تحت صرف ڈیڑھ روپیہ مقرر ہے، لیکن منافع خور کمپنیاں یہ کرتی ہیں کہ اس کے ساتھ ایک اور دوا کو اس میں شامل کر دیتی ہیں تاکہ یہ دوا کا مجموعہ بنایا جانے کے باعث اس فہرست نکل جائے اور پھر یہ کمپنیاں اس دوا کو اپنی من مانی قیمت پر بیچتی ہیں۔ مجموعہ کے بعد اس دوا کی قیمت ساڑھے نو روپے ہو گئی بلکہ اس سے بھی بڑھ گئی۔ اب یہ دوا کا مجموعہ ضروری ہے یا نہیں ہے یہ الگ بحث ہے، لیکن جب وہ دواؤں کی فہرست سے نکل گئی تو گویا وہ ایک نئی دوا بن گئی اور جب دوا نئی ہو گئی تو قیمت بھی نئی ہو گئی۔ اکثر کمپنیاں الگ الگ مجموعہ سے ادویات بناتی ہیں اور اس کی قیمتیں مقرر کرتی ہیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے کمپنیاں پیسہ کماتی ہیں، وہ دواؤں کا ایسا مجموعہ ترتیب دیتی ہیں جو کنٹرول کی فہرست میں شامل نہیں ہوتیں۔ یہی وہ چالاکی ہے جس سے رشوت کا بازار گرم ہونا شروع ہوتا ہے۔ جس دوا کا مجموعہ بنایا جاتا ہے اس کو فروخت کرنے کے لیے ہر وہ طریقہ اپنایا جاتا ہے جس کا تصور ایک مہذب دنیا میں نہیں کیا جا سکتا۔ شروعات میں یہ کمپنیاں ڈاکٹر صاحبان کو اپنی دوا تجویز کرنے کے لیے بطور رشوت سیر و تفریح کے لیے مالدیپ اور تھائی لینڈ جیسے ممالک کو بھیجتی تھیں، پھر ایک دور آیا کہ بطور رشوت ان کے ہسپتالوں کی تزئین و آرائش کی جانے لگی، پھر ان کو بطور رشوت کمیشن دیا جانے لگا، چنانچہ ڈاکٹر صاحبان ان کمپنیوں کی ادویات تجویز کرتے ہیں اور یہ کمپنیاں انہیں ان کا کمیشن دے دیا کرتی ہیں۔ اگرچہ سارے ڈاکٹر ایسے نہیں ہوتے، بہت سے ڈاکٹر عوام کی خدمت کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں، وہ بے لوث عوام کی خدمت کرتے ہیں، اس قسم کے ڈاکٹر ان کمپنیوں کے جال میں نہیں پھنستے، وہ مریض کے لیے جو صحیح ہوتا ہے وہی علاج تجویز کرتے ہیں۔
غیر معقول مقدار دوا اور غیر معقول مجموعہ دوا سے ہی دوا ساز کمپنیاں عوام کی صحت کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہیں۔ پیراسٹامول کی ڈولو 650 کی مقدار مناسب ہے یا نہیں اس سے زیادہ اس بات پر بحث ہونی چاہیے کہ دواساز کمپنیاں اس غیر معقول مقدار و مجموعہ سے ناجائز دولت بٹور رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دواساز کمپنیاں غیر معقول مقدار اور غیر معقول مجموعہ کی دوائیں بناتی ہیں۔ اس قسم کی دوائیں انسانی صحت کے لیے کتنی مفید یا مضر ہیں اس پر موقف واضح ہونا چاہیے۔ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہمارے ہاں غیر ضروری معائنے (ٹیسٹ) کروائے جاتے ہیں اور غیر ضروری دواؤں کی ایسی لمبی فہرست مریض کو تھما دی جاتی ہے جس کی وہ تاب نہیں لا سکتا۔ حکومت کو بھی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے ایک پالیسی ترتیب دینی چاہیے جو تمام دواساز کمپنیوں کے لیے یکساں ہو اور سب ہسپتالوں کے لیے بھی برابر ہو تاکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ میڈیسن مافیا کے ظلم و استحصال کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔
***
***
ہمارے ملک میں ایک قانون ہے جس کے تحت بہت سی دوائیں تجارتی مقصد کے لیے نہیں ہوتیں جنہیں نیشنل لسٹ آف اسنشیل میڈیسن یعنی انتہائی ضروری ادویات کی فہرست میں رکھاگیا ہے،ان دواؤں کی قیمتوں پر حکومت کا کنٹرول ہوتا ہے، اس فہرست کے تحت پیراسٹامول پانچ سو ملی گرام کی مقدار کی دوا پر قیمت فروخت کی حد لگی ہوئی ہے، اس سے زیادہ پر نہیں۔ اگر کوئی کمپنی اس مقدار سے زیادہ کی دوا بناتی ہے تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قیمت خود طے کرے، یہی وجہ کہ کمپنی نے دوا کی مقدار 650 ملی گرام رکھی ہے تاکہ وہ حکومتی قیمت فروخت کی حد کے زمرے میں آنے سے بچ سکے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022