دیوداسی: عورت کی بے کسی کی انتہا
انتظار نعیم، نئی دلی
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
کہہ کر علامہ اقبال نے اس کائنات میں خوب صورتی حسن و جمال اور رعنائی و دل کشی کی موجودگی کا سبب اور ذریعہ وجود زن کو قرار دیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ علامہ نے ایک بہت بڑی حقیقت کا اظہار صرف ایک حسین مصرعے میں کردیا ہے، جس میں اللہ رب العالمین کی بے بدل و بے مثال صناعی کے اظہار کا اعتراف و اعلان بھی ہے۔ غور کیا جائے کہ یہ کائنات اپنے تمام تر حسن و جمال کے ساتھ اسی طرح موجود ہوتی جیسی کچھ یہ ہے، لیکن اس میں عورت کی موجودگی نہ ہوتی تو یہ سوائے ایک بڑے سنسان ویرانے کے اور کچھ نہ ہوتی۔ اسی لیے تخلیق کا حق ادا کرنے والی خدا کی ذات نے عورت کے وجود سے کائنات کی صناعی کی تکمیل کردی۔
اس کائنات پر اللہ کے اس عظیم احسان کا تقاضا تھا کہ انسان اس کا ہرممکن طریقے سے اپنے خالق کا شکر ادا کرتا، لیکن اس کے مزاج سے اول روز سے ہی احسان شناسی کے ساتھ ہی ناشکری کی کیفیت کا بھی اظہار ہوتا رہا ہے۔ انسان ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے عورت کی قدر بھی کرتا رہا ہے اور تاریخ کے لمبے دور میں اس کی ناقدری کرنے کی انتہا بھی کی ہے۔ اسی طویل سلسلے کی ہندوستان میں ہونے والے عورت پر ظلم و ستم او رنا انصافی و حق تلفی کی ایک صورت دیو داسی کا رواج بھی ہے۔
دیو داسی
دیو داسی کے رواج کے قدیم ہندوستان میں رائج ہونے کے تذکرے ملتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی منتیں پوری ہونے پر اپنی بیٹیوں کو مندروں میں بھگوان کو بھینٹ کردیتے تھے۔ بعض لوگ غربت کے سبب انہیں کو مندروں کے حوالے کردیتے تھے، اور یہیں سے شروع ہوتی تھی ان کی دکھ بھری زندگی، جو آج تک جاری ہے۔
دیو داسی کی رسم کو اب غیر قانونی قرار دیا جاچکا ہے لیکن دھرم کے نام پر ہندو سماج کی حیران کن تصویر پیش کرنے والی یہ رسم کئی ریاستوں کے مختلف مندروں میں نسلاً بعد نسل 21ویںصدی میں بھی جاری ہے۔
نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن (NHRC) کی 2013کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دیو داسیوں کی تعداد ساڑھے چار لاکھ (450000) ہے۔ صرف آندھراپردیش اور تلنگانہ میں ان کی تعداد اسی ہزار (80000) بتائی جاتی ہے۔
حیرت ہے کہ عبادت گاہوں سے متعلق کی گئی یہ رسم آج بھی جاری ہے جب خواتین کے حقوق کے تحفظ کے چرچے بلکہ نعرے پوری دنیا میں لگتے رہتے ہیں، خواتین کی تنظیمیں اور گروپس بھی ان کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں اور مختلف ریاستوں میں سرکاری سطح مہیلا آیوگ سرگرم رہتے ہیں!
تقدیس کا مظہر
دیو داسی لفظ اپنے آپ میں تقدیس کا مظہر ہے کیوں کہ اس لفظ میں داسیوں کا بھگوان کی بارگاہ میں خود کو سمرپت کردینے، حوالے کردینے کا سا تصور پنہاں ہے، لیکن روایات اور مندروں کے اطراف کا ماحول اور بکھرے ہوئے حقائق کچھ دوسری ہی کہانی پیش کرتے ہیں۔ رسم کے مطابق دیو داسیاں بھگوان کی سیوا ارچنا کے لیے مخصوص کی جاتی ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ حقیقتاً وہ مندروں کے پجاریوں اور پنڈتوں کی ملکیت بن کر رہنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ مندروں کے آس پاس بے یادر و مددگار گھومتے رہنے والے کھانےکی تلاش میں پھٹے حال نظر آتے ہوئے بچے ، بچیاں مندر کی دیو داسی اپنی ماؤں سے تو واقف ہوتے ہیں لیکن کوئی بھی اپنے باپوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں؟ کچھ بڑے ہوکر شاید انہیں اندازہ ہوتا ہوگا کہ وہ اپنی بدنصیب دیو داسی ماوں کے استحصال کی پیداوار ہیں!
عقیدت مندوں کی بے حسی
جنوبی ہند کی چار پانچ ریاستوں کے مشہور مندروں میں اپنے اپنے بھگوانوں کے درشن کے لیے ہر سال لاکھوں عقیدت مند پہنچتے ہیں جن میں مرد و خواتین دونوں ہوتے ہیں اور وہ وہاں پر موجود دیو داسیوں کو بھی دیکھتے ہوں گے اور انہیں یہ بھی اندازہ ہوتا ہوگا کہ ان کے استحصال اور ان کی زندگیوں کو دیوتاؤں اور بھگوانوں کے ناموں پر تباہ کرنے کے ذمہ دار کون لوگ ہیں لیکن وہ ان کےخلاف کبھی زبان نہیں کھولتے، نہ ہی وہ استحصال کا شکار ہوتی دیوداسیوں سے کسی ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی بغیر باپ کی سرپرستی کے پریشان حال بچوں اور بچیوں سے درد مندی کا سلوک کرتے ہیں۔ توہم پرستی اور اندھی عقیدت انہیں انسانوں کے درد و غم سے نا آشنا رکھتی ہے، ورنہ یہ لوگ کبھی تو مندروں کو استحصال کا اڈہ بنانے والے پجاریوں اور پنڈتوں کے سیاہ کارناموں پر انہیں شرمندہ کرنے اور دنیا کو بھی اس سے آگاہ کرتے۔
حکومتوں کی چشم پوشی
مرکزی سرکار اور بعض ریاستی حکومتوں نے دیو داسی کی قبیح رسم پر پابندی تو لگادی ہے لیکن اس کے باوجود کہیں تو عقیدت اور کہیں غربت کی وجہ سے یہ رسم ختم ہونے کا نام نہیں رہی ہے۔ مندر دیو داسیوں سے آباد ہیں، ان کی عزت و ناموس کو تار تار کیا جاتا رہتا ہے۔ جب تک ان کا حسن و جمال برقرار رہتا ہے وہ مندروں کے لیے مناسب سمجھی جاتی ہیں، لیکن جیسے ہی ان کی عمریں ڈھلنا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر وہ اپنا پیٹ پالنے کے لیے اپنی عزت و آبرو کو عوامی بازار میں بیچنے کے لیے مجبور ہوتی ہیں۔ ہماری سرکاریں گایوں کے لیے گو شالائیں تعمیر کرنے او ران کے لیے بجٹ متعین کرنے کا اہتمام تو کرتی ہیں لیکن درد و غم کا شکار ان دیو داسیوں کے مسائل و مشکلات کے مداوا کے لیے کوئی اہتمام نہیں کرتیں! اسمبلیوں اور کارپوریشنوں میں ان پر کوئی گفتگو نہیں ہوتی!
سرکاروں کو اس کا بھی کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ اس کا جائزہ لیں کہ دیو داسی پر تھا کے استیصال کے لیے جو قوانین قوانین بنائے گئے ہیں ان کی کتنی پاسداری ہورہی ہے اور دیس کی بیٹیوں اور عورتوں کی زندگیوں کو جہنم زار بنانے والی یہ رسم کب تک ختم ہو گی؟
پردہ Noدیو داسی Yes
جنوب ہند کی جن ریاستوں میں دیو داسی کی رسم کے نام پر عورتوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے ان میں تنہا کرناٹک میں دیو داسیوں کی تعداد90ہزار سے زاید بتائی جاتی ہے جن میں 20فیصد دیو داسیاں 18سال سے کم عمر کی ہیں۔ حکومت کرناٹک کی 2022کی مدت کا ر اسکولوں اور کالجوں میں مسلم لڑکیوں کے بدن سے حجاب اتروانے میں صرف ہورہی ہے لیکن اس مدت میں ایسی کوئی خبر نہیں آئی جس سے ریاست کی دیو داسیوں کے متعلق اس کی فکر مندی اور ان کو اور ان کی اولاد کو انسانی سطح پر لانے کے لیے کسی منصوبہ بندی اور اس سلسلے میں موجود قوانین کے موثر نفاذ کے لیے کسی مضبوط ارادے کا اظہار ہوا ہے۔ اس صورت حال سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کرناٹک کی بی جے پی حکومت کو مسلم لڑکیوں کو بے پردہ کرنے کی تو فکر ہے لیکن جسم و روح کو بے پردہ کرنے پر مجبور ریاست کی 90 ہزار دیو داسیوں کے درد و غم کو دور کرنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔
میڈیا کا کردار
میڈیا سماج کا آئینہ دار ہوتا ہے لیکن حکومتوں کی ہی طرح ملکی میڈیا بھی ملک کی ساڑھے چار لاکھ دیو داسیوں پر صدیوں بلکہ ہزاروں سال سے ہونے والے ظلم و ستم کو اجاگر کرنے ، ان کو اس کیفیت میں گرفتار کرنے والے پنڈتوں اور پجاریوں کو بے نقاب کرنے کا کم ہی موقع ملتا ہے۔ اگر پرنٹ او رالیکٹرانک میڈیا ہر ریاست کی منتخب داسیوں کے انٹرویوز کریں اور ان سے خود یہ جاننے کی کوشش کریں کہ ان کو ان کی موجودہ درد انگیز کیفیت میں گرفتار کرنے کے کون کون سے عوامل ذمہ دار ہیں تو شاید اس مسئلے کے حل میں کچھ آسانی ہو۔ میڈیا کی خاتون کارکنان دیو داسیوں سے اگر یہ جاننے کی بھی کوشش کریں کہ ان کی اولاد کے حقیقی باپ کون لوگ ہوسکتے ہیں تو شاید مندروں میں ہونے والے ان کے استحصال کے پس پردہ کار فرما افراد بے نقاب ہوسکیں اور ان کا اصل قبیح کردار دنیا کے سامنے آکر اس مسئلے کے حل میں مددگار ہوسکے۔
مندروں کا کردار
جن مندروں میں دیو داسی پر تھا رائج ہے اور وہاں دیو داسیاں موجود ہیں ان کے پروہت و پنڈت اور ان مندروں کے ٹرسٹی اور ذمے دار حضرت کی توجہ اس مسئلے کی طرف صدیوں سے کیوں مبذول نہیں ہوتی یہ بھی ایک سوال ہے۔ اب یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کتنے ہی مندر ہیں جہاں دیو داسی رسم جاری ہے ان کے پاس روپیوں اور سونے چاندی وغیرہ کی صورت میں اربوں کا سرمایہ موجود ہے اور ان مندروں کو سالانہ کروڑ وں روپیوں کی آمدنی ہوتی ہے، تو کیوں انہیں ان کی اعانت و امداد کی مستحق ان دیو داسیوں کی پریشان کن کیفیت بدلنے کی کوئی فکر نہیں ہوتی؟ وہ اس کا اہتمام کیوں نہیں کرتے کہ مندروں میں کسی بھی بہانے اور کسی بھی چور دروازے سے نئی دیو داسیوں کی آمد نہ ہونے پائے اور مندروں کے پاس جو دیو داسیاں سروے وغیرہ کے ذریعہ موجود پائی جائیں، حکومت کے اشتراک و تعاون سے ان کی باز آبادکاری کی اسکیموں پر عمل درآمد کیا جائے اور مندروں کے بیکار پڑے بے پناہ سرمائے سے دیو داسیوں کے بچوں اور بچیوں کے لیے تعلیم گاہوں اور ہوسٹل وغیرہ کا نظم کیا جائے، جس کے ذریعہ وہ مستقبل میں ملک کے باعزت و باقار شہری بن سکیں؟
دان ویر بھی بیدار ہوں
مندروں میں موجود اور ہر روز بڑھنے والے سرمائے کے انبار مندروں کے دان ویروں کے ہی مرہون منت ہوتے ہیں۔ جو لوگ دیوتاوں اور بھگوانوں کی خوش نودی کے لیے ہزاروں، لاکھوں اور کبھی کروڑوں روپیے مختلف شکلوں میں مورتیوں پر چڑھاتے ہیں وہ اگر کچھ توجہ ان دیو داسیوں اور ان کے لاوارث و بے سہارا بچوں اور بچیوں کی طرف بھی کریں تو اس سے ان کی روح کو بھی تسکین ہوگی اور ان مجبوروں اور بے کسوں کے مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی۔ اس مضمون کی تیاری کے دوران ہی یہ خبر سوشل میڈیا پر بھی آئی کہ HCLکے ذمہ دار نے ہر روز ایک کروڑ روپے دان دیے۔ کاش کہHCL سے کوئی دریافت کرتا کہ اس مشہور کاروباری ادارے کو دیو داسیوں کے درد و کرب کی بھی کوئی خبر پہنچی ہے؟
سماجی اور سیاسی تنظیموں کے کرنے کے کام
دیو داسی پرتھا کی شکل میں موجود ملک کی ساڑھے چار لاکھ لڑکیوں اور عورتوں کے غم انگیز مسائل سماجی اور سیاسی تنظیموں کی دردمندانہ توجہ سے بھی حل ہوسکتے ہیں۔ جن ریاستوں میں دیو داسیوں کی موجودگی ہے وہاں کی ہندتوا کی حامل سماجی تنظیمیں ان کے مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حل کے منصوبے بناتیں تو ان کے حل کی بہت سی صورتیں نکل سکتی ہیں۔ ہندتوا کی حامل سماجی تنظیموں کی طرف اس لیے اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ دیو داسیوں کی 100فیصد تعداد ہندو ہی ہوتی ہے۔ اگر آر ایس ایس ، ہندو مہاسبھ’ا، وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل وغیرہ جیسی ہند سماجی تنظیمیں اس اہم کام کی طرف توجہ نہیں کریں گی تو پھر کون کرے گا؟
حکومتوں کی ذمہ داری
اس طرح جہاں جہاں دیو داسی رسم کی موجودگی ہے وہاں کی حکومتیں سال میں کم سے کم ایک بار اسمبلی میں رپورٹ پیش کریں کہ حکومت کے ذریعہ اس رسم کے انسداد کے لیے کیا کیا کارروائیاں کی گئیں۔
دیو داسیوں کی عصمت و عفت تار تار کرنے والوں کے خلاف کتنے مقدمات درج کیےگئے اور کتنے افراد کو سزائیں دلائی گئیں اور کتنی دیو داسیوں اور ان کے بچوں کی کس کس طرح بازا ٓبادکاری کی گئی؟
ان ریاستوں کی سیاسی پارٹیا ںبھی اپنی ساری توجہ ووٹوں کی خریداری اور ایم ایل اے کی خرید و فروخت میں مصروف کرنے کے بجائے ریاست کے سماجی مسائل کے حل کی بھی مخلصانہ کوشش کریں تو دیو داسی مسئلہ کے حل کی بھی امید کی جاسکتی ہے۔
سماجی وسیاسی تنظیموں اور ریاستی حکومتوں کے لیے انتہائی درد مندی کے ساتھ غور کرنے کا یہ مسئلہ ہے کہ عورت کے وقار کو ٹھیس پہنچانے والی یہ رسم کب تک جاری رہے گی اور کب تک وہ تقدس کے نام پر تنزل کے غار میں دھکیلی جاتی رہے گی؟ اسی طرح ستی پرتھا یعنی شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو زندہ نذر آتش کردینے کی رسم موجود تھی، لیکن کوششیں کی گئیں تو وہ ختم ہوئی، لہذا امید کی جانی چاہیے کہ دیو داسی کی رسم کا بھی مضبوط ارادوں اور اقدامات کے ذریعہ خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
مسلمان بھی توجہ کریں
ملک کی کچھ ریاستوں میں موجود دیو داسی اور اس جیسی کچھ دیگر سماجی خرابیوں کی اصلاح کے لیے مسلمانوں اور ان کی تنظیموں کو بھی فکر مند ہونا ان کے منصب خیر امت کے عین مطابق ہے۔ مسلم تنظیموں کو ان مسائل کا جائزہ لے کر درد مندی و دلسوزی کے ساتھ ان ریاستوں کی حکومتوں، مندروں کے ٹرسٹی حضرات، معروف مذہبی شخصیات اور دیو داسیوں کے علاقوں کے ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلی اور ضلعی انتظامیہ کو خاص طور پر دیو داسیوں اور ان کے بچوں کے مسائل حل کرنے کی جانب خطوط اور ملاقاتوں کے ذریعہ متوجہ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے اور یقین کے ساتھ یہ خدمات انجام دینی چاہیے کہ اس کے مثبت نتائج ضرور ظاہر ہوں گے۔
فون : 9810847086
***
***
سماجی وسیاسی تنظیموں اور ریاستی حکومتوں کے لیے انتہائی درد مندی کے ساتھ غور کرنے کا یہ مسئلہ ہے کہ عورت کے وقار کو ٹھیس پہنچانے والی یہ رسم کب تک جاری رہے گی اور کب تک وہ تقدس کے نام پر تنزل کے غار میں دھکیلی جاتی رہے گی؟ اسی طرح ستی پرتھا یعنی شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو زندہ نذر آتش کردینے کی رسم موجود تھی، لیکن کوششیں کی گئیں تو وہ ختم ہوئی، لہذا امید کی جانی چاہیے کہ دیو داسی کی رسم کا بھی مضبوط ارادوں اور اقدامات کے ذریعہ خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022