دہلی فسادات: عمر خالد اور دیگر نے مسلمانوں میں خوف کا احساس پیدا کرنے کے لیے تقریریں کیں، پولیس کا الزام

نئی دہلی، اگست 2: دہلی پولیس نے پیر کے روز الزام لگایا کہ 2020 کے دہلی فسادات کیس میں متعدد ملزمین کی تقریریں ملک کی مسلم آبادی میں خوف کا احساس پیدا کرنے کے لیے کی گئی تھیں۔

پولیس نے دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سدھارتھ مردل اور رجنیش بھٹناگر کی بنچ کے سامنے کارکن عمر خالد کی ضمانت کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے یہ پیش کیا۔

پولیس کی طرف سے پیش ہونے والے اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر امت پرساد نے استدلال کیا کہ خالد کی طرف سے کی گئی تقریریں اور شرجیل امام اور خالد سیفی جیسے دیگر کارکنان سبھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور مبینہ سازش کا حصہ تھے۔

پرساد نے کہا ’’جب آپ بابری مسجد یا تین طلاق کے بارے میں بات کرتے ہیں، تو وہ ایک مذہب سے متعلق ہیں۔ لیکن جب آپ کشمیر کی بات کرتے ہیں تو یہ مذہب کا مسئلہ نہیں ہے، یہ قومی یکجہتی کا مسئلہ ہے۔‘‘

عمر خالد کو، جسے 14 ستمبر 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا، فروری 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں فسادات کو ہوا دینے کی مبینہ طور پر سازش رچنے کے الزام میں غیر قانونی (سرگرمیاں) روک تھام ایکٹ کے تحت الزامات کا سامنا ہے۔

خالد سیفی پر فسادات کے سلسلے میں سخت غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ، اسلحہ ایکٹ، عوامی املاک کو نقصان کی روک تھام کے قانون اور تعزیرات ہند کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

امام پر غداری کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، جب پولیس نے ان پر شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے خلاف احتجاج کے دوران اشتعال انگیز بیانات دینے کا الزام لگایا تھا۔

پیر کی سماعت میں پرساد نے الزام لگایا کہ فروری 2020 میں مہاراشٹر کے امراوتی ضلع میں خالد کی جانب سے کی گئی تقریر ایک ’’منصوبہ بند اقدام‘‘ کا حصہ تھی کیوں کہ اس میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے علاوہ خاص طور پر مسلم کمیونٹی سے متعلق معاملات کو اٹھایا گیا تھا۔

پرساد نے یہ بھی الزام لگایا کہ نئی دہلی میں شہریت ترمیمی قانون اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن کے خلاف مظاہرے نامیاتی نوعیت کے نہیں تھے۔

انھوں نے دلیل دی کہ ’’اس بات پر تنازعہ اٹھایا جا رہا ہے کہ احتجاج کی جگہیں اپنے طور پر آئیں… ایسا نہیں تھا… وہ بنائے گئے تھے۔ انھیں مختلف جگہوں سے لوگوں کو متحرک کرنے کے بعد بنایا گیا تھا۔ ہر احتجاجی مقام کا انتظام جامعہ [ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی] اور ڈی پی ایس جی [دہلی پروٹسٹ سپورٹ گروپ] کے لوگ کر رہے تھے۔‘‘

جسٹس مردل نے مشاہدہ کیا کہ مختلف ملزمین کے خلاف لگائے گئے الزامات اور کیس میں ان سے منسوب کردار میں ایک اوورلیپ ہے۔ اس کے بعد انھوں نے کیس میں ملوث افراد کے وکیل سے کہا کہ وہ فیصلہ کریں کہ آیا دیگر شریک ملزمان کی اپیلوں کو الگ الگ سنا جائے یا ایک ساتھ۔

عدالت اس معاملے کی مزید سماعت آج کرے گی۔

جمعرات کو پچھلی سماعت پر عمر خالد کے وکیل نے دہلی ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ محض واٹس ایپ گروپس کا رکن ہونے سے کارکن اس معاملے میں مجرمانہ طور پر ذمہ دار نہیں بنتا، جب کہ اس سے کوئی قابل اعتراض بات منسوب نہیں پائی گئی ہے۔

خالد کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ تردیپ پیس نے کہا تھا کہ ان کا مؤکل دو ایسے گروپس میں خاموش رہا۔ باقی تین گروپس میں واٹس ایپ چیٹس میں بھیجے گئے صرف چار پیغامات خالد سے منسوب تھے۔ تاہم پیس نے دلیل دی تھی کہ ان پیغامات میں نہ تو بھڑکایا گیا اور نہ ہی فسادات کا مطالبہ کیا گیا۔

پیس نے یہ بھی کہا تھا کہ خالد ان گروپس کے ایڈمنسٹریٹر نہیں تھے بلکہ محض ایک رکن تھے۔