دہلی فسادات: عدالت نے ’’مسلمانوں کے خلاف انتقام‘‘ کے طور پر ایک مسلم شخص کو زندہ جلانے کے الزام میں چھ افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی
نئی دہلی، جولائی 10: دہلی کی ایک عدالت نے شہر میں فروری 2020 کے تشدد کے دوران ایک مسلم شخص کو مبینہ طور پر زندہ جلانے کے الزام میں چھ افراد کے خلاف الزامات طے کیے ہیں۔
شمال مشرقی دہلی میں 23 فروری سے 26 فروری 2020 کے درمیان فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا تھا۔ تشدد میں 53 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔
ایک واقعہ میں 25 فروری 2020 کو شہر کے مین کھجوری پستہ روڈ پر ایک ہجوم نے شہباز نامی ایک مسلمان شخص کو زندہ جلا دیا تھا۔
8 جولائی کو ایڈیشنل سیشن جج پلستیہ پرماچل نے امان، وکرم، راہل شرما، روی شرما، دنیش شرما اور رنجیت رانا کے خلاف مبینہ طور پر شہباز کو ہلاک کرنے والے ہجوم کا حصہ ہونے کے الزام میں فرد جرم عائد کی۔
عدالت نے کہا کہ ملزمین نے مبینہ طور پر منصوبہ بند طریقے سے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر سازش کی ۔ جج نے مشاہدہ کیا کہ ہجوم کا واحد مقصد ’’مسلم برادری سے بدلہ لینا‘‘ تھا۔
عدالت نے کہا کہ ایک گواہ کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان اس ہجوم کا حصہ تھے جو 24 فروری 2020 کو، یعنی شہباز کے قتل سے ایک دن پہلے، جمع ہوئے تھے اور اگلے دن فسادات میں ملوث ہونے کا منصوبہ بنایا تھا۔
جج پرماچل نے کہا ’’ملزمان افراد منصوبہ بندی سے آگاہ ہونے کے باعث اس ہجوم میں شامل ہوئے۔ انھوں نے ایک غیر قانونی اسمبلی کے سرگرم رکن ہونے کے ناطے بھی ایسا کیا تھا جس کا مشترکہ مقصد مسلم کمیونٹی کے افراد اور املاک کو نقصان پہنچانا، دفعہ 144 سی آر پی سی کی دفعات کی خلاف ورزی کرنا، دشمنی کو فروغ دینا تھا جس کے سبب شہباز کا قتل ہوا۔‘‘
عدالت نے ملزمان پر دفعہ 120B (مجرمانہ سازش) کے تحت دفعہ 147 (ہنگامہ آرائی)، 148 (ہنگامہ آرائی، مہلک ہتھیار سے لیس)، 302 (قتل)، 341 (غلط طریقے سے روک تھام) اور 395 (ڈکیتی) کے تحت فرد جرم عائد کی۔
ملزمین میں سے ایک امان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 412 کے تحت بھی الزام عائد کیا گیا ہے جو ڈکیتی کے الزام میں چوری کی گئی جائیداد کو بے ایمانی سے حاصل کرنے سے متعلق ہے۔ اس نے مبینہ طور پر شہباز کی کلائی گھڑی اس کی موت کے بعد اپنے پاس رکھی تھی۔