دعوت: وہ کام جس کے لیے انبیاء مبعوث کیے گئے
منصبی ذمہ داری کا گہرا شعور داعی کو متحرک رکھتا ہے
جاویدہ بیگم ورنگلی
باجی میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ عام انداز اختیار کیجیے۔ آپ کی باتیں تو سمجھ سے بالا تر ہوا کرتی ہیں۔ آپ کا یہ کہنا کہ کوئی آدمی شیریں زبان ہو، درگزر کرنے والا، عدل و احسان کرنے والا رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے والا، مسجدیں بنانے، یتیم خانے کھولنے دوسروں محبت سے کرنے والا ہو مگر اس کو داعی دین نہیں کہا جا سکتا۔ آخر داعی دین میں اور کیا صفات ہونی چاہئیں؟ وہ کیا خصوصی صفات ہیں جو ایک شخص کو داعی بناتی ہیں؟
وہ تمام اوصاف جن کا آپ نے ذکر کیا ہے ایک داعی میں ضرور ہونے چاہئیں مگر صرف ان صفات کے ہونے سے کوئی شخص داعی نہیں بنتا۔ ہمارے اطراف ان صفات کے حامل ہزاروں لوگ رہتے ہیں، کیا ان کو داعی دین کہا جا سکتا ہے؟ داعیانہ کردار اور ہوتا ہے جو اپنے منصب کے شعور اور اس منصب کے تحت عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان ذمہ داروں کے بارے میں جواب دہی کے احساس سے پیدا ہوتا ہے۔ اس بات کا مشاہدہ ہم خود دن رات کرتے ہیں۔ جب کسی کو کوئی منصب یا رتبہ ملتا ہے چاہے وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو تو اس میں واضح تبدیلی آتی ہے۔ منصب و رتبہ اس میں ایک نئی روح پھونک دیتا ہے۔وہ متحرک و سرگرم عمل ہوجاتا ہے وہ اپنے دماغ سے سوچنے لگتا ہے۔ کام کی نئی راہیں تلاش کرنے لگتا ہے۔ ہر وقت اس کو اپنے مقام و مرتبہ کا خیال رہتا ہے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اس کی شان کے خلاف ہو۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کرتا جو اس کو مقام بلند سے نیچے گرادے ۔
داعیانہ کردار اس وقت پیدا ہوتا ہے جب داعی کو اپنی دعوت کی سچائی پر پختہ یقین ہو اور اس کے دل میں اللہ سے ایسی محبت ہو کہ زندگی کا مقصد رضائے الٰہی بن جائے اور اللہ کی محبت اس کے اندر خیر خواہی کا جذبہ پیدا کرکے اسے سرگرم عمل کر دے۔ یہ خیال اس کے ذہن میں ہمیشہ رہے کہ وہ خیر امت ہے اس کا مقصد بندوں کی خیر خواہی ہے اور اس کو تمام بندوں کی خیر خواہی کا فرض انجام دینا ہے۔ یہ اتنا بڑا اورعظیم کام ہے کہ اس کے لیے انبیا مبعوث کیے جاتے رہے۔ اب جبکہ انبیا کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے، اب بحیثیت امت مسلمہ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ انسانوں کی رہبری رہنمائی کا کام انجام دے۔ اللہ تعالٰی فرماتاہے "اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہواور اللہ پر ایمان رکھتے ہو (آل عمران:۱۱۰) اس کا یہ فرمان کہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو بدی سے روکتے ہو۔ اس کے احساس ذمہ داری کو بڑھا دیتا ہے۔ نہ دشمنوں کی دشمنی اس کو اس کام سے روکتی ہے نہ اپنوں کی مخالفتیں اسے اس مقصد سے باز رکھ سکتی ہیں۔ ساری دنیا اس کو چھوڑ دے اس کو کوئی پروا نہیں ہوتی، وہ تن تنہا کھڑا ہوتا ہے اس ذمہ داری کو ادا کرنے جو امت مسلمہ کا فرض منصبی ہے۔ اس کے دل میں ایک ہی لگن ہوتی ہے کہ بندگان خدا کو خبر دار کر دے۔ ان کو دردناک عذاب سے بچائے۔ داعی کے دل میں سوز و تڑپ بندگان خدا سے بے انتہا محبت ہوتی ہے جو اس کو بے قرار رکھتی ہے۔ یہ فکر اس کا سکون و قرار چھین لیتی ہے کہ اس کی غفلت، کاہلی و سستی کی وجہ سے بندگان خدا دوزخ کا ایندھن بنیں گے۔ یہ احساس داعی کو ایسا سپاہی بنا دیتا ہے جو کبھی اپنا ہتھیار نہیں اتارتا۔
میں آپ کو اپنا انداز بدلنے کا مشورہ دے رہی تھی۔ انسان بھی کیا خوب ہوتا ہے اس کو اپنی غلطی نظر نہیں آتی۔ اپنی ہی بات صحیح سمجھتا ہے بڑی شان سے دوسروں کو مشورہ دے کر سمجھتا ہے کہ بڑا تیر مار لیا، یہ دیکھے بغیر کے تیر ٹھیک نشانے پر مارا یا نہیں۔ میں بھی آپ کو سوچے سمجھے بغیر مشورہ دیتی رہی کہ آپ کو اپنا انداز بدلنا ہوگا جبکہ مجھے اپنا مشینی انداز بدلنا ہوگا۔ جس طرح دوسرے فرائض نماز، روزہ، زکوٰۃ و حج منصبی انداز میں ادا ہوتے رہے اس طرح یہ فرض دعوت کا بھی مشینی انداز سے ادا ہوتا رہا۔ نماز جو برائیوں و بے حیائیوں سے روکتی ہے، روزہ خود دل میں خدا کے علیم و خبیر ہونے کا احساس پیدا کرتا ہے، زکوٰۃ جو مال کی محبت دل سے نکالتا ہے، حج جو اللہ کی کبریائی کا احساس اس طرح پیدا کرتا ہے کہ وہ پوری دنیا میں اللہ کی کبریائی کا ڈنکا چاہتا ہے مگر یہ تمام فرائض دل میں ایسا کوئی احساس پیدا نہیں کر رہے ہیں۔ عمل زندگی میں ایسا فرائض کا کوئی اثر نظر نہیں آتا کیونکہ یہ تمام فرائض سوچے سمجھے اور غور و فکر کے بغیر ایک مشینی انداز میں ادا کیے جاتے ہیں۔ اس طرح خیر امت کا فرض منصبی نیکی کا حکم دینا اور بدی سے روکنا ہے۔ چند عمومی و خصوصی اجتماعات سے خطاب کرنا، چند تقریریں کر لینا یا چند مضامین لکھنے کو کافی نہ سمجھنا چاہیے۔ اس کے لیے داعیانہ کردار کی ضرورت تو نہیں رہتی۔ اس لیے آج داعی اور داعیانہ کردار دو جداگانہ موضوع ہیں۔
آپ نے ٹھیک کہا ہے داعیانہ کردار پیدا ہوتا ہے اپنے مقام و منصب کو سمجھنے سے، کہ اللہ نے تمام انسانوں کی رہبری رہنمائی کا عظیم کام ان کو سونپا ہے۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر مقام و مرتبہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس منصب کو اد کرنے کی ذمہ داری کا احساس اور جواب دہی کے تصور سے اس میں داعیانہ کردار پیدا ہونا چاہیے، ایک لمحہ بھی فرض منصبی سے غافل نہیں ہو جانا کیونکہ اللہ کا اس انداز میں مخاطب کرنا
’’اے پیغمبرؐ جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچادو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پیغمبری کا حق ادا نہ کیا (سورہ مائدہ:۶۷)
باجی! یہ ا۔۔۔ بتا رہا ہے کہ داعی کی ذمہ داری کس قدر اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور داعیانہ کردار کے بغیر یہ اہم ذمہ داری ادا نہیں کی جاسکتی۔ مگر داعیانہ کردار پیدا کرنا آسان بھی تو نہیں ہے۔ یہ نفس نہ صرف خود آسان راستہ اختیار کرتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس آسان راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا رہتا ہے اور اس بات پر خوش بھی ہوتا ہے کہ اس سب سے بڑی ذمہ داری کو کس آسانی کے ساتھ ادا کر رہا ہے۔
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 10 مارچ تا 16 مارچ 2024