دریاؤں کو مربوط کرنا، فائدہ مند یا تباہ کن؟

از: زعیم الدین احمد، حیدرآباد

نیشنل ریور لنکنگ پراجیکٹ (NRLP) جسے عام طور پر نیشنل پرسپیکٹیو پلان کہا جاتا ہے، بنیادی طور پر پانی کی منتقلی کا منصوبہ ہے، یعنی ایک ایسے دریا کا پانی جس میں زائد از ضرورت پانی ہو اسے کسی ایسی جگہ منتقل کرنا جہاں خشک سالی ہو یا قحط سالی ہو، تاکہ زائد از ضرورت پانی سے سیلاب کا خطرہ بھی نہ ہو اور دوسری طرف خشک سالی بھی ختم ہو۔ اس مضمون میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آیا یہ بین دریائی ارتباط ’’انٹر بیسن واٹر ٹرانسفر‘‘ کے منصوبے ہمارے لیے فائدہ مند ہیں یا تباہ کن۔ دریا کا وہ پانی جو ہمارے گھریلو، آبپاشی اور صنعتوں کے استعمال کے بعد دستیاب ہوتا ہے اسے سرپلس واٹر کہا جاتا ہے۔ حکومت کے مطابق اس سرپلس واٹر کو کسی دوسری طرف موڑ دیا جائے تو وہاں کی آبادی کو فائدہ ہونے کے ساتھ ساتھ دریا کے قریب بسنے والے عوام کو بھی سیلاب جیسی صورت حال سے بچایا جاسکتا ہے۔ کہنے کو تو یہ سرپلس کی اصطلاح بڑی دلکش و دل فریب ہے لیکن اگر آپ اس کے اندرون میں جائیں گے تو اس کی تباہ کاریوں سے واقف ہو جائیں گے۔ ہم نے اپنے نظریہ سے اسے سرپلس واٹر تصور کیا ہوا ہے لیکن دریاؤں کی حقیقی ضرورت کے متعلق ہم نے سوچا ہی نہیں ہے جس میں بہت سے دوسرے عوامل بھی شامل ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم دریاؤں کے ارتباط پر بات کریں آئیے پہلے ہم اس منصوبے کے مقصد، فوائد، اس کی لاگت اور تاریخ کو جاننے کی کوشش کریں۔ دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کی تاریخ: ویسے تو دریاؤں کو آپس میں مربوط کرنے کے منصوبے کی تاریخ 125 سال پرانی ہے۔ یہ منصوبہ اصل میں انگریزوں نے شروع کیا تھا۔ 2002ء میں اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبدالکلام نے اپنی ایک تقریر میں دریاؤں کو جوڑنے کے منصوبے کا ذکر کیا تھا۔ انہوں نے اس منصوبے کو ملک کی آبی پریشانیوں کے حل کے طور پر پیش کیا تھا، لیکن چند ماحولیاتی جہد کاروں نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں پہنچایا تاکہ وہ اس منصوبے پر امتناعی حکم جاری کرے، لیکن اس درخواست کو رٹ پٹیشن میں تبدیل کر دیا گیا اور آخر کار اکتوبر 2002ء میں سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو ملک کے بڑے دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کے منصوبے کو ہری جھنڈی دکھا دی اور اس پر عمل درآمد کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ اسی سال حکومت نے ایک ٹاسک فورس کا تقرر عمل میں لایا اور اس پورے منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے 2016ء کی حد مقرر کر دی گئی، جس کے تحت جملہ 37 دریاؤں کو آپس میں مربوط کرنا تھا لیکن بد قسمتی سمجھیے یا خوش قسمتی کہ تقریباً ایک دہائی گزر جانے کے باوجود کوئی ٹھوس کام نہیں ہو سکا، پھر 27 فروری 2012ء کو سپریم کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے حکومت کو یہ حکم دیا کہ وہ آبی وسائل کے وزیر کی سربراہی میں دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عدالتوں کا اس معاملے میں مداخلت کا کیا جواز پیدا ہے؟ اسی بات کو رام سوامی آر آئیر نے اپنے مقالے میں واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات سے نمٹنے کے لیے جواب دہ ادارہ پارلیمنٹ ہے نہ کہ سپریم کورٹ؟ سپریم کورٹ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ شہریوں کے بنیادی حقوق سلب نہ ہونے پائیں، لیکن یہ اس کے دائرہ کار میں نہیں ہے کہ انسانوں کے بنیادی حقوق کو کیسے یقینی بنایا جائے گا۔ یو پی اے سرکار اس منصوبے کے حق میں نہیں تھی، وہ دریاؤں کو آپس میں جوڑے جانے کے منصوبے کے حق میں نہیں تھی اسی لیے ان دس سالوں میں اس منصوبے پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ نے اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا لیکن جیسے ہی این ڈی اے حکومت اقتدار میں آئی، اس منصوبے پر کام شروع ہو گیا۔ بجٹ 2014-15 میں اس مقصد کے لیے تفصیلی پروجیکٹ رپورٹس کی تیاری میں تیزی لانے کے لیے 100 کروڑ روپے مختص کیے گئے۔ منصوبے کا دائرہ کار: نیشنل ریور انٹر لنکنگ پروجیکٹ 30 جوڑ (لنکس) پر مشتمل ہے جو ملک بھر کے 37 دریاؤں کو مربوط کرتا ہے۔ یہ تقریباً 3000 ڈیموں پر مشتمل ہے اور یہ جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا آبی ذخائر کا جال ہو گا۔ ملک میں موجود بڑے بڑے دریاؤں کو ان آبی ذخائر کے ذریعے جوڑا جائے گا۔ یہ منصوبہ دو اجزاء پر مشتمل ہے: پہلا جز ہمالیائی دریاؤں کو آپس میں جوڑنا، اس منصوبے کے تحت 14 جوڑ (لنکس) کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کے تحت دریائے گنگا اور برہم پترا کے ساتھ ساتھ بھارت اور پڑوسی ملک نیپال میں بہنے والی معاون دریاؤں پر آبی ذخائر کی تعمیر کی جائے گی۔ اس منصوبے کا مقصد ایک تو یہ ہے کہ ان دریاؤں میں موسم برسات میں آنے والے سیلابوں پر قابو پایا جا سکے اور اس برساتی پانی کو چھوٹے بڑے آبی ذخائر میں ذخیرہ کر کے ان سے آبپاشی اور بجلی کی پیداوار کی جائے۔ یہ رابطہ دریائے کوسی، گنڈک اور گھاگرا کے اضافی بہاؤ کو مغرب کی طرف منتقل کرےگا۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ دریائے گنگا و جمنا کو مربوط کر کے اس کا فاضل پانی ہریانہ، راجستھان اور گجرات کے قحط زدہ علاقوں کو منتقل کیا جائے تاکہ ان علاقوں سے قحط سالی دور ہو۔ دوسرا منصوبہ جزیرہ نما دریاؤں (پیننسولار ریور) کی ترقی کا ہے یا اسے جنوبی ہند کا پانی کا جال کہا جا سکتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 16 جوڑ رکھے گئے ہیں جو جنوبی ہندوستان کے دریاؤں کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت کرشنا، پینار، کاویری اور وائیگائی ندیوں کو پانی دینے کے لیے مہاندی اور دریائے گوداوری کو آپس میں جوڑا جائے گا، ان کو مربوط کرنے کے لیے کئی بڑے ڈیموں اور بڑی نہروں کی تعمیر کی ضرورت ہوگی۔ اس کے علاوہ کین ندی کو بیتوا، پاربتی، کالی سندھ اور چمبل سے بھی جوڑنے کا منصوبہ ہے۔ منصوبے کے مجوزہ فوائد: بجلی کی پیداوار (ہائیڈرو پاور جنریشن) اس منصوبہ کے تحت 34,000 میگاواٹ (34 GW) بجلی پیدا کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے، اس میں سے 4,000 میگاواٹ جزیرہ نما دریاؤں کے جوڑ سے پیدا کی جائے گی جبکہ 30,000 میگاواٹ ہمالیائی دریاؤں کے جوڑ سے پیدا کی جائے گی۔ 34,000 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کا تصور کرنا ہی مشکل ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ 34 ٹہری ڈیم کی طرح کے ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کا بنانا ہو گا۔ آپ تصور کریں ٹہری ڈیم کا، ایک ٹہری ڈیم جو 1000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کو بنانے کے لیے پورے ٹہری شہر کو اس میں ڈوبو دیا گیا۔ نہ صرف شہر بلکہ اس ساتھ 40 دیہات مکمل طور پر اس ڈیم میں ڈوب گئے اور 72 دیگر دیہات جزوی طور پر زیر آب آگئے، اور ایک لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہو گئے۔ محض ایک ڈیم کے بنانے میں اتنی تباہ کاری ہوئی ہے تو اس طرح کے 34 ڈیمس جب بنائے جائیں تو کیا کچھ نہیں ہو گا؟ پن بجلی (ہائیڈرو پاور) کے اضافے سے لاکھوں لوگوں کے لیے پینے کے پانی کی پریشانیوں پر قابو پانے اور ملک کے جنوبی و مغربی علاقوں کے خشک سالی کو دور کرنے اور بڑی بڑی صنعتوں کو پانی فراہم کرنے کا منصوبہ ہے۔ کیا واقعی ہمیں اس کے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے؟ بالکل بھی نہیں پرینیتا ڈانڈیکر جو جنوبی ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمز، ریورز اینڈ پیپل (SANDRP)کے اشتراک سے کام کرتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس بہت سے سستے، سماجی اور ماحول دوست طریقے موجود ہیں، جن کو اختیار کرنے کے نتیجے میں ان بڑے منصوبوں سے بھی زیادہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ان طریقوں کو اختیار کر کے ہم اپنے آب پاشی نظام کی کارکردگی میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ جیسے پانی کا منصفانہ استعمال، بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا اور ضرورت کے تحت اس کو اوروں کے درمیان بہتر طریقے سے تقسیم کرنا یہ سب ہمارے پرانے طریقے رہے ہیں۔ ملک کے بہت سے علاقوں میں اس طرح کے اقدامات نے مثبت نتائج دیے ہیں، جبکہ بڑے بڑے منصوبے بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک بہت بڑی مثال ریاست مہاراشٹر ہے جہاں بڑے ڈیموں کا جال بچھا ہوا ہے اور طرفہ تماشا یہ کہ اسی ریاست میں سب سے کم آب پاشی کی صلاحیت ہے۔ ہم ان باتوں کو کیسے نظر انداز کرسکتے ہیں جبکہ ہمیں سب کچھ معلوم ہے۔ اس ریاست کی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ہم بڑے ڈیموں اور انٹر لنکنگ جیسے منصوبوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ یقینی طور پر ایسا کرنا، حقیقتوں کو سمجھے بغیر منصوبے بنانا، ہمارے غیر ذمہ دارانہ رویے اور احمقانہ پْرامیدی کا نتیجہ ہے۔ آب پاشی کے فوائد: دوسرا دعویٰ اس منصوبے کے تحت یہ کیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے ایسے علاقے جو پانی کی کمی کا شکار ہیں جیسے مغربی حصہ اور جزیرہ نما خطے، ان علاقوں میں 35 ملین ہیکٹر زمین کو اضافی آبپاشی فراہم کی جائے گی، جس میں 250 لاکھ ہیکٹر سطحی آب پاشی کے ذریعے اور 100 لاکھ ہیکٹر زمینی پانی فراہم کیا جائے گا۔ اس منصوبے سے روزگار کے مزید مواقع پیدا ہوں گے، فصلوں کی پیداوار اور زرعی آمدنی میں اضافہ ہو گا اور اس کے ساتھ ساتھ ایسی صنعتیں جو زرعی آلات بناتی ہے ان کو بھی فائدہ ہو گا۔ ایک اور اضافی فائدہ یہ ہوگا کہ ان علاقوں میں زرعی پروسیسنگ صنعتیں بھی لگیں گی جس سے روزگار فراہم ہو گا، اس منصوبے سے بحری سفر نیویگیشن اور ماہی گیری کے لیے کئی مواقع فراہم ہوں گے۔ لیکن کیا ہمیں اپنی آب پاشی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے اتنے بڑے منصوبوں کی ضرورت ہے؟ جواب شاید نفی میں ہو گا۔ آب پاشی کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے ہم بارش کے پانی کے ذخیرہ اندوزی کرسکتے ہیں اور زیر زمین پانی کے سطح میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، یہ کام سماجی سطح پر ہونا چاہیے، ان اقدامات کے ذریعے آب پاشی کی صلاحیت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ منصوبے کی لاگت: اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے 560,000 کروڑ روپے کی ضرورت بتائی گئی ہے وہ بھی سال 2002ء کے حساب سے اور اس کے سالانہ اخراجات 16,000 کروڑ روپے ہوں گے جو 35 سالوں میں خرچ ہوں گے۔ یہ سارے تخمینے سال 2002ء کے حساب سے ہیں، ہر سال اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ یہ تخمینہ تین اجزاء پر مشتمل ہے۔ پہلا جزیرہ نما دریاؤں کو جوڑنے کے لیے 106,000 کروڑ روپے، ہمالیائی دریاؤں کو جوڑنے کے لیے 185,000 کروڑ روپے اور پن بجلی (ہائیڈرو الیکٹرک) منصوبے کے لیے 269,000 کروڑ روپے خرچ کیے جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پن بجلی کے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 135,000 ہزار کروڑ روپے لگایا جارہا ہے اور آب پاشی اور پانی کی فراہمی کے لیے 425,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ٹہری ڈیم سے اس تخمینہ کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جس کی تعمیر میں 8000 کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔ منصوبے کے اثرات: ہمانشو ٹھاکر SANDRP اور شری پد دھرمادھیکاری منتھن ادھیان کیندر سے دریاؤں کو آپس میں جوڑنے والے منصوبے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ ایک آفت ڈیزاسٹر ہے۔ ماہرین اس منصوبے کی بنیادی بات سے ہی اتفاق نہیں رکھتے کہ دریاؤں میں اضافی پانی ’سرپلس‘ یا فاضل پانی ’خسارہ‘ ہوتا ہے۔ ماحولیاتی اور سماجی مسائل پر کام کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم کلپاورکش کے ذمہ دار آشیش کوٹھاری کہتے ہیں کہ دریاؤں کو جوڑنے کی تجویز ایک غیر معقول مفروضے پر مبنی ہے کہ دریا کا پانی جو سمندر میں گرتا ہے وہ ’ضائع‘ ہو جاتا ہے۔ جب دریا کا پانی کاشت والی زمین اور آباد زمینوں میں بہتا ہے تو اپنے ساتھ باریک خاکی تہ جسے سلٹ کہا جاتا ہے، لاتا ہے، جب یہ بہے گا تو وہ اپنے ساتھ بڑی مقدار میں باریک خاکی تہ سلٹ کو بھی راستے میں چھوڑتا جائے گا، جس سے آس پاس کی زمینوں اور ساحلی علاقوں کی زمینوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے، یہی میدانی علاقوں کی زراعی پیداوار میں اضافے کی بنیاد ہے اور یہ ماہی گیری کے لیے بھی ضروری ہے۔ یہ دریا کا پانی سمندر کو بھی باہر نہیں آنے دیتا اسے اندر کی طرف دھکیلتا رہتا ہے، اگر یہ سمندر کو اندر نہ دھکیلے تو یہ زمین کے اوپر مزید پھیل جائے گا اور ساحلوں کو تباہ کر دے گا۔ اس نتیجے پر پہنچنے کی کوئی سائنسی دلیل نہیں ہے کہ دریا کا طاس ’سرپلس‘ یا فاضل یعنی ’خسارہ‘ میں ہے، کیونکہ اب تک کسی بھی دریا کے طاس یا ذیلی طاس کا مکمل جائزہ نہیں لیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ بین الاقوامی سطح پر نت نئے تنازعات کو جنم دے گا، نہ صرف دوسرے ممالک کے درمیان تنازعات جنم لیں گے بلکہ یہ ریاستوں کے درمیان بھی نئے تنازعات کو جنم دے گا، ملک پہلے ہی سے بین ریاستی آبی تنازعات کا شکار ہے، جیسے پنجاب -ہریانہ اور راجستھان کا راوی طاس آبی تنازعہ، کیرالا-کرناٹک، تامل ناڈو اور پڈوچیری کے درمیان کاویری آبی تنازعہ۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر سندھ کے پانی کی تقسیم پر بھارت-پاکستان کا تنازعہ، تیستا کا تنازعہ بنگلہ دیش کے ساتھ، برہم پترا کے پانی کا تنازعہ چین کے ساتھ اور مہاکالی ندی کا تنازعہ نیپال کے ساتھ۔ ان سارے تنازعات کے باوجود بھی کیا ہمارا ملک اس منصوبے پر عمل درآمد کا متحمل ہے؟ ایسی نازک صورت حال میں کیا ہمارے ملک کے پاس واقعی یہ صلاحیت ہے کہ وہ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے درمیان آبی تنازعات کو حل کر سکے؟ جبکہ یہ دریائیں نیچے کی طرف بہتی ہیں۔ اس منصوبے میں بہت سے ڈیموں، نہروں اور سرنگوں کی تعمیر کا ارادہ ہے، جن میں سے کچھ ڈیموں کی بلندی 120 میٹر تک ہو گی۔ یہ ایک بہت بڑی سماجی اور ماحولیاتی تباہی کا باعث بنے گا، اس کی ایک زندہ مثال مجوزہ کین-بیٹوا کا جوڑ ہے جسے حکومت نے منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے سے 4,100 ہیکٹر جنگلاتی اراضی ختم ہو جائی گی، یا یوں کہیے کہ پنا نیشنل پارک کا 8 فیصد حصہ خطرہ میں پڑ گیا ہے۔ اگرچہ اس منصوبے کو ابھی ماحولیات کی منظوری، جنگلاتی حیات کے محکمے کی منظوری اور سپریم کورٹ کی اجازت بھی درکار ہے کیونکہ یہ شیروں کے تحفظ ’ٹائیگر ریزرو‘ کا علاقہ ہے، لیکن وزارت آب نے کسی سے بھی اجازت نہیں لی ہے۔ آپس میں جوڑنے کا ایک منصوبہ اتنی ماحولیاتی تباہی لاسکتا ہے تو تصور کیجیے کہ 30 منصوبوں پر عمل آوری ملک کی حیاتیاتی تنوع پر کیا کچھ تباہی نہیں لائے گی؟ یہ نہ صرف ماحولیاتی تباہی کا باعث بنے گا بلکہ اس منصوبے پر عمل درآمد سے کتنے ہی خاندان بے گھر ہوں گے اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بے گھر ہونے والوں کے بارے کوئی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ یقینی طور پر یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے گی۔ کیا حکومت ان اجڑنے والوں کو دوبارہ گھر بار اور زمینیں مہیا کرے گی؟ سابقہ تجربات انتہائی مایوس کن ہیں، کسی ریاست میں ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا اور نہ ہی مرکزی حکومت نے ایسے لوگوں کو مناسب معاوضہ دیا یا اچھے طریقے سے ان کی بحالی کی۔ کیا حکومت نے دریاؤں کو مربوط کرنے کے منصوبے میں اس بات پر غور کیا کہ ہر دریا کا اپنا ایک الگ وجود ہے، اس کی اپنی الگ شناخت ہے، خصوصیات ہیں، ہر دریا کا اپنا ایک معیار ہوتا ہے، ہر ایک دریا کے بہاؤ کی اپنی الگ سطح ہوتی ہے۔ تو کیا ان کے اختلاط سے اس کی خصوصیات پر، ان کے معیار پر کوئی فرق نہیں پڑے گا؟ کیا ایک آلودہ دریا دوسرے غیر آلودہ یا کم آلودہ دریا کے پانی کو آلودہ کرنے کا سبب نہیں بنے گا؟ مختصر یہ کہ دریاؤں کا آپس میں جوڑنا قوم کے لیے ایک مکمل تباہی کا باعث بنے گا اور کچھ نہیں۔ ***