دارالعلوم دیوبند کے خلاف جھوٹا پروپگنڈا

دارالافتاء سے جاری ہونے والے فتوؤں میں ہندوتوا تنظیموں کی دلچسپی

افروز عالم ساحل

فتوؤں کے بارے میں ملکی میڈیا ہمیشہ سے عوام کو گمراہ کرتا رہا ہے، چنانچہ اس نے دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء کی ویب سائٹ کو پوری طرح سے بند کیے جانے کی خبر شائع کرکے ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ گمراہی کے اس ’کھیل‘ میں کچھ اردو ویب سائٹس بھی شریک ہیں۔ ہندی اور کچھ انگریزی میڈیا ویب سائٹس کو اتنی جلدی تھی کہ انہوں نے فوری دارالعلوم دیوبند کی آفیشل ویب سائٹ کے بند ہونے کی خبر شائع کر دی۔ دی پرنٹ، انڈیا ٹوڈے اور اکنامک ٹائمس جیسے ویب سائٹس نے اپنی خبر میں یہ بتایا کہ ’سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ اکھلیش سنگھ نے اسلامی مدرسہ دارالعلوم دیوبند کی آفیشیل ویب سائٹ پر پابندی لگا دی ہے۔‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں ویب سائٹ ابھی بھی برقرار ہیں۔ بس دارالافتاء کی ویب سائٹ سے کچھ پوسٹ ہٹائے لیے گئے ہیں جن پر ’نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘ کو اعتراض تھا۔ واضح رہے کہ دارالافتاء کی ویب سائٹ فقہی سوالات اور فتاویٰ کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہ دارالعلوم دیوبند کی ملکیت ہے۔

دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان اشرف عثمانی کا کہنا ہے کہ یہ خبر پوری طرح سے جھوٹی ہے کہ دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ بند کر دی گئی ہے۔ یہ صرف لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اس سے ملک میں غلط فہمی پھیل رہی ہے۔ ویب سائٹ ابھی بھی بدستور جاری ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ جس مواد پر انتظامیہ کو اعتراض تھا ہم نے اس کو فی الحال اس سے متعلق ہونے والی انکوائری مکمل ہونے تک ویب سائٹ سے ہٹا لیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی بھی ویب سائٹ پر اگر کوئی قابل اعتراض مواد پایا جائے تو انتظامیہ وقتی طور پر اسے ہٹانے کے لیے کہہ سکتا ہے اس لیے ہم نے اسے ہٹا لیا ہے۔

آخر وہ فتویٰ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چونکہ اس فتویٰ پر ابھی انتظامیہ جانچ کر رہی ہے، اس لیے اس پر ابھی کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔ جب جانچ مکمل ہوجائے تو پھر اس پر مزید بات کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ویسے فتوی کوئی جبراً نافذ کی جانے والی چیز نہیں بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک رائے ہوتی ہے، جس سے سوال پوچھنے والے کی رہنمائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کو ماننا یا نہ ماننا انسان کا اختیار ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پاس فتوی پر کسی کو عمل کرانے یا اس کو نافذ کرانے کی کوئی طاقت نہیں ہے اس لیے ہم صرف رائے ہی دے سکتے ہیں۔‘

سرکاری اور سوشل میڈیا میں جب دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ بند ہونے کی خبر وائرل ہوئی تو خود ضلع مجسٹریٹ اکھلیش سنگھ نے میڈیا کو اپنا بیان جاری کر کے بتایا کہ دارالعلوم دیوبند کو نوٹس جاری کر کے کچھ متنازعہ فتوؤں کے لنکس کو ویب سائٹ سے ہٹانے کے لیے کہا گیا ہے، ویب سائٹ کو مکمل طور پر بند کرنے کا کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں کسی شخص نے ’نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس‘ میں یہ شکایت درج کرائی تھی کہ ’’دار العلوم دیوبند حقوق اطفال کے خلاف اپنی ویب سائٹ پر فتاویٰ جاری کر رہا ہ ے جو بچوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور ملک کے قانون کے بھی خلاف ہے۔ ایسے فتوے دارالعلوم دیوبند کی فتووں کی آفیسشل ویب سائٹ دارالافتاء پر موجود ہیں۔ ان فتوؤں میں بچوں کو گود لینے سے لڑکیوں کی تعلیم تک ایسے فتوے موجود ہیں، جو گمراہ کن اور غیرقانونی ہیں۔‘‘

شکایت کنندہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ دار العلوم دیوبند کہتا ہے کہ ’بچہ گود لینا غیر قانونی نہیں ہے لیکن شریعت اسلامی کی روشنی میں گود لیا گیا بچہ وراثت میں حقدار نہیں ہو گا اور بعد بلوغت اس سے شرعی پردہ بھی ضروری ہو گا۔‘ کمیشن نے اسی شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے اتر پردیش کے چیف سکریٹری، ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ کو ایک وضاحتی خط جاری کیا اور کہا کہ اس قسم کے فتاویٰ ملک کے قانون کے منافی ہیں، اس پر نوٹس لی جانی چاہیے۔ جس کے بعد سہارنپور کے ضلع مجسٹریٹ اکھلیش سنگھ نے دارالعلوم دیوبند کو نوٹس بھیج کر یہ ہدایت دی کہ وہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے فتوے کی تحقیقات مکمل ہونے تک اپنی ویب سائٹ سے ان فتووں کو بلاک کر دیں۔ اس کے بعد دارالافتاء نے یہ مواد اپنی ویب سائٹ سے ہٹا دیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ ایسے نو فتوے ہیں جن کے لنکس ویب سائٹ سے ہٹا لیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے جواب میں ضلع مجسٹریٹ کے سامنے اپنا تحریری موقف بھی رکھا ہے، جس پر ضلع مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ اس کی جانچ کی جا رہی ہے۔ قانونی جانچ کے بعد جو بھی قانونی کارروائی ضروری ہو گی وہ کی جائے گی۔

یہاں یہ بات بھی بتاتے چلیں کہ اس طرح کے نوٹس کا ملنا بہت ہی معمولی اور عام بات ہے۔ انتظامیہ کو جن خبروں یا مواد سے پریشانی ہوتی ہے اسے ہٹانے کے لیے وہ نوٹسں جاری کرتا ہے۔ جو لوگ نیوز ویب سائٹ چلاتے ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ خود راقم الحروف اس طرح کی درجنوں نوٹسیں پانے کا شرف حاصل کر چکا ہے۔

دارالافتاء سے جاری ہونے والے فتوؤں میں ہندوتوا تنظیموں کی دلچسپی

دارالافتاء سے جاری ہونے والے فتوؤں میں مسلمانوں کی دلچسپی ہو نہ ہو لیکن ہندوتوا تنظموں اور میڈیا کی اس میں خاصی دلچسپی ہے۔ خاص طور پر اوپ انڈیا جیسی ویب سائٹ اپنے قارئین کے لیے لگاتار دارالافتاء کے چنندہ فتوؤں کو اپنے حساب سے پیش کر رہی ہے۔ ظاہر ہے ان کا نشانہ ان فتوؤں کے بہانے دارالعلوم دیوبند اور مسلمان ہیں۔

ہفت روزہ دعوت یہاں اوپ انڈیا کی ویب سائٹ پر دارالافتاء کے فتوؤں پر موجود ایک خبر کو آپ کے سامنے رکھ رہا ہے تاکہ ان کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکے کہ ان فتوؤں کے ذریعے کس طرح دارالعلوم دیوبند اور مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے۔

اسی سال 19 جنوری 2022 کو اوپ انڈیا نے ایک خبر شائع کی جس کی سرخی تھی ’’مسلم مہیلاؤں کے ہستمیتھون‘ سے لے کر ’سیکس کے بعد نہانے‘ اور’ غیر کتابی مہیلا سے نکاح‘ تک: دارالعلوم دیوبند کے فتوے‘ اس خبر کی ابتدا میں لکھا ہے، ’اسلام میں ’کیا صحیح ہے اور کیا نہیں‘ اس کی معلومات کے لیے دارالعلوم دیوبند کے پاس سیکڑوں مسلم آتے ہیں۔ وہ اپنی ذاتی زندگی سے متعلق کچھ سوالات کرتے ہیں اور دیوبند سے حلال اور حرام کی بنیاد پر فتویٰ جاری کر کے انہیں ان کا جواب دیا جاتا ہے۔ انہی سوالوں میں کئی سوال خواتین سے متعلق ہوتے ہیں۔ کچھ سوالات مشت زنی پر ہوتے ہیں، کچھ جنسی تعلقات سے متعلق اور کچھ غیر مذہبی خواتین سے متعلق ہوتے ہیں۔ آج اوپ انڈیا دوبارہ کچھ چنندہ سوالوں کی فہرست آپ کے لیے دیوبند کی سائٹ دارالافتاء سے لے کر آیا ہے۔ یہ تمام سوالات خواتین سے متعلق ہیں۔‘

اس کے بعد اس ویب سائٹ نے دارالافتاء سے پوچھے جانے والے کئی سوالوں کو اپنی اسٹوری میں رکھا ہے، جیسے، کیا مسلمان عورتیں مشت زنی کر سکتی ہیں؟ ہمبستری کے بعد غسل کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ زیادہ تر سوالوں کے بعد دارالافتاء کے جواب کو کافی مختصر کر کے لکھا گیا ہے تاکہ لوگوں کو گمراہ کیا جا سکے۔ مثال کے طور پر اس ویب سائٹ نے لکھا ہے، ’کیا اس خاندان سے نکاح کی پیشکش قبول کی جانی چاہیے جہاں لڑکی کا باپ بینک میں ملازم ہو؟ اس سوال کے جواب میں دارالعلوم کی جانب سے کہا گیا کہ جو لوگ حرام مال کماتے ہیں ان میں اخلاقیات کا فقدان ہوتا ہے، اس لیے ایسے رشتوں سے بچنا چاہیے۔‘ اسی طرح مزید ایک فتوے سے متعلق اس ویب سائٹ نے لکھا ہے، ’یہاں ایک شخص نے سوال کیا ہے کہ وہ اپنے ولیمہ کے کارڈ میں اپنی ہونے والی بیوی کا نام چھپوا سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں دارالعلوم دیوبند نے اسے بتایا ہے کہ ہونے والی بیوی کا نام کارڈ میں نہیں لکھوانا چاہیے۔‘

اس ویب سائٹ نے اپنی اسی اسٹوری کے آخر میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’بتا دیں کہ اسلامی تعلیم دینے کے لحاظ سے قائم کیا گیا دارالعلوم دیوبند مسلمانوں میں ایک بے حد مشہور تعلیمی ادارہ ہے۔ یہ اتر پردیش کے ضلع سہارنپور میں واقع ہے اور متنازعہ فتوؤں کے لیے جانا جاتا ہے۔ سال 2018 میں انہوں نے سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کی مخالفت کی تھی۔ اسی طرح خواتین کے فٹ بال دیکھنے پر بھی ان لوگوں نے مخالفت کی ہے۔ اتنا ہی نہیں، ایک بار اس جگہ سے فتویٰ جاری کیا گیا تھا کہ چوڑیاں پہناتے وقت بھی دکاندار کو عورت کو چھونا نہیں چاہیے۔ ابھی حال میں’ گود لیے ہوئے بچے کے وارث بننے یا نہ بننے‘ پر فتویٰ جاری کر کے تنازعہ میں آیا تھا۔‘

اس سے قبل اسی ویب سائٹ نے 16 جنوری 2022 کو بھی دارالافتاء کے فتوؤں کی بنیاد پر ایک اسٹوری شائع کی، جس کی سرخی کچھ یوں تھی، ’کنڈوم سے لے کر پیپر میں نقل، اسمارٹ فون کے کیمرے اور فرضی اٹینڈنس تک۔۔۔ دارالعلوم دیوبند سے جاری ہوئے چھ عجیب فتوے’۔

دھر سنسد کے نشانے پر دارالعلوم

دارالعلوم دیوبند ہمیشہ سے ہی ہندوتوا تنظیموں کے نشانے پر رہا ہے۔ اسی سال جنوری کے مہینے میں الہ آباد (اب پریاگ راج ) میں واقع برہمریشی آشرم میں ہونے والے ’دھرم سنسد‘ میں بھی دارالعلوم دیوبند اور بریلی کے مدارس کو بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہاں مقررین نے صاف طور پر کہا تھا کہ ’ہندوستان میں مسلمانوں کے سب سے بڑے دینی مدارس دارالعلوم دیوبند اور بریلی پر پابندی لگا دینا چاہیے۔‘

وہیں اس سے قبل گزشتہ سال یعنی 2021 کے ستمبر مہینے میں وشو ہندو پریشد کے پروین توگڑیا نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعت پر بھی پابندی لگا کر انہیں جیلوں میں ڈالا جائے۔ سال 2018 کے 28 نومبر کو مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے دارالعلوم دیوبند کو ’دہشت گردی کا گڑھ‘ بتایا تھا۔ وہیں یکم دسمبر 2018 کو وشو ہندو پریشد کے جنرل سکریٹری سریندر جین نے بیان دیا تھا کہ ’اگر دارالعلوم دیوبند نہیں ہوتا تو دہشت گردی بھی نہیں ہوتی۔‘

اب حجاب معاملے میں بھی دارالعلوم دیوبند کو ذمہ دار قرار جا رہا ہے

ملک میں جاری حجاب تنازعہ کے سلسلے میں نیشنل کمیشن فار دی پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس کے چیئرپرسن پرینک کانونگو نے دارالعلوم دیوبند کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔ گزشتہ دنوں میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک بیان میں انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ ’دارالعلوم دیوبند نوجوان مسلم خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کا ذمہ دار ہے۔‘

پرینک کانونگو نے دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوے کے حوالے سے کہا ہے کہ ’’ان کے ایک فتوے میں کہا گیا ہے کہ مسلم لڑکیوں کو ان اسکولوں سے نکالا جانا چاہیے، جہاں حجاب کی اجازت نہیں ہے۔ ایک اور فتوے میں ان کا کہنا ہے کہ اگر استاد مرد ہو تو لڑکیوں کو ایک خاص عمر کے بعد کلاس میں جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

***

***

 فتوی کوئی جبرا نافذ کی جانے والی چیز نہیں بلکہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک رائے ہوتی ہے، جس سے سوال پوچھنے والے کی رہنمائی مقصود ہوتی ہے۔ اس کو ماننا یا نہ ماننا انسان کا اختیار ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے پاس فتوی پر کسی کو عمل کرانے یا اس کو نافذ کرانے کی کوئی طاقت نہیں ہے اس لیے ہم صرف رائے ہی دے سکتے ہیں۔‘
( اشرف عثمانی،دارالعلوم دیوبند کے میڈیا ترجمان)


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  27 فروری تا 05مارچ  2022