دربھنگہ مہاراج نے دیا تھا علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو بیس ہزار روپیوں کا عطیہ

افروز عالم ساحل

ایک طرف راجہ مہندر پرتاپ کی کہانی ہے تو دوسری طرف ایم اے او کالج سے اےایم یو بننے تک کے سفر کی کہانی ہے جس میں کئی لوگوں نے اپنے مذہب سے اوپر اٹھ کر اس کی دل کھول کر مدد کی۔ ان مدد کرنے والوں میں ایک کہانی دربھنگہ مہاراج کی بھی ہے۔ تاریخ میں درج دستاویز بتاتی ہیں کہ دربھنگہ مہاراج سر رامیشور سنگھ (1860-1929) نے سال 1912 میں علی گڑھ کے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو بیس ہزار روپیوں کا عطیہ دیا تھا۔

دربھنگہ مہاراج سر رامیشور سنگھ 7 جون 1912 کو علی گڑھ پہونچے اور پہاسو ہاؤس میں ٹھہرے۔ 8 جون کو ایم اے او کالج میں ان کا زبردست استقبال کیا گیا۔ اسٹریچی ہال میں ان کے ساتھ میٹنگ ہوئی اور 9 جون 1912 کو ایک شاندار جلسہ منعقد کیا گیا، جس میں مہاراجہ دربھنگہ رامیشور سنگھ نے ایم اے او کالج، علی گڑھ سے خطاب کیا۔ مہاراج اس وقت بنارس ہندو یونیورسٹی کمیٹی کے صدر تھے۔

ایس کے بھٹناگر اپنی کتاب ’ہسٹری آف دی ایم اے او کالج علی گڑھ‘ میں صفحہ نمبر 318 پر لکھتے ہیں ’9 جون 1912 کو صاحبزادہ آفتاب احمد خان کی استقبالیہ تقریر کے بعد مہاراجہ نے نواب وقار الملک کو 20,000 روپے کا ایک چیک پیش کیا، جو اب تک کالج میں کسی غیر مسلم کی سب سے بڑی مدد تھی۔‘

اس کے علاوہ 1945 میں دربھنگہ مہاراج کامیشور سنگھ (1907-1962) نے علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کے میڈیکل کالج کے لیے 50,000 روپیے کی مدد کی۔ اس کی جانکاری خلیق احمد نظامی کے ذریعہ مرتب کتاب ’ہسٹری آف دی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (1920-1945) میں بھی ملتی ہے۔ کامیشور سنگھ دربھنگہ مہاراج سر رامیشور سنگھ کے بیٹے تھے۔

اس معاملے میں بی جے پی لیڈر و بہار لیجیسلیٹیو کاؤنسل کے ممبر پروفیسر سنجئے پاسوان نے یکم اکتوبر 2020 کو مرکزی حکومت کے وزیر تعلیم رمیش پوکھریال نشنک کو خط لکھ کر کہا ہے کہ بنارس ہندو یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی، پٹنہ یونیورسٹی، لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج آف دہلی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سب کو دربھنگہ مہاراج نے مدد کی ہے۔ اور ان تمام اداروں میں دربھنگہ مہاراج کے نام پر کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ صرف اے ایم یو نے ابھی تک کسی مناسب انداز میں دربھنگہ مہاراج کے تعاون کو قبول نہیں کیا ہے۔ ایسے میں آپ سے گزارش ہے کہ اے ایم یو انتظامیہ کو دربھنگہ کے دونوں مہاراجوں کی بڑی شراکت کو مناسب طریقے سے تسلیم کرنے کے لیے اے ایم یو انتظامیہ کو ضروری ہدایات جاری کریں کہ انہیں اپنے کسی ہاسٹل، گیسٹ ہاؤس، گیٹ وغیرہ کا نام دربھنگہ کے دو مہاراجاؤں کے نام پر رکھیں۔دربھنگہ میں پیدا ہوئے پروفیسر سنجئے پاسوان اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں انسانی وسائل و ترقی کے مملکتی وزیر تھے۔ تب وہ بہار کے حلقہ نوادا سے 13ویں لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ اس وقت یہ بی جے پی کے قومی ایگزیکٹو ممبر ہیں۔

اس سلسلے میں دربھنگہ مہاراج کامیشور سنگھ کی پوتی کومود سنگھ ہفت روزہ دعوت سے خاص بات چیت میں کہتی ہیں، میں بالکل بھی یہ نہیں چاہتی کہ میرے دادا پردادا کے نام پر سیاست ہو اور نہ ہی ہماری طرف سے کوئی مطالبہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وہ مزید کہتی ہیں کہ ہمارے دادا پردادا نے اس ملک و سماج کے لیے بہت کچھ کیا، اس کے باوجود آج وہ لوگ گمنام ہیں۔ ہماری نئی نسل ان سے اور ان کے کارناموں سے واقف نہیں ہے، ایسے میں جب اے ایم یو اپنے یونیورسٹی بننے کے سو سال پورا کر رہا ہے تو اس کے لیے بھی ایک اچھا موقع ہے کہ جو لوگ اس یونیورسٹی کے لیے کچھ کیے ہیں، ان کو کہیں نہ کہیں جگہ ملے۔ ان کے نام پر اے ایم یو میں کچھ ایسا ہو جس کی وجہ سے نئی نسل ان سے روبرو ہو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ملک و سماج کے لیے ان لوگوں کی جو سوچ تھی وہ آج کے موجودہ دور میں عام لوگوں تک پہونچے۔ لیکن اس کے لیے ہماری طرف سے کوئی مطالبہ نہیں ہے۔ اب جو کرنا ہے اس کے بارے میں خود اے ایم یو سوچے کہ وہ اے ایم یو میں مہاراج سر رامیشور سنگھ اور مہاراج کامیشور سنگھ کی شراکت کو کس طرح سے اور کس نظر سے دیکھتی ہے۔ باقی ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے خاندان کے بزرگوں و ان کے دادا پردادا کا نام زندہ رہے۔

واضح رہے کہ کومود سنگھ اب بہار کے پٹنہ شہر میں رہتی ہیں اور میتھیلی زبان میں ‘ای سمواد، نام سے ایک ای پیپر چلاتی ہیں۔ میتھلی زبان میں یہ ملک کا پہلا ای پیپر ہے۔ دربھنگہ شاہی خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے اس خاندان سے جڑے لوگوں کا عام لوگوں سے ملنا جلنا نا کے برابر ہے لیکن کومود سنگھ نے شادی کے بعد سے عام لوگوں سے ملنا شروع کردیا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا پر خوب سرگرم ہیں۔ فیس بک پر کومود سنگھ کی شناخت ایک ایسی خاتون کے طور پر ہے، جو بہار کی سیاست، دربھنگہ شاہی پریوار اور معاشرتی معاملات پر بیباک رائے رکھتی ہیں۔

سوشل میڈیا پر کومود سنگھ نے اوماکانت مشرا کا لکھا ایک پوسٹ شیئر کیا ہے، اس طویل پوسٹ میں اوماکانت مشرا لکھتے ہیں، ’۔۔۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ 1912 میں علی گڑھ شہر کتنا ترقی یافتہ رہا ہوگا۔ تو اس وقت علی گڑھ کی جی ٹی روڈ پر زمین کی قیمت کیا رہی ہوگی اور 1912 میں علی گڑھ کے اس جی ٹی روڈ پر بیس ہزار روپے میں کتنی زمین خریدی جاسکتی تھی، اس کا اندازہ آسانی سے لگایا جاسکتا ہے۔ عطیہ دہندگان کے عطیات کی تاریخ بخوبی جانے بغیر آج کوئی کہتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا نام راجہ مہیندر پرتاپ کے نام پر رکھا جائے، تو کوئی حقائق کو جانے بغیر کہتا ہے کہ انہوں نے ہزاروں ایکڑ زمین اے ایم یو کو دی تھی۔ ذرا سوچیے کہ علی گڑھ کی جی ٹی روڈ پر محض تین ایکڑ زمین اے ایم یو کو لیز پر دینے والے راجہ مہیندر پرتاپ کا دان بڑا ہے یا دربھنگہ مہاراج رامشور سنگھ کا؟ کیا ان کے وارثین یا دربھنگہ کے کسی سیاستدان نے ان کے نام کی تصاویر اےایم یو میں لگانے کی کبھی مانگ کی؟ جبکہ راجہ مہندر پرتاپ کی شراکت کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تصویر باقاعدہ اےایم یو میں لگی ہوئی ہے۔‘

اوماکانت مشرا نے اپنے اسی پوسٹ میں یہ سوال بھی کھڑا کیا ہے کہ ریاست دربھنگہ کے مہاراجہ رامشور سنگھ نے بی ایچ یو کو پانچ لاکھ سے زیادہ رقم دان میں دی تھی ، مگر بنارس میں بھی ان کے نام کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ صاحبو! یہ وقت اپنے تاریخ کو جاننے سمجھنے اور بہت غور سے پڑھنے کا ہے اور اگر ہم اس سے کچھ سیکھنا چاہے ہیں تو شاید سیکھنے کا بھی!

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کیا کیا؟

جب اس سلسلے میں ہفت روزہ دعوت نے اےایم یو کے سینٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ 1912 میں بیس ہزار روپے بہت بڑی رقم تھی۔ اس زمانے میں تو اس رقم سے علی گڑھ کے نمائش میدان کی پوری زمین خرید لی جاتی۔ دربھنگہ مہاراج کے وارثان نے اے ایم یو انتظامیہ سے کچھ نہیں کہا ہے، لیکن اس بارے میں ان کی جانب سے سوشل میڈیا پر سوال ضرور اٹھایا جارہا ہے۔ اب جب کہ سوشل میڈیا پر اس بارے میں سوال اٹھا ہے تو اس معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے میں نے جولائی 2019 میں ہی اے ایم یو وائس چانسلر کو ایک خط کے ذریعے اس بات کو پہونچا دیا۔ تو کیا وائس چانسلر نے کچھ کہا؟ اس سوال پر پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ یقین دلایا کہ کچھ کیا جائے گا۔
آپ کو خط لکھے تقریباً ایک سال گذر چکا ہے ، تو ابھی کچھ ہوا ہے یا اگر نہیں ہوا ہے تو کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ اس پر ان کا کہنا ہے ’ جہاں تک میرے علم میں ہے، ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے۔ اور اس کی وجہ میں نہیں بتا سکتا۔۔۔ ‘

اس معاملے پرسوشل میڈیا پر اب دوسرے طرح کے سوال بھی اٹھ رہے ہیں، وہ سوال یہ ہے کہ کیا اے ایم یو میں کوئی بہار مخالف جذبہ کارفرما ہے جو کہ بہاری شراکت کو تسلیم کرنے میں تامل برت رہاہے؟

دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے ایک سابق طالب علم نے جو آئی پی ایس افسر ہیں، سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ دونوں مہاراجوں کی شراکت کو اے ایم یو نے اب تک acknowledge کیوں نہیں کیا اور اب بھی نہیں کررہی ہے تو کیا اس کا کیا مطلب نکالا جائے؟ کیا کوئی بہار مخالف جذبہ کار فرما ہے؟ کوئی علاقائی تعصب تو نہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو جلد از جلد اس سے متعلق کچھ کارروائی کی جائے۔ وہیں حکومت ہند کے ایک مرکزی وزارت میں فائز دربھنگہ سے تعلق رکھنے والے ایک علیگ افسر نے اس متعلق اے ایم یو کےوائس چانسلر سے درخواست کی ہے کہ یونیورسٹی کے صد سالہ جشن میں دونوں دربھنگہ مہاراج کے شراکت کو ملک کے عوام سے روبرو کرائے اور یونیورسٹی میں ان کے نام پر کچھ قائم کیا جائے تاکہ نئی نسل ان سے واقف ہوجائے۔

مہاراجہ دربھنگہ رامیشور سنگھ کا ایم اے او کالج، علی گڑھ سے خطاب

9 جون 1912 کو مہاراجہ دربھنگہ رامیشور سنگھ نے ایم اے او کالج، علی گڑھ سے خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں نے کہا، ’مجھے امید ہے کہ آپ کی امیدوں اور خوابوں کی تعبیر اب دور نہیں ہے جب یہاں اس شہر میں ایک محمڈن یونیورسٹی کا قیام عمل میں آئے گا اور اس عظیم محمڈن لیڈر (سرسید) کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا، جو بھلے ہی جسمانی اعتبار سے ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن روحانی اعتبار سے وہ مسلمانوں کی تعلیم اور ترقی کے لیے ہمیشہ اپنے معتقدین کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔۔۔‘

اپنے خطاب میں مہاراجہ دربھنگہ نے یہ بھی کہا، ’ اسلام کی ایک ترقی پذیر داعی قوم کی حیثیت سے آپ لوگوں نے جس دلچسپی اور توجہ کے ساتھ مرحوم سرسید کے خوابوں کو عملی شکل دینے کا کارنامہ انجام دیا ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ آپ کو بجا طور پر اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ آپ نے سرسید کے گزر جانے کے بعد بھی ملک کے ممتاز افراد کو اپنی تحریک میں جوڑے رکھا۔۔۔‘

اپنے خطاب میں انہوں نے مزیدکہا، ’سر سید احمد خان ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنی دو آنکھوں سے تعبیر کرتے تھے اور دونوں فرقوں کے درمیان اتحاد کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے وہ کہتے تھے کہ انہیںاپنی دونوں آنکھوں میں امتیاز کرنے کے بجائے ایک آنکھ والا ہوکر رہنا زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کو اس ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ اسی جذبے کی بدولت ہمیں دنیا میں امتیازی حیثیت حاصل ہوگی اور اسی سے حکومت برطانیہ کے کاموں میں بھی آسانی پیدا ہوگی۔ انہیںجذبات کے ساتھ ہم ہندو عوام ایک محمڈن یونیورسٹی کے قیام کی تجویز اور مہم کا خیر مقدم کرتے ہیں اور مجھے یہ دیکھ کر نہایت خوشی ہوئی ہے کہ آپ کے دلوں میں بھی بنارس میں قائم ہونے والے اس ادارے کے پلّہ ادارے کے تئیں اسی محبت اور یگانگت کے جذبات ہیں۔ آیئے، ہم سب ایشور پر یقین رکھتے ہوئے اپنے اداروں کے نصب العین کو پورا کرنے کے لیے کام کریں۔‘

مہاراجہ دربھنگہ رامیشور سنگھ یہیں نہیں رکے، بلکہ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا، ’یہ ہمارے عہد کے لیے خوشی کی بات ہے کہ ہندو اور مسلمان، دونوں نے طے کیا ہے کہ آنے والی نوجوان نسلوں کے لیے مغربی علوم اور مغربی طرز فکر کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ہی خود ان کے عقائد اور اصولوں کی تعلیم کا بھی انتظام کیا ہے جس کے لیے میں سمجھتا ہوں کہ مذہبی امتیازات پر مبنی یونیورسٹیوں کا قیام ضروری ہے۔ رہائشی کالجوں کی اسکیم پر مبنی ہندو اور محمڈن یونیورسٹیوں کے قیام کی تجویز کے پس پشت یہی مقصد کارفرما ہے۔ یہ یونیورسٹیاں طلبہ کے لیے نہ صرف علمی خوراک بہم کریں گی بلکہ ان کی جسمانی، اخلاقی اور فکری تربیت بھی ان کے نصاب کا حصہ ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مغربی تہذیب کی ہر اچھی اور سودمند بات کو اپنا لیں لیکن اس کے ساتھ ہی اپنی قدیم تہذیبی و ثقافتی روایات کو بحال کریں اور برقرار رکھیں جن کی وجہ سے ہماری تہذیب کو دنیا میں امتیازی مقام حاصل رہا ہے۔‘

انہوں نے اپنے خطاب کا خاتمہ کچھ اس طرح سے کیا، ’کہا جارہا ہے کہ مذہبی امتیازات پر مبنی یونیورسٹیوں کے قیام سے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا ہوگی اور ان کے روابط میں تلخی آجائے گی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ ہم دونوں کے مقاصد ایک ہیں یعنی ایشور کی عبادت، اقتدار اعلیٰ کی فرماں برداری، تعلیم کے مقاصد کا فروغ اور اس ملک کی مادی، صنعتی، تجارتی اور فکری ترقی جس میں کئی دیگر کمیونٹیز کا اشتراک ہے اور جہاں سب لوگ صدیوں سے ایک ساتھ مل کر رہتے آئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے ایشور کی عبادت کے راستے کو چھوڑا، اسے اس کی قیمت ادا کرنی پڑی اور دنیا کی مختلف قوموں کے درمیان اعلیٰ مقام سے اسے ہٹنا پڑا۔ ایک ایشور کے تصور سے ہی سب میں بندگی کا عنصر اور اس کے تمام بندوں کے اندر اتحاد پیدا ہوگا۔ ہم اپنے مالک کی اطاعت اسی طرح کرسکتے ہیں کہ ہم اپنے درمیان خیر سگالی اور مفاہمت کے جذبات کو فروغ دیں اور ایسی تمام باتوں کو نظرانداز کردیں جن سے ہمارے مشترکہ مقاصد میں خلل پڑتا ہے۔‘
***

دربھنگہ مہاراج سر رامیشور سنگھ ہندو مسلم اتحاد کے پیروکار تھےدربھنگہ مہاراج سر رامیشور سنگھ ہمیشہ سے ہندو مسلم اتحاد کے بڑے پیروکار رہے ہیں۔ جب سال 1928میں ملک میں حالات بگڑے تب دربھنگہ مہاراج سر رامیشور سنگھ نے 30 جون 1928 کو ایک پرچہ ہندی و اردو زبان میں چھپواکر اپنے پورے راج میں تقسیم کرایا۔ اس پرچے کا عنوان تھا: ’ہندو مسلمان بھائیوں میں باہمی اتفاق کی ضرورت : ضروری التماس‘
ہندو مسلمان بھائیوں میں باہمی اتفاق کی ضرورت
ضروری التماس یہ امر نہایت افسوسناک ہے کہ اس شہر میں مذہبی رنجش اور نفاق نے اس قسم کی ضرورت پیدا کی ہے۔ ہم ہندو اور مسلم بھائی مدت قدیم سے نہایت امن امان اور دوستانہ اتحاد سے باہمی محبت کے تعلقات پر قایم رہے ہیں۔ اور اس امر کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمارے ان دیرینہ مخلصانہ تعلقات میں رخنہ اندازی ہو۔ بوجہ چند ایسی ہستیوں کے جن کی غرض سوائے اس کے کوئی نہیں کہ ان دونوں فریق میں باہمی فساد کی چنگاری پیدا کریں۔اس لیے بغرض قائمی اتحاد برادرانہ باہمی یہ نہایت ضروری ہے کہ ہندو مسلم بھائیوں کے الگ الگ عالیشان عام جلسے منعقد کیے جارہے ہیں۔ جنہیں ایسی تجاویز پیش کیجاویں کہ جو اس امر کو مضبوط کریں کہ ہم ہر دو برادران میں باہمی معیت اور اتحاد کی ضرورت ہمیشہ سے ہے اور ایسے علحدہ علحدہ جلسوں کے بعد ایک متفقہ نہایت عالیشان جلسہ ہر دو فریق کی طرف سے ایک ہی جگہ میں منعقد کیا جاوے اور امن پسند تقریریں دونوں فریق کے امن پسند لیڈران کی طرف سے ہوں۔اگر اس قسم کے عام جلسہ ہر دو فریق کی طرف سے مل کر منعقد کئے جاویں تو ہمیں یقین ہے کہ باہمی امن و امان کامل طور پر قایم رہے گا جو ہر دو فریق کے لیے یکساں مفید اور مبارک ہوگا۔
دربھنگہ 30جون۔ 1928
سری رمیشور سنگھ ،مہاراج دھیراج دربھنگہ

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 تا 21 نومبر، 2020