داعیانہ تڑپ: ایمان کا لازمی تقاضا

خوشنودی رب کی خاطر انسانوں سے خیر خواہی، داعی کا اصل سرمایہ

ڈاکٹر ساجد عباسی،حیدرآباد

حدیث ١:- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ انبیاء میں سے ایک نبی کا واقعہ بیان فرما رہے تھے جنہیں ان کی قوم نے مارا، وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے: ’’ائے اللہ! میری قوم کو معاف کر دے، وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں
(مسلم 4646)
حدیث ٢:- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میری اور لوگوں کی مثال ایسے شخص کی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے چاروں طرف روشنی ہو گئی تو پروانے اس میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا انہیں اس میں سے نکالنے لگا لیکن وہ اس کے قابو میں نہیں آئے اور آگ میں گرتے رہے۔ اسی طرح میں تمہاری کمر کو پکڑ کر آگ میں گرنے سے تمہیں بچا رہا ہوں اور تم ہو کہ اسی میں گرتے جاتے ہو۔ (بخاری 6483)
ان دونوں حدیثوں میں داعی الی اللہ کا بنیادی وصف بتلایا گیا ہے جس کے بغیر ایک داعی اپنے دعوتی مشن میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور وہ ہے داعیانہ تڑپ۔ اگر ایک داعی کی تربیت کر کے اس کو ایک بہترین مقرر بنا دیا جائے اور مزید اس کے اندر communication skills پیدا ہو جائیں یہاں تک کہ وہ ایک اچھا motivational speaker بھی بن جائے لیکن اس کے اندر داعیانہ تڑپ نہ ہو تو وہ ایک کامیاب داعی نہیں بن سکتا۔ ایک داعی کی اگر کوئی رسمی طور پر تربیت نہ بھی ہوئی ہو لیکن اس کے اندر داعیانہ تڑپ والا بنیادی وصف موجود ہو تو وہ ایک دن کامیاب داعی بن جائے گا۔ دوسری صلاحیتیں دھیرے دھیرے اس کے اندر پیدا ہوتی چلی جائیں گی۔داعیانہ تڑپ سے مراد آگ میں جلتے ہوئے ایک آدمی کو بچانے کی ایک فطری تڑپ اور کوشش ہے۔ دنیاوی آگ تو ایک انسان کا چند منٹوں میں کام تمام کر دیتی ہے لیکن جہنم کی آگ ابدی ہے جہاں انسان نہ ہی جیے گا نہ مرے گا۔ وہاں انسانوں کی جلد بدلی جائے گی لیکن آگ کا عذاب کبھی ختم نہ ہو گا۔
انبیاء اور رسل ایسے مقام پر کھڑے ہو کر دعوت دیتے ہیں جہاں ایک طرف مدعو ہوتے ہیں اور دوسری جانب وہ اس آگ کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ اس آگ کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
أُولَـئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ فَمَآ أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لے لیا کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ (سورۃ البقرۃ ۱۷۵)
داعیانہ تڑپ رسولوں میں اس حد تک پائی جاتی تھی کہ وہ اس فکر سے بے نیاز ہو جاتے تھے کہ مدعو قوم خود ان کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے۔ مذکورہ بالا ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ایک نبی کی جو منظر کشی کی ہے جنہیں ان کی قوم کے لوگ دعوت حق کی پاداش میں مار رہے تھے جس کے نتیجے میں ان کے چہرے سے خون بہہ رہا تھا لیکن جو الفاظ ان کی زبان پر تھے وہ ایک نبی کی داعیانہ تڑپ اور پیغمبرانہ شان کو ظاہر کر رہے ہیں۔ وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور اللہ سے دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ! ان کو معاف کردے اس لیے کہ وہ اپنے نبی کو نہیں جانتے کہ وہ ان کا کتنا خیر خواہ ہے۔ ان کی اس حرکت پر ان پر عذاب نہ بھیج دے۔
اس حدیث میں ایک نبی کی جو فکر اور تڑپ ہے وہی داعی کا اصل سرمایہ ہے جو عدو کو بھی مدعو سمجھ کر عین اس حالت میں بھی دعوت دیتا ہے جب وہ اس کی جان کے در پے ہوتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ جب طائف تشریف لے گئے تھے تب وہاں کے سرداروں نے آپ کا مذاق اڑایا اور اوباشوں کے ٹولی نے آپ کا پیچھا کیا اور آپ پر پتھر پھینکے جس سے آپ لہو لہان ہو گئے۔ اس موقع پر جبریل علیہ السلام تشریف لائے جن کے ساتھ پہاڑوں کا فرشتہ بھی تھا، اس نے گزارش کی کہ آپؐ حکم دیں تو وہ اہل طائف کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل ڈالے۔ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرے گی۔
اس واقعہ میں بھی ہم کو شروع سے آخر حد تک داعیانہ تڑپ نظر آتی ہے جس کو لے کر آپؐ نے طائف کا سفر کیا اور پتھر مارنے والوں سے بھی حسن ظن رکھا کہ اگر یہ نہیں تو ان کی اولادیں ایمان لائیں گی۔
یہ ہے داعی کا اصل سرمایہ اور زادِ راہ۔ یہ ہے انسانوں کے ساتھ اصل خیر خواہی۔ اس لیے ہر رسول نے آکر اپنا تعارف ناصح امین خیر خواہ اور امانت دار کے طور پر کروایا:
أُبَلِّغُكُمْ رِسَالاَتِ رَبِّي وَأَنصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ۔ تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں ہے۔
(سورۃ الاعراف ۶۲)
أُبَلِّغُكُمْ رِسَالاتِ رَبِّي وَأَنَاْ لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ ۔تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ (سورۃ الاعراف ۶۸)
نبی ایک طرف یہ جانتے ہیں کہ مدعو قوم کی سرکشی ان کو آخرت کے عذاب کا مستحق بنا رہی ہے گویا وہ اپنی بصیرت کی نگاہ سے ان کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان کی خیر خواہی میں وہ پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی قوم اس روش سے باز آجائیں اور حق کو مان لے۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خود اپنی داعیانہ تڑپ کو تمثیل کے انداز میں پیش فرمایا ہے۔ جس طرح شمع کے اطراف گردش کرنے والے پروانے شمع میں کود کر خود کو ہلاک کر رہے ہیں اسی طرح دنیا میں انسان اپنے انجام سے بے خبر ہو کر اپنے آپ کو اپنی غفلت، لاپروائی، تعصب، استکبار اور ہٹ دھرمی سے حق کا انکار کر رہے ہیں اور جہنم کے مستحق بن رہے ہیں اور رسول ہیں کہ بے تکان ان کو اس روش سے باز رہنے کی دعوت دے رہے ہیں اور حق کو ماننے پر ابھار رہے ہیں تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بننے پائیں۔
سورۃ یٰس میں ایک مرد مومن کا ذکر ہے جو دور سے چل کر آتا ہے اور رسولوں کی تائید میں داعیانہ تڑپ کے ساتھ ایک دعوتی تقریر کرتا ہے۔ اپنی قوم کو رسولوں کی اتباع پر ابھارتا ہے۔ اس حق گوئی کی پاداش میں اس کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد بھی اس کی خیر خواہی کا یہ عالم ہے
کہ وہ کہتا ہے:
(قَالَ يَا لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ) اُس نے کہا ’’کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے با عزت لوگوں میں داخل فرمایا۔‘‘(سورۃ یٰس ۲۶، ۲۷)
رسول اللہ ﷺ کی یہی خیر خواہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا:
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ۔اچھا، تو اے محمدؐ ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اِس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔ (سورۃ الکہف۶)
اور سورۃ توبہ میں ارشاد الہی ہے:
لَقَدْ جَاءكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
دیکھو! تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری فلاح کا وہ حریص ہے، ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔ (سورۃ التوبہ ۱۲۸)
اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی داعیانہ تڑپ کو پیش کیا گیا ہے۔ عام انسانوں کے لیے دو صفات پیش کی گئی ہیں۔ انسانوں کا اخروی نقصان میں پڑنا اس پر شاق گزرتا ہے اور وہ تمام انسانوں کی فلاح کا حریص ہے۔اور اہل ایمان کے لیے آپ کی دو صفات بیان کی گئی ہیں کہ آپ مومنین کے حق میں شفیق اور رحیم ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں ہمیں وہ حدیث سمجھ میں آسکتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کی جان، اس کی اولاد اور اس کے والدین سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
رسول اللہ ﷺ سے اتنی محبت کیوں کی جائے؟ اس لیے کہ آپ جتنے ہمارے بارے میں اس بات کے حریص ہیں کہ ہم جہنم سے بچ جائیں اور جنت کے مستحق بنیں اتنے ہم خود اپنے آپ کو جہنم سے بچانے کے معاملے میں حریص نہیں ہیں۔ ہم خود کے اتنے خیر خواہ نہیں ہیں جتنے آپؐ ہمارے خیر خواہ ہیں۔
جب ہم مسلم قوم کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ ہم داعیانہ فکر اور تڑپ سے خالی ہیں۔ ہماری فکر قومی فکر بن چکی ہے۔ ہم نے مشن بردار امّت ہونے کا تصور کھو دیا ہے اور ہم قومی سوچ رکھنے والے بن گئے ہیں۔ جس طرح ایک ہندو مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کا شکار ہو کر ان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے تو مسلمان بھی ردّ عمل میں ان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ پیغمبرانہ سوچ یہ ہے کہ دشمن کو بھی مدعو سمجھ کر دعوت الی اللہ کا کام جاری رکھا جائے۔ یہ سوچ جب مفقود ہوتی ہے تو لازماً قومی نفسیات کے تحت ہم بھی ان کو دشمن سمجھ کر ان سے دوری اختیار کرنے لگتے ہیں ۔اس نفسیات کے ساتھ تو ایک مسلمان کبھی داعی بن ہی نہیں سکتا۔ داعیانہ سوچ مدعو کے اخروی انجام کو سامنے رکھ کر اس سے ہمدردی کرنے کا نام ہے جو انتہائی عالی ظرفی کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ داعیانہ سوچ اسی وقت پیدا ہوگی جب ہم قومی سوچ سے اوپر اٹھ کر رسولوں کی سوچ پیدا کریں گے۔ قومی سوچ اور داعیانہ سوچ میں بہت بڑا فرق ہے۔قومی سوچ انسان کو اپنی جان، مال، عزت وآبرو، ثقافت، تہذیب، زبان، پرسنل لا، مساجدو مدارس کی حفاظت اور ان کے دفاع میں لگا دیتی ہے۔ اس سوچ سے انکار نہیں ہے لیکن ہر دم ایک دفاعی سوچ اگر غالب ہو تو داعیانہ سوچ پیدا نہیں ہو سکتی۔ داعیانہ سوچ کو ہمیشہ قومی سوچ پر غالب ربنا چاہیے۔ قومی سوچ ہر آن انسان کو حقوق کی حفاظت اور ان کی مانگ کے بارے میں مصروف رکھتی ہے۔ قومی سوچ میں انسان کے پاس دینے کےلیے کچھ نہیں ہوتا اور اس پر ہمیشہ لینے کی دھن سوار رہتی ہے جبکہ داعی ہمیشہ لینے سے زیادہ دینے کی سوچ رکھتا ہے۔ ہر دم اس کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کے پاس دینے کے لیے بہت کچھ ہے جس سے انسانوں کے دنیا کے مسائل بھی حل ہوں گے اور وہ اخروی عذاب سے بھی بچ جائیں گے۔ وہ بھی رسولوں کی طرح یہ کہے گا: وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ
قومی سوچ میں کوئی نظریہ موجود نہیں ہوتا جبکہ داعیانہ سوچ اسلامی نظریہ کی حامل ہوتی ہے اور تمام تر توجہ خود ساختہ نظریات کو باطل ثابت کرنے میں لگ جاتی ہے۔ خالقِ کائنات کا دیا ہوا نظریہ ہی حقیقت پر مبنی ہو سکتا ہے جو دلائل کی بنیاد پر اپنا لوہا منوا سکتا ہے جس میں دنیا و آخرت کی فوزو فلاح ہے۔ ایک داعی کامل اعتماد کے ساتھ خیر خواہانہ جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے مقصد کے حصول میں لگ جاتا ہے۔اسلام کی سچائی کو پیش کرنا ہی اس کا مقصدِ وجود بن جاتا ہے۔ یہی مقصد ایک مسلمان کو قوم سے اٹھا کر امّت بنا دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قوم نہیں بلکہ امّت وسط اور خیر امّت کے خوبصورت القاب سے نوازا ہے اور بہت بھاری ذمہ داری اس امت پر ڈالی ہے اور وہ ذمہ داری دعوت الی اللہ، شہادت علی الناس اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ہے۔
دعوائے ایمان ہو تو عمل صالح اس کا لازمی منطقی نتیجہ ہے جیسے زمین میں بیج بویا جائے تو اس میں سے پودا اگے گا۔ اگر ایمان و عمل صالح کے بعد دعوت الی اللہ نہ ہو تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں، یا تو ہمارا ایمان کمزور ہے کہ ہم کو یہ یقینِ صادق نہیں ہے آخرت ہونی ہے جہاں جنت ہو گی اور جہنم بھی۔ جب یہ یقین ہو گا کہ جہنم ہو گی جو اللہ کے نافرمان بندوں کی ابدی قیام گاہ ہے جو بدترین سزا کا مقام ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے اندر اتنی انسانی ہمدردی ہونی چاہیے کہ ہم بندگان خدا کو جو ہمارے آس پاس ربط میں ہوں ان کو خبردار کریں اور ڈرائیں۔ ہمیں آخرت کا یقین بھی ہو اور ہم غیر مسلموں کی آخرت کے بارے میں فکر مند بھی نہ ہوں تو یہ انتہائی درجہ کی خود غرضی ہوگی۔ایسی خود غرضی کو ظالمانہ خود غرضی ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ دونوں وجوہات غیر منطقی ہیں۔ ایمان و عمل صالح کا لازمی منطقی نتیجہ دعوت وابلاغ ہے۔ دعوت الی اللہ ایمان بالآخرت کا بھی تقاضا ہے اور انسانیت سے ہمدردی کا بھی تقاضا ہے۔

 

***

 ایمان و عمل صالح کا لازمی منطقی نتیجہ دعوت وابلاغ ہے۔ دعوت الی اللہ ایمان بالآخرت کا بھی تقاضا ہے اور انسانیت سے ہمدردی کا بھی تقاضا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022