’ڈائیلاگ تو دشمن سے بھی ہوتے ہیں ‘
موہن بھاگوت سے ملاقات کے تناظر میں ایس وائی قریشی کا انٹرویو
سید تنویر احمد
سوال: سب سے پہلے ہم آپ سے یہ سننا چاہیں گے کہ موہن بھاگوت سے ملاقات پر آپ کی اور آپ کے دوستوں کی ٹیم پر جو تنقیدیں ہو رہی ہیں ان کی حقیقت کیا ہے؟
جواب: آپ نے صحیح فرمایا کہ میری اور میرے دوستوں کی موہن بھاگوت سے ملاقات کے بعد تنقید ضرور ہوئی لیکن سماج کے کچھ طبقات کی جانب سے تائید اور تعریف بھی ہوئی ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے تنقید کے مقابلے میں تائید اور تعریف کا تناسب زیادہ ہے۔ تعریف 85 فیصد ہے تو تنقید 15 فیصد ہے۔
سوال: آپ نے موجودہ اور نامساعد حالات میں آر ایس ایس کے چیف سے ملاقات کرنا ضروری کیوں سمجھا اور ان حالات میں گفتگو یا مکالمے کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟
جواب: تنقید سے قطع نظر میں اس ضمن میں اتنا ہی کہوں گا کہ ڈائیلاگ تو سب سے اچھی چیز ہے، دشمن سے بھی ڈائیلاگ ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں ایک کرنل صاحب کا انٹرویو سن رہا تھا۔ انہوں نے کہا ’دوران جنگ بھی دشمن سے کمیونیکیشن مذاکرات کے دروازے کھلے رہتے ہیں‘۔
سوال: موہن بھاگوت سے آپ کی ملاقات پر جن لوگوں نے تنقید کی تھی وہ کون لوگ ہیں اور سماج کے کس طبقے سے ان کا تعلق ہے۔
جواب: جن لوگوں نے اس ملاقات پر تنقید کی وہ وہی لوگ تھے جن کا کہنا تھا کہ آر ایس ایس پچھلے 98 سالوں سے مسلم دشمنی کے گھوڑے پر سوار ہو کر جس راہ پر گامزن ہے اس کے سربراہ سے ملاقات، گفتگو یا مکالمہ سے کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ ان کے خیال میں آر ایس ایس کے نظریات اور خیالات بدلنے والے نہیں ہیں۔
سوال: کیا آپ چار پانچ لوگوں کے کچھ دیر ملاقات کر لینے سے وہ لوگ بدل جائیں گے؟
جواب: شاید ہو سکتا ہو۔ کیونکہ اس کا متبادل بھی تو کوئی نہیں ہے۔ ہر طرف عدم تحفظ کا ماحول ہے۔ ہم گھر میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور اپنی چھاتی پیٹتے رہیں یا یہ کر سکتے ہیں کہ لاٹھی بندوق لے کر سڑکوں پر نکل آئیں، پانچ منٹ میں بھون دیے جائیں گے۔ متبادل بھی بے کار ہے، تو ایسی صورت میں بات کرنے میں کیا حرج ہے؟
سوال: آپ پانچ لوگوں کی ٹیم کو کمیونٹی کی نمائندگی کا حق یا اختیار کس نے دیا ہے؟
جواب: میرے اور میری ٹیم کے بارے میں جن لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کمیونٹی نے نمائندگی کا اختیار کس جماعت اور کس پارٹی یا کس گروہ کو دیا ہے؟ ہم لوگ آر ایس ایس کے سربراہ سے ملنے کے لیے کمیونٹی کے نمائندوں کی حیثیت سے نہیں گئے تھے بلکہ اس لیے گئے تھے کہ ہم بھی کمیونٹی کا ایک حصہ ہیں اور کمیونٹی جن حالات سے گزر رہی ہے اس کے بارے میں ہم فکر مند ہیں۔ چلیے ہماری ملاقات اور گفتگو سے کوئی فائدہ نہ سہی مگر نقصان بھی تو نہیں ہے۔ ففٹی ففٹی بھی اگر فائدہ ہو جائے تو یہ چانس لینے میں کیا حرج ہے۔ ہماری ٹیم پانچ دوستوں پر مشتمل ہے جو مختلف بیگ گراونڈ سے تعلق رکھتے ہیں ہم کمیونٹی کی طرح ہی فکر مند ہیں اس لیے ہم وہاں اپنی فکر ظاہر کرنے کے لیے گئے۔
سوال: کیا آپ تفصیل سے بتانا پسند کریں گے کہ بھاگوت جی سے آپ کی اور آپ کی ٹیم سے کیا باتیں ہوئیں؟
جواب: ہم نے موہن بھاگوت سے کہا کہ مسلم کمیونٹی خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ کیا یہ قوم کے خلاف بات ہو گئی؟ اور یہ کمیونٹی کی نمائندگی کی بات تو میری سمجھ سے باہر ہے۔ قوم کا ہر فرد قوم کے فائدے کی بات کر سکتا ہے۔ ہم نے موہن بھاگوت کو یہ بھی بتایا کہ ہماری قوم تشویش اور کرب سے گزر رہی ہے، ماب لنچنگ کا عذاب جھیل رہی ہے، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے ختم ہو گا؟ ہمیں اس کا کوئی حل نکالنا ہو گا۔ انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ ہاں یہ غلط ہے۔
سوال: قریشی صاحب آپ نے آپ کی ٹیم نے تو موہن بھاگوت سے ملاقات کر کے کافی سرخیاں بٹور لیں۔ کیا آپ مزید کچھ کریں گے یا یہ آپ کا ون پوائنٹ ایجنڈا تھا۔ اب آگے آپ کا کیا پروگرام ہے؟
جواب: آپ نے دونوں بہت اچھے سوال کیے۔ آپ نے کہا کہ ہم نے سرخیاں بٹورلیں یہ ایک تکلیف دہ اور قابل اعتراض جملہ ہے۔ ہم سرخیاں بٹورنے کے لیے بالکل نہیں گئے تھے۔ اگر وہی ہمارا مقصد ہوتا تو ہم تیس دنوں تک خاموش نہیں رہتے۔ موہن بھاگوت سے ملاقات کے فوراً بعد پریس کانفرنس کرتے، کیمرے کے سامنے آتے، خبروں میں ہوتے۔ ہماری یہ میٹنگ کوئی خفیہ میٹنگ نہیں تھی اور ہم نے جانے سے پہلے ڈھنڈورا بھی نہیں پیٹا کیونکہ میڈیا کچھ کا کچھ بنا دیتا۔ اس لیے ہم میڈیا سے دور رہے۔ تیس دنوں کے بعد میڈیا کو بھنک لگ گئی، پھرلائن لگ گئی۔ ہماری ٹیم میں شامل الگ الگ بیک گراونڈ سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ پوچھنے اور جاننے کے لیے گئے تھے کہ آخر اس کا حل کیا ہے۔ آخر یہ کب تک چلتا رہے گا؟
سوال: کس چیز نے آپ کو موہن بھاگوت سے ملاقات پر آمادہ کیا اور مجموعی طور پر ملاقات کیسی رہی؟
جواب: مسلمانوں پر ماب لنچنگ کے واقعات ہندوتوا لیڈروں کی طرف سے مسلمانوں کی نسل کشی کے اعلانات اور تقریباً ہر شعبے میں مسلمانوں کو حاشیے پر رکھنے کے واقعات نے ہمیں ملاقات پر آمادہ کیا۔ موہن بھاگوت سے ملاقات کے بارے میں عرض کرنا یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کے دفتر کی سادگی نے ہمیں متاثر کیا پھر وقت کی پابندی نے۔ صبح ٹھیک دس بجے وہ میٹنگ کے لیے تیار تھے۔ بات چیت کے دوران انہوں نے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے ہم سب کو ایک بار بھی بغیر کسی مداخلت کے پوری توجہ سے سنا اور کہا کہ ہندو توا ایک جامع تصور ہے جس میں تمام سماجی طبقات کے لیے برابری کی گنجائش ہے۔ انہوں نے اس خوف کو دور کرنے کی کوشش کی کہ آر ایس ایس موقع ملتے ہی آئین کو کالعدم قرار دے گی اور یہ کہ مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے گا۔
سوال: کیا آپ اور آپ کی ٹیم کے ذریعہ مکالے کا سلسلہ جاری رہے یا آپ کا ون پوائنٹ ایجنڈا یہیں پر ختم ہو جائے گا؟
جواب: جب ہم نے موہن بھاگوت سے مکالمے کا سلسلہ جاری رکھنے کی بات کہی تو انہوں نے ہماری بات کی تائید کی۔ ہمارے پوچھنے پر اپنے چار افراد کے نام بتائے اور ضرورت کے وقت رضاکارانہ طور پر اپنے دستیاب ہونے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ میں نے اس موقع پر دوستوں کی پیشگی رضا مندی سے موہن بھاگوت کو اپنی کتاب The Population Myth: Islam, Family Planning and Politics in India پیش کی ساتھ ہی ملک میں مسلم آبادی سے متعلق چار پہلووں کو واضح کرنے کی کوشش کی۔
***
***
ہماری یہ میٹنگ کوئی سیکرٹ میٹنگ نہیں تھی اور ہم نے جانے سے پہلے ڈھنڈورا بھی نہیں پیٹا کیونکہ میڈیا کچھ کا کچھ بنادیتا ہے۔ اس لیے ہم میڈیا سے دور رہے۔ 30دنوں کے بعد میڈیا کو بھنک لگ گئی ، پھر لائن لگ گئی۔ ہماری ٹیم کے شامل الگ الگ بیک گراونڈ سے تعلق رکھنے والے لوگ یہ پوچھنے اور جاننے کے لیے گئے تھے کہ آخر اس کا حل کیا ہے۔ آخر یہ کب تک چلتا رہے گا۔ ہمیں سرخیاں بٹورنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 30 اکتوبر تا 05 نومبر 2022