ام غانم
پیرزادہ محمد لطیف ایک نوجوان داعی ہیں جو ایک انٹرنیشنل دعوی تنظیم’ آسک اے مسلم‘ Ask A Muslim کے ساتھ بطور رضاکار کام کر رہے ہیں۔ محض اکیس سال کی عمر میں وہ کام کر رہے ہیں جو بڑے بڑے لوگ نہیں کر پاتے۔ آئیے انہی کی زبانی ان کے بارے میں جانتے ہیں۔
1: اپنے بارے میں کچھ بتائیے؟
پیرزادہ: میرا تعلق ایک باعمل مسلمان گھرانے سے ہے۔میرے والد پیرزادہ جاوید اقبال نے علی گڑھ یونیورسٹی سے عربی میں ماسٹرز کیا پھر کشمیری علماء سے فقہ، حدیث اور دیگر علوم سیکھے۔میرے والد چونکہ عالم دین ہیں یہی وجہ ہے کہ میرا اسلام سے تعلق بے حد مضبوط ہے۔میں چاہتا تھا کہ دین کا علم سیکھوں اور پھر جہاں تک ممکن ہو دوسروں تک بھی پہنچاوں۔میں اگریکلچر میں بیچلرز کر رہا ہوں۔
2: آپ نے کب اور کیسے دعوت دین کا کام شروع کیا؟
پیرزادہ: دیگر مسلمانوں کی طرح میں بھی صرف اس لیے مسلمان تھا کیونکہ میں ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔سولہ سال کی عمر میں جب میں دوسرے مذاہب اور فرقوں کے لوگوں سے ملا تو میں نے سوچا کہ اگر میں کسی اور خاندان میں پیدا ہوا ہوتا تو کیا میں مسلمان ہوتا یا اندھا دھند خاندان کی تقلید کرتا؟ کیونکہ جیسے ہم مسلمان اسلام کو دین برحق سمجھتے ہیں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اپنے اپنے مذاہب کو درست سمجھتے ہیں۔لہٰذا میں نے سوچا کہ اصل حق کو جانوں اور کیا اسلام ہی حق ہے۔اگر ہے تو پھر اس کی سچائی کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے، چنانچہ میں نے دوسرے مذاہب کا مطالعہ شروع کر دیا بالآخر میں نے اسلام کو ہی قابل تقلیدپایا۔ جب میں بہت ہی بنیادی سوالات پوچھتا تو دوسرے مذاہب ڈھیر ہو جاتے تھے:” زندگی کا کیا مقصد ہے؟” میں یہاں کیوں ہوں؟” "میرا انجام کیا ہو گا؟” وغیرہ۔ اور صرف اسلام ہی وہ دین تھا جس کے پاس ان سوالات کے جوابات تھے۔
3: دعوت دین کے اس سفر پر آپ کس سے متاثر ہیں اور کون اس کا محرک تھا؟
پیرزادہ: شیخ احمد دیدات رحمتہ اللہ علیہ اور ڈاکٹر ذاکر نائیک
4: آپ کے خیال میں ایک مسلمان کیسے بہتر داعی بن سکتا ہے؟
پیرزادہ: ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ صابر ہو اور دعوت دین کے طریقوں سے واقف ہو۔اس کے علاوہ اسے دین کا علم ہو اور وہ اس علم کو سیکھنے کا عمل جاری رکھے۔
5: جب آپ کسی کو دعوت دین دے رہے ہوتے ہیں تو آپ کون سی تکنیک استعمال کرتے ہیں؟
پیرزادہ: یہ اس بات پہ منحصر ہے کہ میرا مخاطب شخص کیسا ہے۔وہ ایک ملحد ہے یا دہریہ ہے؟ اگر تو وہ ملحد ہے تو میں پہلے اللہ تعالٰی کے وجود کو ثابت کروں گا اس کے بعد باقی چیزوں پہ بات کروں گا۔اور اگر کوئی پہلے سے ہی کسی برتر طاقت پہ یقین رکھتا ہے تو پھر ہمیں صرف اس کے اللہ تعالٰی کے متعلق نظریے کو درست کرنا ہے۔ اگر وہ کوئی ہندو ہے تو میں کتب کے حوالوں کے ساتھ اسے یہ احساس دلاوں گا کہ عقلی طور پر شرک کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور اگر وہ کوئی عیسائی ہے تو میں اس سے پوچھوں گا:” کیا عیسی علیہ السلام خدا ہیں؟” کیا وہ خدا کے بیٹے ہیں؟” کیا انجیل اپنی اصل صورت میں محفوظ ہے؟” کیا گناہ اولین کا کوئی وجود ہے؟” کیا عیسی علیہ السلام مصلوب کیے گئے تھے؟” کیا عیسی علیہ السلام مرنے کے بعد زندہ ہو گئے تھے؟”
یہ وہ اہم عناصر ہیں جن سے میں آغاز کرتا ہوں کیونکہ تقریبا ہر عیسائی ان کا جواب اثبات میں ہی دیتا ہے۔جب میں ایک چیز ثابت کر لیتا ہوں تو دوسری پر بات کرتا ہوں الا یہ کہ اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو اور پھر میں نبی ﷺ کی نبوت کے دلائل پیش کرتا ہوں۔ تاہم آپ کا سامنا کئی ایسے لوگوں سے بھی ہو سکتا ہے جو ان تمام نظریات کو نہیں مانتے، اگر وہ آپ سے متفق ہوں تو آپ کو ہر چیز ثابت کرنے میں وقت ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ دوسری طرف کئی ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو حق کو تسلیم نہیں کریں گے۔صبر کیجیے اور نرمی اختیار کیجیے اور پانسہ پلٹ دیں.مثلا اگر وہ اسلام سے متعلق کسی چیز کے بارے سوال کریں تو پہلے انہیں ان کے دین میں ویسی ہی چیز دکھائیے پھر اپنا نقطہ نظر واضح کیجیے۔ یہ سب اس بات پہ منحصر ہے کہ آپ کا مخاطب کون ہے اور حالات کیا ہیں۔ان سے کیسے نمٹنا ہے اور کب موضوع کو تبدیل کرنا ہے اور کب اگلا قدم اٹھانا ہے سب تجربے کے ساتھ آتا ہے۔
6: دنیا میں اسلام کو ناپسند کیا جاتا ہے۔آپ کے خیال میں اس کی کیا وجہ ہے؟اور اس صورتحال کو بدلنے کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟
پیرزادہ: اسلام کے لیے متعصب لوگ اور میڈیا ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اسلام کا برا تاثر قائم کرے اور اسے بدنام کرے۔ نتیجتا لوگوں میں اسلام کا تاثر برا ہی ہے۔ اسے صرف ایک طریقے سے ہی بدلا جاسکتا ہے کہ دعوت دین دی جائے۔انہیں اسلام کے متعلق بتایا جائے، مہذبانہ مباحثے ہوں، انہیں اصل اسلام سے روشناس کروایا جائے۔
7: آپ دوسرے داعیان کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گے ؟
پیرزادہ: بہترین انداز میں گفتگو میں مشغول رکھنے کا ہنر سیکھیے۔اسلام کے بارے میں جتنازیادہ ممکن ہو سیکھیے۔اگر ممکن ہو تو عربی زبان سیکھیے کیونکہ یہ غیر مسلموں کے اکثر اعتراضات کا رد کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔متحمل مزاج رہیے صبر کیجئے۔غیر مسلم اسلام قبول کرنے میں کچھ وقت لے گا حتی کہ کچھ کو سالوں لگ جاتے ہیں۔اگر آپ کا شیڈول سخت ہے تو یہ جانیے کہ غیر مسلموں کے عموما پوچھے جانے والے سوالات کا رد کیسے کیا جائے۔
ہمیشہ دوسروں سے سبق حاصل کیجیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون ہے۔پہلے تصورات کوخود اچھی طرح سجھیے تبھی آپ انہیں موثر انداز میں دوسروں کو بتانے کے قابل ہوں گے۔دوسروں کی تذلیل یا تحقیر کی کوشش مت کیجیے ہی ان کے عقائد پہ حملہ کیجیے کیونکہ اگر آپ ایسا کریں گے تو دوسرا شخص آپ کے ساتھ گفتگو میں دلچسپی نہیں لے گا۔
***
ہمیشہ دوسروں سے سبق حاصل کیجیے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون ہے۔پہلے تصورات کوخود اچھی طرح سجھیے تبھی آپ انہیں موثر انداز میں دوسروں کو بتانے کے قابل ہوں گے۔دوسروں کی تذلیل یا تحقیر کی کوشش مت کیجیے ہی ان کے عقائد پہ حملہ کیجیے کیونکہ اگر آپ ایسا کریں گے تو دوسرا شخص آپ کے ساتھ گفتگو میں دلچسپی نہیں لے گا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 04 ستمبر تا 10 ستمبر 2022