سی ایس ڈی ایس لوک نیتی جائزے کا معروضی جائزہ
رام مندر، وشو گرو، ہندتوا اور دفعہ 370پر بے روزگاری، مہنگائی اور بد عنوانی جیسے مسائل کو ترجیح
ڈاکٹر سلیم خان
بھارت کی اکثریت فسطائی طاقتوں سے نالاں اور تبدیلی کی خواہاں ہے
سی ایس ڈی ایس؍ لوک نیتی ایک مؤقر ادارہ ہے۔ اس کے ذریعہ آئندہ قومی انتخاب سے قبل ایک تفصیلی سروے کرکے عوام کا رجحان جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کو دیکھ کر بے ساختہ 55 سال پرانی فلم دور استے کا ایک نغمہ یاد آگیا۔ آنند بخشی کے خواب و خیال میں نہیں تھا ہوگا کہ یہ رومانی نغمہ ملک کے سیاسی حالات پر اس طرح منطبق ہو جائے گا۔ وہ گانا اس طرح شروع ہوتا ہے’چھپ گئے سارے نظارے اوئے کیا بات ہوگئی؟‘ مودی جی رائے دہندگان کو رام مندر، وشو گرو، ہندتوا اور دفعہ 370 کے نظارے دکھا کر ان کا ووٹ لینا چاہتے ہیں لیکن ناظرین یعنی رائے دہندگان کے نزدیک رام مندر چوتھی پائیدان پر ہے جس میں صرف 8 فیصد عوام کو دلچسپی ہے۔ وشو گرو یعنی عالمی قدر و قیمت اور ہندتوا سب سے نچلی پائیدان پر ہے یعنی 2 فیصد سے زیادہ لوگوں کو اس میں دلچسپی نہیں ہے اور دفعہ 370 تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ایسے میں فلمی نغمہ کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:
تو نے کاجل لگایا دن میں رات ہوگئی
تیری زلفیں لہرائیں برسات ہوگئی
وزیر اعظم چاہتے تھے کہ وہ عوام کی آنکھوں میں کاجل لگا کر دن کو رات کردیں۔ ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر وہ سب دکھائیں جن کی کوئی معنویت ہی نہیں ہے۔ اپنی زلفیں لہرا کر وعدوں کی برسات کر دیں اور عوام جھانسے میں آکر ان پر ووٹ برسا دیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عوام نے تو وہ کر دیا کہ جس کا ذکر مذکورہ نغمے کے آخری مصرع میں ہے اور اب مودی جی کہنے پر مجبور ہیں کہ ’جس کا ڈر تھا بے دردی وہی بات ہوگئی‘ یعنی عوام نے بے روزگاری کو اپنا سب سے اہم مسئلہ بتا دیا، اور کیوں نہ بتائیں؟ بے روزگاری کی شرح جب پچھلے 40 سالوں میں سب سے زیادہ ہو گئی ہو اور 83 فیصد نوجوانوں کو ایسا محسوس ہوتا ہو کہ انہیں مناسب ملازمت میسر نہیں ہے تو سب سے اہم سوال اس کے علاوہ کون سا ہوسکتا ہے؟ دوسرے نمبر پر مہنگائی کا معاملہ ہے۔ سروے کے مطابق اس سے نہ صرف غریب بلکہ متوسط طبقہ بھی پریشان ہے۔ ایسے میں اگر عوام دوسرے نمبر پر اسے رکھیں تو اس میں کیا غلط ہے؟ فی الحال تو لوگ نعرہ لگا رہے ہیں ’بہت ہوئی مہنگائی کی مار، اب کی بار مودی سرکار تڑی پار‘۔
مودی اور ان کے پریوار کی زبان ان دونوں مسائل پر گنگ ہے۔ وہ نہ تو اس کا ذکر کرتے ہیں اور نہ کوئی دلاسہ دیتے ہیں۔ اس کے بجائے ان مسائل سے توجہ ہٹانے کی خاطر رام مندر اور ہندو مسلمان کا کارڈ کھیلتے ہیں جس سے عوام اوب چکے ہیں۔ فی الحال اپوزیشن بے روزگاری اور مہنگائی پر بات کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ تیجسوی یادو سے لے کر راہل گاندھی تک اور اکھلیش یادو سے لے کر اسٹالن تک سبھی کے جلسوں میں عوام کا سیلاب امڈ پڑتا ہے۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے بعد تیسرے نمبر پر ترقی کو13 فیصد عوام اہمیت دیتے ہیں لیکن ترقی کا فائدہ کسے ہو رہا ہے، اس پر اختلاف ہے۔ اس معاملے میں 15 فیصد تو ترقی کے بالکلیہ منکر ہیں۔ رائے دہندگان میں 48 فیصد کا خیال ہے کہ یہ ترقی سب کے لیے ہوئی ہے۔ 2019 کے مقابلے یہ شرح 3 فیصد کم ہے۔ 36 فیصد کی رائے ہے کہ موجودہ ترقی سے صرف امیر طبقہ فیض یاب ہو رہا۔ اس تعداد میں پچھلے 5 سال میں 8 فیصد کا اضافہ ہوا ہے یعنی ’ہم دو ہمارے دو یا سوٹ بوٹ والی سرکار‘ کا نعرہ کارگر ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے میں مودی کا ترقی یافتہ بھارت والا نعرہ 51 فیصد لوگوں کے لیے بے وقت کی راگنی بن جاتا ہے۔
مودی اپنے ای ڈی اور سی بی آئی کے بے دریغ استعمال کو بد عنوانی کے خاتمہ سے جواز فراہم کرتے ہیں لیکن سچائی تو یہ ہے کہ الیکٹورل بانڈ کے نام پر مچائی جانے والی لوٹ مار کے سبب رائے دہندگان نے اسے چوتھے نمبر پر رکھا ہے۔ 2019 سے اس کا موازنہ کریں تو اس وقت رافیل گھوٹالے کے باوجود 37 فیصد لوگ یہ سوچتے تھے کہ بدعنوانی کم ہوئی ہے جبکہ فی الحال ایسا سوچنے والے صرف 19 فیصد بچے ہیں اس کے برعکس یہ کہنے والے کہ پہلے جیسی ہے 14 فیصد سے بڑھ کر 19 فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ 55 فیصد لوگوں کی رائے ہے کہ بدعنوانی میں اضافہ ہوا ہے جبکہ پانچ سال قبل ایسا سوچنے والے صرف 40 فیصد لوگ تھے۔ بدعنوانی کے باب میں یہ مودی سرکار کا ان کے رپورٹ کارڈ میں غیر معمولی اضافہ ہے اور کیوں نہ ہو؟ بی جے پی اگر کھلے عام دنیا بھر کے بدعنوان لوگوں کو اپنی واشنگ مشین میں دھو دھلا کر کلین چٹ دینے لگے تو ظاہر ہے کہ بدعنوانی میں اضافہ ہی ہوگا اور لوگ اس کو محسوس بھی کریں گے۔
سی ایس ڈی ایس کے جائزے میں چوتھے پائیدان پر بدعنوانی کے ساتھ رام مندر ہے۔ یہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ’جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے‘ والا نغمہ فلاپ ہوچکا ہے۔ رام مندر کے برابر میں بدعنوانی کی اہمیت اس لیے ہے کیونکہ رام مندر ٹرسٹ کے سکریٹری چمپت رائے سمیت کنول والوں کو رام مندر کی تعمیر کے اندر گھپلے بازی میں ملوث پایا گیا ہے۔ اسی لیے چمپت رائے نے مودی کو وشنو کا اوتار کہہ کر اپنی جان بچائی۔ رام مندر کی اہمیت بڑھانے کے لیے وزیر اعظم رام نومی کا سہارا لے رہے ہیں لیکن اب اس باسی کڑھی میں ابال آنا مشکل ہے۔ ایسا لگتا ہے ہندو دھرم گرو شنکر اچاریہ کی بد دعا نے نام نہاد وشوگرو کو اس ووٹوں کے انڈے دینے والی مرغی سے محروم کر دیا ہے۔ مودی کی دوسری مدتِ کار میں کسانوں کے احتجاج کو بدنام کرنے کے لیے گودی میڈیا نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ کسان مظاہرین کو خالصتانی دہشت گرد کے خطاب سے نوازا گیا اور اس تحریک کو ملک دشمن عناصر کی سازش قرار دیا گیا۔ مگر جائزہ بتاتا ہے کہ ملک کے59 فیصد لوگ کسانوں کی تحریک کو جائز سمجھتے ہیں جبکہ صرف 16 فیصد لوگ میڈیا کے جھانسے میں آگئے ہیں۔ان اندھ بھکتوں سے مودی کی تائید کروانے کے لیے میڈیا کو ورغلانے کی حاجت نہیں تھی۔
سی ایس ڈی ایس کا جائزہ مودی سرکار کے تئیں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کی جانب واضح اشارہ کرتا ہے۔ 2019 کے مقابلے میں پوری طرح مطمئن لوگوں کی شرح 3 فیصد کم ہو کر 23 فیصد پر آگئی۔ کسی حد تک مطمئن لوگ پانچ سال قبل 39 فیصد تھے مگر اب 34 فیصد ہیں۔ یہاں بھی 5 فیصد کا خسارہ ہوا۔ کسی حد تک غیر مطمئن افراد کی تعداد میں 7 فیصد کا اضافہ ہوا اور وہ اب 12 سے بڑھ کر 19 فیصد تک پہنچ گئی جبکہ پوری طرح عدم اطمینان کا اظہار کرنے والوں کی تعداد میں بھی 2 فیصد کا اضافہ ہوا اور وہ اب 29 فیصد ہیں۔ اس اطمینان کے باوجود 39 فیصد لوگ اس حکومت کو دوبارہ اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دینا چاہتے جبکہ صرف 44 فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ یہ حکومت دوبارہ آئے۔ بی جے پی کے لیے یہ خوشی کی خبر ہے مگر جن 17 فیصد لوگوں نے کوئی رائے نہیں دی ہے اگر ان کی اکثریت بی جے پی کے خلاف ہو جائے تو اس سرکار کی دوبارہ تشکیل مشکل ہو جائے گی کیونکہ پچھلے پانچ سالوں میں جس طرح عدم اطمینان کی کیفیت میں اضافہ ہوا ہے اس سے انتخابی مہم کے دوران تیزی آسکتی ہے۔
اس سروے میں کیا ہوگا کے ساتھ کیوں ہوگا یعنی اس کے در پردہ وجوہات کو بھی معلوم کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ جائزے کے دوران جب عوام سے اس حکومت کو دوبارہ منتخب کرنے کی وجوہات دریافت کی گئیں تو پتہ چلا کہ بی جے پی کے حامیوں میں 42 فیصد اس کی کارکردگی کو اہمیت دیتے ہیں اور 18 فیصد نے اس کی فلاحی اسکیموں کو سراہا ہے۔ اور 10 فیصد کے نزدیک اس کی وجہ مودی کی موجودگی ہے۔ مودی کے پیر دبانے والے نتیش کمار، ان کے سامنے سے جانے سے کترانے والے یوگی ادتیہ ناتھ اور ان کو بھگوان کا اوتار کہنے والی کنگنا رناوت کو سمجھنا چاہیے کہ عوام کے نزدیک وزیر اعظم کی عظمت تیسرے درجہ میں ہے۔ اس کے بعد رام مندر (8 فیصد) کشمیر کی دفعہ 370 کا خاتمہ (6 فیصد) ملک کی عالمی شبیہ (4 فیصد) اور ہندتوا بھی 4 فیصد پر ہیں۔ خود بی جے پی کے رائے دہندگان کے نزدیک یہ ترتیب ہے تو مخالفین اور عام لوگوں کا کیا حال ہوگا یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں ہے۔
انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں کا وعدہ کرکے انہیں بھول جانا ایک عام سی بات ہے۔ موجودہ انتخابی مہم میں ان وعدوں پر زور دینے کے لیے وزیر اعظم نے یقین دہانی (گارنٹی) کی اصطلاح ایجاد کی جو سبھی لیڈروں میں مقبول ہوگیا۔ اس معاملے میں مودی اور راہل پیش پیش ہیں اس لیے ان گارنٹیوں پر بھروسے سے متعلق بھی سروے میں استفسار کیا گیا ہے۔ ایسے میں مودی پر بہت زیادہ اعتبار کرنے والوں کی تعداد 23 فیصد تھی جبکہ 17 فیصد لوگوں کو راہل کی گارنٹی پر بھروسا ہے۔ کسی حد تک اعتماد کرنے والوں کی تعداد دیکھیں تو ان دونوں کے درمیان کا فرق گھٹ کر ایک فیصد ہوجاتا ہے یعنی 33 فیصد مودی کے ساتھ تو 32 فیصد راہل کے ساتھ ہیں۔ 16 فیصد لوگ مودی پر بہت زیادہ بھروسا نہیں کرتے اور 20 فیصد راہل پر بھی بہت زیادہ اعتماد نہیں کرتے۔ جہاں تک بالکل بھروسا نہ کرنے والوں کا سوال ہے راہل کی حالت ذرا سی بہتر ہے یعنی 18 فیصد کے نزدیک وہ پوری طرح ناقابلِ اعتبار ہیں جبکہ 19 فیصد لوگ مودی کے بارے میں یہی سوچتے ہیں ۔
وطن عزیز میں صدارتی نہیں بلکہ پارلیمانی نظام ہے اس لیے کسی ایک فرد کی مقبولیت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل نہیں ہونی چاہیے مگر پھر بھی جب عوام سے پوچھا گیا کہ وزیر اعظم کے عہدے کے لیے سب بہتر امیدوار کون ہے تو 48 فیصد نے نریندر مودی کا نام لیا۔ اس کے برعکس 27 فیصد کے مطابق راہل گاندھی سب سے بہتر ہیں۔ پارلیمانی نظام میں وہی فرد وزیر اعظم بن پاتا ہے جس کے ساتھ ارکان پارلیمان کی اکثریت ہو۔ اسی لیے دیوے گوڑا اور اندر کمار گجرال جیسے غیر مقبول رہنما بھی وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں۔ حزب اختلاف میں اس بات پر بہت چپقلش رہی ہے کہ ان میں وزیر اعظم کے عہدے کا اصلی حق دار کون ہے؟ یہ جائزہ بتاتا ہے کہ راہل گاندھی کے بعد 3 فیصد پر اروند کیجریوال، ممتا بنرجی اور اکھلیش یادو کے نام آتے ہیں۔ یہ فرق بتاتا ہے کہ حزب اختلاف میں وزارت عظمیٰ کا اصلی چہرہ کون ہے؟ راہل گاندھی نے جو دس ہزار سے زیادہ کلومیٹر کا سفر کیا ہے وہ اسی محنت کا ثمرہ ہے۔ ایک زمانے میں یوگی ادتیہ ناتھ، امیت شاہ اور نتیش کمار کا نام بھی اس فہرست میں نظر آتا تھا لیکن اب وہ غائب ہو گیا ہے۔ ان اعداد و شمار نے بہت سارے لیڈروں کو آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔
پچھلے دس سالوں میں بی جے پی کی آئی ٹی سیل نے یہ بیانیہ چلانے میں ہزاروں کروڑ روپے صرف کردیے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے۔ اٹھتے بیٹھتے یہی کہا جاتا رہا ہے کہ مسلمانوں کے تو بے شمار ممالک ہیں لیکن ہندوؤں کا صرف ایک ملک ہے وہ کہاں جائیں گے؟ دنیا بھر کی مٹر گشتیاں وہ یہاں نہیں کریں گے تو کہاں کریں گے؟ سی اے اے کے حق میں بھی یہی دلیل تھی کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک ہے مگر جب رائے دہندگان سے پوچھا گیا تو اس خیال کی تائید کرنے والے صرف 11 فیصد نکلے۔ 79 فیصد کے خیال میں یہ ملک صرف ہندوؤں کا نہیں بلکہ سارے شہریوں کا ہے۔ 10 فیصد تو ایسے بھی تھے کہ جن کی اس اہم معاملے میں بھی کوئی رائے نہیں ہے۔ ان کو تو شاید یہ ملک اپنا بھی نہ لگتا ہو۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ میڈیا کے ذریعہ قائم شدہ یہ تاثر کس قدر گمراہ کن ہے کہ آر ایس ایس، ملک کی اکثریت کا برین واش کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ سارے ہندو انہیں خطوط پر سوچنے لگے ہیں جن پر یہ فرقہ پرست فسطائی طاقتیں سوچتی ہیں۔
ہندو غلبہ کے مقابلے مذہبی مساوات کے اعداد و شمار کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ انکشاف ہوتا ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ یعنی 87 فیصد مذہبی رواداری کے حامی ہیں۔ ان کے بعد دیگر اقلیتیں اس کی حمایت کرتی ہیں مگر 77 فیصد ہندو بھی مذہبی مساوات کے علم بردار ہیں۔ یہ خیال غلط ہے کہ شہروں میں عدم رواداری زیادہ ہے۔ جائزے کے مطابق 76 دیہاتی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک سبھی کا ہے مگر چھوٹے شہروں میں اس خیال کے حامل لوگوں کی 85 فیصد اور بڑے شہروں میں 84 فیصد ہے۔ ناخواندہ لوگوں میں صرف 72 فیصد عوام یہ سوچتے ہیں کہ یہ ملک سب کا ہے جبکہ کالج سے تعلیم یافتہ لوگوں میں روادار لوگوں کی تعداد بڑھ کر 83 فیصد ہوجاتی ہے۔ یعنی پڑھے لکھے لوگوں کو متاثر کرنے کا سنگھی دعویٰ کھوکھلا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جے این یو کے حالیہ انتخاب میں اے بی وی پی اپنا پورا زور لگا نے کے باوجود بری طرح ناکام رہی۔ اس سے قبل سنگھ کے گڑھ ناگپور شہر میں گریجویٹ حلقہ انتخاب کی ایوان اسمبلی کے انتخاب میں بی جے پی امیدوار کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا تھا جبکہ سابق وزیر اعلیٰ دیویندر پھڈنویس، مرکزی وزیر نتن گڈکری اور بی جے پی کے ریاستی صدر باون کلے رہتے ہیں۔
سی ایس ڈی ایس جائزے کا ایک روشن پہلو یہ ہے کہ 56 سال سے زیادہ عمر کے صرف 73 فیصد لوگ اس ملک کو سبھی کا سمجھتے ہیں جبکہ 18 سے 25 سال کی عمر کی نئی نسل میں81 فیصد لوگ کشادہ ذہن ہیں۔ یہ نسل ذرائع ابلاغ سے زیادہ استفادہ کرتی ہے اس کے باوجود میڈیا کی یلغاران پر اثر انداز نہیں ہوسکی ہے۔ اس سے میڈیا کی محدودیت بے نقاب ہوجاتی ہے، لیکن یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ کس طرح 11 فیصد جنونیوں نے سرکار کی پشت پناہی سے ملک کی بڑی اکثریت کو یرغمال بنا لیا ہے۔ ان کے سر سے اگر اقتدار کا سایہ اٹھ جائے تو یہ بھیگی بلی بن جائیں۔ ان لوگوں کو ان کی حیثیت دکھانے کا موقع بالکل قریب ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس موقع پر ملک کے رائے دہندگان کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ وزیر اعظم سمیت بی جے پی کے سارے لیڈر ابھی خوف زدہ ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے منشور سے چار سو پار کا نعرہ غائب ہوگیا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کیونکہ بقول ڈاکٹر یاسین یاطر
ایک ہلکی سی بھی آہٹ ہو تو ڈر جاتا ہے
شیر کی کھال کو دہلیز پہ رکھنے والا
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
***
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 اپریل تا 27 اپریل 2024