سرور احمد
اس کرہ ارض پر پہلی بار کورونا وائرس کے نمودار ہونے کے دو سال بعد، ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے: حکمراں اشرافیہ اور معاشرے کا خوشحال طبقہ اس وبا کے پھیلاؤ کے لیے بنیادی طور پر ذمہ دار ہے۔ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی سرکاری رہائش گاہ میں منعقد ہونے والی سلسلہ وار مے نوشی کی محفلوں سے زیادہ شرمناک اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ یہی نہیں، پاکستان میں مری کی پہاڑیوں میں شدید برف باری کے باعث دو درجن افراد جان کی بازی ہار گئے حالانکہ دنیا ابھی اس وبائی مرض سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائی ہے۔ اسی طرح، ہزاروں لوگ اترکھنڈ اور ہماچل پردیش کے پہاڑی مقامات پر ان دو دنوں میں جمع ہوئے جب 7 اور 8 جنوری کو دلی کے لوگوں کو کرفیو کے تحت رکھا گیا تھا۔ حکام اور میڈیا نے کورونا کے اصولوں کی اس واضح کوتاہی پر آنکھیں بند کر لیں کیونکہ اگر وہ اس پر بات کریں گے تو سیاحت کے کاروبار سے منسلک امیرکبیر لوگوں کے مفاد پر ضرب پڑے گی۔
جس طرح ’’جنگ کو جرنیلوں پر چھوڑ دینا ہی بہتر ہے ‘‘ بالکل اسی طرح کووڈ۔۱۹ کا پہلی بار پتہ چلنے کے تقریباً 800 دن بعد کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وبائی مرض بہت سنگین معاملہ ہے جسے صرف ڈاکٹروں اور دیگر ماہرین صحت ہی پر چھوڑدیا جانا چاہیے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عام غلطیوں پر توجہ دی جائے جو وائرس کے متاثرین اور ان کے خاندان کے افراد کی طرف سے کی جا رہی ہیں۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا بھر کے ماہرین صحت عام طور پر ان حقائق کی طرف اشارہ نہیں کر رہے ہیں حالانکہ مقامی سطح پر بہت سے ڈاکٹر اس بات پر سوال اٹھا رہے ہیں کہ بڑے کارپوریٹ گھرانوں نے پورے معاملے کو کس طرح ہائی جیک کر لیا ہے۔
سب سے پہلے، برطانوی میڈیا نے گزشتہ ماہ بتایا کہ جب انگلینڈ میں روزانہ سینکڑوں لوگ مر رہے تھے اور ہزاروں متاثر ہورہے تھے تو کس طرح 18 دسمبر 2020 کو وزیر اعظم بورس جانسن کی سرکاری رہائش گاہ 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر کرسمس پارٹی کا انعقاد کیا گیا۔ اسی دن اس چھوٹے سے ملک میں 514 لوگ مارے گئے۔ پارٹی آدھی رات تک جاری رہی، حالانکہ جانسن نے صرف چند دن پہلے خود برطانویوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ایسے تمام اجتماعات کو منسوخ کردیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانوی اخبارات کو 2020 کے کرسمس کے موقع پر پیش آنے والے اس واقعہ کا پردہ فاش کرنے میں پورا ایک سال لگ گیا۔ اگرچہ برطانیہ میں کوئی پریس سنسر شپ نہیں ہے پھر بھی لوگوں کو قواعد کی اس سنگین خلاف ورزی کا ایک سال کی تاخیر سے علم ہوا ہے۔ اب 12 جنوری 2022 کو بورس جانسن نے اسی سرکاری رہائش گاہ میں 20 مئی 2020 کی شام کو ہونے والی شراب نوشی کی پارٹی کے اہتمام پر معذرت کر لی ہے ۔
انگلینڈ واحد ملک نہیں ہے جہاں کورونا سے متعلق پابندیاں عام لوگوں تک محدود ہیں۔ صرف سیاستدانوں ہی پر الزام کیوں؟ وہ لوگ جو سماج کے اونچے طبقے سے ہیں وہ بھی کورونا پروٹوکول پر دوہرا معیاراختیار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ ان میں بڑے تاجر، صحافی، ڈاکٹر، بیوروکریٹس، ٹیکنوکریٹس، ماہرین تعلیم، کھلاڑی، دیگر پیشہ ور افراد وغیرہ شامل ہیں۔
مثال کے طور پر، عالمی تنظیم صحت، سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن اور تمام ماہرین اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ’سماجی دوری‘ برقرار رکھنا زمین پر کہیں بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب دنیا کو جمود کی کیفیت پر لایا جائے۔ اگر کوئی نام نہاد سماجی دوری کے لیے چھ فٹ کے معیار پر عمل کرے توکوئی ہوائی طیارہ، کوئی ٹرین، کوئی بحری جہاز، کوئی فیکٹری، کوئی زرعی سرگرمی، کوئی ڈیری سے متعلق کام، کوئی ہسپتال اور ساتھ ہی ساتھ کوئی پیداواری سرگرمی ممکن ہی نہیں ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو چند ہی دنوں میں پوری دنیا کی آبادی بھوک سے مر جائے گی۔ جب یہی حقیقت ہے تو پھر ’سماجی دوری‘ کی حماقت کا دن رات پرچار کیوں کیا جا رہا ہے۔
حال ہی میں، راقم الحروف کو سماجی طور پر شادی کی دو تقریبات میں شرکت کے لیے آمادہ کیا گیا، حالانکہ وہ عام طور پر ایسی کسی بھی محفل سے گریز کرتا ہے۔ پہلی تقریب 30 اکتوبر اور دوسری 10 دسمبر کو تھی، یعنی دنیا میں اومیکرون کی آمد کے بعد۔
پہلی تقریب میں مہمانوں میں (باراتیوں کے ساتھ ساتھ) کافی ڈاکٹر تھے جبکہ دوسری تقریب میں میزبان خود ڈاکٹر تھے، ورنہ ماسک کے استعمال کا مشورہ ضرور دیتے۔ ان دونوں تقاریب میں جو ایئرکنڈیشنڈ ہوٹلوں میں تھیں جہاں وینٹیلیشن کی گنجائش نہیں تھی، کولڈ ڈرنکس اور آئس کریم سے تواضع کی گئی۔
راقم الحروف ہی لوگوں کو کولڈ ڈرنکس اور آئس کریم نہ لینے کی تنبیہ کرتا رہا اور پوچھا کہ جب موسم پہلے سے ہی سرد ہے اور وہ بھی اس وقت جب وبا ابھی ختم نہیں ہوئی تو ہوٹل والے اے سی کیوں استعمال کر رہے ہیں۔
ڈاکٹروں کے بارے میں بات نہ کریں، ایک نسل پہلے کے اوسط ذہن رکھنے والے والدین بھی اپنے بچوں کو سردیوں میں کولڈ ڈرنکس اور آئس کریم نہ لینے کی تنبیہ کریں گے۔ آج جب کووڈ۔۱۹ نے پوری دنیا میں لاکھوں جانیں لے لی ہیں، ڈاکٹر خود اپنے کھانے پینے سے بے پرواہ ہیں۔ لیکن آپ اسی ڈاکٹر سے کلینک یا ہسپتال میں ملیں تو وہ مریض کو گرم پانی پینے کا مشورہ دے گا۔
آخرایسا کیوں ہے کہ سردی کی شدت میں ڈاکٹر برادری اے سی، کولڈ ڈرنکس، آئس کریم کے استعمال اور پہاڑی مقامات پر سیاحوں کی آمد کے خلاف کھل کر سامنے کیوں نہیں آرہی؟ کیا وہ بڑے کاروباری گھرانوں کے پروپیگنڈے اور اشتہاری مشینری سے اتنے متاثر ہیں؟
المیہ یہ ہے کہ ڈاکٹر خود ہی لوگوں کا علاج ناقص ہوادار سنٹرل ایئر کنڈیشنڈ ہسپتالوں میں کر رہے ہیں، جو زیادہ تر فائیو سٹار ہوٹلوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ تین چار دہائیوں پہلے تک ہسپتال کے وارڈ اور ڈاکٹروں کے کلینک ہوادار ہوا کرتے تھے، حالانکہ میڈیکل سائنس اس وقت اتنی ترقی یافتہ نہیں تھی۔ آج وہ کھڑکیوں اور ایگزاسٹ پنکھوں کی بجائے ہر جگہ اے سی کو ترجیح دیتے ہیں اور اس طرح وائرس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ ہسپتالوں میں صفائی کرنے والوں اور نچلے درجے کے صفائی کرنے والے کارکنوں سے زیادہ ڈاکٹرز وبائی مرض کا شکار ہو رہے ہیں۔
کوئی یہ سمجھ نہیں پائے گا کہ آخر کورونا کے مریضوں کو ایئر کنڈیشنڈ ایمبولینس میں ساتھ بیٹھے اٹینڈنٹ کے ساتھ لے جانے کے پیچھے کی حکمت کیا ہے ۔شاید یہی ایک وجہ تھی کہ ایک ہی خاندان کے اتنے لوگ یا تو وائرس کا شکار ہوئے یا حتی کہ فوت ہوگئے۔
شاید ہی کسی ماہرِ صحت نے جس طریقے سے ویکسین کی پوری مہم چلائی گئی اس پرسوال کیا ہو ۔ ریکارڈ بنانے کے لیے لوگوں سے کہا گیا کہ وہ بڑی تعداد میں ویکسین سنٹرز اور ہسپتالوں میں جمع ہوں، ان میں سے بہت سے لوگ ویکسین لینے سے پہلے ہی وائرس کا شکار ہو گئے تھے۔یہی حال سماجی دوری کے رہنما اصولوں کا ہے جن کی دہائی بار بار ہمارے اینکرز اور ماہرین صحت دیتے ہیں ۔
ان ممالک کے برعکس جہاں موسم انتہائی سرد ہے جہاں کوئی سنٹرلائزڈ ہیٹ سسٹم کے بغیر رہ نہیں سکتا، بھارت اور دیگر جگہوں پر کوئی بھی سنٹرلائزڈ اے سی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے، کم از کم اس وقت تک جب تک وبائی مرض تباہی مچارہا ہے۔
لیکن چونکہ کوئی بھی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مہمان نوازی کی صنعت کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کرسکتا، اس لیے بہتر یہی ہے کہ غریب عوام پر جرمانہ عائد کیا جائے اور ان پر پولیس کی لاٹھیاں برسائی جائیں۔
ان کا ناطقہ بند کیا جائے تاکہ وہ یہ نہ پوچھ سکیں کہ یہ وائرس سیاست دانوں، بیوروکریٹس، ڈاکٹروں اور خوشحال لوگوں کو ان غریبوں سے زیادہ متاثر کیوں کر رہا ہے جو کٹھن زندگی گزارتے ہیں۔
***
***
ایسا کیوں ہے کہ سردی کی شدت میں ڈاکٹر برادری اے سی، کولڈ ڈرنکس، آئس کریم کے استعمال اور پہاڑی مقامات پر سیاحوں کی آمد کے خلاف کھل کر سامنے نہیں آرہی ہے؟
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 13 فروری تا 19فروری 2022