کورونا کا نیا حملہ اور تیل کی سیاست

بازار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے اوپیک کی جانب سے پیدوار میں کٹوتی کا امکان

مسعود ابدالی

تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانے کے لیے امریکا، بھارت اور برطانیہ نے اپنے تزویراتی ذخائر (Strategic Reserves) سے کروڑوں بیرل تیل بازار میں لانے کا اعلان کیا ہے۔ جمعرات پچیس نومبر کو واشنگٹن سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن نے امریکی ذخیرے سے پانچ کروڑ بیرل تیل نکالنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسی کے ساتھ برطانیہ نے ڈیڑھ کروڑ اور ہندوستان نے اپنے محفوظ ذخائر سے پچاس لاکھ بیرل تیل جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا نے بھی محفوظ تیل کا کچھ حصہ فروخت کے لیے پیش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
قصرِ مرمریں کے ذرائع کہہ رہے ہیں کہ اپنے محفوظ ذخائر کا منہ کھولنے سے پہلے صدربائیڈن نے روس اور سعودی عرب کی قیادت سے تیل کی پیداوار میں اضافے کی بات کی تھی لیکن ان ممالک کا موقف ہے کہ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کا محرک پیداوار میں کمی نہیں بلکہ امریکی ،چینی اور یورپی بندرگاہوں پر ‘بحری ٹریفک جام’ ہے۔ کروڑوں بیرل تیل سے لدے جہاز ساحلوں کے قریب کھلے سمندر میں قطار بنائے کھڑے ہیں۔ گودیوں پر جگہ میسر نہ ہونے کی وجہ سے تیل اتارنے میں تاخیر اس بحران کا سبب ہے۔
گویا زنجیرِ فراہمی یا Supply Chain میں خلل سے پٹرولیم مصنوعات سمیت تمام اشیاء مہنگی ہوگئی ہیں اور جب تک بندرگاہوں پر سامان اتارنے کا کام معمول کے مطابق نہیں ہو جاتا تیل کی پیداوار بڑھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ مزید تیل بردار جہاز یا ٹینکروں کے آنے سے بندرگاہوں پر دباو اور بڑھ جائے گا۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے تیل کی قیمت میں ایک پائی کا اضافہ نہیں کیا بلکہ سعودی آرامکو اپنے ایشیائی صارفین یعنی پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ اور فلپائن کو قیمتوں میں تین ڈالر فی بیرل رعایت دے رہی ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ان ذخائر کے پس منظر پر ایک نظر
قارئین کو یاد ہوگا کہ 1973کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے اسرائیل کے ’پشتیبانوں‘ کو تیل کی فراہمی پر جزوی پابندی عائد کردی تھی۔امریکا، برطانیہ، کینیڈااور نیدرلینڈ (ہالینڈ) ان پابندیوں کے بنیادی ہدف تھے۔ بعد میں جاپان، پرتگال اور جنوبی افریقہ کو بھی تیل کی فراہمی محدود کردی گئی۔ اس مقصد کے لیے تیل برآمد کرنے والے ممالک کی انجمن اوپیک OPECنے اپنی پیداوار پچیس فیصد کم کردی۔ اس وقت اوپیک پانچ بانی ارکان یعنی سعودی عرب، عراق، ایران، کویت اور ونیزویلا سمیت دس ارکان پر مشتمل تھی۔ دوسرے ارکان الجزائر، لیبیا، نائیجیریا، انڈونیشیا اور قطر تھے۔ دنیا میں فروخت ہونے والا اسّی فیصد سے زیادہ تیل یہی ممالک فراہم کرتےتھے۔ اس زمانے میں تیل کی کوئی اقتصادی و تزویراتی اہمیت نہ تھی اور خام تیل تین ڈالر فی بیرل فروخت ہوتا تھا۔
اوپیک کے اعلان کے ساتھ ہی تیل کی قیمت دس ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ خام تیل کی عدم دستیابی سے مغرب بلبلا اٹھا۔ پٹرول پمپوں پر لمبی قطاروں کے ساتھ ایندھن کا راشن شروع ہوا، بجلی کی پیدوار میں خلل اور کارخانوں کے پہییے سست ہو گئے۔ امریکی بازار حصص پر جھاڑو پھر گیا اور سرمایہ کاروں کے کروڑوں ڈالر ڈوب گئے۔ یہ پہلا اور غالباً آخری موقع تھا جب عربوں نے تیل کو بطور ہتھیار استمال کیا تھا۔ تاہم بائیکاٹ زیادہ موثر ثابت نہ ہوسکا کہ عرب ممالک تیل نکالنے اور اسے صاف کرنے کی ٹیکنالوجی سمیت تمام اہم معاملات میں مغربی دنیا کے محتاج تھے۔
اس آفت سے سبق سیکھتے ہوئے امریکا اور کئی دوسرے ملکوں نے عارضی اور طویل المدتی منصوبے بنائے۔ ایک طرف ملک کے اندر تیل وگیس کے وسائل کی تلاش و ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کیے گیے جن میں سلیٹی چٹانوں کو کھنگھالنے کا انقلابی قدم شامل ہے تو دوسری طرف مقامی وسائل کی ترقی کے ساتھ مستقبل بنیادوں پر خام تیل کے عظیم الشان تزویراتی ذخائر تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا جسے Strategic Petroleum Reserve یا SPR کا نام دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے زیر زمین depleted Reservoir کو استعمال کیا جارہا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ جن ذخائر سے تیل اور گیس کی قابلِ پیداوار مقدار نکال لی گئی انکی مسامدار چٹانوں کو خام تیل سے بھر دیا گیا۔
اس منصوبے کے تحت امریکا میں اس وقت چار بڑے ذخائر تیل سے لبالب بھرے ہوئے ہیں
• خلیج میکسیکو میں فری پورٹ کے مقام پر زیر آب (Offshore) غاروں میں پچیس کروڑ چالیس لاکھ بیرل تیل محفوظ ہے جہاں سے پندرہ لاکھ بیرل تیرل روزانہ نکالا جاسکتا ہے
• ہیوسٹن کے قریب ونی Winnie کے علاقے میں Big Hill نامی ذخیرے میں سولہ کروڑ بیرل تیل جمع ہے جہاں سے گیارہ لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالا جا سکتا ہے۔
• لوزیانہ میں لیک چارلس کے ساحلی مقام پر کنویں کھود کر مسام دار چٹانوں میں بائیس کروڑ ستائیس لاکھ بیرل تیل ذخیرہ کیا گیا ہے۔ ان ذخائر سے روزانہ تیرہ لاکھ بیرل تیل نکالا جاسکتا ہے
• لوزیانہ کے ریاستی دارالحکومت بیٹن روج Baton Rouge میں سات کروڑ ساٹھ لاکھ بیرل تیل جمع ہے جہاں سے تیل نکالنے کی گنجائش ساڑھے پانچ لاکھ بیرل تیل یومیہ ہے
اس وقت ان چار ذخائر میں مجموعی طور پر بہتر کروڑ بیرل تیل موجود ہے۔
ہندوستان میں تزویراتی ذخائر کے لیے Reserves Limited Indian Strategic Petroleum یا ISPRL کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔ آئی ایس پی آر ایل نے اب تک چار ذخائر تعمیر کیے ہیں، جن میں چھ کروڑ چورانوے لاکھ بیرل تیل ذخیرہ ہے۔ ان ذخائر کی تفصیل کچھ اسطرح ہے:
• آندھرا پردیش میں وشاکھا پٹنم کے مقام پر قائم ہونے والے ذخیرے کی گنجائش اٹھانوے لاکھ بیرل ہے
• منگلورو (کرناٹک) میں ایک کروڑ گیارہ لاکھ بیرل تیل ذخیرہ ہے
• کرناٹکا ہی میں پادور کے مقام پر ایک کروڑ پچاسی لاکھ بیرل تیل جمع ہے
• سب سے بڑا ذخیرہ ریاست اڑیسہ میں چندیکھول کے مقام پر ہے جس کی گنجائش تین کروڑ بیرل کے قریب ہے۔
برطانیہ میں قائم کیے جانے والے SPR کی تفصیلات پوشیدہ رکھی گئی ہیں لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں اس ذخیرے کا مجموعی حجم نو کروڑ بیرل ہے۔ چین نے ‘برے وقتوں’ کے لیے تین کروڑ ستر لاکھ بیرل محفوظ کر رکھے ہیں۔ جنوبی کوریا اور جاپان میں قائم کیے گئے SPR کا مجموعی حجم دو کروڑ بیرل بتایا جاتا ہے۔
کیا تیل کی یہ اضافی مقدار قیمتیں گرانے کے لیے کافی ہے؟ ہمارا خیال ہے کہ بازار کی نفسیات کے تحت وقتی طور پر تو قیمتیں دباو میں ضرور آجائیں گی لیکن اس سے دام میں مسلسل گراوٹ کا امکان نہیں۔ ان تمام ممالک میں صرف امریکی ذخیرے کا حجم غیر معمولی ہے ورنہ چچا سام کے ’حسکے‘ میں برطانیہ اور بھارت کی یہ کوششیں خود اُنہیں کو مشکل میں ڈال سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بھارت کے تزویراتی ذخیرے کی گنجائش سات کروڑ اور یومیہ درآمد پینتالیس لاکھ بیرل ہے، یعنی اس مقدار سے صرف سولہ دنوں کی ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ ایسا ہی حال چین، جنوبی کوریا اور جاپان کا ہے۔
امریکا کا بھی معاملہ یہ ہے کہ وہاں تیل کی یومیہ کھپت ڈیڑھ کروڑ بیرل ہے یعنی قدرتی وسائل کو بے دریغ استعمال کرنے والے امریکی SPR سے جاری ہونے والا تیل صرف پانچ دن میں پھونک ڈالیں گے۔ دنیا کو اس وقت نو کروڑ ساٹھ لاکھ بیرل تیل روزانہ کی ضرورت ہے جبکہ مجموعی عالمی پیدوار کا تخمینہ ساڑھے آٹھ کروڑ بیرل ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے اوپیک کے ممالک ہر ماہ اپنی پیداوار میں چار لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کررہے ہیں۔
امریکا کی جانب سے اوپیک پر دباو کوئی نئی بات نہیں۔ آج امریکی صدر پیداوار میں اضافے پر اصرار کر رہے ہیں جبکہ گزشتہ سال اپریل میں جب تیل کی قیمتیں زمین سے لگ جانے کی بنا پر امریکہ کی کئی تیل کمپنیاں دیوالیہ ہو گئیں تو سابق صدر ٹرمپ کی ’درخواست‘ پر اوپیک اور روس نے پیدوار میں چھیانوے لاکھ بیرل کی کمی کی تھی۔
صدر بائیڈن کو بارہ ماہ بعد وسط مدتی انتخابات کا سامنا ہے، جب سینیٹ (راجیہ سبھا) کی ایک تہائی نشستوں اور ایوان نمائندگان (لوک سبھا) کا چناو ہونا ہے۔ سینیٹ میں صدر کی ڈیموکریٹک پارٹی اور حزب اختلاف کی ریپبلکن پارٹی 50:50 سے بالکل برابر ہیں اور 435 رکنی ایوان نمائندگان میں حکمران جماعت کو صرف آٹھ نشستوں کی برتری حاصل ہے۔ مہنگائی سے عام لوگ پریشان اور رائے عامہ کے جائزے صدر بائیڈن کے لیے مایوس کن ہیں۔
تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جہاں امریکی عوام پریشان ہیں وہیں تیل کمپنیاں بھاری منافع کما رہی ہیں۔ تیل کی صنعت نے ترغیب کاروں (Lobbyists) کا ایک بہت بڑا جتھا ترتیب دے رکھا ہے۔ امریکی سیاست میں ترغیب کاروں کو بادشاہ گر سمجھا جاتا ہے اور صدر بائیڈن اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس جتھے سے ٹکر لینا ان کی سیاسی عاقبت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں SPR سے تیل جاری کرنے کا حکم مہنگائی کے ستائے امریکیوں کی اشک شوئی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان کے اس فیصلے سے مقامی پمپوں پر پٹرول کی قیمتیں پندرہ سے بیس سینیٹ فی گیلن کم ہو گئیں لیکن عالمی سطح پر اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ امریکی برانڈ WTI اور بحرِ شمالی (North Sea) کے برینت کی قیمتوں میں صرف سینتیس سینٹ فی بیرل کی کمی نوٹ کی گئی۔ دوسری طرف سعودیوں کا عرب لائٹ ساڑھے تین ڈالر فی بیرل مزید مہنگا ہو گیا۔ صدر بائیڈن چاہتے تھے کہ امریکی تیل کمپنیوں کا مفاد محفوظ رکھتے ہوئے مقامی صارفین کی مشکلات کو کچھ کم کر دیا جائے۔ جس میں وہ کامیاب نظر آرہے ہیں۔
یہاں تک تو بازی امریکی صدر کے ہاتھ رہی لیکن قدرت کے عزائم مختلف نظر آرہے ہیں۔ جنوبی افریقہ میں ظاہر ہونے والی کورونا کی نئی متغیر قسم Omicron اب یورپ پر حملہ آور ہے۔ آسٹریا میں ملک گیر جبکہ جرمنی اور فرانس میں جزوی لاک ڈاون کا آغاز ہو چکا ہے جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں یقیناً متاثر ہوں گی اور اقتصادیات میں آنے والے متوقع تعطل سے تیل کی
طلب اور قیمتوں میں کمی خارج از امکان نہیں
یعنی صدر بائیڈن کے اقدامات سے تو اوپیک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن نامراد کورونا کی یورپ میں جارحانہ پیشقدمی نے خرابی کا آغاز کر دیا ہے۔ جمعہ کو WTI کی قیمت بیاسی سے کم ہوکر انہتر ڈالر فی بیرل ہوگئی۔ اسی تناسب سے برینٹ بھی نیچے آیا، تاہم عرب لائٹ کی قیمت صرف دو ڈالر کم ہوئی۔ تیل کے ساتھ امریکی بازار حصص بھی نو سو پوائنٹ نیچے گر گیا۔
اس وقت یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ آنے والے دنوں میں تیل کی قیمت کس نشان پر رہے گی۔ اوپیک نے خطرے کا احساس کرتے ہوئے سوچ بچار شروع کر دیا ہے اور اگر یورپ میں Omicron کی تباہ کاری جاری رہی تو اوپیک ارکان بازار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے پیدوار میں کٹوتی کا ہتھیار استعمال کریں گے۔ گویا، مہنگائی کی ماری تیسری دنیا کے لیے راحت کی فی الحال کوئی امید نظر نہیں آتی۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]
***

 

***

 اوپیک نے خطرے کا احساس کرتے ہوئے سوچ بچار شروع کر دیا ہے اور اگر یورپ میں Omicron کی تباہ کاری جاری رہی تو اوپیک ارکان بازار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے پیدوار میں کٹوتی کا ہتھیار استعمال کریں گے۔ گویا، مہنگائی کی ماری تیسری دنیا کے لیے راحت کی فی الحال کوئی امید نظر نہیں آتی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  05 تا 11 دسمبر 2021