آزاد ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی خوفناک یادیں

ہزاروں انسانی جانوں کا ضیاع اور اربوں و کھربوں کی املاک تلف

افروز عالم ساحل

جب بھی انسانوں پر مذہبی جنون سوار ہوا ہے تب روئے زمین پر فسادات ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک ہندوستان کے لیے فرقہ وارانہ فسادات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 138 کروڑ آبادی والے اس ملک میں 1984ء کے بعد صرف دو سال ہی ایسے گزرے ہیں جس میں 500 سے کم فسادات ہوئے ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے پاس موجود وزارت داخلہ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق، سال 1984ء سے سال 2020ء تک ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کے کل 32989 واقعات ہوئے ہیں، جن میں 13614 لوگوں کی جانیں گئیں۔ یہ سرکاری اعداد وشمار ہیں، اصلی اعداد وشمار میں مرنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ حکومت کے اس اعداد وشمار میں کئی خامیاں ہیں۔ لیکن اگر ان اعداد وشمار کو ہی درست مانا جائے تب بھی یہ بہت زیادہ ہیں۔

واضح رہے کہ 1984ء سے لے کر 2014ء تک کے اعداد وشمار راقم الحروف نے وزارت داخلہ سے حق اطلاعات ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت حاصل کی ہیں، اس کے بعد کے اعداد وشمار، لوک سبھا وراجیہ سبھا میں پیش کیے گئے اعداد وشمار سے ماخوذ ہیں۔ حالانکہ حکومت کی جانب سے دی گئی معلومات ناقص نظر آرہی ہیں ۔مثال کے طور پر ملک کا ہر شہری یہ بات جانتا ہے کہ سال 2020ء میں دہلی میں ہونے والے فرقہ وارانہ فساد میں کم سے کم 53 لوگ مارے گئے لیکن 8 دسمبر 2021ء کو راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں داخلی امور کے وزیر مملکت نتیا نند رائے نے جو معلومات تحریری طور پر مہیا کرائی ہیں اس کے مطابق سال 2020ء میں ہونے والے فسادات میں کل 37 لوگوں کی ہی موت ہوئی ہے۔

ایسی ہی کہانی سال 2002ء میں بھی دیکھنے کو ملی۔ وزارت داخلہ سے آر ٹی آئی کے تحت حاصل کردہ معلومات کے مطابق، 2002ء میں ہونے والے 722 فرقہ وارانہ فسادات میں 1130 لوگ مارے گئے تھے جبکہ 2008ء میں 15 اپریل کو لوک سبھا میں دیے گئے ایک تحریری جواب میں اس وقت کے داخلی امور کے وزیر مملکت پرکاش جیسوال نے بتایا تھا کہ گجرات فساد میں کل 1169 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ ایسے میں اس بات کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ حکومت کس طرح اعداد وشمار کو ملک کے عوام سے چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ بی جے پی حکومت تو اس کام میں سب سے زیادہ مہارت رکھتی ہے۔

1984ء سے اب تک ملک نے بنیادی طور پر تین پارٹیوں کی حکومتیں دیکھی ہیں۔ ان 37 سالوں میں زیادہ تر کانگریس مرکز میں برسراقتدار رہی۔ 1984ء سے 1989ء تک راجیو گاندھی ملک کے وزیر اعظم رہے۔ اس دوران ملک میں فسادات کے 4187 واقعات پیش آئے جن میں 2854 لوگ مارے گئے۔

1990ء میں ہندوستانی سیاست نے عدم استحکام کا دور دیکھا۔ مرکز میں جنتا دل کی حکومت آئی اور وی پی سنگھ ملک کے وزیر اعظم بنے۔ اس سال 1990ء میں ملک میں فسادات کے کل 2593 واقعات ہوئے اور 1835 لوگ مارے گئے۔ اگر 1992ء کو چھوڑ دیں تو 1984ء کے بعد ملک میں ہونے والے فسادات میں سال 1990ء میں ہی سب سے زیادہ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ 1991ء میں تقریبا 6 ماہ کے لیے سماج وادی جنتا پارٹی (راشٹریہ) کے چندر شیکھر ملک کے وزیر اعظم رہے اور اس کے بعد مرکز میں اقتدار کی کمان ایک بار پھر سے کانگریس کے ہاتھوں میں آگئی اور پی وی نرسمہا راؤ جون 1991ء سے مئی 1996ء تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔

سال 1991ء میں ملک میں فسادات کے 1727 واقعات ہوئے جن میں 877 لوگوں کی جانیں گئیں۔ اس کے بعد سال 1992ء فسادات کے معاملے میں سب سے خونریز ترین سال رہا۔ اس سال ملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات کے 3536 واقعات پیش آئے جن میں 1972 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سال 1991ء سے 1996ء تک فسادات کے کل 8758 واقعات ہوئے اور 4774 لوگوں کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ 1996ء میں کانگریس ایک بار پھر مرکز میں اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اس سال ملک میں کل 728 فسادات ہوئے جن میں 209 لوگ مارے گئے۔ 1996ء میں دوبارہ جنتا دل کی حکومت آئی جو مارچ 1998ء تک رہی۔ 1997ء اور 1998ء میں ملک میں کل 1480 فسادات ہوئے جن میں 475 لوگ مارے گئے۔

مارچ 1998ء میں بی جے پی کے اٹل بہاری واجپائی ملک کے وزیر اعظم بنے اور مئی 2004ء تک وزیر اعظم رہے۔ سال 1998ء سے 2003ء کے درمیان ملک میں فسادات کے کل 4441 واقعات ہوئے جن میں کل 2182 افراد مارے گئے۔ ان میں 2002ء میں ہوئے فسادات میں 1130 لوگ مارے گئے۔ اسی سال گجرات فسادات بھی ہوئے تھے ۔

سال 2004ء میں ملک میں ایک بار پھر کانگریس کی حکومت آئی۔ منموہن سنگھ کی حکومت کے دس سالوں میں ملک میں فسادات کے کل 7499 واقعات ہوئے ہیں جن میں کل 1216 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔

سال 2014ء میں ملک میں بے جے پی کی حکومت بنی اور نریندر مودی وزیر اعظم بنے۔ ان کے دور حکومت کے گزشتہ سات سالوں میں ملک میں فسادات کے کل 4729 واقعات ہوئے ہیں جن میں کل 490 لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ ان میں سال 2021 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے اعداد وشمار شامل نہیں ہیں۔

اس طرح اگر دیکھا جائے تو گزشتہ 37 سالوں میں سے تقریبا 20 سال ملک پر کانگریس کی حکومت رہی۔ اس دوران فرقہ وارانہ فسادات کے قریب 17969 واقعات ہوئے اور ان میں 7758 لوگوں کی جانیں گئیں، یعنی ہر سال اوسطاً 388 لوگ فسادات میں مارے گئے۔ ان 37 سالوں میں تقریبا 17 سال غیر کانگریسی راج بھی رہا، جس کے دوران فرقہ وارانہ فسادات کے 12452 واقعات ہوئے جن میں 5859 لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں، یعنی ہر سال اوسطاً 345 لوگ فسادات میں مارے گئے۔

وزارت داخلہ سے موصول ہونے والے یہ اعداد وشمار ملک میں فسادات کی حقیقت کی مکمل تصویر نہیں ہیں۔ ان اعداد وشمار میں وہ لاکھوں گھر شامل نہیں ہیں جو فسادات کی آگ میں جل گئے، نہ ہی ان گھروں میں بسنے والے خواب ہیں، اور نہ ہی مرنے والوں کے لواحقین کا غم… یہ اعداد وشمار صرف فسادات کی ہولناک تصویر کی جھلک دکھاتے ہیں۔

اس کہانی کی پوری سچائی یہ ہے کہ ملک کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں محفوظ نہیں رہا ہے۔ جب بابری مسجد معاملے میں اتر پردیش میں فسادات ہوئے تو پی وی نرسمہا راؤ اپنے گھر میں پوجا پاٹ میں مشغول ہو گئے۔ گجرات میں اقلیتوں کا قتل عام ہوا تو اٹل بہاری واجپائی خاموش بیٹھے رہے اور جب آسام اور اترپردیش کے مظفرنگر میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا تھا تو منموہن سنگھ مجبوری کی تصویر نظر آرہے تھے۔ سوال ہے کہ جو لوگ ان فسادات میں مارے گئے ان کا قصور کیا تھا اور مرکزی حکومت کی ان فسادات کو نہ روکنے کی کیا مجبوری تھی؟ فی الحال کرناٹک کے شیموگہ میں لوگ فرقہ وارانہ فساد کے خوف میں جی رہے ہیں اور حکومتوں کے ساتھ ساتھ اس ملک کی عوام بھی خاموش بیٹھی ہوئی ہے۔

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  6 تا 12 مارچ  2022