عدلیہ کی آزادی کے لیے کالجیم نظام ضروری ہے: سابق چیف جسٹس یو یو للت
نئی دہلی، نومبر 14: سابق چیف جسٹس یو یو للت نے اتوار کو کہا کہ عدالتی تقرریوں کا کالجیم نظام عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے ضروری ہے۔
جسٹس للت نے اپنے گھر ایک پریس کانفرنس میں کہا ’’میری رائے میں کالجیم نظام بہترین نظام ہے۔ یہ ثابت ہوا ہے کہ اس نے مؤثر طریقے سے کام کیا ہے۔‘‘
سابق چیف جسٹس نے 8 نومبر کو ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی بار پریس کانفرنس کی ہے۔
للت کا یہ تبصرہ ایک ماہ سے بھی کم وقت کے بعد آیا جب مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے ججوں کی تقرری کے کالجیم نظام کو ’’بہت مبہم‘‘ قرار دیا۔
18 اکتوبر کو رجیجو نے کہا تھا کہ حکومت 2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے کے چند ماہ بعد پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ نیشنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن ایکٹ کو ختم کرنے کے سپریم کورٹ کے 2015 کے فیصلے سے ناخوش ہے۔
اس قانون میں چیف جسٹس، سپریم کورٹ کے دو سینئر ججز، وزیر قانون اور چیف جسٹس، وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے نامزد کردہ دو دیگر نامور افراد پر مشتمل ایک باڈی کے ذریعے عدالتی تقرریاں کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔
نیشنل جوڈیشل اپائنٹمنٹ کمیشن کو کالجیم سسٹم کو تبدیل کرنا تھا، جس کے تحت سپریم کورٹ کے پانچ سینئر ترین جج بشمول چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں ججوں کی تقرریوں اور تبادلوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔
اتوار کو جسٹس للت نے کہا کہ یہ حکومت کا اختیار ہے کہ اگر وہ ایسا کرنا چاہتی ہے تو وہ قومی عدالتی تقرری کمیشن کو واپس لائے، لیکن انھوں نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ نے اس کمیشن کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق انھوں نے کہا ’’مختلف طریقہ کار کی کوشش درست نہیں پائی گئی۔ درحقیقت عدالت یہ کہنے کی حد تک چلی گئی کہ ایسی کوشش، حتیٰ کہ آئینی ترمیم بھی بنیادی ڈھانچے کی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘
کالجیم نظام کے ’’مبہم‘‘ ہونے کے بارے میں رجیجو کے ریمارکس پر للت نے کہا کہ یہ عمل مکمل طور پر شفاف بھی نہیں ہو سکتا۔
اخبار کے مطابق انھوں نے کہا ’’فرض کریں کہ ہمارے پاس دو آسامیاں ہیں اور ہم 10 ممکنہ امیدواروں کے بارے میں معلومات اکٹھا کر رہے ہیں، آپ کو فائدہ اور نقصان نظر آتا ہے، آپ مختلف پہلوؤں کو دیکھتے ہیں۔ اس موقع پر [اس عمل] کو مکمل طور پر شفاف بنانا اچھا خیال نہیں ہوسکتا ہے۔‘‘
دریں اثنا این ڈی ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں ریٹائرڈ چیف جسٹس نے کہا کہ اگرچہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد سرکاری تقرری کو قبول کرنے کے خیال کے خلاف نہیں ہیں، لیکن وہ راجیہ سبھا کی نامزدگی یا گورنر کے عہدے کو قبول نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ بھارت کے 46ویں چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2019 میں ریٹائرمنٹ کے بعد راجیہ سبھا کے لیے نامزد کیا تھا۔
اتوار کو للت نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ اس کے بجائے وہ قومی انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ، لوک پال یا لاء کمیشن جیسے اداروں میں کردار ادا کرنے میں دلچسپی لیں گے۔